Surah Jinn Ayat 1 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا﴾
[ الجن: 1]
(اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ میرے پاس وحی آئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے (اس کتاب کو) سنا تو کہنے لگے کہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا
Surah Jinn Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یہ واقعہ سورۂ احقاف:29 کے حاشیہ میں گزر چکا ہے کہ نبی ( صلى الله عليه وسلم ) وادی نخلہ صحابہ کرام کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے کہ کچھ جنوں کا وہاں سے گزر ہوا تو انہوں نے آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کا قرآن سنا۔ جس سے وہ متاثر ہوئے۔ یہاں بتلایا جا رہا ہے کہ اس وقت جنوں کا قرآن سننا، آپ کے علم میں نہیں آیا، بلکہ وحی کے ذریعے سے ان کو اس سے آگاہ فرمایا گیا۔
( 2 ) عجبا مصدر ہے بطور مبالغہ یا مضاف محذوف ہے ۔ذا عجب یا مصدر اسم فاعل کے معنی ہے معجبا مطلب کہ ہم نے ایسا قرآن سنا ہے جو فصاحت و بلاغت میں بڑا عجیب ہے یا مواعظ کے اعتبار سے عجیب ہے یا برکت کے لحاظ نہایت تعجب انگیز ہے ۔( فتح القدیر )
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
جنات پر قرآن حکیم کا اثر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے فرماتا ہے کہ اپنی قوم کو اس واقعہ کی اطلاع دو کہ جنوں نے قرآن کریم سنا اسے سچا مانا اس پر ایمان لائے اور اس کے مطیع بن گئے، فرماتا ہے کہ اے نبی ﷺ تم کہو میری طرف وحی کی گئی کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن کریم سنا اور اپنی قوم میں جا کر خبر دی کہ آج ہم نے عجیب و غریب کتاب سنی جو سچا اور نجات کا راستہ بتاتی ہے ہم تو اسے مان چکے ناممکن ہے کہ اب ہم اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت کریں۔ یہی مضمون آیتوں میں گذر چکا ہے آیت ( واذ صرفنا الیک الخ، یعنی جبکہ ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف لوٹایا کہ وہ قرآں سنیں اور اس کی تفسیر احادیث سے وہیں ہم بیان کرچکے ہیں یہاں لوٹانے کی ضرورت نہیں، پھر یہ جنات اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ ہم رب کے کام قدرت والے اس کے احکام بہت بلند وبالا، بڑا ذیشان اور ذی عزت ہے، اس کی نعمتیں، قدرتیں اور مخلوق پر مہربانیاں بہت باوقعت ہیں اس کی جلالت و عظمت بلند پایہ ہے اس کا جلال و اکرام بڑھا چڑھا ہے اس کا ذکر بلند رتبہ ہے اس کی شان اعلیٰ ہے، ایک روایت میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ (جد ) کہتے ہیں باپ کو۔ اگر جنات کو یہ علم ہوتا کہ انسانوں میں جد ہوتا ہے تو وہ اللہ کی نسبت یہ لفظ نہ کہتے، یہ قول گو سنداً قوی ہے لیکن کلام بنتا نہیں اور کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آتا ممکن ہے اس میں کچھ کلام چھوٹ گیا ہو واللہ اعلم، پھر اپنی قوم سے کہتے ہیں کہ اللہ اس سے پاک اور برتر ہے کہ اس کی بیوی ہو یا اس کی اولاد ہو، پھر کہتے ہیں کہ ہمارا بیوقوف یعنی شیطان اللہ پر جھوٹ تہمت رکھتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مراد اس سے عام ہو یعنی جو شخص اللہ کی اولاد اور بیوی ثابت کرتا ہے بےعقل ہے، جھوٹ بکتا ہے، باطل عقیدہ رکھتا ہے اور ظالمانہ بات منہ سے نکالتا ہے، پھر فرماتے ہیں کہ ہم تو اسی خیال میں تھے کہ جن وانس اللہ پر جھوٹ نہیں باندھ سکتے لیکن قرآن سن کر معلوم ہوا کہ یہ دونوں جماعتیں رب العالمین پر تہمت رکھتی تھیں دراصل اللہ کی ذات اس عیب سے پاک ہے، پھر کہتے ہیں کہ جنات کے زیادہ بہکنے کا سبب یہ ہوا کہ وہ دیکھتے تھے کہ انسان جب کبھی کسی جنگل یا ویرانے میں جاتے ہیں تو جنات کی پناہ طلب کیا کرتے ہیں، جیسے کہ جاہلیت کے زمانہ کے عرب کی عادت تھی کہ جب کبھی کسی پڑاؤ پر اترتے تو کہتے کہ اس جنگل کے بڑے جن کی پناہ میں ہم آتے ہیں اور سمجھتے تھے کہ ایسا کہہ لینے کے بعد تمام جنات کے شر سے ہم محفوظ ہوجاتے ہیں جس طرح کسی شہر میں جاتے تو وہاں کے بڑے رئیس کی پناہ لے لیتے تاکہ شہر کے اور دشمن لوگ انہیں ایذاء نہ پہنچائیں، جنوں نے جب یہ دیکھا کہ انسان بھی ہماری پناہ لیتے ہیں تو ان کی سرکشی اور بڑھ گئی اور انہوں نے اور بری طرح انسانوں کو ستانا شروع کیا اور یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ جنات نے یہ حالت دیکھ کر انسانوں کو اور خوف زدہ کرنا شروع کیا اور انہیں طرح طرح سے ستانے لگے۔ دراصل جنات انسانوں سے ڈرا کرتے تھے جیسے کہ انسان جنوں سے بلکہ اس سے بھی زیادہ یہاں تک کہ جس جنگل بیابان میں انسان جا پہنچتا تھا وہاں سے جنات بھاگ کھڑے ہوتے تھے لیکن جب سے اہل شرک نے خود ان سے پناہ مانگنی شروع کی اور کہنے لگے کہ اس وادی کے سردار جن کی پناہ میں ہم آتے ہیں اس سے کہ ہمیں ہماری اولاد و مال کو کوئی ضرر نہ پہنچے اب جنوں نے سمجھا کہ یہ تو خود ہم سے ڈرتے ہیں تو ان کی جرات بڑھ گئی اور اب طرح طرح سے ڈرانا ستانا اور چھیڑنا انہوں نے شروع کیا، وہ گناہ، خوف، طغیانی اور سرکشی میں اور بڑھ گئے۔ کردم بن ابو سائب انصاری کہتے ہیں میں اپنے والد کے ہمراہ مدینہ سے کسی کام کے لئے باہر نکلا اس وقت حضور ﷺ کی بعثت ہوچکی تھی اور مکہ شریف میں آپ بحیثیت پیغمبر ظاہر ہوچکے تھے رات کے وقت ہم ایک چرواہے کے پاس جنگل میں ٹھہر گئے آدھی رات کے وقت ایک بھیڑیا آیا اور بکری اٹھا کرلے بھاگا، چرواہا اس کے پیچھے دوڑا اور پکار کر کہنے لگا اے اس جنگل کے آباد رکھنے والے تیری پناہ میں آیا ہوا ایک شخص لٹ گیا ساتھ ہی ایک آواز آئی حالانکہ کوئی شخص نظر نہ آتا تھا کہ اے بھیڑیئے اس بکری کو چھوڑ دے تھوڑی دیر میں ہم نے دیکھا کہ وہی بکری بھاگی بھاگی آئی اور ریوڑ میں مل گئی اسے زخم بھی نہیں لگا تھا یہی بیان اس آیت میں ہے جو اللہ کے رسول ﷺ پر مکہ میں اتری کہ بعض لوگ جنات کی پناہ مانگا کرتے تھے، ممکن ہے کہ یہ بھیڑیا بن کر آنے والا بھی جن ہی ہو اور بکری کے بچے کو پکڑ کرلے گیا ہو اور چرواہے کی اس وہائی پر چھوڑ دیا ہو تاکہ چرواہے کو اور پھر اس کی بات سن کر اوروں کو اس بات کا یقین کامل ہوجائے کہ جنات کی پناہ میں آجانے سے نقصانات سے محفوظ رہتے ہیں اور پھر اس عقیدے کے باعث وہ اور گمراہ ہوں اور اللہ کے دین سے خارج ہوجائیں واللہ اعلم۔ یہ مسلمان جن اپنی قوم سے کہتے ہیں کہ اے جنو جس طرح تمہارا گمان تھا اسی طرح انسان بھی اسی خیال میں تھے کہ اب اللہ تعالیٰ کسی رسول کو نہ بھیجے گا۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 28{ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا } ” پروردگار ! مغفرت فرما دے میری اور میرے والدین کی اور جو کوئی بھی میرے گھر میں داخل ہوجائے ایمان کے ساتھ اس کی بھی “ { وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ط } ” اور تمام مومن مردوں اور مومن عورتوں کی بھی مغفرت فرمادے “ یہ دعا اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں اگلے اور پچھلے زمانوں کے تمام اہل ایمان شامل ہوگئے ہیں۔{ وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا تَـبَارًا۔ } ” اور ان ظالموں کے لیے ُ تو اب کسی چیز میں اضافہ مت کر سوائے تباہی اور بربادی کے۔ “ سورة المعارج اور سورة نوح کے مطالعے کے بعد یہ نکتہ بھی اچھی طرح سے سمجھ لیجیے کہ اگر ” نظم قرآن “ کو مدنظر رکھتے ہوئے ان دونوں سورتوں کا مطالعہ جوڑے کی حیثیت سے کیا جائے تو نہ صرف سورة المعارج کی پہلی آیت کا مفہوم واضح ہوجاتا ہے ‘ بلکہ سورة نوح کے نزول کا سبب اور حضرت نوح علیہ السلام کی مذکورہ دعا کا جواز بھی سمجھ میں آجاتا ہے۔ بہرحال اس پہلو سے ان دونوں سورتوں پر غور کرنے سے یہ نکتہ خود بخود واضح ہوجاتا ہے کہ سورة المعارج کی ابتدائی آیت خود حضور ﷺ ہی سے متعلق ہے اور یہ بھی کہ سورة المعارج کی آیت 5 میں آپ ﷺ کو { فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِیْلًا۔ } کی تلقین بھی اسی حوالے سے کی گئی ‘ بلکہ اس کے بعد ایک پوری سورت سورئہ نوح نازل کر کے آپ ﷺ کی تسلی کے لیے حضرت نوح علیہ السلام کے حالات و مصائب کا نقشہ بھی دکھادیا گیا کہ آپ ﷺ کی دعوتی مہم کو شروع ہوئے تو ابھی چار پانچ سال ہی ہوئے ہیں ‘ آپ ﷺ ہمارے اس بندے کی ہمت اور استقامت کو بھی مدنظر رکھیں جو ایسے مشکل حالات کا سامنا ساڑھے نو سو سال تک کرتا رہا۔
قل أوحي إلي أنه استمع نفر من الجن فقالوا إنا سمعنا قرآنا عجبا
سورة: الجن - آية: ( 1 ) - جزء: ( 29 ) - صفحة: ( 572 )Surah Jinn Ayat 1 meaning in urdu
اے نبیؐ، کہو، میری طرف وحی بھیجی گئی ہے کہ جنوں کے ایک گروہ نے غور سے سنا پھر (جا کر اپنی قوم کے لوگوں سے) کہا: "ہم نے ایک بڑا ہی عجیب قرآن سنا ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور ہم نے ان لوگوں کے لیے تورات میں یہ حکم لکھ دیا تھا کہ
- کہ اِل یاسین پر سلام
- اور کاش تم (ان کو اس وقت) دیکھو جب یہ اپنے پروردگار کےسامنے کھڑے کئے
- یہ میرا خط لے جا اور اسے ان کی طرف ڈال دے پھر ان کے
- (یعنی) ان کو جاڑے اور گرمی کے سفر سے مانوس کرنے کے سبب
- (وہ) بہشت جاودانی (ہیں) جن میں وہ داخل ہوں گے ان کے نیچے نہریں بہہ
- اے پیغمبر! کافروں اور منافقوں سے لڑو اور ان پر سختی کرو۔ ان کا ٹھکانا
- اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں میں (اپنے زعم باطل میں) ہمیں عاجز کرنے کے
- اور اسی نے زمین پر پہاڑ (بنا کر) رکھ دیئے کہ تم کو لے کر
- اور ان کے پاس لڑکے آتے جاتے ہوں گے جو ہمیشہ (ایک ہی حالت پر)
Quran surahs in English :
Download surah Jinn with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Jinn mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Jinn Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers