Surah Fatir Ayat 10 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿مَن كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا ۚ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ ۚ وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ۖ وَمَكْرُ أُولَٰئِكَ هُوَ يَبُورُ﴾
[ فاطر: 10]
جو شخص عزت کا طلب گار ہے تو عزت تو سب خدا ہی کی ہے۔ اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں اور نیک عمل اس کو بلند کرتے ہیں۔ اور جو لوگ برے برے مکر کرتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے۔ اور ان کا مکر نابود ہوجائے گا
Surah Fatir Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی جو چاہتا ہے کہ اسے دنیا اور آخرت میں عزت ملے، تو وہ اللہ کی اطاعت کرے، اس سے اسے یہ مقصود حاصل ہوجائے گا۔ اس لئے کہ دنیا وآخرت کا مالک اللہ ہی ہے، ساری عزتیں اسی کے پاس ہیں وہ جس کو عزت دے، وہی عزیز ہوگا، جس کو وہ ذلیل کردے، اسے دنیا کی کوئی طاقت عزت نہیں دے سکتی۔ دوسرے مقام پر فرمایا۔ «الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا» ( النساء: 139 )۔
( 2 ) الْكَلِمُ، كَلِمَةٌ کی جمع ہے، ستھرے کلمات سے مراد اللہ کی تسبیح وتحمید، تلاوت، امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہے۔ چڑھتے ہیں کا مطلب، قبول کرنا ہے۔ یا فرشتوں کا انہیں لے کر آسمانوں پر چڑھنا ہے تاکہ اللہ ان کی جزا دے۔
( 3 ) يَرْفَعُهُ، میں ضمیر کا مرجع کون ہے؟ بعض کہتے ہیں الْكَلِمُ الطَّيِّبُ ہے، یعنی عمل صالح کلمات طیبات کو اللہ کی طرف سے بلند کرتا ہے۔ یعنی محض زبان سے اللہ کا ذکر ( تسبیح وتحمید ) کچھ نہیں، جب تک اس کے ساتھ عمل صالح یعنی احکام وفرائض کی ادائیگی بھی نہ ہو۔ بعض کہتے ہیں يَرْفَعُه ُ میں فاعل کی ضمیر اللہ کی طرف راجع ہے۔ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ عمل صالح کو کلمات طیبات پر بلند فرماتا ہے اس لئے کہ عمل صالح سے ہی اس بات کا تحقق ہوتا ہے کہ اس کا مرتکب فی الواقع اللہ کی تسبیح وتحمید میں مخلص ہے ( فتح القدیر ) گویا قول، عمل کے بغیر، اللہ کے ہاں بےحیثیت ہے۔
( 4 ) خفیہ طریقے سے کسی کو نقصان پہنچانے کی تدبیر کو مکر کہتے ہیں کفروشرک کا ارتکاب بھی مکر ہے کہ اس طرح اللہ کے راستہ کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ نبی کریم ( صلى الله عليه وسلم ) کے خلاف قتل وغیرہ کی جو سازشیں کفار مکہ کرتے رہے، وہ بھی مکر ہے، ریاکاری بھی مکر ہے۔ یہاں یہ لفظ عام ہے، مکر کی تمام صورتوں کو شامل ہے۔
( 5 ) یعنی ان کا مکر بھی برباد ہوگا اور اس کا وبال بھی ان ہی پر پڑے گا جو اس کا ارتکاب کرتے ہیں، جیسے فرمایا۔ «وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلا بِأَهْلِهِ» ( فاطر: 43 )۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
موت کے بعد زندگی۔ قرآن کریم میں موت کے بعد کی زندگی پر عموماً خشک زمین کے ہرا ہونے سے استدلال کیا گیا ہے۔ جیسے سورة حج وغیرہ میں ہے۔ بندوں کے لئے اس میں پوری عبرت اور مردوں کے زندہ ہونے کی پوری دلیل اس میں موجود ہے کہ زمین بالکل سوکھی پڑی ہے، کوئی ترو تازگی اس میں نظر نہیں آتی لیکن بادل اٹھتے ہیں، پانی برستا ہے کہ اس کی خشکی تازگی سے اور اس کی موت زندگی سے بدل جاتی ہے۔ یا تو ایک تنکا نظر نہ آتا تھا یا کوسوں تک ہریالی ہی ہریالی ہوجاتی ہے۔ اسی طرح بنو آدم کے اجزاء قبروں میں بکھرے پڑے ہوں گے ایک سے ایک الگ ہوگا۔ لیکن عرش کے نیچے سے پانی برستے ہی تمام جسم قبروں میں سے اگنے لگیں گے۔ جیسے زمین سے دانے الگ آتے ہیں۔ چناچہ صحیح حدیث میں ہے ابن آدم تمام کا تمام گل سڑ جاتا ہے لیکن ریڑھ کی ہڈی نہیں سڑتی اسی سے پیدا کیا گیا ہے اور اس سے ترکیب دیا جائے گا۔ یہاں بھی نشان بتا کر فرمایا کہ اسی طرح موت کے بعد کی زیست ہے۔ سورة حج کی تفسیر میں یہ حدیث گذر چکی ہے کہ ابو رزین ؓ عالیٰ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ حضور ﷺ اللہ تعالیٰ مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا ؟ اور اس کی مخلوق میں اس بات کی کیا دلیل ہے ؟ آپ نے فرمایا اے ابو رزین کیا تم اپنی بستی کے آس پاس کی زمین کے پاس سے اس حالت میں نہیں گذرے کہ وہ خشک بنجر پڑی ہوئی ہوتی ہے۔ پھر دوبارہ تم گذرتے ہو تو دیکھتے ہو کہ وہ سبزہ زار بنی ہوئی ہے اور تازگی کے ساتھ لہرا رہی ہے۔ حضرت ابو زرین نے جواب دیا ہاں حضور ﷺ یہ تو اکثر دیکھنے میں آیا ہے۔ آپ نے فرمایا بس اسی طرح اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کر دے گا، جو شخص دنیا اور آخرت میں باعزت رہنا چاہتا ہو اسے اللہ تعالیٰ کی اطاعت گذاری کرنی چاہئے وہی اس مقصد کا پورا کرنے والا ہے، دنیا اور آخرت کا مالک وہی ہے۔ ساری عزتیں اسی کی ملکیت میں ہیں۔ چناچہ اور آیت میں ہے کہ جو لوگ مومنوں کو چھوڑ کر کفار سے دوستیاں کرتے ہیں کہ ان کے پاس ہماری عزت ہو وہ عزت کے حصول سے مایوس ہوجائیں کیونکہ عزت تو اللہ کے قبضے میں ہیں اور جگہ فرمان عالی شان ہے تجھے ان کی باتیں غم ناک نہ کریں، تمام تر عزتیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور آیت میں اللہ جل جلالہ کا فرمان ہے یعنی عزتیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور اس کے رسول ﷺ کے لئے اور ایمان والوں کے لئے لیکن منافق بےعلم ہیں۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں بتوں کی پرستش میں عزت نہیں عزت والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ پس بقول قتادہ آیت کا یہ مطلب ہے کہ طالب عزت کو احکام اللہ کی تعمیل میں مشغول رہنا چاہئے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو یہ جاننا چاہتا ہو کہ کس کے لئے عزت ہے وہ جان لے کہ ساری عزتیں اللہ ہی کے لئے ہیں۔ ذکر تلاوت دعا وغیرہ پاک کلمے اسی کی طرف چڑھتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں جتنی حدیثیں تمہارے سامنے بیان کرتے ہیں۔ سب کی تصدیق کتاب اللہ سے پیش کرسکتے ہیں۔ سنو ! مسلمان بندہ جب پڑھتا ہے تو ان کلمات کو فرشتہ اپنے پر تلے لے کر آسمان پر چڑھ جاتا ہے۔ فرشتوں کے جس مجمع کے پاس سے گذرتا ہے وہ مجمع ان کلمات کے کہنے والے کے لئے استغفار کرتا ہے۔ یہاں تک کہ رب العالمین عزوجل کے سامنے یہ کلمات پیش کئے جاتے ہیں۔ پھر آپ نے ( اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهٗ 10 ) 35۔ فاطر:10) یرفعہ کی تلاوت کی۔ ( ابن جریر ) حضرت کعب احبار ؓ فرماتے ہیں سبحان اللہ اور لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر عرش کے اردگرد آہستہ آہستہ آواز نکالتے رہتے ہیں۔ جیسے شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ ہوتی ہے۔ اپنے کہنے والے کا ذکر اللہ کے سامنے کرتے رہتے ہیں اور نیک اعمال خزانوں میں محفوظ رہتے ہیں۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جو لوگ اللہ کا جلال اس کی تسبیح اس کی حمد اس کی بڑائی اس کی وحدانیت کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ ان کے لئے ان کے یہ کلمات عرش کے آس پاس اللہ کے سامنے ان کا ذکر کرتے رہتے ہیں کیا تم نہیں چاہتے کہ کوئی نہ کوئی تمہارا ذکر تمہارے رب کے سامنے کرتا رہے ؟ ابن عباس ؓ کا فرمان ہے کہ پاک کلموں سے مراد ذکر اللہ ہے اور عمل صالح سے مراد فرائض کی ادائیگی ہے۔ پس جو شخص ذکر اللہ اور ادائے فریضہ کرے اس کا عمل اس کے ذکر کو اللہ تعالیٰ کی طرف چڑھاتا ہے۔ اور جو ذکر کرے لیکن فریضہ ادا نہ کرے اس کا کلام اس کے عمل پر لوٹا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ کلمہ طیب کو عمل صالح لے جاتا ہے اور بزرگوں سے بھی یہی منقول ہے بلکہ ایاس بن معاویہ قاضی فرماتے ہیں قول بغیر عمل کے مردود ہے۔ برائیوں کے گھات میں لگنے والے وہ لوگ ہیں جو مکاری اور ریا کاری کے سے اعمال کرتے ہوں۔ لوگوں پر گویہ یہ ظاہر ہو کہ وہ اللہ کی فرماں برداری کرتے ہیں لیکن دراصل اللہ کے نزدیک وہ سب سے زیادہ برے ہیں جو نیکیاں صرف دکھاوے کی کرتے ہیں۔ یہ ذکر اللہ بہت ہی کم کرتے ہیں۔ عبدالرحمٰن فرماتے ہیں اس سے مراد مشرک ہیں۔ لیکن یہ صحیح ہے کہ یہ آیت عام ہے مشرک اس میں بطریق اولیٰ داخل ہیں۔ ان کے لئے سخت عذاب ہے اور ان کا مکر فاسد و باطل ہے۔ ان کا جھوٹ آج نہیں تو کل کھل جائے گا عقل مند ان کے مکر سے واقف ہوجائیں گے۔ جو شخص جو کچھ کرے اس کا اثر اس کے چہرے پر ہی ظاہر ہوجاتا ہے اس کی زبان اسی رگن سے رنگ دی جاتی ہے۔ جیسا باطن ہوتا ہے اسی کا عکس ظاہر پر بھی پڑتا ہے۔ ریا کار کی بےایمانی لمبی مدت تک پوشیدہ نہیں رہ سکتی ہاں کوئی بیوقوف اس کے دام میں پھنس جائے تو اور بات ہے۔ مومن پورے عقل مند اور کامل دانا ہوتے ہیں وہ ان دھوکے بازوں سے بخوبی آگاہ ہوجاتے ہیں اور اس عالم الغیب اللہ پر تو کوئی بات بھی چھپ نہیں سکتی، اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ حضرت آدم ؑ کو مٹی سے پیدا کیا اور ان کی نسل کو ایک ذلیل پانی سے جاری رکھا۔ پھر تمہیں جوڑا جوڑا بنایا یعنی مرد و عورت۔ یہ بھی اس کا لطف و کرم اور انعام واحسان ہے کہ مردوں کے لئے بیویاں بنائیں جو ان کے سکون و راحت کا سبب ہیں۔ ہر حاملہ کے حمل کی اور ہر بچے کے تولد ہونے کی اسے خبر ہے۔ بلکہ ہر پتے کے جھڑنے اور اندھیرے میں پڑے ہوئے دانے اور ہر ترو خشک چیز کا اسے علم ہے بلکہ اس کی کتاب میں وہ لکھا ہوا ہے۔ اسی آیت جیسی ( اَللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى وَمَا تَغِيْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ ۭ وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ ) 13۔ الرعد:8)الخ، ہے اور وہیں اس کی پوری تفسیر بھی گذر چکی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ عالم الغیب کو یہ بھی علم ہے کہ کس نطفے کو لمبی عمر ملنے والی ہے۔ یہ بھی اس کی پاس لکھا ہوا ہے ( وَّلَا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهٖٓ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ 11 ) 35۔ فاطر:11) میں ہ کی ضمیر کا مرجع جنس ہے۔ عین ہی نہیں اس لئے کہ طول عمر کتاب میں ہے اور اللہ تعالیٰ کے علم میں اس کی عمر سے کمی نہیں ہوتی۔ جنس کی طرف بھی ضمیر لوٹتی ہے۔ جیسے عرب میں کہا جاتا ہے عندی ثوب و نصفہ یعنی میرے پاس ایک کپڑا ہے اور دوسرے کپڑے کا آدھا ہے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جس شخص کے لئے میں نے طویل عمر مقدر کی ہے وہ اسے پوری کر کے ہی رہے گا لیکن وہ لمبی عمر میری کتاب میں لکھی ہوئی ہے وہیں تک پہنچے گی اور جس کے لئے میں نے کم عمر مقرر کی ہے اس کی حیات اسی عمر تک پہنچے گی یہ سب کچھ اللہ کی پہلی کتاب میں لکھی ہوئی موجود ہے اور رب پر یہ سب کچھ آسان ہے۔ عمر کے ناقص ہونے کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو نطفہ تمام ہونے سے پہلے ہی گر جاتا ہے وہ بھی اللہ کے علم میں ہے۔ بعض انسان سو سو سال کی عمر پاتے ہیں اور بعض پیدا ہوتے ہی مرجاتے ہیں۔ ساٹھ سال سے کم عمر میں مرنے والا بھی ناقص عمر والا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ماں کے پیٹ میں عمر کی لمبائی یا کمی لکھ لی جاتی ہے۔ ساری مخلوق کی یکساں عمر نہیں ہوتی کوئی لمبی عمر والا کوئی کم عمر والا۔ یہ سب اللہ کے ہاں لکھا ہوا ہے اور اسی کے مطابق ظہور میں آ رہا ہے۔ بعض کہتے ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ جو اجل لکھی گئی ہے اور اس میں سے جو گذر رہی ہے سب علم اللہ میں ہے اور اس کی کتاب میں لکھی ہوئی ہے۔ بخاری مسلم وغیرہ میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں جو یہ چاہے کہ اس کی روزی اور عمر بڑھے وہ صلہ رحمی کیا کرے۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں کسی کی اجل آجانے کے بعد اسے مہلت نہیں ملتی۔ زیادتی عمر سے مراد نیک اولاد کا ہونا ہے جس کی دعائیں اسے اس کے مرنے کے بعد اس کی قبر میں پہنچتی رہتی ہے یہی زیادتی عمر ہے۔ یہ اللہ پر آسان ہے اس کا علم اس کے پاس ہے۔ اس کا علم تمام مخلوق کو گھیرے ہوئے ہے وہ ہر ایک چیز کو جانتا ہے۔ اس پر کچھ مخفی نہیں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 10 { مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعًا } ” جو کوئی عزت کا طالب ہے تو وہ جان لے کہ عزت سب کی سب اللہ کے پاس ہے۔ “ جو شخص اللہ کے جتنا قریب ہوگا اسی قدر وہ سزا وار عزت اور صاحب ِتوقیر ہوگا۔ اس کے برعکس جو شخص اللہ سے جتنا دور ہوگا اسی قدر وہ ذلیل ہوگا ‘ چاہے دنیا میں وہ بظاہر کتنا ہی با عزت اور صاحب ثروت ہو۔ سورة المنافقون میں یہی مضمون اس طرح بیان ہوا : { وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ } ” اور عزت تو اللہ کے لیے ہے اور اس کے رسول ﷺ کے لیے اور مومنین کے لیے ‘ لیکن منافقین یہ بات نہیں جانتے۔ “ { اِلَـیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ } ” اسی کی طرف اٹھتی ہیں اچھی باتیں “ ہر اچھی بات ‘ ہر اچھا نظریہ ‘ اچھا خیال ‘ دعوت ِحسنہ اور موعظہ حسنہ گویا ” کلمہ طیبہ “ ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ ” الْکَلِمُ الطَّیِّبُ “ سے مراد اللہ تعالیٰ کا ذکر ‘ دعا ‘ تلاوتِ قرآن اور علم و نصیحت کی باتیں ہیں۔ چناچہ ” ایمان “ بھی کلمہ طیبہ ہے۔ ظاہر ہے اگر کہیں کسی خیال یا نظریہ کا اظہار کیا جائے گا تو لامحالہ اس کا اظہار ایک ” کلمہ “ ہی کی شکل میں پیش کرنا ممکن ہوگا۔ بہر حال ہر کلمہ طیبہ پاکیزہ بات میں ترفع ّ اوپر اٹھنے کی خداد ادصلاحیت موجود ہوتی ہے اور یوں ہر کلمہ طیبہ اللہ کے حضور پیش ہوتا ہے ‘ لیکن ترفع کی اس صلاحیت کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے محنت اور کوشش کی بھی ضرورت ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا : { وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ } ” اور عمل ِصالح اسے اوپر اٹھاتا ہے۔ “ یعنی ایمان ‘ یقین ‘ اچھے خیالات ‘ اچھے نظریات اور اچھے عزائم اکیلے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکیں گے جب تک ان کے ساتھ محنت اور تگ و دو نہیں ہوگی۔ گویا حقیقی کامیابی کے لیے ایمان اور عمل صالح دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ { وَالَّذِیْنَ یَمْکُرُوْنَ السَّیِّاٰتِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ} ” اور جو لوگ بری سازشیں کر رہے ہیں ان کے لیے سخت سزا ہوگی۔ “ { وَمَکْرُ اُولٰٓئِکَ ہُوَ یَبُوْرُ } ”اور ان کی سازشیں ناکام ہو کر رہ جائیں گی۔
من كان يريد العزة فلله العزة جميعا إليه يصعد الكلم الطيب والعمل الصالح يرفعه والذين يمكرون السيئات لهم عذاب شديد ومكر أولئك هو يبور
سورة: فاطر - آية: ( 10 ) - جزء: ( 22 ) - صفحة: ( 435 )Surah Fatir Ayat 10 meaning in urdu
جو کوئی عزت چاہتا ہو اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ عزت ساری کی ساری اللہ کی ہے اُس کے ہاں جو چیز اوپر چڑھتی ہے وہ صرف پاکیزہ قول ہے، اور عمل صالح اس کو اوپر چڑھاتا ہے رہے وہ لوگ جو بیہودہ چال بازیاں کرتے ہیں، اُن کے لیے سخت عذاب ہے اور اُن کا مکر خود ہی غارت ہونے والا ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- پھر ان میں یہ قدرت نہ رہی کہ اس پر چڑھ سکیں اور نہ یہ
- اور اپنے باپ دادا ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کے مذہب پر چلتا ہوں۔ ہمیں
- اس سبب سے کہ مال اور بیٹے رکھتا ہے
- اور ان کے کرتے پر جھوٹ موٹ کا لہو بھی لگا لائے۔ یعقوب نے کہا
- اور اگر خدا چاہتا تو تم (سب) کو ایک ہی جماعت بنا دیتا۔ لیکن وہ
- تو (اے انسان) تو اپنے پروردگار کی کون سی نعمت پر جھگڑے گا
- اور جس بات کی تمہیں خبر ہی نہیں اس پر صبر کر بھی کیوں کرسکتے
- اور شوہر والی عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں) مگر وہ جو (اسیر ہو کر
- اور ان پر صبح سویرے ہی اٹل عذاب آ نازل ہوا
- ان سے پوچھو کہ ان میں سے اس کا کون ذمہ لیتا ہے؟
Quran surahs in English :
Download surah Fatir with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Fatir mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Fatir Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers