Surah fatah Ayat 10 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ۚ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا﴾
[ الفتح: 10]
جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں۔ خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔ پھر جو عہد کو توڑے تو عہد توڑنے کا نقصان اسی کو ہے۔ اور جو اس بات کو جس کا اس نے خدا سے عہد کیا ہے پورا کرے تو وہ اسے عنقریب اجر عظیم دے گا
Surah fatah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی یہ بیعت دراصل اللہ ہی کی ہے، کیونکہ اسی نے جہاد کا حکم دیا اور اس پر اجر بھی وہی عطا فرمائے گا۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا کہ یہ اپنے نفسوں اور مالوں کا جنت کے بدلے اللہ کے ساتھ سودا ہے ( التوبۃ: 111 ) یہ اسی طرح ہے جیسے «مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ» ( النساء:80 )۔
( 2 ) آیت سے وہی بیعت رضوان مراد ہےجو نبی( صلى الله عليه وسلم ) نے حضرت عثمان ( رضي الله عنه ) کی خبر شہادت سن کر ان کا انتقام لینے کے حدیبیہ میں موجود 14 یا 15 سو مسلمانوں سے لی تھی۔
( 3 ) نَكْثٌ ( عہد شکنی ) سے مراد یہاں بیعت کا توڑ دینا یعنی عہد کے مطابق لڑائی میں حصہ نہ لینا ہے۔ یعنی جو شخص ایسا کرے گا تو اس کا وبال اسی پر پڑے گا۔
( 4 ) کہ وہ اللہ کے رسول ( صلى الله عليه وسلم ) کی مدد کرے گا، ان کے ساتھ ہو کر لڑے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو فتح وغلبہ عطا فرما دے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
آنکھوں دیکھا گواہ رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو فرماتا ہے ہم نے تمہیں مخلوق پر شاہد بنا کر، مومنوں کو خوشخبریاں سنانے والا کافروں کو ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اس آیت کی پوری تفسیر سورة احزاب میں گذر چکی ہے۔ تاکہ اے لوگو اللہ پر اور اس کے نبی پر ایمان لاؤ اور اس کی عظمت و احترام کرو بزرگی اور پاکیزگی کو تسلیم کرو اور اس لئے کہ تم اللہ تعالیٰ کی صبح شام تسبیح کرو۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی تعظیم و تکریم بیان فرماتا ہے کہ جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ دراصل خود اللہ تعالیٰ سے ہی بیعت کرتے ہیں جیسے ارشاد ہے آیت ( مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاع اللّٰهَ ۚ وَمَنْ تَوَلّٰى فَمَآ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًا 80ۭ ) 4۔ النساء:80) یعنی جس نے رسول ﷺ کی اطاعت کی اس نے اللہ کا کہا مانا اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے یعنی وہ ان کے ساتھ ہے ان کی باتیں سنتا ہے ان کا مکان دیکھتا ہے ان کے ظاہر باطن کو جانتا ہے پس دراصل رسول ﷺ کے واسطے سے ان سے بیعت لینے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے، جیسے فرمایا آیت ( اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ01101 ) 9۔ التوبة:111) ، یعنی اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لئے ہیں اور ان کے بدلے میں جنت انہیں دے دی ہے وہ راہ اللہ میں جہاد کرتے ہیں مرتے ہیں اور مارتے ہیں اللہ کا یہ سچا وعدہ تورات و انجیل میں بھی موجود ہے اور اس قرآن میں بھی سمجھ لو کہ اللہ سے زیادہ سچے وعدے والا کون ہوگا ؟ پس تمہیں اس خرید فروخت پر خوش ہوجانا چاہیے دراصل سچی کامیابی یہی ہے ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جس نے راہ اللہ میں تلوار اٹھا لی اس نے اللہ سے بیعت کرلی اور حدیث میں ہے حجر اسود کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کھڑا کرے گا اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے دیکھے گا اور زبان ہوگی جس سے بولے گا اور جس نے اسے حق کے ساتھ بوسہ دیا ہے اس کی گواہی دے گا اسے بوسہ دینے والا دراصل اللہ تعالیٰ سے بیعت کرنے والا ہے پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی پھر فرماتا ہے جو بیعت کے بعد عہد شکنی کرے اس کا وبال خود اسی پر ہوگا اللہ کا وہ کچھ نہ بگاڑے گا اور جو اپنی بیعت کو نبھا جائے وہ بڑا ثواب پائے گا یہاں جس بیعت کا ذکر ہے وہ بیعت الرضوان ہے جو ایک ببول کے درخت تلے حدیبیہ کے میدان میں ہوئی تھی اس دن بیعت کرنے والے صحابہ کی تعداد تیرہ سو چودہ سو یا پندرہ سو تھی ٹھیک یہ ہے کہ چودہ سو تھی اس واقعہ کی حدیثیں ملاحظہ ہوں۔ بخاری شریف میں ہے ہم اس دن چودہ سو تھے بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے آپ نے اس پانی میں ہاتھ رکھا پس آپ کی انگلیوں کے درمیان سے اس پانی کی سوتیں ابلنے لگیں۔ یہ حدیث مختصر ہے اس حدیث سے جس میں ہے کہ صحابہ سخت پیاسے ہوئے پانی تھا نہیں حضور ﷺ نے انہیں اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکال کردیا انہوں نے جا کر حدیبیہ کے کنویں میں اسے گاڑ دیا اب تو پانی جوش کے ساتھ ابلنے لگا یہاں تک کہ سب کو کافی ہوگیا حضرت جابر سے پوچھا گیا کہ اس روز تم کتنے تھے ؟ فرمایا چودہ سو لیکن اگر ایک لاکھ بھی ہوتے تو پانی اس قدر تھا کہ سب کو کافی ہوجاتا، بخاری کی روایت میں ہے کہ " پندرہ سو تھے " حضرت جابر سے ایک روایت میں پندرہ سو بھی مروی ہے، امام بیہقی فرماتے ہیں فی الواقع تھے تو پندرہ سو اور یہی حضرت جابر کا قول تھا پھر آپ کو کچھ وہم سا ہوگیا اور چودہ سو فرمانے لگے ابن عباس سے مروی ہے کہ سوا پندرہ سو تھے۔ لیکن آپ سے مشہور روایت چودہ سو کی ہے اکثر راویوں اور اکثر سیرت نویس بزرگوں کا یہی قول ہے کہ چودہ سو تھے ایک روایت میں ہے اصحاب شجرہ چودہ سو تھے اور اس دن آٹھواں حصہ مہاجرین کا مسلمان ہوا۔ سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ حدیبیہ والے سال رسول مقبول ﷺ اپنے ساتھ سات سو صحابہ کو لے کر زیارت بیت اللہ کے ارادے سے مدینہ سے چلے قربانی کے ستر اونٹ بھی آپ کے ہمراہ تھے ہر دس اشخاص کی طرف سے ایک اونٹ ہاں حضرت جابر سے روایت ہے کہ آپ کے ساتھی اس دن چودہ سو تھے ابن اسحاق اسی طرح کہتے ہیں اور یہ ان کے اوہام میں شمار ہے، بخاری و مسلم جو محفوظ ہے وہ یہ کہ ایک ہزار کئی سو تھے جیسے ابھی آرہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ۔ اس بیعت کا سبب سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر کو بلوایا کہ آپ کو مکہ بھیج کر قریش کے سرداروں سے کہلوائیں کہ حضور ﷺ لڑائی بھڑائی کے ارادے سے نہیں آئے بلکہ آپ بیت اللہ شریف کے عمرے کے لئے آئے ہیں لیکن حضرت عمر نے فرمایا یارسول اللہ ﷺ میرے خیال سے تو اس کام کے لئے آپ حضرت عثمان کو بھیجیں کیونکہ مکہ میں میرے خاندان میں سے کوئی نہیں یعنی بنوعدی بن کعب کا قبیلہ نہیں جو میری حمایت کرے آپ جانتے ہیں کہ قریش سے میں نے کتنی کچھ اور کیا کچھ دشمنی کی ہے اور وہ مجھ سے وہ کس قدر خار کھائے ہوئے ہیں مجھے تو وہ زندہ ہی نہیں چھوڑیں گے چناچہ حضور ﷺ نے اس رائے کو پسند فرما کر جناب عثمان ذوالنورین کو ابو سفیان اور سرداران قریش کے پاس بھیجا آپ جا ہی رہے تھے کہ راستے میں یا مکہ میں داخل ہوتے ہی ابان بن سعید بن عاص مل گیا اور اس نے آپ کو اپنے آگے سواری پر بٹھا لیا اپنی امان میں انہیں اپنے ساتھ مکہ میں لے گیا آپ قریش کے بڑوں کے پاس گئے اور حضور ﷺ کا پیغام پہنچایا انہوں نے کہا کہ اگر آپ بیت اللہ شریف کا طواف کرنا چاہیں تو کرلیجئے آپ نے جواب دیا کہ یہ ناممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پہلے میں طواف کرلوں، اب ان لوگوں نے جناب ذوالنورین کو روک لیا ادھر لشکر اسلام میں یہ خبر مشہور ہوگئی کہ حضرت عثمان کو شہید کر ڈالا گیا، اس وحشت اثر خبر نے مسلمانوں کو اور خود رسول ﷺ کو بڑا صدمہ پہنچایا اور آپ نے فرمایا کہ اب تو ہم بغیر فیصلہ کئے یہاں سے نہیں ہٹیں گے، چناچہ آپ ﷺ نے صحابہ کو بلوایا اور ان سے بیعت لی ایک درخت تلے یہ بیعت الرضوان ہوئی۔ لوگ کہتے ہیں یہ بیعت موت پر لی تھی یعنی لڑتے لڑتے مرجائیں گے لیکن حضرت جابر کا بیان ہے کہ موت پر بیعت نہیں لی تھی بلکہ اس اقرار پر کہ ہم لڑائی سے بھاگیں گے نہیں جتنے مسلمان صحابہ اس میدان میں تھے سب نے آپ سے بہ رضامندی بیعت کی سوائے جد بن قیس کے جو قبیلہ بنو سلمہ کا ایک شخص تھا یہ اپنی اونٹنی کی آڑ میں چھپ گیا پھر حضور ﷺ اور صحابہ کو معلوم ہوگیا کہ حضرت عثمان کی شہادت کی افواہ غلط تھی اس کے بعد قریش نے سہیل بن عمرو، حویطب بن عبدالعزیٰ اور مکرز بن حفص کو آپ کے پاس بھیجا یہ لوگ ابھی یہیں تھے کہ بعض مسلمانوں اور بعض مشرکوں میں کچھ تیز کلامی شروع ہوگئی نوبت یہاں تک پہنچی کہ سنگ باری اور تیر باری بھی ہوئی اور دونوں طرف کے لوگ آمنے سامنے ہوگئے ادھر ان لوگوں نے حضرت عثمان وغیرہ کو روک لیا ادھر یہ لوگ رک گئے اور رسول اللہ ﷺ کے منادی نے ندا کردی کہ روح القدس اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آئے اور بیعت کا حکم دے گئے آؤ اللہ کا نام لے کر بیعت کر جاؤ اب کیا تھا مسلمان بےتابانہ دوڑے ہوئے حاضر ہوئے آپ اس وقت درخت تلے تھے سب نے بیعت کی اس بات پر کہ وہ ہرگز ہرگز کسی صورت میں میدان سے منہ موڑنے کا نام نہ لیں گے اس سے مشرکین کانپ اٹھے اور جتنے مسلمان ان کے پاس تھے سب کو چھوڑ دیا اور صلح کی درخواست کرنے لگے۔ بیہقی میں ہے کہ بیعت کے وقت اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا الہٰی عثمان تیرے اور تیرے رسول ﷺ کے کام کو گئے ہوئے ہیں پس آپ نے خود اپنا ایک ہاتھ اپنے دوسرے ہاتھ پر رکھا گویا حضرت عثمان کی طرف سے بیعت کی۔ پس حضرت عثمان کے لئے رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ ان کے اپنے ہاتھ سے بہت افضل تھا۔ اس بیعت میں سب سے پہل کرنے والے حضرت ابو سنان اسدی ؓ تھے۔ انہوں نے سب سے آگے بڑھ کر فرمایا حضور ﷺ ہاتھ پھیلائیے تاکہ میں بیعت کرلوں آپ نے فرمایا کس بات پر بیعت کرتے ہو ؟ جواب دیا جو آپ کے دل میں ہو اس پر آپ کے والد کا نام وہب تھا صحیح بخاری میں شریف میں حضرت نافع سے مروی ہے کہ لوگ کہتے ہیں حضرت عمر کے لڑکے حضرت عبداللہ نے اپنے والد سے پہلے اسلام قبول کیا دراصل واقعہ یوں نہیں۔ بات یہ ہے کہ حدیبیہ والے سال حضرت عمر نے اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہ کو ایک انصاری کے پاس بھیجا کہ جا کر اپنے گھوڑے لے آؤ اس وقت رسول اللہ ﷺ لوگوں سے بیعت لے رہے تھے حضرت عمر کو اس کا علم نہ تھا یہ اپنے طور پوشیدگی سے لڑائی کی تیاریاں کر رہے تھے۔ حضرت عبداللہ نے دیکھا کہ حضور ﷺ کے ہاتھ پر بیعت ہو رہی ہے تو یہ بیعت سے مشرف ہوئے پھر گھوڑا لینے گئے اور گھوڑا لا کر حضرت عمر کے پاس آئے اور کہا حضور ﷺ بیعت لے رہے ہیں اب جناب فاروق آئے اور حضور ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی اس بنا پر لوگ کہتے ہیں کہ بیٹے کا اسلام باپ سے پہلے کا ہے۔ بخاری کی دوسری روایت میں ہے لوگ الگ الگ درختوں تلے آرام کر رہے تھے کہ حضرت عمر نے دیکھا کہ ہر ایک کی نگاہیں حضور ﷺ پر ہیں اور لوگ آپ کو گھیرے ہوئے ہیں حضرت عبداللہ سے فرمایا جاؤ ذرا دیکھو تو کیا ہو رہا ہے ؟ یہ آئے دیکھا کہ بیعت ہو رہی ہے تو بیعت کرلی پھر جا کر حضرت عمر کو خبر کی چناچہ آپ بھی فوراً آئے اور بیعت سے مشرف ہوئے۔ حضرت جابر کا بیان ہے کہ جب ہم نے بیعت کی ہے اس وقت حضرت عمر فاروق آپ کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے اور آپ ایک ببول کے درخت تلے تھے۔ حضرت معقل بن یسار کا بیان ہے کہ اس موقعہ پر درخت کی ایک جھکی ہوئی شاخ کو آپ کے سر سے اوپر کو اٹھا کر میں تھامے ہوئے تھا ہم نے آپ سے موت پر بیعت نہیں کی بلکہ نہ بھاگنے پر۔ حضرت سلمہ بن اکوع فرماتے ہیں ہم نے مرنے پر بیعت کی تھی آپ فرماتے ہیں ایک مرتبہ بیعت کر کے میں ہٹ کر ایک طرف کو کھڑا ہوگیا تو آپ نے مجھ سے فرمایا سلمہ تم بیعت نہیں کرتے ؟ میں نے کہا حضور ﷺ میں نے تو بیعت کرلی آپ نے فرمایا خیر آؤ بیعت کرو چناچہ میں نے قریب جا کر پھر بیعت کی۔ حدیبیہ کا وہ کنواں جس کا ذکر اوپر گذرا صرف اتنے پانی کا تھا کہ پچاس بکریاں بھی آسودہ نہ ہو سکیں آپ فرماتے ہیں کہ دوبارہ بیعت کرلینے کے بعد آپ نے جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ میں بےسپر ہوں تو آپ نے مجھے ایک ڈھال عنایت فرمائی پھر لوگوں سے بیعت لینی شروع کردی پھر آخری مرتبہ میری طرف دیکھ کر فرمایا سلمہ تم بیعت نہیں کرتے ؟ میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ پہلی مرتبہ جن لوگوں نے بیعت کی میں نے ان کے ساتھ ہی بیعت کی تھی پھر بیچ میں دوبارہ بیعت کرچکا ہوں آپ نے فرمایا اچھا پھر سہی چناچہ اس آخری جماعت کے ساتھ بھی میں نے بیعت کی آپ نے پھر میری طرف دیکھ کر فرمایا سلمہ تمہیں ہم نے جو ڈھال دی تھی وہ کیا ہوئی ؟ میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ حضرت عامر سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے دیکھا کہ ان کے پاس دشمن کا وار روکنے والی کوئی چیز نہیں میں نے وہ ڈھال انہیں دے دی تو آپ ہنسے اور فرمایا تم بھی اس شخص کی طرح ہو جس نے اللہ سے دعا کی کہ اے الہٰی میرے پاس کسی ایسے کو بھیج دے جو مجھے میری جان سے زیادہ عزیز ہو۔ پھر اہل مکہ سے صلح کی تحریک کی آمدورفت ہوئی اور صلح ہوگئی میں حضرت طلحہ بن عبید اللہ کا خادم تھا ان کے گھوڑے کی اور ان کی خدمت کیا کرتا تھا وہ مجھے کھانے کو دے دیتے تھے میں تو اپنا گھر بار بال بچے مال دولت سب راہ اللہ میں چھوڑ کر ہجرت کر کے چلا آیا تھا، جب صلح ہوچکی ادھر کے لوگ ادھر ادھر کے ادھر آنے لگے تو میں ایک درخت تلے جا کر کانٹے وغیرہ ہٹا کر اس کی جڑ سے لگ کر سو گیا اچانک مشرکین مکہ میں سے چار شخص وہیں آئے اور حضور ﷺ کی شان میں کچھ گستاخانہ کلمات سے آپس میں باتیں کرنے لگے مجھے بڑا برا معلوم ہوا میں وہاں سے اٹھ کر دوسرے درخت تلے چلا گیا، اب لوگوں نے اپنے ہتھیار اتارے درخت پر لٹکا کر وہاں لیٹ گئے تھوڑی دیر گذری ہوگی جو میں نے سنا کہ وادی کے نیچے کے حصہ سے کوئی منادی ندا کر رہا ہے کہ اے مہاجر بھائیو حضرت دہیم قتل کر دئیے گئے میں نے جھٹ سے تلوار تان لی اور اسی درخت تلے گیا جہاں چاروں سوئے ہوئے تھے جاتے ہی پہلے تو ان کے ہتھیار قبضے میں کئے اور اپنے ایک ہاتھ میں انہیں دبا کر دوسرے ہاتھ سے تلوار تول کر ان سے کہا سنو اس اللہ کی قسم جس نے حضرت محمد ﷺ کو عزت دی ہے تم میں سے جس نے بھی سر اٹھا یا میں اس کا سر قلم کر دونگا جب وہ اسے مان چکے میں نے کہا اٹھو اور میرے آگے آگے چلو چناچہ ان چاروں کو لے کر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ادھر میرے چچا حضرت عامر بھی مکرز نامی عبلات کے ایک مشرک کو گرفتار کر کے لائے اور بھی اسی طرح کے ستر مشرکین حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر کئے گئے تھے آپ نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا انہیں چھوڑ دو برائی کی ابتداء بھی انہی کے سر رہے اور پھر اس کی تکرار کے ذمہ دار بھی یہی رہیں چناچہ ان سب کو رہا کردیا گیا اسی کا بیان آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ۭ وَكَان اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرًا 24 ) 48۔ الفتح:24) ، میں ہے۔ حضرت سعید بن مسیب کے والد بھی اس موقعہ پر حضور ﷺ کے ساتھ تھے آپ کا بیان ہے کہ اگلے سال جب ہم حج کو گئے تو اس درخت کی جگہ ہم پر پوشیدہ رہی ہم معلوم نہ کرسکے کہ کس جگہ حضور ﷺ کے ہاتھ پر ہم نے بیعت کی تھی اب اگر تم پر یہ پوشیدگی کھل گئی ہو تو تم جانو ایک روایت میں حضرت جابر سے مروی ہے کہ اس وقت حضور ﷺ نے فرمایا آج زمین پر جتنے ہیں ان سب پر افضل تم لوگ ہو۔ آپ فرماتے ہیں اگر میری آنکھیں ہوتیں تو میں تمہیں اس درخت کی جگہ دکھا دیتا، حضرت سفیان فرماتے ہیں اس جگہ کی تعین میں بڑا اختلاف ہے حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جن لوگوں نے اس بیعت میں شرکت کی ہے ان میں سے کوئی جہنم میں نہیں جائے گا ( بخاری ومسلم ) اور روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جن لوگوں نے اس درخت تلے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے سب جنت میں جائیں گے مگر سرخ اونٹ والا ہم جلدی دوڑے دیکھا تو ایک شخص اپنے کھوئے ہوئے اونٹ کی تلاش میں تھا ہم نے کہا چل بیعت کر اس نے جواب دیا کہ بیعت سے زیادہ نفع تو اس میں ہے کہ میں اپنا گم شدہ اونٹ پا لوں۔ مسند احمد میں ہے آپ نے فرمایا کون ہے جو ثنیۃ المرار پر چڑھ جائے اس سے وہ دور ہوجائے گا جو بنی اسرائیل سے دور ہوا پس سب سے پہلے قبیلہ خزرج کے ایک صحابی اس پر چڑھ گئے پھر تو اور لوگ بھی پہنچ گئے پھر آپ نے فرمایا تم سب بخشے جاؤ گے مگر سرخ اونٹ والا ہم اس کے پاس آئے اور اس سے کہا تیرے لئے رسول اللہ ﷺ سے استغفار طلب کریں تو اس نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم مجھے میرا اونٹ مل جائے تو میں زیادہ خوش ہوں گا بہ نسبت اس کے کہ تمہارے صاحب میرے لئے استغفار کریں یہ شخص اپنا گم شدہ اونٹ ڈھونڈ رہا تھا حضرت حفصہ نے جب حضور ﷺ کی زبانی یہ سنا کہ اس بیعت والے دوزخ میں داخل نہیں ہوں گے تو کہا ہاں ہوں گے آپ نے انہیں روک دیا تو مائی صاحبہ نے آیت ( وَاِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلٰي رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا 71ۚ ) 19۔ مریم :71) پڑھی یعنی تم میں سے ہر شخص کو اس پر وارد ہونا ہے، حضور ﷺ نے فرمایا اس کے بعد ہی فرمان باری ہے آیت ( ثُمَّ نُـنَجِّي الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّنَذَرُ الظّٰلِمِيْنَ فِيْهَا جِثِيًّا 72 ) 19۔ مریم :72) یعنی پھر ہم تقویٰ والوں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو گھٹنوں کے بل اس میں گرا دیں گے ( مسلم ) حضرت حاطب بن ابو بلتعہ کے غلام حضرت حاطب کی شکایت لے کر حضور ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ﷺ حاطب ضرور جہنم میں جائیں گے آپ نے فرمایا تو جھوٹا ہے وہ جہنمی نہیں وہ بدر میں اور حدیبیہ میں موجود رہا ان بزرگوں کی ثنا بیان ہو رہی ہے کہ یہ اللہ سے بیعت کر رہے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے اس بیعت کو توڑنے والا اپنا ہی نقصان کرنے والا ہے اور اسے پورا کرنے والا بڑے اجر کا مستحق ہے جیسے فرمایا آیت ( لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ عَلَيْهِمْ وَاَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيْبًا 18ۙ ) 48۔ الفتح:18) ، یعنی اللہ تعالیٰ ایمان والوں سے راضی ہوگیا جبکہ انہوں نے درخت تلے تجھ سے بیعت کی ان کے دلی ارادوں کو اس نے جان لیا پھر ان پر دلجمعی نازل فرمائی اور قریب کی فتح سے انہیں سرفراز فرمایا۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 10 { اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ } ” اے نبی ﷺ ! یقینا وہ لوگ جو آپ سے بیعت کر رہے ہیں وہ حقیقت میں اللہ سے بیعت کر رہے ہیں۔ “ { یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْہِمْ } ” ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ کا ہاتھ ہے۔ “ اس بیعت کے اندر گویا تین ہاتھ تھے۔ رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ ‘ بیعت کرنے والے شخص کا ہاتھ اور اللہ کا ہاتھ۔ { فَمَنْ نَّـکَثَ فَاِنَّمَا یَنْکُثُ عَلٰی نَفْسِہٖ } ” تو اب جو کوئی اس کو توڑے گا تو اس کے توڑنے کا وبال اپنے اوپر ہی لے گا۔ “ { وَمَنْ اَوْفٰی بِمَا عٰہَدَ عَلَیْہُ اللّٰہَ فَسَیُؤْتِیْہِ اَجْرًا عَظِیْمًا } ” اور جو کوئی پورا کرے گا اس معاہدے کو جو وہ اللہ سے کر رہا ہے تو وہ اسے اجر عظیم عطا فرمائے گا۔ “ اس آیت کے مفہوم کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے سورة التوبة کی اس آیت کو ایک مرتبہ پھر سے دہرا لیں : { اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَط یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَـیَـقْتُلُوْنَ وَیُـقْتَلُوْنَقف وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرٰٹۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِط وَمَنْ اَوْفٰی بِعَہْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖط } آیت 111 ” یقینا اللہ نے خرید لی ہیں اہل ایمان سے ان کی جانیں بھی اور ان کے مال بھی اس قیمت پر کہ ان کے لیے جنت ہے۔ وہ جنگ کرتے ہیں اللہ کی راہ میں ‘ پھر قتل کرتے بھی ہیں اور قتل ہوتے بھی ہیں ‘ یہ وعدہ اللہ کے ذمے ہے سچا تورات ‘ انجیل اور قرآن میں۔ اور اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کو وفا کرنے والا کون ہے ؟ پس خوشیاں منائو اس بیع پر جس کا سودا تم نے اس کے ساتھ کیا ہے “۔ اب ان دونوں آیات کے باہمی ربط وتعلق کو اس طرح سمجھیں کہ سورة التوبة کی اس آیت میں ایک ” بیع “ سودے کی ترغیب دی گئی ہے جبکہ زیر مطالعہ آیت میں اس بیع کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ سورة التوبة کی مذکورہ بالا آیت میں بھی ب ی ع مادہ سے باب مفاعلہ بَایَعْتُمْ بِہٖ آیا ہے اور یہاں آیت زیر مطالعہ میں بھی اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ ۔ لفظ بیعت دراصل بیع سے ہی مشتق ہے۔ عربوں کے ہاں رواج تھا کہ دو فریق جب خریدو فروخت بیع کا کوئی معاملہ کرتے تو سودا پکا ہوجانے پر آپس میں مصافحہ کرتے تھے۔ یہ مصافحہ دراصل ” بیع “ طے ہوجانے کا اعلان سمجھا جاتا تھا۔ اسی لیے ایسے مصافحے کو ” بیعت “ کا نام دے دیا گیا۔ سورة التوبة کی مذکورہ بالا آیت میں اللہ اور بندے کے مابین ہونے والی بیع و شراء میں بندے کی مجبوری یہ ہے کہ وہ اس سودے کی بیعت براہ راست اللہ کے ہاتھ پر نہیں کرسکتا۔ اس لیے اسے یہ ” بیعت “ اللہ کے کسی نمائندے یعنی کسی انسان کے ہاتھ پر ہی کرنی پڑے گی اور اس طرح عملی طور پر اس سودے یا بیع میں تین فریق شامل ہوں گے ‘ یعنی اللہ ‘ سودا کرنے والا شخص اور وہ شخص جس کے ہاتھ پر اس سودے کی بیعت ہوگی۔ آج بالفرض اگر میں اپنا مال و جان اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا فیصلہ کرتا ہوں تو میرے اور اللہ کے درمیان چونکہ غیب کا پردہ حائل ہے اس لیے مجھے یہ معلوم کرنے کے لیے کوئی ” انسان “ ہی ڈھونڈنا پڑے گا کہ میں اپنی جان کب اور کیسے قربان کروں ؟ اور اپنا مال کس طریقے سے کہاں خرچ کروں ؟ صحابہ کرام رض کو یہ ” انسان “ اللہ کے رسول ﷺ کی شکل میں میسر تھا ‘ انہوں نے اپنے مال و جان کے سودے کی ” بیعت “ حضور ﷺ کے ہاتھ پر کررکھی تھی۔ چناچہ جب حضور ﷺ انہیں بتاتے تھے کہ اب اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ کارزار میں پہنچ جائو اور اب اپنے اموال حاضر کردو تو صحابہ رض خوشی خوشی آپ ﷺ کے ہر حکم پر لبیک کہتے تھے۔ بلکہ وہ تو منتظر رہتے تھے کہ کب حضور ﷺ انہیں حکم دیں اور کب انہیں اللہ کی امانت کو لوٹانے کی سعادت نصیب ہو۔ صحابہ رض کے قلوب و اذہان کی اس کیفیت کی تصویر سورة الأحزاب کی اس آیت میں دکھائی گئی ہے : { مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِج فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُز } آیت 23 ” اور اہل ایمان میں کچھ جواں مرد لوگ وہ ہیں جنہوں نے سچا کر دکھایا وہ وعدہ جو انہوں نے اللہ سے کیا تھا ‘ ان میں وہ بھی ہیں جو اپنی نذر پوری کرچکے ہیں اور ان میں کچھ وہ ہیں جو انتظار کر رہے ہیں “۔ گویا اللہ کے ساتھ مذکورہ سودے بیع وشراء کے بعد وہ جواں مرد اپنی جانیں اور اپنے مال اللہ کے حضور پیش کرنے کے لیے مسلسل بےتاب و بےقرار رہتے تھے۔ کسی شاعر نے اس خوبصورت مضمون کو تغزل کے رنگ میں یوں ادا کیا ہے : ؎وبالِ دوشِ ہے سر جسم ِناتواں پہ مگر لگا رکھا ہے ترے خنجر و سناں کے لیے !کہ اے محبوب ! ہم تو اپنے جسم ناتواں پر اپنے سر کے اس ” بوجھ “ کو صرف اس لیے اٹھائے پھر رہے ہیں کہ تو جب چاہے اور جہاں چاہے بس اسی وقت وہیں پر ہم تیری راہ میں اسے قربان کردیں۔ اب تو ہم زندہ ہی اس ” انتظار “ میں ہیں کہ کب تیرا اشارہ ہو اور کب ہم اپنے سر کو کٹوا کر تیری امانت کے اس بوجھ سے سبکدوش ہوں۔ اب رسول اللہ ﷺ کے بعد قیامت تک کے زمانے کے لیے بھی اس لائحہ عمل کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے حضور ﷺ کے بعد اس نوعیت کی بیعت جس کسی کے ہاتھ پر بھی ہوگی وہ حضور ﷺ کا کوئی امتی ہی ہوگا۔ لہٰذا اس کی اطاعت مستقل بالذات اطاعت نہیں ہوگی بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کے دائرے کے اندر رہ کر ہوگی۔ چناچہ اب اس نوعیت کی بیعت کسی ایسے داعی کے ہاتھ پر ہی ہونی چاہیے جو صرف اور صرف اللہ کے نام پر کھڑا ہو اور لوگوں کو قرآن اور دین کے نام پر پورے خلوص سے دعوت دے۔ پھر وہ اس دعوت پر لبیک کہنے والے افراد کو اقامت دین کی جدوجہد کے لیے ایک جمعیت کی شکل میں منظم کرنے کی کوشش بھی کرے۔ ظاہر ہے ” جمعیت “ کے بغیر اقامت دین کے لیے موثر اور منظم جدوجہد ممکن نہیں۔ جہاں تک جماعت سازی کے طریق کار کا تعلق ہے آج اس کے لیے بہت سے طریقے رائج ہیں۔ بعض تنظی میں فارم کے ذریعے رکنیت سازی کرتی ہیں ‘ بعض دستخطی مہم چلا کر ممبرز بناتی ہیں۔ کئی جماعتیں اپنے امیر کا انتخاب استصوابِ رائے کے ذریعے سے کرتی ہیں ‘ پھر کہیں دو سال کے لیے امیر منتخب ہوتا ہے اور کہیں چار سال کے لیے ‘ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب طریقے جائز اور مباح ہیں ‘ لیکن جماعت سازی کا منصوص ‘ مسنون اور ماثور طریقہ بیعت کا طریقہ ہی ہے۔ غزوہ احزاب کے موقع پر جب صحابہ کرام رض خندق کھودنے میں مصروف تھے تو وہ سب مل کر بلند آواز میں یہ شعر پڑھتے تھے : نَحْنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا مُحَمَّدًا عَلَی الْجِہَادِ مَا بَقِیْنَا اَبَدًا 1کہ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد ﷺ کے ہاتھ پر جہاد کی بیعت کر رکھی ہے اور اب یہ جہاد جاری رہے گا جب تک ہماری جان میں جان ہے۔ جماعت سازی کے لیے بیعت کا طریقہ نص ِقرآنی اور نص حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں مختلف مواقع پر صحابہ رض سے بیعت لی۔ حضور ﷺ کے بعد خلافت راشدہ کا سلسلہ بھی بیعت کی بنیاد پر چلا۔ خلیفہ کے انتخاب کے لیے جب طے شدہ طریقہ کار کے مطابق مشاورت ہوجاتی اور ایک فیصلہ کرلیا جاتا تو اس فیصلے پر باقاعدہ اعتماد کا اظہار لوگ بیعت کے ذریعے سے ہی کرتے تھے۔ پھر آگے چل کر جب خلافت کے بارے میں مسلمانوں میں اختلافات پیدا ہوئے تب بھی حضرت حسین رض اور حضرت عبداللہ بن زبیر رض نے اپنی اپنی جمعیتوں کی تشکیل بیعت کی بنیاد پر ہی کی تھی۔ حتیٰ کہ دور ملوکیت میں بھی مسلمان بادشاہ عوام سے اعتماد کا ووٹ بھی بیعت کے ذریعے سے ہی لیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ پچھلی صدی میں مسلمانوں کے اندر جتنی جہادی تحریکیں اٹھیں ان کی رکنیت سازی بھی بیعت کی بنیاد پر کی گئی۔ مثلاً سید احمد بریلوی رح کی سکھوں کے خلاف ‘ مہدی سوڈانی کی انگریزوں کے خلاف اور سنوسیوں کی اطالویوں کے خلاف جہادی تحریکوں کو بیعت کی بنیاد پر ہی منظم کیا گیا۔ صوفیاء کے ہاں بھی اپنے مریدین کے تزکیہ نفس کے لیے ” بیعت ارشاد “ کا سلسلہ رائج ہے۔ بہر حال اقامت دین کی جدوجہد کے لیے تنظیم سازی اور جمعیت ناگزیر ہے ‘ کیونکہ اکیلا چنا تو بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا۔ البتہ کسی داعی کی دعوت پر لبیک کہنے سے پہلے اس کی شخصیت ‘ اس کے معمولات و معاملات ‘ معیارِ تقویٰ ‘ دین و دنیا کے بارے میں اس کے علم و شعور ‘ اقامت دین کے لیے اس کی جدوجہد کے طریق کار وغیرہ کے بارے میں اچھی طرح سے تحقیق کر لیجیے۔ پھر جب کسی شخصیت کے بارے میں دل مطمئن ہوجائے کہ واقعی وہ اقامت دین کی جدوجہد کے بارے میں مخلص ہے اور باقی ضروری شرائط پر بھی پورا اترتا ہے تو اس کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اس کا ساتھ دیجیے اور اس مقصد کے حصول کے لیے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت کے اندر رہتے ہوئے اس کی اطاعت کو اپنے اوپر لازم کیجیے کیونکہ ” سمع و اطاعت “ کے بغیر نہ تو کوئی جمعیت قائم ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس کے بغیر کوئی تنظیم اپنے ہدف کے حصول کے لیے موثر جدوجہد کرسکتی ہے۔
إن الذين يبايعونك إنما يبايعون الله يد الله فوق أيديهم فمن نكث فإنما ينكث على نفسه ومن أوفى بما عاهد عليه الله فسيؤتيه أجرا عظيما
سورة: الفتح - آية: ( 10 ) - جزء: ( 26 ) - صفحة: ( 512 )Surah fatah Ayat 10 meaning in urdu
اے نبیؐ، جو لوگ تم سے بیعت کر رہے تھے وہ دراصل اللہ سے بیعت کر رہے تھے ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا اب جو اس عہد کو توڑے گا اُس کی عہد شکنی کا وبال اس کی اپنی ہی ذات پر ہوگا، اور جو اُس عہد کو وفا کرے گا جو اس نے اللہ سے کیا ہے، اللہ عنقریب اس کو بڑا اجر عطا فرمائے گا
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- کیا انہوں نے اس کو نہیں دیکھا جو ان کے آگے اور پیچھے ہے یعنی
- کیا تم کو معلوم نہیں کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین
- یہ خدا کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اور خدا بڑے فضل
- (ان لوگوں کے لئے) بہشتِ جاودانی (ہیں) جن میں وہ داخل ہوں گے۔ وہاں ان
- جو موسیٰ اور ہارون کا مالک ہے
- جب اس کو ہماری آیتیں سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو اگلے
- (اے محمدﷺ) ہم نے تم کو کوثر عطا فرمائی ہے
- اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں
- تو میرے (ممتاز) بندوں میں شامل ہو جا
- (لوگو) اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو۔ وہ حد سے
Quran surahs in English :
Download surah fatah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah fatah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter fatah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers