Surah Maidah Ayat 10 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ المائدہ کی آیت نمبر 10 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah Maidah ayat 10 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ﴾
[ المائدة: 10]

Ayat With Urdu Translation

اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہ جہنمی ہیں

Surah Maidah Urdu

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


" اسلام " زبان سے عہد اور " ایمان " عمل سے اطاعت اس عہد کا اظہار اس دین عظیم اور اس رسول کریم کو بھیج کر جو احسان اللہ تعالیٰ نے اس امت پر کیا ہے، اسے یاد دلا رہا ہے اور اس عہدے پر مضبوط رہنے کی ہدایت کر رہا ہے جو مسلمانوں نے اللہ کے پیغمبر ﷺ کی تابعداری اور امداد کرنے، دین پر قائم رہنے، اسے قبول کرلینے، اسے دوسروں تک پہنچانے کیلئے کیا ہے، اسلام لاتے وقت انہی چیزوں کا ہر مومن اپنی بیعت میں اقرار کرتا تھا، چناچہ صحابہ کے الفاظ ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی کہ " ہم سنتے رہیں گے اور مانتے چلے جائیں گے، خواہ جی چاہے خواہ نہ چاہے، خواہ دوسروں کو ہم پر ترجیح دی جائے اور کسی لائق شخص سے ہم کسی کام کو نہیں چھینیں گے۔ " باری تعالیٰ عزوجل کا ارشاد ہے کہ تم کیوں ایمان نہیں لاتے ؟ حالانکہ رسول ﷺ تمہیں رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہے ہیں، اگر تمہیں یقین ہو اور اس نے تم سے عہد بھی لے لیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس آیت میں یہودیوں کو یاد دلایا جا رہا ہے کہ تم سے حضور ﷺ کی تابعداری کے قول قرار ہوچکے ہیں، پھر تمہاری نافرمانی کے کیا معنی ؟ یہ بھی کہا گیا ہے کہ " حضرت آدم کی پیٹھ سے نکال کر جو عہد اللہ رب العزت نے بنو آدم سے لیا تھا، اسے یاد دلایا جا رہا ہے جس میں فرمایا تھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے اقرار کیا کہ ہاں ہم اس پر گواہ ہیں، لیکن پہلا قول زیادہ ظاہر ہے، سدی اور ابن عباس سے وہی مروی ہے اور امان اب جریر نے بھی اسی کو مختار بتایا ہے۔ ہر حال میں ہر حال میں انسان کو اللہ کا خوف رکھنا چاہئے۔ دلوں اور سینوں کے بھید سے وہ واقف ہے۔ ایمان والو لوگوں کو دکھانے کو نہیں بلکہ اللہ کی وجہ سے حق پر قائم ہوجاؤ اور عدل کے ساتھ صحیح گواہ بن جاؤ۔ بخاری و مسلم میں حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ میرے باپ نے مجھے ایک عطیہ دے رکھا تھا، میری ماں عمرہ بنت رواحہ نے کہا کہ میں تو اس وقت تک مطمئن نہیں ہونے لگی جب تک کہ تم اس پر رسول اللہ ﷺ کو گواہ نہ بنا لو، میرے باپ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے واقعہ بیان کیا تو آپ نے دریافت فرمایا کیا اپنی دوسری اولاد کو بھی ایسا ہی عطیہ دیا ہے ؟ جواب دیا کہ نہیں تو آپ نے فرمایا اللہ سے ڈرو، اپنی اولاد میں عدل کیا کرو، جاؤ میں کسی ظلم پر گواہ نہیں بنتا۔ چناچہ میرے باپ نے وہ صدقہ لوٹا لیا، پھر فرمایا دیکھو کسی کی عداوت اور ضد میں آکر عدل سے نہ ہٹ جانا۔ دوست ہو یا دشمن ہو، تمہیں عدل و انصاف کا ساتھ دینا چاہئے، تقوے سے زیادہ قریب یہی ہے، ھو کی ضمیر کے مرجع پر دلالت فعل نے کردی ہے جیسے کہ اس کی نظریں قرآن میں اور بھی ہے اور کلام عرب میں بھی، جیسے اور جگہ ہے۔ آیت ( وَاِنْ قِيْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا هُوَ اَزْكٰى لَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ )النور:28) یعنی اگر تم کسی مکان میں جانے کی اجازت مانگو اور نہ ملے بلکہ کہا جائے کہ واپس جاؤ تو تم واپس چلے جاؤ یہی تمہارے لئے زیادہ پاکیزگی کا باعث ہے۔ پس یہاں ھو کی ضمیر کا مرجع مذکور نہیں، لیکن فعل کی دلالت موجود ہے یعنی لوٹ جانا اسی طرح مندرجہ آیت میں یعنی عدل کرنا۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہاں پر اقرب افعل التفضیل کا صیغہ ایسے موقعہ پر ہے کہ دوسری جانب اور کوئی چیز نہیں، جیسے اس آیت میں ہے۔ ( اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ يَوْمَىِٕذٍ خَيْرٌ مُّسْتَــقَرًّا وَّاَحْسَنُ مَقِيْلًا ) 25۔ الفرقان:24) اور جیسے کہ کسی صحابیہ کا حضرت عمر سے کہنا کہ۔ انت واغلظ من رسول اللہ ﷺ اللہ سے ڈرو ! وہ تمہارے عملوں سے باخبر ہے، ہر خیرو شر کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ وہ ایمان والوں، نیک کاروں سے ان کے گناہوں کی بخشش کا اور انہیں اجر عظیم یعنی جنت دینے کا وعدہ کرچکا ہے۔ گو دراصل وہ اس رحمت کو صرف فعل الٰہی سے حاصل کرینگے لیکن رحمت کی توجہ کا سبب ان کے نیک اعمال بنے۔ پس حقیقتاً ہر طرح قابل تعریف و ستائش اللہ ہی ہے اور یہ سب کچھ اس کا فضل و رحم ہے۔ حکمت و عدل کا تقاضا یہی تھا کہ ایمانداروں اور نیک کاروں کو جنت دی جائے اور کافروں اور جھٹلانے والوں کو جہنم واصل کیا جائے چناچہ یونہی ہوگا۔ پھر اپنی ایک اور نعمت یاد دلاتا ہے، جس کی تفصیل یہ ہے، حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ ایک منزل میں اترے، لوگ ادھر ادھر سایہ دار درختوں کی تلاش میں لگ گئے آپ نے ہتھیار اتار کر ایک درخت پر لٹکا دئے۔ ایک اعرابی نے آکر آپ کی تلوار اپنے ہاتھ میں لے لی اور اسے کھینچ کر آنحضرت ﷺ کے پاس کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا اب بتا کہ مجھ سے تجھے کون بچا سکتا ہے ؟ آپ نے فوراً بعد جواب دیا کہ اللہ عزوجل، اس نے پھر یہی سوال کیا اور آپ نے پھر یہی جواب دیا، تیسری مرتبہ کے جواب کے ساتھ ہی اس کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی، اب آپ نے صحابہ کو آواز دی اور جب وہ آگئے تو ان سے سارا واقعہ کہہ دیا، اعرابی اس وقت بھی موجود تھا، لیکن آپ نے اس سے کوئی بدلہ نہ لیا۔ قتادہ فرماتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے دھوکے سے حضور ﷺ کو قتل کرنا چاہا تھا اور انہوں نے اس اعرابی کو آپ کی گھات میں بھیجا تھا لیکن اللہ نے اسے ناکام اور نامراد رکھا فالحمدللہ۔ اس اعرابی کا نام صحیح احادیث میں غوث بن حارث آیا ہے۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ یہودیوں نے آپ کو اور آپ کے صحابہ کو قتل کرنے کے ارادہ سے زہر ملا کر کھانا پکا کر دعوت کردی، لیکن اللہ نے آپ کو آگاہ کردیا اور آپ بچ رہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ کعب بن اشرف اور اس کے یہودی ساتھیوں نے اپنے گھر میں بلا کر آپ کو صدمہ پہنچانا چاہا تھا۔ ابن اسحاق وغیرہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد بنو نضیر کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے چکی کا پاٹ قلعہ کے اوپر سے آپ کے سر پر گرانا چاہتا تھا جبکہ آپ عامری لوگوں کی دیت کے لینے کیلئے ان کے پاس گئے تھے تو ان شریروں نے عمرو بن حجاش بن کعب کو اس بات پر آمادہ کیا تھا کہ ہم حضور ﷺ کو نیچے کھڑا کر کے باتوں میں مشغول کرلیں گے تو اوپر سے یہ پھینک کر آپ کا کام تمام کردینا لیکن راستے میں ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر ﷺ کو ان کی شرارت و خباثت سے آگاہ کردیا، آپ مع اپنے صحابہ کے وہیں سے پلٹ گئے، اسی کا ذکر اس آیت میں ہے، مومنوں کو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے جو کفایت کرنے والا، حفاظت کرنے والا ہے۔ اس کے بعد حضور ﷺ اللہ کے حکم سے بنو نضیر کی طرف مع لشکر گئے، محاصرہ کیا، وہ ہارے اور انہیں جلا وطن کردیا۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 8 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآء بالْقِسْطِ ز یہاں پر سورة النساء کی آیت 135 کا حوالہ ضروری ہے۔ سورة النساء کی آیت 135 اور زیر مطالعہ آیت المائدۃ : 8 میں ایک ہی مضمون بیان ہوا ہے ‘ فرق صرف یہ ہے کہ ترتیب عکسی ہے دونوں سورتوں کی نسبت زوجیت بھی مدّ نظر رہے۔ وہاں الفاظ آئے ہیں : یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بالْقِسْطِ شُہَدَاءَ لِلّٰہِ اور یہاں الفاظ ہیں : یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآء بالْقِسْطِ ز۔ ایک حقیقت تو میں نے اس وقت بیان کردی تھی کہ اس سے یہ معلوم ہوا کہ گویا اللہ اور قسط مترادف ہیں۔ ایک جگہ فرمایا : قسط کے لیے کھڑے ہوجاؤ اور دوسری جگہ فرمایا : اللہ کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔ اسی طرح ایک جگہ اللہ کے گواہ بن جاؤ اور دوسری جگہ قسط کے گواہ بن جاؤ فرمایا۔ تو گویا اللہ اور قسط ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر آئے ہیں۔ دوسرا اہم نکتہ اس آیت سے ہمارے سامنے یہ آرہا ہے کہ معاشرے میں عدل قائم کرنے کا حکم ہے۔ انسان فطرتاً انصاف پسند ہے۔ انصاف عام انسان کی نفسیات اور اس کی فطرت کا تقاضا ہے۔ آج پوری نوع انسانی انصاف کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ انصاف ہی کے لیے انسان نے بادشاہت سے نجات حاصل کی اور جمہوریت کو اپنایا تاکہ انسان پر انسان کی حاکمیت ختم ہو ‘ انصاف میسر آئے ‘ مگر جمہوریت کی منزل سراب ثابت ہوئی اور ایک دفعہ انسان پھر سرمایہ دارانہ نظام Capitalism کی لعنت میں گرفتار ہوگیا۔ اب سرمایہ دار اس کے آقا اور ڈکٹیٹربن گئے۔ اس لعنت سے نجات کے لیے اس نے کمیونزم Communism کا دورازہ کھٹکھٹایا مگر یہاں بھی متعلقہ پارٹی کی آمریت One Party Dictatorship اس کی منتظر تھی۔ گویا رست ازیک بند تا افتاد دربندے دگر یعنی ایک مصیبت سے نجات پائی تھی کہ دوسری آفت میں گرفتار ہوگئے۔ اب انسان عدل اور انصاف حاصل کرنے کے لیے کہاں جائے ؟ کیا کرے ؟ یہاں پر ایک روشنی تو انسان کو اپنی فطرت کے اندر سے ملتی ہے کہ اس کی فطرت انصاف کا تقاضا کرتی ہے اور اپنی فطرت کے اس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے وہ عدل قائم کرنے کے لیے کھڑا ہوجائے ‘ مگر اس سے اوپر بھی ایک منزل ہے اور وہ یہ ہے کہ العدل اللہ کی ذات ہے جس کا دیا ہوا نظام ہی عادلانہ نظام ہے۔ ہم اس کے بندے ہیں ‘ اس کے وفادار ہیں ‘ لہٰذا اس کے نظام کو قائم کرنا ہمارے ذمے ہے ‘ ہم پر فرض ہے۔ چناچہ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآء بالْقِسْطِز میں اسی بلند تر منزل کا ذکر ہے۔ یہ صرف فطرت انسانی ہی کا تقاضا نہیں بلکہ تمہاری عبدیت کا تقاضا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کے رشتے کا تقاضا ہے کہ پوری قوت کے ساتھ ‘ اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ ‘ جو بھی اسباب و ذرائع میسر ہوں ان سب کو جمع کرکے کھڑے ہوجاؤ اللہ کے لیے ! یعنی اللہ کے دین کے گواہ بن کر کھڑے ہوجاؤ۔ اور اس دین میں جو تصور ہے عدل ‘ انصاف اور قسط کا اس عدل و انصاف اور قسط کو قائم کرنے کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔ یہ ہے اس حکم کا تقاضا۔ اب دیکھئے ‘ وہاں سورۃ النساء آیت 135 میں کیا تھا : اے ایمان والو ! انصاف کے علمبردار اور اللہ واسطے کے گواہ بن جاؤ۔ وَلَوْ عَلٰی اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ اگرچہ اس کی تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین یا رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔انصاف سے روکنے والے عوامل میں سے ایک اہم عامل مثبت تعلق یعنی محبت ہے۔ اپنی ذات سے محبت ‘ والدین اور رشتہ داروں وغیرہ کی محبت انسان کو سوچنے پر مجبور کردیتی ہے کہ میں اپنے خلاف کیسے فتویٰ دے دوں ؟ اپنے ہی والدین کے خلاف کیونکر فیصلہ سنا دوں ؟ سچی گواہی دے کر اپنے عزیز رشتہ دارکو کیسے پھانسی چڑھا دوں ؟ لہٰذا وَلَوْ عَلٰی اَنْفُسِکُمْ۔۔ فرما کر اس نوعیت کی تمام عصبیتوں کی جڑکاٹ دی گئی کہ بات اگر حق کی ہے ‘ انصاف کی ہے تو پھر خواہ وہ تمہارے اپنے خلاف ہی کیوں نہ جا رہی ہو ‘ تمہارے والدین پر ہی اس کی زد کیوں نہ پڑ رہی ہو ‘ تمہارے عزیز رشتہ دار ہی اس کی کاٹ کے شکار کیوں نہ ہو رہے ہوں ‘ اس کا اظہار بغیر کسی مصلحت کے ڈنکے کی چوٹ پر کرنا ہے۔ اس سلسلے میں دوسرا عامل منفی تعلق ہے ‘ یعنی کسی فرد یا گروہ کی دشمنی ‘ جس کی وجہ سے انسان حق بات کہنے سے پہلو تہی کرجاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ بات تو حق کی ہے مگر ہے تو وہ میرا دشمن ‘ لہٰذا اپنے دشمن کے حق میں آخر کیسے فیصلہ دے دوں ؟ آیت زیر نظر میں اس عامل کو بیان کرتے ہوئے دشمنی کی بنا پر بھی کتمانِ حق سے منع کردیا گیا :وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْاقف ہُوَ اَقْرَبُ للتَّقْوٰی ز وَاتَّقُوا اللّٰہَط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ rّ تمہارا کوئی عمل اور کوئی قول اس کے علم سے خارج نہیں ‘ لہٰذا ہر وقت چوکس رہو ‘ چوکنے رہو۔ آیت زیر نظر اور سورة النساء کی آیت 135 کے معانی و مفہوم کا باہمی ربط اور الفاظ کی عکسی اور reciprocal ترتیب کا حسن لائقِ توجہ ہے۔

والذين كفروا وكذبوا بآياتنا أولئك أصحاب الجحيم

سورة: المائدة - آية: ( 10 )  - جزء: ( 6 )  -  صفحة: ( 109 )

Surah Maidah Ayat 10 meaning in urdu

رہے وہ لوگ جو کفر کریں اور اللہ کی آیات کو جھٹلائیں، تو وہ دوزخ میں جانے والے ہیں


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. اور جو لوگ اُن سے پہلے ہو چکے ہیں ہم نے اُن کو بھی آزمایا
  2. اور بیہودہ بات نہیں ہے
  3. اور اگر تمہاری عورتوں میں سے کوئی عورت تمہارے ہاتھ سے نکل کر کافروں کے
  4. اگر آسمان اور زمین میں خدا کے سوا اور معبود ہوتے تو زمین وآسمان درہم
  5. ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لئے اور ناپاک مرد ناپاک عورتوں کے لئے۔ اور پاک
  6. کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا
  7. کہہ دو کہ جن کو تم خدا کے سوا (معبود) خیال کرتے ہو ان کو
  8. الٓمٓ
  9. (اے اہل عرب) کیا تمہارے کافر ان لوگوں سے بہتر ہیں یا تمہارے لئے (پہلی)
  10. وہ کہنے لگے کہ لوط اگر تم باز نہ آؤ گے تو شہر بدر کردیئے

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah Maidah with the voice of the most famous Quran reciters :

surah Maidah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Maidah Complete with high quality
surah Maidah Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah Maidah Bandar Balila
Bandar Balila
surah Maidah Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah Maidah Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah Maidah Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah Maidah Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah Maidah Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah Maidah Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah Maidah Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah Maidah Fares Abbad
Fares Abbad
surah Maidah Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah Maidah Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah Maidah Al Hosary
Al Hosary
surah Maidah Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah Maidah Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Friday, May 10, 2024

لا تنسنا من دعوة صالحة بظهر الغيب