Surah Hadid Ayat 10 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ أُولَٰئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ﴾
[ الحديد: 10]
اور تم کو کیا ہوا ہے کہ خدا کے رستے میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ آسمانوں اور زمین کی وراثت خدا ہی کی ہے۔ جس شخص نے تم میں سے فتح (مکہ) سے پہلے خرچ کیا اور لڑائی کی وہ (اور جس نے یہ کام پیچھے کئے وہ) برابر نہیں۔ ان کا درجہ ان لوگوں سے کہیں بڑھ کر ہے جنہوں نے بعد میں خرچ (اموال) اور (کفار سے) جہاد وقتال کیا۔ اور خدا نے سب سے (ثواب) نیک (کا) وعدہ تو کیا ہے۔ اور جو کام تم کرتے ہو خدا ان سے واقف ہے
Surah Hadid Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) فتح سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک فتح مکہ ہے۔ بعض نے صلح حدیبیہ کو فتح مبین کا مصداق سمجھ کر اسے مرادلیا ہے۔ بہرحال صلح حدیبیہ یا فتح مکہ سے قبل مسلمان تعداد اور قوت کےلحاظ سے بھی کم ترتھے اور مسلمانوں کی مالی حالت بھی بہت کمزور تھی۔ ان حالات میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اورجہاد میں حصہ لینا، دونوں کام نہایت مشکل اور بڑے دل گردے کا کام تھا، جب کہ فتح مکہ کے بعد یہ صورت حال بدل گئی۔ مسلمان قوت وتعداد میں بڑھتے چلے گئے اوران کی مالی حالت بھی پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہو گئی۔ اس میں اللہ تعالی نے دونوں ادوار کے مسلمانوں کی بابت فرمایا کہ یہ اجر میں برابرنہیں ہو سکتے۔
( 2 ) کیونکہ پہلوں کا انفاق اورجہاد، دونوں کام نہایت کٹھن حالات میں ہوئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل فضل وعزم کو دیگر لوگوں کے مقابلے میں مقدم رکھنا چاہیے۔ اسی لیے اہل سنت کےنزدیک شرف وفضل میں حضرت ابوبکر صدیق ( رضي الله عنه ) سب سے مقدم ہیں، کیونکہ مومن اول بھی وہی ہیں اور منفق اول اور مجاہد اول بھی وہی۔ اس لیے رسول اللہ ﹲ نے حضرت صدیق اکبر ( رضي الله عنه ) کواپنی زندگی اورموجودگی میں نماز کے لیے آگے کیا، اور اسی بنیاد پر مومنوں ( صحابہ کرام ) نے انہیں استحقاق خلافت میں مقدم رکھا رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ۔
( 3 ) اس میں وضاحت فرما دی کہ صحابہ کرام ( رضي الله عنهم ) کے درمیان شرف وفضل میں تفاوت تو ضرور ہے لیکن تفاوت درجات کا مطلب یہ نہیں کہ بعد میں مسلمان ہونے والے صحابہ کرام ( رضي الله عنهم ) ایمان واخلاق کے اعتبار سے بالکل ہی گئے گزرے تھے، جیساکہ بعض حضرات، حضرت معاویہ ( رضي الله عنه ) ،ان کے والد حضرت ابوسفیان ( رضي الله عنه ) اور دیگر بعض ایسے ہی جلیل القدر صحابہ کے بارے میں ہرزہ سرائی یا انہیں طلقاء کہہ کر ان کی تنقیص واہانت کرتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کرام ( رضي الله عنهم ) کے بارے میں فرمایا ہے کہ لا تَسُبُّوا أَصْحَابِي میرے صحابہ پر سب وشتم نہ کرو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ جتنا سونا بھی اللہ کی راہ میں خرچ کردے تو وہ میرے صحابی کے خرچ کیےہوئے ایک مد بلکہ نصف مد کے بھی برابر نہیں۔ ( صحيح بخاري، وصحيح مسلم ، كتاب فضائل الصحابة )۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
ایمان لانے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم اللہ تبارک و تعالیٰ خود اپنے اوپر اور اپنے رسول ﷺ پر ایمان لانے اور اس پر مضبوطی اور ہمیشگی کے ساتھ جم کر رہنے کی ہدایت فرماتا ہے اور اپنی راہ میں خیرات کرنے کی رغبت دلاتا ہے جو مال ہاتھوں ہاتھ تمہیں اس نے پہنچایا ہو تم اس کی اطاعت گذاری میں اسے خرچ کرو اور سمجھ لو کہ جس طرح دوسرے ہاتھوں سے تمہیں ملا ہے اسی طرح عنقریب تمہارے ہاتھوں سے دوسرے ہاتھوں میں چلا جائے گا اور تم پر حساب اور عتاب رہ جائے گا اور اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ تیرے بعد تیرا وارث ممکن ہے نیک ہو اور وہ تیرے ترکے کو میری راہ میں خرچ کر کے مجھ سے قربت حاصل کرے اور ممکن ہے کہ وہ بد اور اپنی مستی اور سیاہ کاری میں تیرا اندوختہ فنا کر دے اور اس کی بدیوں کا باعث تو بنے نہ تو چھوڑتا نہ اڑاتا۔ حضور ﷺ سورة ( الھکم ) پڑھ کر فرمانے لگے انسان گو کہتا رہتا ہے یہ بھی میرا مال ہے یہ بھی میرا مال ہے حالانکہ دراصل انسان کا مال وہ ہے جو کھالیا پہن لیا صدقہ کردیا کھایا ہوا فنا ہوگیا پہنا ہوا پرانا ہو کر برباد ہوگیا، ہاں راہ اللہ دیا ہوا بطور خزانہ کے جمع رہا ( مسلم ) اور جو باقی رہے گا وہ تو اوروں کا مال ہے تو تو اسے جمع کر کے چھوڑ جانے والا ہے۔ پھر ان ہی دونوں باتوں کی ترغیب دلاتا ہے اور بہت بڑے اجر کا وعدہ دیتا ہے۔ پھر فرماتا ہے تمہیں ایمان سے کون سی چیز روکتی ہے رسول ﷺ تم میں موجود ہیں وہ تمہیں ایمان کیطرف بلا رہے ہیں دلیلیں دے رہے ہیں اور معجزے دکھا رہے ہیں، صحیح بخاری کی شرح کے ابتدائی حصہ کتاب الایمان میں ہم یہ حدیث بیان کر آئے ہیں کہ حضور ﷺ نے پوچھا سب سے زیادہ اچھے ایمان والے تمہارے نزدیک کون ہیں ؟ کہا فرشتے، فرمایا وہ تو اللہ کے پاس ہی ہیں پھر ایمان کیوں نہ لاتے ؟ کہا پھر انبیاء فرمایا ان پر تو وحی اور کلام اللہ اترتا ہے وہ کیسے ایمان نہ لاتے ؟ کہا پھر ہم فرمایا واہ تم ایمان سے کیسے رک سکتے تھے، میں تم میں زندہ موجود ہوں، سنو بہترین اور عجیب تر ایماندار وہ لوگ ہیں جو تمہارے بعد آئیں گے، صحیفوں میں لکھا دیکھیں گے اور ایمان قبول کریں گے، سورة بقرہ کے شروع میں آیت ( الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بالْغَيْبِ وَ يُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ ۙ ) 2۔ البقرة :3) کی تفسیر میں بھی ہم ایسی احادیث لکھ آئے ہیں، پھر انہیں روز میثاق کا قول وقرار یاد دلاتا ہے جیسے اور آیت میں ہے ( وَاذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَمِيْثَاقَهُ الَّذِيْ وَاثَقَكُمْ بِهٖٓ ۙ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ۡ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۢ بِذَات الصُّدُوْرِ ) 5۔ المآئدہ :7) ، اس سے مراد رسول اللہ ﷺ سے بیعت کرنا ہے اور امام ابن جریر فرماتے ہیں مراد وہ میثاق ہے جو حضرت آدم کی پیٹھ میں ان سے لیا گیا تھا، مجاہد کا بھی یہی مذہب ہے واللہ اعلم۔ وہ اللہ جو اپنے بندے پر روشن حجتیں اور بہترین دلائل اور عمدہ تر آیتیں نازل فرماتا ہے تاکہ ظلم و جہل کی گھنگھور گھٹاؤں اور رائے قیاس کی بدترین اندھیریوں سے تمہیں نکال کر نورانی اور روشن صاف اور سیدھی راہ حق پر لا کھڑا کر دے۔ اللہ رؤف ہے ساتھ ہی رحیم ہے یہ اس کا سلوک اور کرم ہے کہ لوگوں کی رہنمائی کے لئے کتابیں اتاریں، رسول بھیجے، شکوک و شبہات دور کردیئے، ہدایت کی وضاحت کردی۔ ایمان اور خیرات کا حکم کر کے پھر ایمان کی رغبت دلا کر اور یہ بیان فرما کر کہ ایمان نہ لانے کا اب کوئی عذر میں نے باقی نہیں رکھا پھر صدقات کی رغبت دلائی، اور فرمایا میری راہ میں خرچ کرو اور فقیری سے نہ ڈرو، اس لئے کہ جس کی راہ میں تم خرچ کر رہے ہو وہ زمین و آسمان کے خزانوں کا تنہا مالک ہے، عرش و کرسی اسی کی ہے اور وہ تم سے اس خیرات کے بدلے انعام کا وعدہ کرچکا ہے۔ فرماتا ہے آیت ( وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهٗ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ 39 ) 34۔ سبأ :39) جو کچھ تم راہ اللہ دو گے اس کا بہترین بدلہ وہ تمہیں دے گا اور روزی رساں درحقیقت وہی ہے اور فرماتا ہے ( مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍ 96 ) 16۔ النحل:96) اگر یہ فانی مال تم خرچ کرو گے وہ اپنے پاس کا ہمیشگی والا مال تمہیں دے گا۔ توکل والے خرچ کرتے رہتے ہیں اور مالک عرش انہیں تنگی ترشی سے محفوظ رکھتا ہے، انہیں اس بات کا اعتماد ہوتا ہے کہ ہمارے فی سبیل اللہ خرچ کردہ مال کا بدلہ دونوں جہان میں ہمیں قطعاً مل کر رہے گا۔ پھر اس امر کا بیان ہو رہا ہے کہ فتح مکہ سے پہلے جن لوگوں نے راہ اللہ خرچ کیا اور جہاد کیا اور جن لوگوں نے یہ نہیں کیا گو بعد فتح مکہ کیا ہو یہ دونوں برابر نہیں ہیں۔ اس وجہ سے بھی کہ اس وقت تنگی ترشی زیادہ تھی اور قوت طاقت کم تھی اور اس لئے بھی کہ اس وقت ایمان وہی قبول کرتا تھا جس کا دل ہر میل کچیل سے پاک ہوتا تھا۔ فتح مکہ کے بعد تو اسلام کو کھلا غلبہ ملا اور مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی اور فتوحات کی وسعت ہوئی ساتھ ہی مال بھی نظر آنے لگا، پس اس وقت اور اس وقت میں جتنا فرق ہے اتنا ہی ان لوگوں اور ان لوگوں کے اجر میں فرق ہے، انہیں بہت بڑے اجر ملیں گے گو دونوں اصل بھلائی اور اصل اجر میں شریک ہیں، بعض نے کہا ہے فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے۔ اس کی تائید مسند احمد کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت خالد بن ولید اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف میں کچھ اختلاف ہوگیا جس میں حضرت خالد نے فرمایا تم اسی پر اکڑ رہے ہو کہ ہم سے کچھ دن پہلے اسلام لائے۔ جب حضور ﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا میرے صحابہ کو میرے لئے چھوڑ دو ، اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم احد کے یا کسی اور پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرو تو بھی ان کے اعمال کو پہنچ نہیں سکتے۔ ظاہر ہے کہ یہ واقعہ حضرت خالد کے مسلمان ہوجانے کے بعد کا ہے اور آپ صلح حدیبیہ کے بعد اور فتح مکہ سے پہلے ایمان لائے تھے اور یہ اختلاف جس کا ذکر اس روایت میں ہے بنو جذیمہ کے بارے میں ہوا تھا حضور ﷺ نے فتح مکہ کے بعد حضرت خالد کی امارت میں اس کی طرف ایک لشکر بھیجا تھا جب وہاں پہنچے تو ان لوگوں نے پکارنا شروع کیا ہم مسلمان ہوگئے ہم صابی ہوئے یعنی بےدین ہوئے، اس لئے کہ کفار مسلمانوں کو یہی لفظ کہا کرتے تھے حضرت خالد نے غالباً اس کلمہ کا اصلی مطلب نہ سمجھ کر ان کے قتل کا حکم دے دیا بلکہ ان کے جو لوگ گرفتار کئے گئے تھے انہیں قتل کر ڈالنے کا حکم دیا اس پر حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت عبداللہ بن عمر نے ان کی مخالفت کی اس واقعہ کا مختصر بیان اوپر والی حدیث میں ہے۔ صحیح حدیث میں ہے میرے صحابہ کو برا نہ کہو اس کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو بھی ان کے تین پاؤ اناج کے ثواب کو نہیں پہنچے گا بلکہ ڈیڑھ پاؤ کو بھی نہ پہنچے گا۔ ابن جریر میں ہے حدیبیہ والے سال ہم حضور ﷺ کے ساتھ جب عسفان میں پہنچے تو آپ نے فرمایا ایسے لوگ بھی آئیں گے کہ تم اپنے اعمال کو ان کے اعمال کے مقابلہ میں حقیر سمجھنے لگو گے ہم نے کہا کیا قریشی ؟ فرمایا نہیں بلکہ یمنی نہایت نرم دل نہایت خوش اخلاق سادہ مزاج۔ ہم نے کہا حضور ﷺ پھر کیا وہ ہم سے بہتر ہوں گے ؟ آپ نے جواب دیا کہ اگر ان میں سے کسی کے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا بھی ہو اور وہ اسے راہ اللہ خرچ کرے تو تم میں سے ایک کے تین پاؤ بلکہ ڈیڑھ پاؤ اناج کی خیرات کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ یاد رکھو کہ ہم میں اور دوسرے تمام لوگوں میں یہی فرق ہے پھر آپ نے اسی آیت ( لایستوی ) کی تلاوت کی، لیکن یہ روایت غریب ہے، بخاری و مسلم میں حضرت ابو سعید خدری کی روایت میں خارجیوں کے ذکر میں ہے کہ تم اپنی نمازیں ان کی نمازوں کے مقابلہ اور اپنے روزے ان کے روزوں کے مقابلہ پر حقیر اور کمتر شمار کرو گے۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے ابن جریر میں ہے عنقریب ایک قوم آئے گی کہ تم اپنے اعمال کو کمتر سمجھنے لگو گے جب ان کے اعمال کے سامنے رکھو گے صحابہ نے پوچھا کیا وہ قریشیوں میں سے ہوں گے آپ نے فرمایا نہیں وہ سادہ مزاج نرم دل یہاں والے ہیں اور آپ نے یمن کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا پھر فرمایا وہ یمنی لوگ ہیں ایمان تو یمن والوں کا ایمان ہے اور حکمت یمن والوں کی حکمت ہے ہم نے پوچھا کیا وہ ہم سے بھی افضل ہوں گے ؟ فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر ان میں سے کسی کے پاس سونے کا پہاڑ ہو اور اسے وہ راہ اللہ دے ڈالے تو بھی تمہارے ایک مد یا آدھے مد کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ پھر آپ نے اپنی اور انگلیاں تو بند کرلیں اور چھن گیا کو دراز کر کے فرمایا خبردار رہو یہ ہے فرق ہم میں اور دوسرے لوگوں میں، پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی، پس اس حدیث میں حدیبیہ کا ذکر نہیں۔ پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ممکن ہے فتح مکہ سے پہلے ہی فتح مکہ کے بعد کی خبر اللہ تعالیٰ نے آپ کو دے دی ہو، جیسے کہ سورة مزمل میں جو ان ابتدائی سورتوں میں سے ہے جو مکہ شریف میں نازل ہوئی تھیں پروردگار نے خبر دی تھی کہ آیت ( وَاٰخَرُوْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ڮ فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ 20 ) 73۔ المزّمّل:20) یعنی کچھ اور لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں پس جس طرح اس آیت میں ایک آنے والے واقعہ کا تذکرہ ہے اسی طرح اس آیت کو اور حدیث کو بھی سمجھ لیا جائے واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے کہ ہر ایک سے اللہ تعالیٰ نے بھلائی کا وعدہ کیا ہے یعنی فتح مکہ سے پہلے اور اس کے بعد بھی جس نے جو کچھ راہ اللہ دیا ہے کسی کو اس سے کم۔ جیسے اور جگہ ہے کہ مجاہد اور غیر مجاہد جو عذر والے بھی نہ ہوں درجے میں برابر نہیں گو بھلے وعدے میں دونوں شامل سے کم۔ جیسے اور جگہ ہے کہ مجاہد اور غیر مجاہد جو عذر والے بھی نہ ہوں درجے میں برابر نہیں گو بھلے وعدے میں دونوں شامل ہیں۔ صحیح حدیث میں ہے قوی مومن اللہ کے نزدیک ضعیف مومن سے افضل ہے لیکن بھلائی دونوں میں ہے۔ اگر یہ فقرہ اس آیت میں نہ ہوتا تو ممکن تھا کہ کسی کو ان بعد والوں کی سبکی کا خیال گذرے اس لئے فضیلت بیان فرما کر پھر عطف ڈال کر اصل اجر میں دونوں کو شریک بتایا۔ پھر فرمایا تمہارے تمام اعمال کی تمہارے رب کو خبر ہے وہ درجات میں جو تفاوت رکھتا ہے وہ بھی انداز سے نہیں بلکہ صحیح علم سے۔ حدیث شریف میں ہے ایک درہم ایک لاکھ درہم سے بڑھ جاتا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس کے سردار ہیں آپ نے ابتدائی تنگی کے وقت اپنا کل مال راہ اللہ دے دیا تھا جس کا بدلہ سوائے اللہ کے کسی اور سے مطلوب نہ تھا۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں میں دربار رسالت مآب میں تھا اور حضرت صدیق اکبر بھی تھے۔ صرف ایک عبا آپ کے جسم پر تھی، گریبان کانٹے سے اٹکائے ہوئے تھے جو حضرت جبرائیل ؑ نازل ہوئے اور پوچھا کیا بات ہے جو حضرت ابوبکر نے فقط ایک عبا پہن رکھی ہے اور کانٹا لگا رکھا ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا انہوں نے اپنا کل مال میرے کاموں میں فتح سے پہلے ہی راہ اللہ خرچ کر ڈالا ہے اب ان کے پاس کچھ نہیں، حضرت جبرائیل ؑ نے فرمایا ان سے کہو کہ اللہ انہیں سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اس فقیری میں تم مجھ سے خوش ہو یا ناخوش ہو ؟ آپ نے حضرت صدیق کو یہ سب کہہ کر سوال کیا۔ جواب ملا کہ اپنے رب عزوجل سے ناراض کیسے ہوسکتا ہوں میں اس حال میں بہت خوش ہوں۔ یہ حدیث سنداً ضعیف ہے واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے کون ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے، اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے خرچ کرنا ہے۔ بعض نے کہا ہے بال بچوں کو کھلانا پلانا وغیرہ خرچ مراد ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آیت اپنے عموم کے لحاظ سے دونوں صورتوں کو شامل ہو، پھر اس پر وعدہ فرماتا ہے کہ اسے بہت بڑھا چڑھا کر بدلہ ملے گا اور جنت میں پاکیزہ تر روزی ملے گی، اس آیت کو سن کر حضرت ابو دحداح انصاری ؓ حضور ﷺ کے پاس آئے اور کہا کیا ہمارا رب ہم سے قرض مانگتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں، کہا ذرا اپنا ہاتھ تو دیجئے آپ نے ہاتھ بڑھایا تو آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا میرا باغ جس میں کھجور کے چھ سو درخت ہیں وہ میں نے اپنے رب کو دیا آپ کے بیوی بچے بھی اسی باغ میں تھے آپ آئے اور باغ کے دروازے پر کھڑے رہ کر اپنی بیوی صاحبہ کو آواز دی وہ لبیک کہتی ہوئی آئیں تو فرمانے لگے بچوں کو لے کر چلی آؤ میں نے یہ باغ اپنے رب عزوجل کو قرض دے دیا ہے۔ وہ خوش ہو کر کہنے لگیں آپ نے بہت نفع کی تجارت کی اور بال بچوں کو اور گھر کے اثاثے کو لے کر باہر چلی آئیں، حضور ﷺ فرمانے لگے جنتی درخت وہاں کے باغات جو میوؤں سے لدے ہوئے اور جن کی شاخیں یا قوت اور موتی کی ہیں ابو دحداح کو اللہ نے دے دیں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 10{ وَمَالَـکُمْ اَلاَّ تُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلِلّٰہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ } ” اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم خرچ نہیں کرتے اللہ کی راہ میں ‘ جبکہ اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی وراثت ! “ یہ جو تم بڑے بڑے محل تعمیر کر رہے ہو اور فیکٹریوں پر فیکٹریاں لگاتے چلے جا رہے ہو ‘ ان سے آخر کب تک استفادہ کرو گے ؟ تم تو آج ہو کل نہیں ہو گے۔ تمہارے بعد تمہاری اولاد میں سے بھی جو لوگ ان جائیدادوں کے وارث بنیں گے وہ بھی اپنے وقت پر چلے جائیں گے۔ پھر جو ان کے وارث بنیں گے وہ بھی نہیں رہیں گے۔ بالآخر تمہارے اس سب کچھ کا اور پوری کائنات کا حقیقی وارث تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ تو جب یہ سب کچھ تم نے ادھر ہی چھوڑ کر چلے جانا ہے تو پھر غیر ضروری دولت اکٹھی کرنے میں کیوں وقت برباد کر رہے ہو ؟ اور کیوں اسے سینت سینت کر رکھ رہے ہو ؟ واضح رہے کہ انفاق سے مراد یہاں انفاقِ مال بھی ہے اور بذل نفس جان کھپانا بھی۔ یہ نکتہ قبل ازیں آیت 7 کے مطالعے کے دوران بھی زیر بحث آیا تھا اور اب اگلے فقرے میں مزید واضح ہوجائے گا : { لَا یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَـبْلِ الْفَتْحِ وَقٰــتَلَ } ” تم میں سے وہ لوگ جنہوں نے انفاق کیا اور قتال کیا فتح سے پہلے وہ فتح کے بعد انفاق اور قتال کرنے والوں کے برابر نہیں ہیں۔ “ وضاحت کے لیے یہاں انفاق اور قتال کا ذکر الگ الگ آگیا ہے۔ یعنی ’ انفاق ‘ مال خرچ کرنے کے لیے اور ’ قتال ‘ جان کھپانے کے لیے۔ چناچہ یہاں واضح کردیا گیا کہ آیت 7 میں جس انفاق کا ذکر ہوا تھا اس سے مال و جان دونوں کا انفاق مراد تھا اور ظاہر ہے انفاقِ جان کا سب سے اہم موقع تو قتال ہی ہے۔ میدانِ جنگ سے غازی بن کر لوٹنے کا انحصار تو حالات اور قسمت پر ہے ‘ لیکن میدانِ کارزار میں اترنے کا مطلب تو بہرحال یہی ہوتا ہے کہ اس مرد مجاہد نے اپنی نقد جان ہتھیلی پر رکھ کر قربانی کے لیے پیش کردی۔ اس آیت میں خاص بات یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اہل ایمان جنہوں نے ابتدائی دور میں اس وقت قربانیاں دیں جبکہ اسلام کمزور تھا اور مسلمانوں کی طاقت بہت کم تھی ‘ ان کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے۔ وہ اور بعد کے مسلمان جنہوں نے یہی اعمال بعد میں سرانجام دیے ‘ ثواب و مرتبہ میں برابر نہیں۔ { اُولٰٓـئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْم بَعْدُ وَقٰــتَلُوْا } ” ان لوگوں کا درجہ بہت بلند ہے ان کے مقابلے میں جنہوں نے انفاق اور قتال کیا فتح کے بعد۔ “ { وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۔ } ” اگرچہ ان سب سے اللہ نے بہت اچھا وعدہ فرمایا ہے۔ اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ “ حضور ﷺ کی سربراہی میں کفر و باطل سے جنگ میں پہلی واضح فتح تو صلح حدیبیہ تھی جس کو اللہ تعالیٰ نے خود فتح مبین قرار دیا : { اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا۔ } الفتح۔ یہ فتح مبین مسلمانوں کو 6 ہجری میں عطا ہوئی جبکہ ظاہری فیصلہ کن فتح انہیں 8 ہجری میں فتح مکہ کی صورت میں حاصل ہوئی۔ چناچہ اس آیت میں فتح کے ذکر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سورة الحدید کم از کم 6 ہجری یعنی صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی۔ اب سنیے ‘ کھلے اور بیدار دل کے ساتھ ایک اہم پکار ! ذرا دھیان سے سنیے ! میرا خالق ‘ آپ کا خالق ‘ میر 1 مالک ‘ آپ کا مالک اور پوری کائنات کا مالک کیا ندا کر رہا ہے ؟
وما لكم ألا تنفقوا في سبيل الله ولله ميراث السموات والأرض لا يستوي منكم من أنفق من قبل الفتح وقاتل أولئك أعظم درجة من الذين أنفقوا من بعد وقاتلوا وكلا وعد الله الحسنى والله بما تعملون خبير
سورة: الحديد - آية: ( 10 ) - جزء: ( 27 ) - صفحة: ( 538 )Surah Hadid Ayat 10 meaning in urdu
آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ زمین اور آسمانوں کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے تم میں سے جو لوگ فتح کے بعد خرچ اور جہاد کریں گے وہ کبھی اُن لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتے جنہوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا ہے اُن کا درجہ بعد میں خرچ اور جہاد کرنے والوں سے بڑھ کر ہے اگرچہ اللہ نے دونوں ہی سے اچھے وعدے فرمائے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے با خبر ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور اسمٰعیل اور الیسع اور یونس اور لوط کو بھی۔ اور ان سب کو جہان
- اے منکرین خدا) کیا تم اس کلام سے تعجب کرتے ہو؟
- کہہ دو کہ ان کو وہ زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی بار
- (یعنی) لوگوں کی ہدایت کے لیے پہلے (تورات اور انجیل اتاری) اور (پھر قرآن جو
- اگر تم عجیب بات سننی چاہو تو کافروں کا یہ کہنا عجیب ہے کہ جب
- مگر ایک بڑھیا کہ پیچھے رہ جانے والوں میں تھی
- اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ (آپ کی) فرمانبرداری (دل سے منظور
- اور جو ایمان لائیں اور نیک کام کریں، وہ جنت کے مالک ہوں گے (اور)
- تو خدا کے آگے سجدہ کرو اور (اسی کی) عبادت کرو
- اور جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو لیٹا اور بیٹھا اور کھڑا (ہر حال
Quran surahs in English :
Download surah Hadid with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Hadid mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Hadid Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers