Surah Mujadila Ayat 10 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿إِنَّمَا النَّجْوَىٰ مِنَ الشَّيْطَانِ لِيَحْزُنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَيْسَ بِضَارِّهِمْ شَيْئًا إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ﴾
[ المجادلة: 10]
کافروں کی) سرگوشیاں تو شیطان (کی حرکات) سے ہیں (جو) اس لئے (کی جاتی ہیں) کہ مومن (ان سے) غمناک ہوں مگر خدا کے حکم کے سوا ان سے انہیں کچھ نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ تو مومنو کو چاہیئے کہ خدا ہی پر بھروسہ رکھیں
Surah Mujadila Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
- یعنی اثم وعدوان اور معصیت رسول ( صلى الله عليه وسلم ) پر مبنی سرگوشیاں یہ شیطانی کام ہیں، کیونکہ شیطان ہی ان پر آمادہ کرتا ہے، تاکہ وہ اس کے ذریعے سے مومنوں کو غم وحزن میں مبتلا کرے۔
( 2 ) لیکن یہ سرگوشیاں اور شیطانی حرکتیں، مومنوں کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتیں الایہ کہ اللہ کی مشیت ہو اس لیے تم اپنے دشمنوں کی ان اوچھی حرکتوں سے پریشان نہ ہوا کرو۔ بلکہ اللہ پر بھروسہ رکھو، اس لیے کہ تمام معاملات کا اختیار اسی کے ہاتھ میں ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے، نہ کہ یہود اور منافقین، جو تمہیں تباہ وبرباد کرنا چاہتے ہیں۔ سرگوشی کے سلسلے میں ہی مسلمانوں کو ایک اخلاقی ہدایت یہ دی گئی ہے کہ جب تم تین آدمی اکٹھے ہو، تو اپنے میں سے ایک کو چھوڑ کر دو آدمی آپس میں سرگوشی نہ کریں، کیونکہ یہ طریقہ اس ایک آدمی کو غم میں ڈال دے گا۔ ( صحيح بخاري ، كتاب الاستئذان ، باب إذا كانوا أكثر من ثلاثة فلا بأس بالمسارة والمناجاة ، وصحيح مسلم كتاب السلام ، باب تحريم مناجاة الاثنين دون الثالث بغير رضاه ) البتہ اس کی رضامندی اور اجازت سے ایسا کرنا جائز ہے۔ کیونکہ اس صورت میں دو آدمیوں کا سرگوشی کرنا، کسی کے لیے تشویش کا باعث نہیں ہوگا۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
معاشرتی آداب کا ایک پہلو اور قیامت کا ایک منظر کانا پھوسی سے یہودیوں کو روک دیا گیا تھا اس لئے کہ ان میں اور آنحضرت ﷺ میں جب صلح صفائی تھی تو یہ لوگ یہ حرکت کرنے لگے کہ جہاں کسی مسلمان کو دیکھا اور جہاں کوئی ان کے پاس گیا یہ ادھر ادھر جمع ہو ہو کر چپکے چپکے اشاروں کنایوں میں اس طرح کانا پھوسی کرنے لگتے کہ اکیلا دکیلا مسلمان یہ گمان کرتا کہ شاید یہ لوگ میرے قتل کی سازشیں کر رہے ہیں یا میرے خلاف اور ایمانداروں کے خلاف کچھ مخفی ترکیبیں سوچ رہے ہیں اسے ان کی طرف جاتے ہوئے بھی ڈر لگتا، جب یہ شکایتیں عام ہوئیں تو حضور ﷺ نے یہودیوں کو اس سفلی حرکت سے روک دیا، لیکن انہوں نے پھر بھی یہی کرنا شروع کیا۔ ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ ہم لوگ باری باری رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں رات کو حاضر ہوتے کہ اگر کوئی کام کاج ہو تو کریں، ایک رات کو باری والے آگئے اور کچھ اور لوگ بھی بہ نیت ثواب آگئے چونکہ لوگ زیادہ جمع ہوگئے تو ہم ٹولیاں ٹولیاں بن کر ادھر ادھر بیٹھ گئے اور ہر جماعت آپس میں باتیں کرنے لگی، اتنے میں آنحضرت ﷺ تشریف لائے اور فرمایا یہ سرگوشیاں کیا ہو رہی ہیں ؟ کیا تمہیں اس سے روکا نہیں گیا ؟ ہم نے کہا حضور ﷺ ہماری توبہ ہم مسیح دجال کا ذکر کر رہے تھے کیونکہ اس سے کھٹکا لگا رہتا ہے، آپ نے فرمایا سنو میں تمہیں اس سے بھی زیادہ خوف کی چیز بتاؤں وہ پوشیدہ شرک ہے اس طرح کہ ایک شخص اٹھ کھڑا ہو اور دوسروں کے دکھانے کیلئے کوئی دینی کام کرے ( یعنی ریاکاری ) اس کی اسناد غریب ہے اور اس میں بعض راوی ضعیف ہیں۔ پھر بیان ہوتا ہے کہ ان کی خانگی سرگوشیاں یا تو گناہ کے کاموں پر ہوتی ہیں جس میں ان کا ذاتی نقصان ہے، یا ظلم پر ہوتی ہیں جس میں دوسروں کے نقصان کی ترکیبیں سوچتے ہیں یا پیغمبر ؑ کی مخالفت پر ایک دوسروں کو پختہ کرتے ہیں اور آپ کی نافرمانیوں کے منصوبے گانٹھتے ہیں۔ پھر ان بدکاروں کی ایک بدترین خصلت بیان ہو رہی ہے کہ سلام کے الفاظ کو بھی یہ بدل دیتے ہیں، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں ایک مرتبہ یہودی حضور ﷺ کے پاس آئے اور کہا السام علیک یا ابو القاسم حضرت عائشہ سے رہا نہ گیا فرمایا وعلیکم السام۔ سام کے معنی موت کے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اے عائشہ اللہ تعالیٰ برے الفاظ اور سخت کلامی کو ناپسند فرماتا ہے۔ میں نے کہا کیا حضور ﷺ نے نہیں سنا۔ انہوں نے آپ کو السلام نہیں کہا بلکہ السام کہا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم نے نہیں سنا ؟ میں نے کہہ دیا وعلیکم۔ اسی کا بیان یہاں ہو رہا ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ نے ان کے جواب میں فرمایا تھا علیکم السام والنام واللعنتہ اور آپ نے صدیقہ کو روکتے ہوئے فرمایا کہ ہماری دعا ان کے حق میں مقبول ہے اور ان کا ہمیں کو سنانا مقبول ہے ( ابن ابی حاتم وغیرہ ) ایک مرتبہ حضور ﷺ اپنے اصحاب کے مجمع میں تشریف فرما تھے کہ ایک یہودی نے آکر سلام کیا صحابہ نے جواب دیا پھر حضور ﷺ نے صحابہ سے پوچھا معلوم بھی ہے اس نے کیا کہا تھا ؟ انہوں نے کہا حضرت ﷺ سلام کیا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں اس نے کہا تھا سام علیکم یعنی تمہارا دین مغلوب ہو کر مٹ جائے، پھر آپ ﷺ نے حکم دیا کہ اس یہودی کو بلاؤ جب وہ آگیا تو آپ نے فرمایا سچ سچ بتا کیا تو نے سام علیکم نہیں کہا تھا ؟ اس نے کہا ہاں حضور ﷺ میں نے یہی کہا تھا آپ نے فرمایا سنو جب کبھی کوئی اہل کتاب تم میں سے کسی کو سلام کرے تو تم صرف علیک کہہ دیا کرو یعنی جو تو نے کہا ہو وہ تجھ پر ( ابن جریر وغیرہ ) پھر یہ لوگ اپنے اس کرتوت پر خوش ہو کر اپنے دل میں کہتے کہ اگر یہ نبی برحق ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہماری اس چالبازی پر ہمیں دنیا میں ضرور عذاب کرتا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تو ہمارے باطنی حال سے بخوبی واقف ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انہیں دار آخرت کا عذاب ہی کافی ہے جہاں یہ جہنم میں جائیں گے اور بری جگہ پہنچیں گے۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ اس آیت کا شان نزول یہودیوں کا اس طریقے کا سلام ہے، حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ منافق اسی طرح سلام کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ مومنوں کو ادب سکھاتا ہے کہ تم ان منافقوں اور یہودیوں کے سے کام نہ کرنا تم گناہ کے کاموں اور حد سے گزر جانے اور نبی کے نہ ماننے کے مشورے نہ کرنا بلکہ تمہیں ان کے برخلاف نیکی اور اپنے بچاؤ کے مشورے کرنے چاہئیں۔ تمہیں ہر وقت اس اللہ سے ڈرتے رہنا چاہئے جس کی طرف تمہیں جمع ہونا ہے، جو اس وقت تمہیں ہر نیکی بدی کی جزا سزا دے گا اور تمام اعمال و اقوال سے متنبہ کرے گا گو تم بھول گئے لیکن اس کے پاس سب محفوظ اور موجود ہیں۔ حضرت صفوان فرماتے ہیں میں حضرت عبداللہ بن عمر کا ہاتھ تھامے ہوا تھا کہ ایک شخص آیا اور پوچھا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے مومن کی جو سرگوشی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے ہوگی اس کے بارے میں کیا سنا ہے ؟ آپ نے فرمایا رسالت مآب ﷺ سے میں نے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ مومن کو اپنے قریب بلائے گا اور اس قدر قریب کہ اپنا بازو اس پر رکھ دے گا اور لوگوں سے اسے پردے میں کرلے گا اور اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا اور پوچھے گا یاد ہے ؟ فلاں گناہ تم نے کیا تھا فلاں کیا تھا فلاں کیا تھا یہ اقرار کرتا جائے گا اور دل دھڑک رہا ہوگا کہ اب ہلاک ہوا، اتنے میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا دیکھ دنیا میں بھی میں نے تیری پردہ پوشی کی اور آج بھی میں نے بخشش کی، پھر اسے اس کی نیکیوں کا نامہ اعمال دیا جائے گا لیکن کافر و منافق کے بارے میں تو گواہ پکار کر کہہ دیں گے کہ یہ اللہ پر جھوٹ بولنے والے لوگ ہیں خبردار ہوجاؤ ان ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے ( بخاری و مسلم )۔ پھر فرمان ہے کہ اس قسم کی سرگوشی جس سے مسلمان کو تکلیف پہنچے اور اسے بدگمانی ہو شیطان کی طرف سے ہے شیطان ان منافقوں سے یہ کام اس لئے کراتا ہے کہ مومنوں کو غم و رنج ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی شیطان یا کوئی اور انہیں کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا، جسے کوئی ایسی حرکت معلوم ہو اسے چاہئے کہ اعوذ پڑھے اللہ کی پناہ لے اور اللہ پر بھروسہ رکھے انشاء اللہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔ ایسی کانا پھوسی جو کسی مسلمان کو ناگوار گزرے، حدیث میں بھی منع آئی ہے، مسند احمد میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب تم تین آدمی ہو تو دو مل کر کان میں منہ ڈال کر باتیں کرنے نہ بیٹھ جاؤ اس سے اس تیسرے کا دل میلا ہوگا ( بخاری و مسلم ) اور روایت میں ہے کہ ہاں اگر اس کی اجازت ہو تو کوئی حرج نہیں ( مسلم )۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 10{ اِنَّمَا النَّجْوٰی مِنَ الشَّیْطٰنِ } ” یہ نجویٰ تو شیطان کی طرف سے ہے “ منفی سرگوشیاں کرنا ایک شیطانی عمل ہے۔ جو لوگ اس میں ملوث ہوتے ہیں انہیں اس کی تحریک و ترغیب شیطان ہی کی طرف سے ملتی ہے۔ { لِیَحْزُنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا } ” تاکہ وہ اہل ایمان کو رنجیدہ کرے “ ان لوگوں کی سرگوشیوں اور خفیہ ملاقاتوں کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ اہل ایمان کو نقصان پہنچا کر انہیں رنجیدہ ‘ دل گرفتہ اور پریشان کریں۔ آیت کے ان الفاظ سے یہ مفہوم بھی متبادر ہوتا ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کی محفل سے الگ جا کر کھسر پھسر اور سرگوشیاں اس لیے کرتے ہیں کہ ان کے اس عمل کو دیکھ کر مسلمان پریشان ہوں کہ یہ لوگ الگ بیٹھ کر ان کے خلاف نہ جانے کیا سازشیں کر رہے ہیں۔ گویا یہ لوگ ایک نفسیاتی حربے کے طور پر بھی نجویٰ کرتے تھے۔ ظاہر ہے جب بھری محفل سے تین چار لوگ الگ جا کر بیٹھ جائیں اور کھسر پھسر کرنا شروع کردیں تو اہل محفل کو فطری طور پر تجسس تو ہوگا کہ ہو نہ ہو یہ لوگ ضرور انہی کے خلاف باتیں کر رہے ہیں۔ { وَلَـیْسَ بِضَآرِّہِمْ شَیْئًا اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ } ” حالانکہ یہ شیطان انہیں کچھ بھی ضرر پہنچانے پر قادر نہیں مگر اللہ کے اذن سے۔ “ شیطان اپنے ارادے اور اختیار سے اہل ایمان کو کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا۔ البتہ اگر اللہ کی طرف سے کسی کے لیے کوئی تکلیف یا آزمائش طے ہے تو وہ ضرور آئے گی ‘ اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ { وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ } ” اور اہل ایمان کو صرف اللہ پر توکل ّکرنا چاہیے۔ “ اہل ایمان کو بھروسہ رکھنا چاہیے کہ اللہ ان کے ساتھ ہے اور شیطانی حربوں یا دشمنوں کی سازشوں سے ان کا کچھ نہیں بگڑ سکتا۔ اسی بھروسے کے ساتھ انہیں ہر وقت اپنے فرائض کی بجاآوری کے لیے کمربستہ رہنا چاہیے۔
إنما النجوى من الشيطان ليحزن الذين آمنوا وليس بضارهم شيئا إلا بإذن الله وعلى الله فليتوكل المؤمنون
سورة: المجادلة - آية: ( 10 ) - جزء: ( 28 ) - صفحة: ( 543 )Surah Mujadila Ayat 10 meaning in urdu
کانا پھوسی تو ایک شیطانی کام ہے، اور وہ اس لیے کی جاتی ہے کہ ایمان لانے والے لوگ اُس سے رنجیدہ ہوں، حالانکہ بے اذن خدا وہ انہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتی، اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- جس روز وہ آجائے گا تو کوئی متنفس خدا کے حکم کے بغیر بول بھی
- (اب) جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ۔ ہمیشہ اسی میں رہو گے۔ متکبروں کا کیا
- جو مال خدا نے اپنے پیغمبر کو دیہات والوں سے دلوایا ہے وہ خدا کے
- تو انسان کو دیکھنا چاہئے کہ وہ کاہے سے پیدا ہوا ہے
- اور جب وہ اپنی جوانی کو پہنچے تو ہم نے ان کو دانائی اور علم
- جب وہ ابراہیم کے پاس آئے تو سلام کہا۔ (انہوں نے) کہا کہ ہمیں تو
- وہ تو ہمارے ایسے بندے تھے جن پر ہم نے فضل کیا اور بنی اسرائیل
- جو نہ فربہی لائے اور نہ بھوک میں کچھ کام آئے
- بے شک پرہیز گاروں کے لیے کامیابی ہے
- اور ہم نے موسیٰ سے تیس رات کی میعاد مقرر کی۔ اور اس دس (راتیں)
Quran surahs in English :
Download surah Mujadila with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Mujadila mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Mujadila Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers