Surah Mumtahana Ayat 10 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ ممتحنہ کی آیت نمبر 10 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah Mumtahana ayat 10 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ ۖ اللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ ۖ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ ۖ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ ۖ وَآتُوهُم مَّا أَنفَقُوا ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ أَن تَنكِحُوهُنَّ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۚ وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ وَاسْأَلُوا مَا أَنفَقْتُمْ وَلْيَسْأَلُوا مَا أَنفَقُوا ۚ ذَٰلِكُمْ حُكْمُ اللَّهِ ۖ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ﴾
[ الممتحنة: 10]

Ayat With Urdu Translation

مومنو! جب تمہارے پاس مومن عورتیں وطن چھوڑ کر آئیں تو ان کی آزمائش کرلو۔ (اور) خدا تو ان کے ایمان کو خوب جانتا ہے۔ سو اگر تم کو معلوم ہو کہ مومن ہیں تو ان کو کفار کے پاس واپس نہ بھیجو۔ کہ نہ یہ ان کو حلال ہیں اور نہ وہ ان کو جائز۔ اور جو کچھ انہوں نے (ان پر) خرچ کیا ہو وہ ان کو دے دو۔ اور تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ان عورتوں کو مہر دے کر ان سے نکاح کرلو اور کافر عورتوں کی ناموس کو قبضے میں نہ رکھو (یعنی کفار کو واپس دے دو) اور جو کچھ تم نے ان پر خرچ کیا ہو تم ان سے طلب کرلو اور جو کچھ انہوں نے (اپنی عورتوں پر) خرچ کیا ہو وہ تم سے طلب کرلیں۔ یہ خدا کا حکم ہے جو تم میں فیصلہ کئے دیتا ہے اور خدا جاننے والا حکمت والا ہے

Surah Mumtahana Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) معاہدۂ حدیبیہ میں ایک شق یہ تھی کہ مکے سے کوئی مسلمانوں کے پاس چلا جائے گا، تو اس کو واپس کرنا پڑے گا۔ لیکن اس میں مرد وعورت کی صراحت نہیں تھی۔ بظاہر کوئی ( احد ) میں دونوں ہی شامل تھے۔ چنانچہ بعد میں بعض عورتیں مکے سے ہجرت کرکے مسلمانوں کے پاس چلی گئیں تو کفار نے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا، جس پر اللہ نے اس آیت میں مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی اور یہ حکم دیا۔ امتحان لینے کا مطلب ہے اس امر کی تحقیق کرو کہ ہجرت کرکے آنے والی عورت جو ایمان کا اظہار کر رہی ہے، اپنے کافر خاوند سے ناراض ہوکر یا کسی مسلمان کے عشق میں یا کسی اور غرض سے تو نہیں آئی ہے اور صرف یہاں پناہ لینے کی خاطر ایمان کا دعویٰ کر رہی ہے۔
( 2 ) یعنی تم اپنی تحقیق سے اس نتیجے پر پہنچو اور تمہیں گمان غالب حاصل ہو جائے کہ یہ واقعی مومنہ ہیں۔
( 3 ) یہ انہیں ان کے کافر خاوندوں کے پاس واپس نہ کرنے کی علت ہے کہ اب کوئی مومن عورت کسی کافر کے لیے حلال نہیں۔ جیسا کہ ابتدائے اسلام میں یہ جائز تھا، چنانچہ نبی ( صلى الله عليه وسلم ) کی صاحبزادی حضرت زینب ( رضی الله عنها ) کا نکاح ابو العاص ابن ربیع کے ساتھ ہوا تھا، جب کہ وہ مسلمان نہیں تھے۔ لیکن اس آیت نے آئندہ کے لیے ایسا کرنے سے منع کر دیا، اسی لیے یہاں فرمایا گیا کہ وہ ایک دوسرے کے لیے حلال نہیں، اس لیے انہیں کافروں کے پاس مت لوٹاؤ۔ ہاں اگر شوہر بھی مسلمان ہو جائے تو پھر ان کا نکاح برقرار رہ سکتا ہے۔ چاہے خاوند عورت کے بعد ہجرت کرکے آئے۔
( 4 ) یعنی ان کے کافر خاوندوں نے ان کو جو مہر ادا کیا ہے ، وہ تم انہیں ادا کر دو۔
( 5 ) یہ مسلمانوں کو کہا جارہا ہے کہ یہ عورتیں، جو ایمان کی خاطر اپنے کافر خاوندوں کو چھوڑ کر تمہارے پاس آگئی ہیں ، تم ان سے نکاح کر سکتے ہو، بشرطیکہ ان کا حق مہر تم ادا کرو۔ تاہم یہ نکاح مسنون طریقے سے ہی ہوگا۔ یعنی ایک تو انقضائے عدت ( استبراء رحم ) کے بعد ہوگا۔ دوسرے، اس میں ولی کی اجازت اور دو عادل گواہوں کی موجودگی بھی ضروری ہے۔ البتہ عورت مدخول بہا نہیں ہے تو پھر بلاعدت فوری نکاح جائز ہے۔
( 6 ) عِصَمٌ، عِصْمَةٌ کی جمع ہے، یہاں اس سے مراد عصمت عقد نکاح ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر خاوند مسلمان ہو جائے اور بیوی بدستور کافر اور مشرک رہے تو ایسی مشرک عورت کو اپنے نکاح میں رکھنا جائز نہیں ہے۔ اسے فوراً طلاق دے کر اپنے سے علیحدہ کر دیا جائے۔ چنانچہ اس حکم کے بعد حضرت عمر ( رضي الله عنه ) نے اپنی دو مشرک بیویوں کو اور حضرت طلحہ ابن عبید اللہ ( رضي الله عنه ) نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ ( ابن کثیر ) البتہ اگر بیوی کتابیہ ( یہودی یا عیسائی ) ہو تو اسے طلاق دینا ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ ان سے نکاح جائز ہے، اس لیے اگر وہ پہلے سے ہی بیوی کی حیثیت سے تمہارے پاس موجود ہے تو قبول اسلام کے بعد اسے علیحدہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
( 7 ) یعنی ان عورتوں پر جو کفر پر برقرار رہنے کی وجہ سے کافروں کے پاس چلی گئی ہیں۔
( 8 ) یعنی ان عورتوں پر جو مسلمان ہوکر ہجرت کرکے مدینے آگئی ہیں۔
( 9 ) یعنی یہ حکم مذکور کہ دونوں ایک دوسرے کو حق مہر ادا کریں بلکہ مانگ کرلیں، اللہ کا حکم ہے۔ امام قرطبی فرماتے ہیں کہ یہ حکم اس دور کے ساتھ ہی خاص تھا۔ اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔ ( فتح القدیر ) اس کی وجہ وہ معاہدہ ہے جو اس وقت فریقین کے درمیان تھا۔ اس قسم کے معاہدے کی صورت میں آئندہ بھی اس پر عمل کرنا ضروری ہوگا۔ بصورت دیگر نہیں۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


صلح حدیبیہ کا ایک پہلو سورة فتح کی تفسیر میں صلح حدیبیہ کا واقعہ مفصل بیان ہوچکا ہے، اس صلح کے موقعہ پر رسول اللہ ﷺ اور کفار قریش کے درمیان جو شرائط ہوئی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ جو کافر مسلمان ہو کر حضور ﷺ کے پاس چلا جائے آپ اسے اہل مکہ کو واپس کردیں، لیکن قرآن کریم نے ان میں سے ان عورتوں کو مخصوص کردیا کہ جو عورت ایمان قبول کر کے آئے اور فی الواقع ہو بھی وہ سچی ایمان دار تو مسلمان اسے کافروں کو واپس نہ دیں، حدیث شریف کی تخصیص قرآن کریم سے ہونے کی یہ ایک بہترین مثال ہے اور بعض سلف کے نزدیک یہ آیت اس حدیث کی ناسخ ہے۔ اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ حضرت ام کلثوم بنت عقبہ بن ابو میط ؓ مسلمان ہو کر ہجرت کر کے مدینہ چلی آئیں، ان کے دونوں بھائی عمارہ اور ولید ان کے واپس لینے کے لئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے کہا سنا پس یہ آیت امتحان نازل ہوئی اور مومنہ عورتوں کو واپس لوٹانے سے ممانعت کردی گئی، حضرت ابن عباس سے سوال ہوتا ہے کہ حضور ﷺ ان عورتوں کا امتحان کس طرح لیتے تھے ؟ فرمایا اس طرح کہ اللہ کی قسم کھا کر سچ سچ کہے کہ وہ اپنے خاوند کی ناچاقی کی وجہ سے نہیں چلی آئی صرف آب و ہوا اور زمین کی تبدیلی کرنے کے لئے بطور سیرو سیاحت نہیں آئی کسی دنیا طلبی کے لئے نہیں آئی بلکہ صرف اللہ کی اور اس کے رسول ﷺ کی محبت میں اسلام کی خاطر ترک وطن کیا ہے اور کوئی غرض نہیں، قسم دے کر ان سوالات کا کرنا اور خوب آزما لینا یہ کام حضرت عمر فاروق ؓ کے سپرد تھا اور روایت میں ہے کہ امتحان اس طرح ہوتا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے معبود برحق اور لاشریک ہونے کی گواہی دیں اور آنحضرت ﷺ کے اللہ کے بندے اور اس کے بھیجے ہوئے رسول ہونے کی شہادت دیں، اگر آزمائش میں کسی غرض دنیوی کا پتہ چل جاتا تو انہیں واپس لوٹا دینے کا حکم تھا۔ مثلاً یہ معلوم ہوجائے کہ میاں بیوی کی ان بن کی وجہ سے یا کسی اور شخص کی محبت میں چلی آئی ہے وغیرہ، اس آیت کے اس جملہ سے کہ اگر تمہیں معلم ہوجائے کہ یہ باایمان عورت ہے تو پھر اسے کافروں کی طرف مت لوٹاؤ ثابت ہوتا ہے کہ ایمان پر بھی یقینی طور پر مطلع ہوجانا ممکن امر ہے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ مسلمان عورتیں کافروں پر اور کافر مرد مسلمان عورتوں کے لئے حلال نہیں، اس آیت نے اس رشتہ کو حرام کردیا ورنہ اس سے پہلے مومنہ عورتوں کا نکاح کافر مردوں سے جائز تھا، جیسے کہ نبی ﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب ؓ کا نکاح ابو العاص بن ربیع سے ہوا تھا حالانکہ یہ اس وقت کافر تھے اور بنت رسول ﷺ مسلمہ تھیں، بدر کی لڑائی میں یہ بھی کافروں کے ساتھ تھے اور جو کافر زندہ پکڑے گئے تھے ان میں یہ بھی گرفتار ہو کر آئے تھے حضرت زینب نے اپنی والدہ حضرت خدیجہ ؓ کا ہار ان کے فدیئے میں بھیجا تھا کہ یہ آزاد ہو کر آئیں جسے دیکھ کر آنحضرت ﷺ پر بڑی رقت طاری ہوئی اور آپ نے مسلمانوں سے فرمایا اگر میری بیٹی کے قیدی کو چھوڑ دینا تم پسند کرتے ہو تو اسے رہا کردو مسلمانوں نے بہ خوشی بغیر فدیہ کے انہیں چھوڑ دینا منظور کیا چناچہ حضور ﷺ نے انہیں آزاد کردیا اور فرما دیا کہ آپ کی صاحبزادی کو آپ کے پاس مدینہ میں بھیج دیں انہوں نے اسے منظور کرلیا اور حضرت زید بن حارثہ ؓ کے ساتھ بھیج بھی دیا، یہ واقعہ سنہ 2 ہجری کا ہے، حضرت زینب نے مدینہ میں ہی اقامت فرمائی اور یونہی بیٹھی رہیں یہاں تک کہ سنہ 8 ہجری میں ان کے خاوند حضرت ابو العاص کو اللہ تعالیٰ نے توفیق اسلام دی اور وہ مسلمان ہوگئے تو حضور نے پھر اسی اگلے نکاح بغیر نئے مہر کے اپنی صاحبزادی کو ان کے پاس رخصت کردیا اور روایت میں ہے کہ دو سال کے بعد حضرت ابو العاص مسلمان ہوگئے تھے اور حضور ﷺ نے اسی پہلے نکاح پر حضرت زینب کو لوٹادیا تھا یہی صحیح ہے اس لئے کہ مسلمان عورتوں کے مشرک مردوں پر حرام ہونے کے دو سال بعد یہ مسلمان ہوگئے تھے، ایک اور روایت میں ہے کہ ان کے اسلام کے بعد نئے سرے سے نکاح ہوا اور نیا مہر بندھا، امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت یزید نے فرمایا ہے پہلی روایت کے راوی حضرت ابن عباس ہیں اور وہ روایت ازروئے اسناد کے بہت اعلیٰ اور دوسری روایت کے راوی حضرت عمرو بن شعیب ہیں اور عمل اسی پر ہے، لیکن یہ یاد رہے کہ عمرو بن شعیب والی روایت کے ایک راوی حجاج بن ارطاۃ کو حضرت امام احمد ؒ وغیرہ ضعیف بتاتے ہیں، حضرت ابن عباس والی حدیث کا جواب جمہوریہ دیتے ہیں کہ یہ شخصی واقعہ ہے ممکن ہے ان کی عدت ختم ہی نہ ہوئی ہو، اکثر حضرات کا مذہب یہ ہے کہ اس صورت میں جب عورت نے عدت کے دن پورے کر لئے اور اب تک اس کا کافر خاوند مسلمان نہیں ہوا تو وہ نکاح فسخ ہوجاتا ہے، ہاں بعض حضرات کا مذہب یہ بھی ہے کہ عدت پوری کرلینے کے بعد عورت کو اختیار ہے اگر چاہے اپنے اس نکاح کو باقی رکھے گار چاہے فسخ کر کے دوسرا نکاح کرلے اور اسی پر ابن عباس والی روایت کو محمول کرتے ہیں۔ پھر حکم ہوتا ہے کہ ان مہاجر عورتوں کے کافر خاوندوں کو ان کے خرچ اخراجات جو ہوئے ہیں وہ ادا کردو جیسے کہ مہر۔ پھر فرمان ہے کہ اب انہیں ان کے مہر دے کر ان سے نکاح کرلینے میں تم پر کوئی حرج نہیں، عدت کا گذر جانا ولی کا مقرر کرنا وغیرہ جو امور نکاح میں ضروری ہیں ان شرائط کو پورا کر کے ان مہاجرہ عورتوں سے جو مسلمان نکاح کرنا چاہے کرسکتا ہے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ تم پر بھی اے مسلمانو ان عورتوں کا اپنے نکاح میں باقی رکھنا حرام ہے جو کافرہ ہیں، اسی طرح کافر عورتوں سے نکاح کرنا بھی حرام ہے اس کے حکم نازل ہوتے ہی حضرت عمر ؓ نے اپنی دو کافر بیویوں کو فوراً طلاق دے دی جن میں سے ایک نے تو معاویہ بن سفیان سے نکاح کرلیا اور دوسری نے صفوان بن امیہ نے حضور ﷺ نے کافروں سے صلح کی اور ابھی تو آپ حدیبیہ کے نیچے کے حصے میں ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں سے کہہ دیا گیا کہ جو عورت مہاجرہ آئے اس کا باایمان ہونا اور خلوص نیت سے ہجرت کرنا بھی معلوم ہوجائے تو اس کے کافر خاوندوں کو ان کے دیئے ہوئے مہر واپس کردو اسی طرح کافروں کو بھی یہ حکم سنا دیا گیا، اس حکم کی وجہ وہ عہد نامہ تھا جو ابھی ابھی مرتب ہوا تھا۔ حضرت الفاروق نے اپنی جن دو کافرہ بیویوں کو طلاق دی ان میں سے پہلی کا نام قریبہ تھا یہ ابو امیہ بن مغیرہ کی لڑکی تھی اور دوسری کا نام ام کلثوم تھا جو عمرو بن حرول خزاعی کی لڑکی تھی حضرت عبید اللہ کی والدہ یہ ہی تھی، اس سے ابو جہم بن حذیفہ بن غانم خزاعی نے نکاح کرلیا یہ بھی مشرک تھا، اسی طرح اس حکم کے ماتحت حضرت طلحہ بن عبید اللہ نے اپنی کافرہ بیوی ارویٰ بنت ربیعہ بن حارث بن عبدامطلب کو طلاق دے دی اس سے خالد بن سعید بن عاص نے نکاح کرلیا۔ پھر ارشاد ہوتا ہے تمہاری بیویوں پر جو تم نے خرچ کیا ہے اسے کافروں سے لے لو جبکہ وہ ان میں چلی جائیں اور کافروں کی عورتیں جو مسلمان ہو کر تم میں آجائیں انہیں تم ان کا کیا ہوا خرچ دے دو۔ صلح کے بارے میں اور عورتوں کے بارے میں اللہ کا فیصلہ بیان ہوچکا جو اس نے اپنی مخلوق میں کردیا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی تمام تر مصلحتوں سے باخبر ہے اور اس کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہوتا اس لئے کہ علی الاطلاق حکیم وہی ہے۔ اس کے بعد کی آیت وان فاتکم الخ کا مطلب حضرت فتادہ ؒ یہ بیان فرماتے ہیں کہ جن کفار سے تمہارا عہد و پیمان صلح و صفائی نہیں، اگر کوئی عورت کسی مسلمان کے گھر سے جا کر ان میں جا ملے تو ظاہر ہے کہ وہ اس کے خاوند کا کیا ہوا خرچ نہیں دیں گے تو اس کے بدلے تمہیں بھی اجازت دی جاتی ہے کہ اگر ان میں سے کوئی عورت مسلمان ہو کر تم میں چلی آئے تو تم بھی اس کے خاوند کو کچھ نہ دو جب تک وہ نہ دیں۔ حضرت زہری ؒ فرماتے ہیں مسلمانوں نے تو اللہ کے اس حکم کی تعمیل کی اور کافروں کی جو عورتیں مسلمان ہو کر ہجرت کر کے آئیں ان کے لئے ہوئے مہر ان کے خاوندوں کو واپس کئے لیکن مشرکوں نے اس حکم کے ماننے سے انکار کردیا اس پر یہ آیت اتری اور مسلمانوں کو اجازت دی گئی کہ اگر تم میں سے کوئی عورت ان کے ہاں چلی گئی ہے اور انہوں نے تمہاری خرچ کی ہوئی رقم ادا نہیں کی تو جب ان میں سے کوئی عورت تمہارے ہاں آجائے تو تم اپناوہ خرچ نکال کر باقی اگر کچھ بچے تو دے دو ورنہ معاملہ ختم ہوا، حضرت ابن عباس ؓ سے اس کا یہ مطلب مروی ہے کہ اس میں رسول اللہ ﷺ کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ جو مسلمان عورت کافروں میں جا ملے اور کافر اس کے خاوند کو اس کا کیا ہوا خرچ ادا نہ کریں تو مال غنیمت میں سے آپ اس مسلمان کو بقدر اس کے خرچ کے دے دیں، پس فعاقبم کے معنی یہ ہوئے کہ پھر تمہیں قریش یا کسی اور جماعت کفار سے مال غنیمت ہاتھ لگے تو ان مردوں کو جن کی عورتیں کافروں میں چلی گئی ہیں ان کا کیا ہوا خرچ ادا کردو، یعنی مہر مثل، ان اقوال میں کوئی تضاد نہیں مطلب یہ ہے کہ پہلی صورت اگر ناممکن ہو تو وہ سہی ورنہ مال غنیمت میں سے اسے اس کا حق دے دیا جائے دونوں باتوں میں اختیار ہے اور حکم میں وسعت ہے حضرت امام ابن جریر اس تطبیق کو پسند فرماتے ہیں فالحمد اللہ۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 10{ یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا جَآئَ کُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُہٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْہُنَّ } ” اے اہل ِایمان ! جب تمہارے پاس آئیں مومن خواتین ہجرت کر کے تو ان کا امتحان لے لیا کرو۔ “ یعنی ہر خاتون سے ضروری حد تک جانچ پڑتال اور تحقیق و تفتیش کرلیا کرو کہ آیا واقعی وہ سچی اور مخلص مومنہ ہے۔ { اَللّٰہُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِہِنَّ } ” اللہ تو ان کے ایمان کے بارے میں بہت اچھی طرح جانتا ہے۔ “ کسی کے دل میں ایمان ہے یا نہیں ‘ اور اگر ہے تو کتنا ایمان ہے ‘ اس کا صحیح علم تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ تم لوگ اپنے طور پر کسی کے ایمان کے بارے میں کچھ نہیں جان سکتے۔ لیکن محض ایک احتیاطی تدبیر کے طور پر مناسب طریقے سے کسی نہ کسی درجے میں ایک اندازہ لگانے کی کوشش ضرور کیا کرو کہ ہجرت کرنے والی خواتین کیا واقعی مومنات ہیں اور کیا واقعی وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہجرت کر کے مدینہ آئی ہیں۔ { فَاِنْ عَلِمْتُمُوْہُنَّ مُؤْمِنٰتٍ } ” پھر اگر تم جان لو کہ وہ واقعی مومنات ہیں “ { فَلَا تَرْجِعُوْہُنَّ اِلَی الْکُفَّارِ } ” تو انہیں کفار کی طرف مت لوٹائو۔ “ { لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلَا ہُمْ یَحِلُّوْنَ لَہُنَّ } ” نہ اب یہ ان کافروں کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ ان کے لیے حلال ہیں۔ “ { وَاٰتُوْہُمْ مَّآ اَنْفَقُوْا } ” اور ان کافروں کو ادا کر دو جو کچھ انہوں نے خرچ کیا تھا۔ “ یعنی ان کے کافر شوہروں نے ان کو جو مہر دیے تھے وہ انہیں بھجوا دو۔ اگر کسی مشرک کی بیوی مسلمان ہو کر مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آگئی ہے تو اب وہ اس کی بیوی نہیں رہی ‘ ان کے درمیان تعلق زوجیت ختم ہوچکا ہے ‘ لیکن عدل و انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ مہر کی وہ رقم جو وہ شخص اس خاتون کو اپنی بیوی کی حیثیت سے ادا کرچکا ہے وہ اسے لوٹا دی جائے۔ اس حکم سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام بلاتفریق مذہب و ملت کسی حق دار کا حق اس تک پہنچانے کے معاملے کو کس قدر سنجیدگی سے لیتا ہے۔ اور یہ سنجیدگی یا تاکید صرف قانون سازی کی حد تک ہی نہیں بلکہ حضور ﷺ نے قرآنی قوانین و احکام کے عین مطابق ایسا نظام عدل و قسط بالفعل قائم کر کے بھی دکھا دیاجس میں حق دار کو تلاش کر کے اس کا حق اس تک پہنچایا جاتا تھا۔ حضرت عمر رض کے دور خلافت میں شام کے محاذ پر حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رض سپہ سالار تھے۔ انہوں نے رومیوں کے خلاف یرموک کے میدان میں صدی کی سب سے بڑی جنگ لڑی۔ جنگ یرموک کی تیاری کے دوران ایک ایسا مرحلہ بھی آیا جب مسلمانوں کو جنگی حکمت عملی کے تحت کچھ مفتوحہ علاقوں کو خالی کر کے پیچھے ہٹنا پڑا۔ ان علاقوں کی عیسائی رعایا سے مسلمان جزیہ وصول کرچکے تھے۔ جزیہ ایک ایسا ٹیکس ہے جو اسلامی حکومت اپنے غیر مسلم شہریوں سے ان کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری کے عوض وصول کرتی ہے۔ اسی لیے یہ ٹیکس ادا کرنے والے شہری ذِمّی کہلاتے ہیں۔ بہرحال مذکورہ علاقوں سے مسلمان وقتی طور پر چونکہ واپس جا رہے تھے اور اپنی غیر مسلم رعایا کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری نبھانے سے قاصر تھے ‘ اس لیے حضرت ابوعبیدہ رض کے حکم پر جزیہ کی تمام رقم متعلقہ افراد کو واپس کردی گئی۔ مسلمانوں کے اس عمل نے عیسائیوں کو اس قدر متاثر کیا کہ ان کے واپس جانے پر وہ لوگ دھاڑیں مار مار کر روتے رہے۔ یہ ہے اس دین کے نظام عدل و قسط کے تحت حق دار کو اس کا حق پہنچانے کی ایک مثال ‘ جس کے ماننے والوں کو ہدایت کی جا رہی ہے کہ وہ مسلمان عورتوں کے مہر کی رقوم ان کے مشرک شوہروں کو لوٹا دیں۔ { وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اَنْ تَنْکِحُوْہُنَّ اِذَآ اٰتَیْتُمُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ } ” اور اے مسلمانو ! تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم ان خواتین سے نکاح کرلو جبکہ تم انہیں ان کے مہر ادا کر دو۔ “ { وَلَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ } ” اور تم کافر خواتین کی ناموس کو اپنے قبضے میں نہ رکھو “یعنی اگر تم میں سے کچھ لوگوں کی بیویاں ایمان نہیں لائیں اور ابھی تک مکہ ہی میں ہیں تو تم ان کو اپنے نکاح میں روکے نہ رکھو ‘ بلکہ انہیں طلاق دے دو اور انہیں بتادو کہ اب تمہارا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ { وَاسْئَلُوْا مَآ اَنْفَقْتُمْ وَلْیَسْئَلُوْا مَآ اَنْفَقُوْا } ” اور تم مانگ لو وہ مال جو تم نے بطورِ مہر خرچ کیا ہے ‘ اور وہ کافر بھی مانگ لیں جو کچھ انہوں نے خرچ کیا ہے۔ “ یعنی جو مہر تم نے اپنی کافر بیویوں کو دیے تھے وہ تم واپس مانگ لو ‘ اور جو مہر کافروں نے اپنی مسلمان بیویوں کو دیے تھے انہیں وہ واپس مانگ لیں۔ { ذٰلِکُمْ حُکْمُ اللّٰہِط یَحْکُمُ بَیْنَـکُمْ } ” یہ اللہ کا حکم ہے ‘ وہ تمہارے مابین فیصلہ کر رہا ہے۔ “ { وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔ } ” اور اللہ سب کچھ جاننے والا ‘ کمال حکمت والا ہے۔ “

ياأيها الذين آمنوا إذا جاءكم المؤمنات مهاجرات فامتحنوهن الله أعلم بإيمانهن فإن علمتموهن مؤمنات فلا ترجعوهن إلى الكفار لا هن حل لهم ولا هم يحلون لهن وآتوهم ما أنفقوا ولا جناح عليكم أن تنكحوهن إذا آتيتموهن أجورهن ولا تمسكوا بعصم الكوافر واسألوا ما أنفقتم وليسألوا ما أنفقوا ذلكم حكم الله يحكم بينكم والله عليم حكيم

سورة: الممتحنة - آية: ( 10 )  - جزء: ( 28 )  -  صفحة: ( 550 )

Surah Mumtahana Ayat 10 meaning in urdu

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب مومن عورتیں ہجرت کر کے تمہارے پاس آئیں تو (ان کے مومن ہونے کی) جانچ پڑتال کر لو، اور ان کے ایمان کی حقیقت اللہ ہی بہتر جانتا ہے پھر جب تمہیں معلوم ہو جائے کہ وہ مومن ہیں تو انہیں کفار کی طرف واپس نہ کرو نہ وہ کفار کے لیے حلال ہیں اور نہ کفار ان کے لیے حلال ان کے کافر شوہروں نے جو مہر اُن کو دیے تھے وہ انہیں پھیر دو اور ان سے نکاح کر لینے میں تم پر کوئی گناہ نہیں جبکہ تم اُن کے مہر اُن کو ادا کر دو اور تم خود بھی کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ روکے رہو جو مہر تم نے اپنی کافر بیویوں کو دیے تھے وہ تم واپس مانگ لو اور جو مہر کافروں نے اپنی مسلمان بیویوں کو دیے تھے انہیں وہ واپس مانگ لیں یہ اللہ کا حکم ہے، وہ تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے نڈر ہو کہ تم پر کنکر بھری
  2. اور اگر قرض لینے والا تنگ دست ہو تو (اسے) کشائش (کے حاصل ہونے) تک
  3. مگر اپنی بیویوں یا لونڈیوں سے کہ (ان کے پاس جانے پر) انہیں کچھ ملامت
  4. اور اس کے بعد زمین کو پھیلا دیا
  5. اور یہ جو یہودی ہیں ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ کلمات
  6. ہم نے تم میں مرنا ٹھہرا دیا ہے اور ہم اس (بات) سے عاجز نہیں
  7. یٰسٓ
  8. جو پرہیزگار ہیں وہ باغوں اور نہروں میں ہوں گے
  9. تو جو بدبخت ہوں گے وہ دوزخ میں (ڈال دیئے جائیں گے) اس میں ان
  10. (اے پیغمبر) لوگ تم سے (کلالہ کے بارے میں) حکم (خدا) دریافت کرتے ہیں کہہ

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah Mumtahana with the voice of the most famous Quran reciters :

surah Mumtahana mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Mumtahana Complete with high quality
surah Mumtahana Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah Mumtahana Bandar Balila
Bandar Balila
surah Mumtahana Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah Mumtahana Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah Mumtahana Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah Mumtahana Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah Mumtahana Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah Mumtahana Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah Mumtahana Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah Mumtahana Fares Abbad
Fares Abbad
surah Mumtahana Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah Mumtahana Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah Mumtahana Al Hosary
Al Hosary
surah Mumtahana Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah Mumtahana Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Tuesday, May 14, 2024

لا تنسنا من دعوة صالحة بظهر الغيب