Surah Nisa Ayat 105 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ ۚ وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا﴾
[ النساء: 105]
(اے پیغمبر) ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے تاکہ خدا کی ہدایت کے مطابق لوگوں کے مقدمات میں فیصلہ کرو اور (دیکھو) دغابازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا
Surah Nisa Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) ان آیات ( 104 سے 113تک ) کی شان نزول میں بتلایا گیا ہے کہ انصار کے قبیلہ بنی ظفر میں ایک شخص طعمہ یا بشیر بن ابیرق نے ایک انصاری کے زرہ چرالی، جب اس کا چرچا ہوا اور اس کو اپنی چوری کے بے نقاب ہونے کا خطرہ محسوس ہوا تو اس نے وہ زرہ ایک یہودی کے گھر پھینک دی اوربنی ظفر کے کچھ آدمیوں کو ساتھ لے کر نبی ( صلى الله عليه وسلم ) کی خدمت میں پہنچ گیا، ان سب نے کہا کہ زرہ چوری کرنے والا فلاں یہودی ہے۔ یہودی نبی ( صلى الله عليه وسلم ) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا کہ بنی ابیرق نے زرہ چوری کر کے میرے گھر پھینک دی ہے۔ بنی ظفر اور بنی ابیرق ( طعمہ یا بشیر وغیرہ ) ہشیار تھے اور نبی ( صلى الله عليه وسلم ) کو باور کراتے رہے کہ چور یہودی ہی ہے اور وہ طعمہ پرالزام لگانے میں جھوٹا ہے، نبی ( صلى الله عليه وسلم ) بھی ان کی چکنی چپڑی باتوں سے متاثر ہوگئے اور قریب تھا کہ اس انصاری کو چوری کے الزام سے بری کر کے یہودی پر چوری کی فرد جرم عائد فرما دیتے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی۔ جس سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ نبی ( صلى الله عليه وسلم ) بھی بہ حیثیت ایک انسان کے غلط فہمی میں پڑ سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آپ عالم الغیب نہیں تھے، ورنہ آپ ( صلى الله عليه وسلم ) پر فوراً صورتِ حال واضح ہو جاتی۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر ( صلى الله عليه وسلم ) کی حفاظت فرماتا ہے اور اگر کبھی حق کے پوشیدہ رہ جانے اور اس سے ادھر ادھر ہو جانے کا مرحلہ آجائے تو فوراً اللہ تعالیٰ اسے متنبہ فرما دیتا ہے اور اس کی اصلاح فرما دیتا ہے جیسا کہ عصمت انبیا کا تقاضا ہے۔ یہ وہ مقام عصمت ہے جو انبیا کے علاوہ کسی اور کو حاصل نہیں۔
( 2 ) اس سے مراد وہی بنی ابیرق ہے۔ جنہوں نے چوری خود کی لیکن اپنی چرب زبانی سے یہودی کو چور باور کرانے پر تلے ہوئے تھے۔ اگلے آیات میں بھی ان کے اور ان کے حمایتیوں کےغلط کردار کو نمایاں کرکے نبی ( صلى الله عليه وسلم ) کو خبردار کیا جا رہا ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
حقیقت چھپ نہیں سکتی اللہ تعالیٰ نبی اکرم ﷺ سے فرماتا ہے کہ یہ قرآن کریم جو آپ پر اللہ نے اتارا ہے وہ مکمل طور پر اور ابتداء تا انتہا حق ہے، اس کی خبریں بھی حق اس کے فرمان بھی برحق۔ پھر فرماتا ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان وہ انصاف کرو جو اللہ تعالیٰ تمہیں سمجھائے، بعض علمائے اصول نے اس سے استدلال کیا ہے کہ نبی ﷺ کو اجتہاد سے حکم کرنے کا اختیار دیا گیا تھا، اس کی دلیل بخاری مسلم کی حدیث بھی ہے کہ حضور ﷺ نے اپنے دروازے پر دو جھگڑنے والوں کی آواز سنی تو آپ باہر آئے اور فرمانے لگے میں ایک انسان ہوں جو سنتا ہوں اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں بہت ممکن ہے کہ یہ ایک شخص زیادہ حجت باز اور چرب زبان ہو اور میں اس کی باتوں کو صحیح جان کر اس کے حق میں فیصلہ دے دوں اور جس کے حق میں فیصلہ کر دوں فی الواقع وہ حقدار نہ ہو تو وہ سمجھ لے کہ وہ اس کے لئے جہنم کا ٹکڑا ہے اب اسے اختیار ہے کہ لے لے یا چھوڑ دے۔ مسند احمد میں ہے کہ دو انصاری ایک ورثے کے بارے میں حضور ﷺ کے پاس اپنا قضیہ لائے واقعہ کو زمانہ گذر چکا تھا دونوں کے پاس گواہ کوئی نہ تھا تو اس وقت آپ نے وہی حدیث بیان فرمائی اور فرمایا کہ میرے فیصلے کی بنا پر اپنے بھائی کا حق نہ لے لے اگر ایسا کرے گا تو قیامت کے دن اپنی گردن میں جہنم کی آگ لٹکا کر آئے گا اب تو وہ دونوں بزرگ رونے لگے اور ہر ایک کہنے لگا میں اپنا حق بھی اپنے بھائی کو دے رہا ہوں، حضور ﷺ نے فرمایا اب تم جاؤ اپنے طور پر جہاں تک تم سے ہوسکے ٹھیک ٹھیک حصے تقسیم کرو پھر قرعہ ڈال کر حصہ لے لو اور ہر ایک دوسرے کو اپنا رہا سہا غلطی کا حق معاف کردو۔ ابو داؤد میں بھی یہ حدیث ہے اور اس میں یہ الفاظ ہیں کہ میں تمہارے درمیان اپنی سمجھ سے ان امور میں فیصلہ کرتا ہوں جن میں کوئی وحی مجھ پر نازل شدہ نہیں ہوتی، ابن مردویہ میں ہے کہ انصار کا ایک گروہ ایک جہاد میں حضور ﷺ کے ساتھ تھا وہاں ایک شخض کی ایک چادر کسی نے چرالی اور اس چوری کا گمان طعمہ بن ابیرق کی طرف تھا حضور ﷺ کی خدمت میں یہ قصہ پیش ہوا چور نے اس چادر کو ایک شخص کے گھر میں اس کی بیخبر ی میں ڈال دیا اور اپنے کنبہ قبیلے والوں سے کہا میں نے چادر فلاں کے گھر میں ڈال دی ہے تم رات کو حضور ﷺ کے پاس جاؤ اور آپ سے ذکر کرو کہ ہمارا ساتھی تو چور نہیں چور فلاں ہے اور ہم نے پتہ لگا لیا ہے کہ چادر بھی اس کے گھر میں موجود ہے اس طرح آپ ہمارے ساتھی کی تمام لوگوں کی روبرو بریت کر دیجئے اور اس کی حمایت کیجئے ورنہ ڈر ہے کہ کہیں وہ ہلاک نہ ہوجائے آپ نے ایسا ہی کیا اس پر یہ آیتیں اتری اور جو لوگ اپنے جھوٹ کو پوشیدہ کرکے حضور ﷺ کے پاس آئے تھے ان کے بارے میں ( آیت یستخفون ) سے دو آیتیں نازل ہوئیں، پھر اللہ عزوجل نے فرمایا جو برائی اور بدی کا کام کرے اس سے مراد بھی یہی لوگ ہیں اور چور کے اور اس کے حمایتوں کے بارے میں اترا کہ جو گناہ اور خطا کرے اور ناکردہ گناہ کے ذمہ الزام لگائے وہ بہتان باز اور کھلا گنہگار ہے، لیکن یہ سیاق غریب ہے بعض بزرگوں سے مروی ہے کہ یہ آیت بنوابیرق کے چور کے بارے میں نازل ہوئی ہے، یہ قصہ مطلول ترمذی کتاب التفسیر میں بزبانی حضرت قتادہ اس طرح مروی ہے کہ ہمارے گھرانے کے بنوابیرق قبیلے کا ایک گھر تھا جس میں بشر، بشیر اور مبشر تھے، بشیر ایک منافق شخص تھا اشعار کو کسی اور کی طرف منسوب کرکے خوب مزے لے لے کر پڑھا کرتا تھا، اصحاب رسول ﷺ جاتنے تھے کہ یہی خبیث ان اشعار کا کہنے والا ہے، یہ لوگ جاہلیت کے زمانے سے ہی فاقہ مست چلے آ تھے مدینے کے لوگوں کا اکثر کھانا جو اور کھجوریں تھیں، ہاں تونگر لوگ شام کے آئے ہوئے قافلے والوں سے میدہ خرید لیتے جسے وہ خود اپنے لئے مخصوص کرلیتے، باقی گھر والے عموماً جو اور کھجوریں ہی کھاتے، میرے چچا رفاعہ یزید نے بھی شام کے آئے ہوئے قافلے سے ایک بورا میدہ کا خریدا اور اپنے بالا خانے میں اسے محفوظ کردیا جہاں ہتھیار زرہیں تلواریں وغیرہ بھی رکھی ہوئی تھیں رات کو چوروں نے نیچے سے نقب لگا کر اناج بھی نکال لیا اور ہتھیار بھی چرالے گئے، صبح میرے پاس آئے اور سارا واقعہ بیان کیا، اب ہم تجسس کرنے لگے تو پتہ چلا کہ آج رات کو بنو ابیرق کے گھر میں آگ جل رہی تھی اور کچھ کھا پکار رہے تھے غالباً وہ تمہارے ہاں سے چوری کر گئے ہیں، اس سے پہلے جب اپنے گھرانے والوں سے پوچھ گچھ کر رہے تھے تو اس قبیلے کے لوگوں نے ہم سے کہا تھا کہ تمہارا چور لبید بن سہل ہے، ہم جانتے تھے کہ لبید کا یہ کام نہیں وہ ایک دیانتدار سچا مسلمان شخص تھا۔ حضرت لبید کو جب یہ خبر ملی تو وہ آپے سے باہر ہوگئے تلوار تانے بنوابیرق کے پاس آئے اور کہنے لگے یا تو تم میری چوری ثابت کر ورنہ میں تمہیں قتل کر دونگا ان لوگوں نے ان کی برات کی اور معافی چاہ لی وہ چلے گئے، ہم سب کے سب پوری تحقیقات کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ چوری بنوابیرق نے کی ہے، میرے چچا نے مجھے کہا کہ تم جا کر رسول ﷺ کو خبر تو دو ، میں نے جاکر حضور ﷺ سے سارا واقعہ بیان کیا اور یہ بھی کہا کہ آپ ہمیں ہمارے ہتھیار دلوا دیجئے غلہ کی واپسی کی ضرورت نہیں، حضور ﷺ نے مجھے اطمینان دلایا کہ اچھا میں اس کی تحقیق کروں گا، یہ خبر جب بنوابیرق کو ہوئی تو انہوں نے اپنا ایک آدمی آپ کے پاس بھیجا جن کا نام اسید بن عروہ تھا انہوں نے آکر کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ تو ظلم ہو رہا ہے، بنوابیرق تو صلاحیت اور اسلام والے لوگ ہیں انہیں قتادہ بن نعمان اور ان کے چچا چور کہتے ہیں اور بغیر کسی ثوب اور دلیل کے چور کا بدنما الزام ان پر رکھتے ہیں وغیرہ، پھر جب میں خدمت نبوی میں پہنچا تو آپ نے مجھ سے فرمایا یہ تو تم بہت برا کرتے ہو کہ دیندار اور بھلے لوگوں کے ذمے چوری چپکاتے ہو جب کہ تمہارے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں، میں چپ چاپ واپس چلا آیا اور دل میں سخت پشیمان اور پریشان تھا خیال آتا تھا کہ کاش کہ میں اس مال سے چپ چاپ دست بردار ہوجاتا اور آپ سے اس کا ذکر ہی نہ کرتا تو اچھا تھا، اتنے میں میرے چچا آئے اور مجھ سے پوچھا تم نے کیا کیا ؟ میں نے سارا واقعہ ان سے بیان کیا جسے سن کر انہوں نے کہا اللہ المستعان اللہ ہی سے ہم مدد چاہتے ہیں، ان کا جانا تھا جو حضور ﷺ پر وحی میں یہ آیتیں اتریں پس خائنین سے مراد بنو ابیرق ہیں، آپ کو استغفار کا حکم ہوا یہ یہی آپ نے حضرت قتادہ کو فرمایا تھا، پھر ساتھ ہی فرما دیا گیا کہ اگر یہ لوگ استفغار کریں تو اللہ انہیں بخش دے گا، پھر فرمایا ناکردہ گناہ کے ذمہ گناہ تھوپنا بدترین جرم ہے، اجرا عظیما تک یعنی انہوں نے جو حضرت لبید کی نسبت کہا کہ چور یہ ہیں جب یہ آیتیں اتریں تو حضور ﷺ نے بنوابیرق سے ہمارے ہتھیار دلوائے میں انہیں لے کر اپنے چچا کے پاس آیا یہ بیچارے بوڑھے تھے آنکھوں سے بھی کم نظر آتا تھا مجھ سے فرمانے لگے بیٹا جاؤ یہ سب ہتھیار اللہ کے نام خیرات کردو، میں آج تک اپنے چچا کی نسبت قدرے بدگمان تھا کہ یہ دل سے اسلام میں پورے طور پر داخل نہیں ہوئے لیکن اس واقعہ نے بدگمانی میرے دل سے دور کردی اور میں ان کے سچے اسلام کا قائل ہوگیا، بشیر یہ سن کر مشرکین میں جا ملا اور سلافہ بنت سعد بن سمیہ کے ہاں جاکر اپنا قیام کیا، اس کے بارے میں اس کے بعد کی ( وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا01105ۧ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۭوَمَنْ يُّشْرِكْ باللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا01106 ) 4۔ النساء:115116) تک نازل ہوئیں اور حضرت حسان نے اس کے اس فعل کی مذمت اور اس کی ہجو اپنے شعروں میں کی، ان اشعار کو سن کر اسکی عورت کو بڑی غیرت آئی اور بشیر کا سب اسباب اپنے سر پر رکھ کر ابطح میدان میں پھینک آئی اور کہا تو کوئی بھلائی لے کر میرے پاس نہیں آیا بلکہ حسان کی ہجو کے اشعار لے کر آیا ہے میں تجھے اپنے ہاں نہیں ٹھہراؤں گی، یہ روایت بہت سی کتابوں میں بہت سی سندوں سے مطول اور مختصر مروی ہے۔ ان منافقوں کی کم عقلی کا بیان ہو رہا ہے کہ وہ جو اپنی سیاہ کاریوں کو لوگوں سے چھپاتے ہیں بھلا ان سے کیا نتیجہ ؟ اللہ تعالیٰ سے تو پوشیدہ نہیں رکھ سکتے، پھر انہیں خبردار کیا جا رہا ہے کہ تمہارے پوشیدہ راز بھی اللہ سے چھپ نہیں سکتے، پھر فرماتا ہے مانا کہ دنیوی حاکموں کے ہاں جو ظاہر داری پر فیصلے کرتے ہیں تم نے غلبہ حاصل کرلیا، لیکن قیامت کے دن اللہ کے سامنے جو ظاہر وباطن کا عالم ہے تم کیا کرسکو گے ؟ وہاں کسے وکیل بنا کر پیش کرو گے جو تمہارے جھوٹے دعوے کی تائید کرے، مطلب یہ ہے کہ اس دن تمہاری کچھ نہیں چلے گی۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 105 اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰٹک اللّٰہُ ط یعنی ایک تو اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو کتاب دی ہے ‘ قانون دیا ہے ‘ اس کے ساتھ آپ ﷺ کو بصیرت خاص دی ہے۔ مثلاً عدالت میں ایک جج بیٹھا ہے ‘ اس کے سامنے قانون کی کتاب ہے ‘ مقدمے سے متعلق متعلقہ ریکارڈ ہے ‘ شہادتیں ہیں ‘ اب ایک اس کی اپنی عقل چھٹی حِس اور قوت فیصلہ بھی ہوتی ہے ‘ جس کو بروئے کار لا کر وہ فیصلہ کرتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جیسا ہم آپ ﷺ کو دکھاتے ہیں اس کے مطابق آپ ﷺ فیصلہ کریں۔وَلاَ تَکُنْ لِّلْخَآءِنِیْنَ خَصِیْمًا یعنی آپ ﷺ ان کی طرف سے وکالت نہ فرمائیں۔ ایک شخص جو کہنے کو تو مسلمان ہے لیکن ہے خائن ‘ آپ ﷺ کو اس کی طرف داری نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے پس منظر میں در اصل ایک واقعہ ہے۔ ایک منافق نے کسی مسلمان کے گھر میں چوری کے لیے نقب لگائی اور وہاں سے آٹے کا ایک تھیلا اور کچھ اسلحہ چرا لیا۔ آٹے کے تھیلے میں سوراخ تھا ‘ جب وہاں سے وہ اپنے گھر کی طرف چلا تو سوراخ میں سے آٹا تھوڑا تھوڑا گرتا گیا۔ اس طرح اس کے راستے اور گھر کی نشاندہی ہوتی گئی ‘ مگر اسے خبر نہیں تھی کہ آٹے کی لکیر اس کا راز فاش کر رہی ہے۔ گھر پہنچ کر اسے خیال آیا کہ ممکن ہے مجھ پر شک ہوجائے ‘ چناچہ اس نے اسی وقت جا کر وہ سامان ایک یہودی کے ہاں امانتاً رکھوا دیا ‘ لیکن آٹے کا نشان وہاں بھی پہنچ گیا۔ اگلے روز جب تلاش شروع ہوئی تو آٹے کی لکیر کے ذریعے لوگ کھوج لگاتے ہوئے اس کے مکان پر پہنچ گئے ‘ لیکن پوچھ گچھ پر اس نے صاف انکار کردیا۔ تلاشی لی گئی ‘ مگر کوئی چیز برآمد نہ ہوئی۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ آٹے کے نشانات مزید آگے جا رہے ہیں تو وہ کھوج لگاتے ہوئے یہودی کے گھر پہنچے ‘ اس کے ہاں سے سامان بھی بر آمد ہوگیا۔ یہودی نے حقیقت بیان کردی کہ یہ سامان رات کو فلاں شخص نے اس کے پاس امانتاً رکھوایا تھا۔ منافق کی قوم کے لوگوں نے کہا کہ یہودی جھوٹ بولتا ہے ‘ وہی چور ہے۔ جب کوئی فیصلہ نہ ہوسکا تو یہ جھگڑا حضور ﷺ کے سامنے لایا گیا۔ منافق کے قبیلے والوں نے قسمیں کھا کھا کر خوب وکالت کی کہ ہمارا یہ آدمی تو بہت نیک ہے ‘ اس پر خواہ مخواہ کا جھوٹا الزام لگ رہا ہے۔ یہاں تک کہ حضور ﷺ کا دل بھی اس شخص کے بارے میں کچھ پسیجنے لگا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ آپ خیانت کرنے والے کے حمایتی نہ بنیں ‘ اس کی طرف سے وکالت نہ کریں ‘ اس کا سہارا نہ بنیں ‘ اس کو مدد نہ پہنچائیں۔ یہاں خَصِیْمًا کے معنی ہیں جھگڑا کرنے والا ‘ بحث کرنے والا۔ لِلخَاءِنِیْنَ کا مطلب ہے خائن لوگوں کے حق میں۔ لیکن اگر عَلَی الخَاءِنِین ہوتا تو اس کا مطلب ہوتا خائن لوگوں کے خلاف۔
إنا أنـزلنا إليك الكتاب بالحق لتحكم بين الناس بما أراك الله ولا تكن للخائنين خصيما
سورة: النساء - آية: ( 105 ) - جزء: ( 5 ) - صفحة: ( 95 )Surah Nisa Ayat 105 meaning in urdu
اے نبیؐ! ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ جو راہ راست اللہ نے تمہیں دکھائی ہے اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تم بد دیانت لوگوں کی طرف سے جھگڑنے والے نہ بنو
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- سلیمان نے کہا کہ اے دربار والو! کوئی تم میں ایسا ہے کہ قبل اس
- مومنو! تمہاری عورتیں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن (بھی) ہیں سو ان سے
- تو خدا سے ڈرو اور میرا کہا مانو
- ان کو اس بات کا کچھ بھی علم نہیں اور نہ ان کے باپ دادا
- یہی خدا تو تمہارا پروردگار برحق ہے۔ اور حق بات کے ظاہر ہونے کے بعد
- وہ بولے کہ ہم تو اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں
- اور الیاس بھی پیغمبروں میں سے تھے
- اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ دیا
- اور کہتے ہیں اگر تم سچ کہتے ہو تو یہ وعدہ کب (پورا) ہوگا؟
- تم بھی اور تمہارے اگلے باپ دادا بھی
Quran surahs in English :
Download surah Nisa with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Nisa mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Nisa Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers