Surah Al Araaf Ayat 107 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿فَأَلْقَىٰ عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُّبِينٌ﴾
[ الأعراف: 107]
موسیٰ نے اپنی لاٹھی (زمین پر) ڈال دی تو وہ اسی وقت صریح اژدھا (ہوگیا)
Surah Al Araaf UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
عصائے موسیٰ اور فرعون آپ نے فرعون کی اس طلب پر اپنے ہاتھ کی لکڑی زمین پر ڈال دی جو بہت بڑا سانپ بن گئی اور منہ پھاڑے فرعون کی طرف لپکی، وہ مارے خوف کے تخت پر سے کود گیا اور فریاد کرنے لگا کہ موسیٰ اللہ کے لئے اسے روک، اس نے اس قدر اپنا منہ کھولا تھا کہ نیچے کا جبڑا تو زمین پر تھا اور اوپر کا جبڑا محل کی بلندی پر۔ خوف کے مارے فرعون کی ہوا نکل گئی اور چیخنے لگا کہ موسیٰ اسے روک لے، میں ایمان لاتا ہوں اور اقرار کرتا ہوں کہ بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ کر دونگا۔ حضرت موسیٰ نے اسی وقت اس پر ہاتھ رکھا اور اسی وقت لکڑی جیسی لکڑی بن گیا۔ حضرت وہب فرماتے ہیں حضرت موسیٰ ؑ کو دیھکتے ہی فرعون کہنے لگا میں تجھے پہچانتا ہوں۔ آپ نے فرمایا یقینا اس نے کہا تو نے بچپن ہمارے گھر کے ٹکڑوں پر ہی تو گذارا ہے۔ اس کا جواب حضرت موسیٰ دے ہی رہے تھے کہ اس نے کہا اسے گرفتار کرلو۔ آپ نے جھٹ سے اپنی لکڑی زمین پر ڈال دی جس نے سانپ بن کر ان پر حملہ کردیا اس بد حواسی میں ایک دوسرے کو کچلتے اور قتل کرتے ہوئے وہ سب کے سب بھاگے چناچہ پچیس ہزار آدمی اسی ہنگامے میں ایک دوسرے کے ہاتھوں مارے گئے اور فرعون سیدھا اپنے گھر میں گھس گیا لیکن اس واقعہ کے بیان کی سند میں غرابت ہے واللہ اعلم۔ اسی طرح دوسرا معجزہ آپ نے یہ ظاہر کیا کہ اپنا ہاتھ اپنی چادر میں ڈال کر نکالا تو بغیر اس کے کہ کوئی روگ یا برص یا داغ ہو وہ سفید چمکتا ہوا بن کر نکل آیا جسے ہر ایک نے دیکھا پھر ہاتھ اندر کیا تو جیسا تھا ویسا ہی ہوگیا۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 105 حَقِیْقٌ عَلٰٓی اَنْ لآَّ اَقُوْلَ عَلَی اللّٰہِ الاَّ الْحَقَّ ط فرعون کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کوئی اجنبی آدمی نہیں تھے۔ آپ علیہ السلام اس کے ساتھ ہی شاہی محل میں پلے بڑھے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے وقت جو فرعون برسر اقتدار تھا وہ اس فرعون کا باپ تھا اور اسی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بچپن میں بچایا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے آپ علیہ السلام کو ایک صندوق میں بند کر کے دریائے نیل میں ڈال دیا تھا۔ وہ صندوق فرعون کے محل کے پاس ساحل پر آ لگا تھا اور محل کے ملازمین نے اسے اٹھا لیا تھا۔ فرعون کو پتا چلا تو وہ اسرائیلی بچہ سمجھ کر آپ علیہ السلام کے قتل کے درپے ہوا ‘ مگر اس کی بیوی نے اسے یہ کہہ کر باز رکھا تھا کہ ہم اس کو اپنا بیٹا بنالیں گے ‘ یہ ہمارے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگا : قُرَّتُ عَیْنٍ لِّیْ وَلَکَ ط القصص : 9 کیونکہ اس وقت تک ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی۔ چناچہ اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنا بیٹا بنا لیا۔ بعد میں اس کے ہاں بھی ایک بیٹا پیدا ہوا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا بیٹا تقریباً ہم عمر تھے ‘ وہ دونوں اکٹھے محل میں پلے بڑھے تھے اور ان کے درمیان حقیقی بھائیوں جیسی محبت تھی ‘ بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حیثیت بڑے بھائی کی تھی۔ جب بڑا فرعون بوڑھا ہوگیا تو اس نے اپنی زندگی میں ہی اقتدار اپنے بیٹے کے سپرد کردیا تھا۔ چناچہ جس فرعون کے دربار میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی نبوت کا دعویٰ کیا یہ وہی تھا جس کے ساتھ آپ علیہ السلام شاہی محل میں پلے بڑھے تھے۔ ابھی کچھ ہی برس پہلے آپ علیہ السلام یہاں سے مدین گئے تھے اور پھر مدین سے واپس آ رہے تھے تو آپ علیہ السلام کو نبوت اور رسالت ملی اس کی پوری تفصیل آگے جا کر سورة طٰہٰ اور سورة القصص میں آئے گی۔ اس پس منظر میں فرعون کے ساتھ آپ علیہ السلام کا بات کرنے کا انداز بھی کسی عام آدمی جیسا نہیں تھا۔ آپ علیہ السلام نے بڑے واضح اور بےباک انداز میں فرعون کو مخاطب کر کے فرمایا کہ دیکھو ! میرا یہ منصب نہیں اور یہ بات میرے شایان شان نہیں کہ میں تم سے کوئی لایعنی اور جھوٹی بات کروں۔قَدْ جِءْتُکُمْ بِبَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاَرْسِلْ مَعِیَ بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ بنی اسرائیل حضرت یوسف علیہ السلام کی وساطت سے فلسطین سے آکر مصر میں اس وقت آباد ہوئے تھے جب یہاں ایک عربی النسل خاندان کی حکومت تھی۔ اس خاندان کے بادشاہ چروا ہے بادشاہ Hiksos Kings کہلاتے تھے۔ ان کے دور حکومت میں حضرت یوسف علیہ السلام کے احترام کی وجہ سے بنی اسرائیل کو معاشرے میں ایک خصوصی مقام حاصل رہا اور وہ صدیوں تک عیش و عشرت کی زندگی گزارتے رہے۔ اس کے بعد کسی دور میں مصر کے اندر قوم پرست عناصر کے زیر اثر انقلاب آیا۔ اس انقلاب کے نتیجے میں حکمران خاندان کو ملک بدر کردیا گیا اور یہاں قبطی قوم کی حکومت قائم ہوگئی۔ یہ لوگ مصر کے اصل باشندے تھے۔ بنی اسرائیل کے لیے یہ تبدیلی بڑی منحوس ثابت ہوئی۔ سابق شاہی خاندان کے چہیتے ہونے کی وجہ سے وہ قبطی حکومت کے زیر عتاب آگئے اور ان کی حیثیت اور زندگی بتدریج پست سے پست اور سخت سے سخت ہوتی چلی گئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں یہ لوگ مصر میں غلامانہ زندگی گزار رہے تھے ‘ بلکہ فرعونوں کی طرف سے آئے روز ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جاتے تھے۔ یہ وہ حالات تھے جن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مبعوث کیا گیا تاکہ وہ بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلا کر واپس فلسطین لائیں۔ چناچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے مطالبہ کیا کہ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے دیا جائے۔
Surah Al Araaf Ayat 107 meaning in urdu
موسیٰؑ نے اپنا عصا پھینکا اور یکا یک وہ ایک جیتا جاگتا اژدہا تھا
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- تو جب زمین کی بلندی کوٹ کوٹ کو پست کر دی جائے گی
- اور ان میں بعض ایسے ہیں جو پیغمبر کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں
- تم دیکھو گے کہ ظالم اپنے اعمال (کے وبال) سے ڈر رہے ہوں گے اور
- جو لوگ ان سے پہلے تھے انہوں نے بھی تکذیب کی تھی تو ان پر
- پھر اگر تم احکام روشن پہنچ جانے کے بعد لڑکھڑاجاؤ تو جان جاؤ کہ خدا
- اے ایمان والوں! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتابیں دی گئی تھیں ان کو
- تو ان سے اعراض کرو۔ تم کو (ہماری) طرف سے ملامت نہ ہوگی
- خدا (ایسا خبیر وبصیر ہے کہ) کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں نہ زمین میں
- اور ہمارے لیے اس دنیا میں بھی بھلائی لکھ دے اور آخرت میں بھی۔ ہم
- مگر ان کے دل ان (باتوں) کی طرف سے غفلت میں (پڑے ہوئے) ہیں، اور
Quran surahs in English :
Download surah Al Araaf with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Araaf mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Araaf Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers