Surah Mumtahana Ayat 11 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَإِن فَاتَكُمْ شَيْءٌ مِّنْ أَزْوَاجِكُمْ إِلَى الْكُفَّارِ فَعَاقَبْتُمْ فَآتُوا الَّذِينَ ذَهَبَتْ أَزْوَاجُهُم مِّثْلَ مَا أَنفَقُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي أَنتُم بِهِ مُؤْمِنُونَ﴾
[ الممتحنة: 11]
اور اگر تمہاری عورتوں میں سے کوئی عورت تمہارے ہاتھ سے نکل کر کافروں کے پاس چلی جائے (اور اس کا مہر وصول نہ ہوا ہو) پھر تم ان سے جنگ کرو (اور ان سے تم کو غنیمت ہاتھ لگے) تو جن کی عورتیں چلی گئی ہیں ان کو (اس مال میں سے) اتنا دے دو جتنا انہوں نے خرچ کیا تھا اور خدا سے جس پر تم ایمان لائے ہو ڈرو
Surah Mumtahana Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) فَعَاقَبْتُمْ ( پس تم سزا دو یا بدلہ لو ) کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ مسلمان ہوکر آنے والی عورتوں کے حق مہر، جو تمہیں ان کے کافر شوہروں کو ادا کرنے تھے، وہ تم ان مسلمانوں کو دے دو، جن کی عورتیں کافر ہونے کی وجہ سے کافروں کے پاس چلی گئی ہیں۔ اور انہوں نے مسلمانوں کو مہر ادا نہیں کیا۔ ( یعنی یہ بھی سزا کی ایک صورت ہے ) دوسرا مفہوم یہ ہے کہ تم کافروں سے جہاد کرو اور جو مال غنیمت حاصل ہو، اس میں تقسیم سے پہلے ان مسلمانوں کو، جن کی بیویاں دار الکفر چلی گئی ہیں، ان کے خرچ کے بقدر ادا کر دو۔ گویا مال غنیمت سے مسلمانوں کے نقصان کا جبر ( ازالہ ) یہ بھی سزا ہے ( ایسرالتفاسیر وابن کثیر ) اگر مال غنیمت سے بھی ازالہ کی صورت نہ ہو تو بیت المال سے تعاون کیا جائے۔ ( ایسرالتفاسیر )۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
صلح حدیبیہ کا ایک پہلو سورة فتح کی تفسیر میں صلح حدیبیہ کا واقعہ مفصل بیان ہوچکا ہے، اس صلح کے موقعہ پر رسول اللہ ﷺ اور کفار قریش کے درمیان جو شرائط ہوئی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ جو کافر مسلمان ہو کر حضور ﷺ کے پاس چلا جائے آپ اسے اہل مکہ کو واپس کردیں، لیکن قرآن کریم نے ان میں سے ان عورتوں کو مخصوص کردیا کہ جو عورت ایمان قبول کر کے آئے اور فی الواقع ہو بھی وہ سچی ایمان دار تو مسلمان اسے کافروں کو واپس نہ دیں، حدیث شریف کی تخصیص قرآن کریم سے ہونے کی یہ ایک بہترین مثال ہے اور بعض سلف کے نزدیک یہ آیت اس حدیث کی ناسخ ہے۔ اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ حضرت ام کلثوم بنت عقبہ بن ابو میط ؓ مسلمان ہو کر ہجرت کر کے مدینہ چلی آئیں، ان کے دونوں بھائی عمارہ اور ولید ان کے واپس لینے کے لئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے کہا سنا پس یہ آیت امتحان نازل ہوئی اور مومنہ عورتوں کو واپس لوٹانے سے ممانعت کردی گئی، حضرت ابن عباس سے سوال ہوتا ہے کہ حضور ﷺ ان عورتوں کا امتحان کس طرح لیتے تھے ؟ فرمایا اس طرح کہ اللہ کی قسم کھا کر سچ سچ کہے کہ وہ اپنے خاوند کی ناچاقی کی وجہ سے نہیں چلی آئی صرف آب و ہوا اور زمین کی تبدیلی کرنے کے لئے بطور سیرو سیاحت نہیں آئی کسی دنیا طلبی کے لئے نہیں آئی بلکہ صرف اللہ کی اور اس کے رسول ﷺ کی محبت میں اسلام کی خاطر ترک وطن کیا ہے اور کوئی غرض نہیں، قسم دے کر ان سوالات کا کرنا اور خوب آزما لینا یہ کام حضرت عمر فاروق ؓ کے سپرد تھا اور روایت میں ہے کہ امتحان اس طرح ہوتا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے معبود برحق اور لاشریک ہونے کی گواہی دیں اور آنحضرت ﷺ کے اللہ کے بندے اور اس کے بھیجے ہوئے رسول ہونے کی شہادت دیں، اگر آزمائش میں کسی غرض دنیوی کا پتہ چل جاتا تو انہیں واپس لوٹا دینے کا حکم تھا۔ مثلاً یہ معلوم ہوجائے کہ میاں بیوی کی ان بن کی وجہ سے یا کسی اور شخص کی محبت میں چلی آئی ہے وغیرہ، اس آیت کے اس جملہ سے کہ اگر تمہیں معلم ہوجائے کہ یہ باایمان عورت ہے تو پھر اسے کافروں کی طرف مت لوٹاؤ ثابت ہوتا ہے کہ ایمان پر بھی یقینی طور پر مطلع ہوجانا ممکن امر ہے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ مسلمان عورتیں کافروں پر اور کافر مرد مسلمان عورتوں کے لئے حلال نہیں، اس آیت نے اس رشتہ کو حرام کردیا ورنہ اس سے پہلے مومنہ عورتوں کا نکاح کافر مردوں سے جائز تھا، جیسے کہ نبی ﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب ؓ کا نکاح ابو العاص بن ربیع سے ہوا تھا حالانکہ یہ اس وقت کافر تھے اور بنت رسول ﷺ مسلمہ تھیں، بدر کی لڑائی میں یہ بھی کافروں کے ساتھ تھے اور جو کافر زندہ پکڑے گئے تھے ان میں یہ بھی گرفتار ہو کر آئے تھے حضرت زینب نے اپنی والدہ حضرت خدیجہ ؓ کا ہار ان کے فدیئے میں بھیجا تھا کہ یہ آزاد ہو کر آئیں جسے دیکھ کر آنحضرت ﷺ پر بڑی رقت طاری ہوئی اور آپ نے مسلمانوں سے فرمایا اگر میری بیٹی کے قیدی کو چھوڑ دینا تم پسند کرتے ہو تو اسے رہا کردو مسلمانوں نے بہ خوشی بغیر فدیہ کے انہیں چھوڑ دینا منظور کیا چناچہ حضور ﷺ نے انہیں آزاد کردیا اور فرما دیا کہ آپ کی صاحبزادی کو آپ کے پاس مدینہ میں بھیج دیں انہوں نے اسے منظور کرلیا اور حضرت زید بن حارثہ ؓ کے ساتھ بھیج بھی دیا، یہ واقعہ سنہ 2 ہجری کا ہے، حضرت زینب نے مدینہ میں ہی اقامت فرمائی اور یونہی بیٹھی رہیں یہاں تک کہ سنہ 8 ہجری میں ان کے خاوند حضرت ابو العاص کو اللہ تعالیٰ نے توفیق اسلام دی اور وہ مسلمان ہوگئے تو حضور نے پھر اسی اگلے نکاح بغیر نئے مہر کے اپنی صاحبزادی کو ان کے پاس رخصت کردیا اور روایت میں ہے کہ دو سال کے بعد حضرت ابو العاص مسلمان ہوگئے تھے اور حضور ﷺ نے اسی پہلے نکاح پر حضرت زینب کو لوٹادیا تھا یہی صحیح ہے اس لئے کہ مسلمان عورتوں کے مشرک مردوں پر حرام ہونے کے دو سال بعد یہ مسلمان ہوگئے تھے، ایک اور روایت میں ہے کہ ان کے اسلام کے بعد نئے سرے سے نکاح ہوا اور نیا مہر بندھا، امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت یزید نے فرمایا ہے پہلی روایت کے راوی حضرت ابن عباس ہیں اور وہ روایت ازروئے اسناد کے بہت اعلیٰ اور دوسری روایت کے راوی حضرت عمرو بن شعیب ہیں اور عمل اسی پر ہے، لیکن یہ یاد رہے کہ عمرو بن شعیب والی روایت کے ایک راوی حجاج بن ارطاۃ کو حضرت امام احمد ؒ وغیرہ ضعیف بتاتے ہیں، حضرت ابن عباس والی حدیث کا جواب جمہوریہ دیتے ہیں کہ یہ شخصی واقعہ ہے ممکن ہے ان کی عدت ختم ہی نہ ہوئی ہو، اکثر حضرات کا مذہب یہ ہے کہ اس صورت میں جب عورت نے عدت کے دن پورے کر لئے اور اب تک اس کا کافر خاوند مسلمان نہیں ہوا تو وہ نکاح فسخ ہوجاتا ہے، ہاں بعض حضرات کا مذہب یہ بھی ہے کہ عدت پوری کرلینے کے بعد عورت کو اختیار ہے اگر چاہے اپنے اس نکاح کو باقی رکھے گار چاہے فسخ کر کے دوسرا نکاح کرلے اور اسی پر ابن عباس والی روایت کو محمول کرتے ہیں۔ پھر حکم ہوتا ہے کہ ان مہاجر عورتوں کے کافر خاوندوں کو ان کے خرچ اخراجات جو ہوئے ہیں وہ ادا کردو جیسے کہ مہر۔ پھر فرمان ہے کہ اب انہیں ان کے مہر دے کر ان سے نکاح کرلینے میں تم پر کوئی حرج نہیں، عدت کا گذر جانا ولی کا مقرر کرنا وغیرہ جو امور نکاح میں ضروری ہیں ان شرائط کو پورا کر کے ان مہاجرہ عورتوں سے جو مسلمان نکاح کرنا چاہے کرسکتا ہے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ تم پر بھی اے مسلمانو ان عورتوں کا اپنے نکاح میں باقی رکھنا حرام ہے جو کافرہ ہیں، اسی طرح کافر عورتوں سے نکاح کرنا بھی حرام ہے اس کے حکم نازل ہوتے ہی حضرت عمر ؓ نے اپنی دو کافر بیویوں کو فوراً طلاق دے دی جن میں سے ایک نے تو معاویہ بن سفیان سے نکاح کرلیا اور دوسری نے صفوان بن امیہ نے حضور ﷺ نے کافروں سے صلح کی اور ابھی تو آپ حدیبیہ کے نیچے کے حصے میں ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں سے کہہ دیا گیا کہ جو عورت مہاجرہ آئے اس کا باایمان ہونا اور خلوص نیت سے ہجرت کرنا بھی معلوم ہوجائے تو اس کے کافر خاوندوں کو ان کے دیئے ہوئے مہر واپس کردو اسی طرح کافروں کو بھی یہ حکم سنا دیا گیا، اس حکم کی وجہ وہ عہد نامہ تھا جو ابھی ابھی مرتب ہوا تھا۔ حضرت الفاروق نے اپنی جن دو کافرہ بیویوں کو طلاق دی ان میں سے پہلی کا نام قریبہ تھا یہ ابو امیہ بن مغیرہ کی لڑکی تھی اور دوسری کا نام ام کلثوم تھا جو عمرو بن حرول خزاعی کی لڑکی تھی حضرت عبید اللہ کی والدہ یہ ہی تھی، اس سے ابو جہم بن حذیفہ بن غانم خزاعی نے نکاح کرلیا یہ بھی مشرک تھا، اسی طرح اس حکم کے ماتحت حضرت طلحہ بن عبید اللہ نے اپنی کافرہ بیوی ارویٰ بنت ربیعہ بن حارث بن عبدامطلب کو طلاق دے دی اس سے خالد بن سعید بن عاص نے نکاح کرلیا۔ پھر ارشاد ہوتا ہے تمہاری بیویوں پر جو تم نے خرچ کیا ہے اسے کافروں سے لے لو جبکہ وہ ان میں چلی جائیں اور کافروں کی عورتیں جو مسلمان ہو کر تم میں آجائیں انہیں تم ان کا کیا ہوا خرچ دے دو۔ صلح کے بارے میں اور عورتوں کے بارے میں اللہ کا فیصلہ بیان ہوچکا جو اس نے اپنی مخلوق میں کردیا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی تمام تر مصلحتوں سے باخبر ہے اور اس کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہوتا اس لئے کہ علی الاطلاق حکیم وہی ہے۔ اس کے بعد کی آیت وان فاتکم الخ کا مطلب حضرت فتادہ ؒ یہ بیان فرماتے ہیں کہ جن کفار سے تمہارا عہد و پیمان صلح و صفائی نہیں، اگر کوئی عورت کسی مسلمان کے گھر سے جا کر ان میں جا ملے تو ظاہر ہے کہ وہ اس کے خاوند کا کیا ہوا خرچ نہیں دیں گے تو اس کے بدلے تمہیں بھی اجازت دی جاتی ہے کہ اگر ان میں سے کوئی عورت مسلمان ہو کر تم میں چلی آئے تو تم بھی اس کے خاوند کو کچھ نہ دو جب تک وہ نہ دیں۔ حضرت زہری ؒ فرماتے ہیں مسلمانوں نے تو اللہ کے اس حکم کی تعمیل کی اور کافروں کی جو عورتیں مسلمان ہو کر ہجرت کر کے آئیں ان کے لئے ہوئے مہر ان کے خاوندوں کو واپس کئے لیکن مشرکوں نے اس حکم کے ماننے سے انکار کردیا اس پر یہ آیت اتری اور مسلمانوں کو اجازت دی گئی کہ اگر تم میں سے کوئی عورت ان کے ہاں چلی گئی ہے اور انہوں نے تمہاری خرچ کی ہوئی رقم ادا نہیں کی تو جب ان میں سے کوئی عورت تمہارے ہاں آجائے تو تم اپناوہ خرچ نکال کر باقی اگر کچھ بچے تو دے دو ورنہ معاملہ ختم ہوا، حضرت ابن عباس ؓ سے اس کا یہ مطلب مروی ہے کہ اس میں رسول اللہ ﷺ کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ جو مسلمان عورت کافروں میں جا ملے اور کافر اس کے خاوند کو اس کا کیا ہوا خرچ ادا نہ کریں تو مال غنیمت میں سے آپ اس مسلمان کو بقدر اس کے خرچ کے دے دیں، پس فعاقبم کے معنی یہ ہوئے کہ پھر تمہیں قریش یا کسی اور جماعت کفار سے مال غنیمت ہاتھ لگے تو ان مردوں کو جن کی عورتیں کافروں میں چلی گئی ہیں ان کا کیا ہوا خرچ ادا کردو، یعنی مہر مثل، ان اقوال میں کوئی تضاد نہیں مطلب یہ ہے کہ پہلی صورت اگر ناممکن ہو تو وہ سہی ورنہ مال غنیمت میں سے اسے اس کا حق دے دیا جائے دونوں باتوں میں اختیار ہے اور حکم میں وسعت ہے حضرت امام ابن جریر اس تطبیق کو پسند فرماتے ہیں فالحمد اللہ۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 1 1{ وَاِنْ فَاتَـکُمْ شَیْئٌ مِّنْ اَزْوَاجِکُمْ اِلَی الْکُفَّارِ } ” اور اگر تمہاری بیویوں کے مہر میں سے کچھ کفار کی طرف رہ جائے “ اس صورت حال کو سمجھنے کے لیے فرض کریں کہ ایک مسلمان مرد ہجرت کر کے مدینہ آگیا اور اس کی مشرکہ بیوی مکہ میں ہی رہ گئی۔ بعد میں اس مسلمان نے اس خاتون کو پیغام بھجوایا کہ میرا تمہارا تعلق زوجیت ختم ہوچکا ہے لہٰذا تم مہر کی رقم مجھے لوٹا دو۔ اب اگر اس عورت نے مہر کی رقم واپس نہیں کی تو اس مسئلے کا حل بتایا جا رہا ہے کہ ایسی صورت میں تمہیں کیا کرنا ہے۔ { فَعَاقَـبْتُمْ فَاٰتُوا الَّذِیْنَ ذَہَبَتْ اَزْوَاجُہُمْ مِّثْلَ مَآ اَنْفَقُوْاط } ” تو جب تمہیں موقع ہاتھ آجائے تو جن لوگوں کی بیویاں جاتی رہی ہیں انہیں اتنی رقم ادا کر دو جتنی انہوں نے خرچ کی ہے۔ “ اگر کسی جنگ سے تمہیں کچھ مال غنیمت ملے تو اس میں سے ان لوگوں کو تلافی کے طور پر کچھ مال دے دو جن کی بیویاں ایمان نہ لانے کی وجہ سے ان کی زوجیت میں نہیں رہیں اور وہ انہیں مہر کی رقوم بھی لوٹانے کو تیار نہیں ‘ تاکہ اس رقم سے مہر ادا کر کے وہ لوگ مکہ سے ہجرت کر کے آنے والی ان خواتین سے نکاح کرسکیں جن کے مشرک خاوند مکہ میں رہ گئے ہیں۔ { وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْٓ اَنْتُمْ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَ۔ } ” اور اس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جس پر تمہارا ایمان ہے۔ “
وإن فاتكم شيء من أزواجكم إلى الكفار فعاقبتم فآتوا الذين ذهبت أزواجهم مثل ما أنفقوا واتقوا الله الذي أنتم به مؤمنون
سورة: الممتحنة - آية: ( 11 ) - جزء: ( 28 ) - صفحة: ( 550 )Surah Mumtahana Ayat 11 meaning in urdu
اور اگر تمہاری کافر بیویوں کے مہروں میں سے کچھ تمہیں کفار سے واپس نہ ملے اور پھر تمہاری نوبت آئے تو جن لوگوں کی بیویاں ادھر رہ گئی ہیں اُن کو اتنی رقم ادا کر دو جو اُن کے دیے ہوئے مہروں کے برابر ہو اور اُس خدا سے ڈر تے رہو جس پر تم ایمان لائے ہو
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- وہ جس دن ہمارے سامنے آئیں گے۔ کیسے سننے والے اور کیسے دیکھنے والے ہوں
- اور جب ان کو نصیحت دی جاتی ہے تو نصیحت قبول نہیں کرتے
- جو عاد تھے وہ ناحق ملک میں غرور کرنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم
- اور جب تم نے اسے سنا تھا تو کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں شایاں
- اور کمزور لوگ بڑے لوگوں سے کہیں گے (نہیں) بلکہ (تمہاری) رات دن کی چالوں
- ہم عنقریب اس کی ناک پر داغ لگائیں گے
- ہم تمہارے پاس حق لے کر آئے ہیں لیکن تم اکثر حق سے ناخوش ہوتے
- پس تم بھی انتظار کرو یہ بھی انتظار کر رہے ہیں
- اور سب مل کر خدا کی (ہدایت کی رسی) کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق
- اور پانی کے جھرنوں
Quran surahs in English :
Download surah Mumtahana with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Mumtahana mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Mumtahana Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers