Surah yusuf Ayat 110 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ یوسف کی آیت نمبر 110 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah yusuf ayat 110 best quran tafseer in urdu.
  
   
Verse 110 from surah Yusuf

﴿حَتَّىٰ إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا جَاءَهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّيَ مَن نَّشَاءُ ۖ وَلَا يُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ﴾
[ يوسف: 110]

Ayat With Urdu Translation

یہاں تک کہ جب پیغمبر ناامید ہوگئے اور انہوں نے خیال کیا کہ اپنی نصرت کے بارے میں جو بات انہوں نے کہی تھی (اس میں) وہ سچے نہ نکلے تو ان کے پاس ہماری مدد آ پہنچی۔ پھر جسے ہم نے چاہا بچا دیا۔ اور ہمارا عذاب (اتر کر) گنہگار لوگوں سے پھرا نہیں کرتا

Surah yusuf Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) یہ مایوسی اپنی قوم کے ایمان لانے سے ہوئی۔
( 2 ) قرأت کے اعتبار سے اس آیت کے کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ لیکن سب سے مناسب مفہوم یہ ہے کہ ظَنُّوا کا فاعل قوم کفار کو قرار دیا جائے یعنی کفار عذاب کی دھمکی پر پہلے تو ڈرے لیکن جب زیادہ تاخیر ہوئی تو خیال کیا کہ عذاب تو آتا نہیں ہے، ( جیسا کہ پیغمبر کی طرف سے دعویٰ ہو رہا ہے ) اور نہ آتا نظر ہی آتا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ نبیوں سے بھی یوں ہی جھوٹا وعدہ کیا گیا ہے۔ مطلب نبی کریم ( صلى الله عليه وسلم ) کو تسلی دینا ہے کہ آپ کی قوم پر عذاب میں جو تاخیر ہو رہی ہے، اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پچھلی قوموں پر بھی عذاب میں بڑی بڑی تاخیر روا رکھی گئی ہے اور اللہ کی مشیت و حکمت کے مطابق انہیں خوب خوب مہلت دی گئی حتیٰ کہ رسول اپنی قوم کے ایمان سے مایوس ہوگئے اور لوگ یہ خیال کرنے لگے کہ شاید انہیں عذاب کا یوں ہی جھوٹ موٹ کہہ دیا گیا ہے۔
( 3 ) اس میں دراصل اللہ تعالٰی کے اس قانون مہلت کا بیان ہے، جو وہ نافرمانوں کو دیتا ہے، حتیٰ کہ اس بارے میں وہ اپنے پیغمبروں کی خواہش کے برعکس بھی زیادہ سے زیادہ مہلت عطا کرتا ہے، جلدی نہیں کرتا، یہاں تک کہ بعض دفعہ پیغمبر کے ماننے والے بھی عذاب سے مایوس ہو کر یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ ان سی یوں ہی جھوٹ موٹ کا وعدہ کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ محض ایسے وسوسے کا پیدا ہو جانا ایمان کے منافی نہیں ہے۔
( 4 ) یہ نجات پانے والے اہل ایمان ہی ہوتے تھے۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


جب مخالفت عروج پر ہو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس کی مدد اس کے رسولوں پر بروقت اترتی ہے۔ دنیا کے جھٹکے جب زوروں پر ہوتے ہیں، مخالفت جب تن جاتی ہے، اختلاف جب بڑھ جاتا ہے، دشمنی جب پوری ہوجاتی ہے، انبیاء اللہ کو جب چاروں طرف سے گھیر لیا جاتا ہے، معا اللہ کی مدد آپہنچتی ہے۔ کذبوا اور کذبوا دونوں قرأتیں ہیں، حضرت عائشہ کی قرأت ذال کی تشدید سے ہے، چناچہ بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عروہ بن زبیر ؓ نے حضرت عائشہ سے پوچھا کہ یہ لفظ کذبوا یا کذبوا ہے ؟ حضرت عائشہ نے فرمایا کذبوا ہے۔ انہوں نے کہا پھر تو یہ معنی ہوئے کہ رسولوں نے گمان کیا کہ وہ جھٹلائے گئے تو یہ گمان کی کون سی بات تھی یہ تو یقینی بات تھی کہ وہ جھٹلائے جاتے تھے۔ آپ نے فرمایا بیشک یہ یقینی بات تھے کہ وہ کفار کی طرف سے جھٹلائے جاتے تھے لیکن وہ وقت بھی آئے کہ ایمان دار امتی بھی ایسے زلزلے میں ڈالے گئے اور اس طرح ان کی مدد میں تاخیر ہوئی کہ رسولوں کے دل میں آئی کہ غالبا اب تو ہماری جماعت بھی ہمیں جھٹلانے لگی ہوگی۔ اب مدد رب آئی۔ اور انہیں غلبہ ہوا۔ تم اتنا تو خیال کرو کہ کذبوا کیسے ٹھیک ہوسکتا ہے ؟ معاذ اللہ کیا انبیاء ( علیہم السلام ) اللہ کی نسبت یہ بدگمانی کرسکتے ہیں کہ انہیں رب کی طرف سے جھٹلایا گیا ؟ ابن عباس کی قرأت میں کذبوا ہے۔ آپ اس کی دلیل میں آیت ( حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ02104 ) 2۔ البقرة :214) پڑھ دیتے تھے یعنی یہاں تک کہ انبیاء اور ایماندار کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کہاں ہے۔ یاد رکھو مدد رب بالکل قریب ہے۔ حضرت عائشہ ؓ اس کا سختی سے انکار کرتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ جناب رسول اللہ آنحضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے اللہ تعالیٰ نے جتنے وعدے کئے، آپ کو کامل یقین تھا کہ وہ سب یقینی اور حتمی ہیں اور سب پورے ہو کر ہی رہیں گے آخر دم تک کبھی نعوذ باللہ آب کے دل میں یہ وہم ہی پیدا نہیں ہوا کہ کوئی وعدہ ربانی غلط ثابت ہوگا۔ یا ممکن ہے کہ غلظ ہوجائے یا پورا نہ ہو۔ ہاں انبیا ( علیہم السلام ) پر برابر بلائیں اور آزمائشیں آتی رہیں، یہاں تک کہ ان کے دل میں یہ خطرہ پیدا ہونے لگا کہ کہیں میرے ماننے والے بھی مجھ سے بدگمان ہو کر مجھے جھٹلا نہ رہے ہوں۔ ایک شخص قاسم بن محمد کے پاس آ کر کہتا ہے کہ محمد بن کعب قرظی کذبوا پڑھتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ ان سے کہہ دو۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کی زوجہ صدیقہ عائشہ سے سنا ہے وہ کذبوا پڑھتی تھیں یعنی ان کے ماننے والوں نے انہیں جھٹلایا۔ پس ایک قرأت تو تشدید کے ساتھ ہے دوسری تخفیف کے ساتھ ہے، پھر اس کی تفسیر میں ابن عباس سے تو وہ مری ہے جو اوپر گزر چکا۔ ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ آپ نے یہ آیت اسی طرح پڑھ کر فرمایا یہی وہ ہے جو تو برا جانتا ہے۔ یہ روایت اس روایت کے خلاف ہے، جسے ان دونوں بزرگوں سے اوروں نے روایت کیا ہے، اس میں ہے کہ ابن عباس ؓ نے فرمایا جب رسول ناامید ہوگئے کہ ان کی قوم ان کی مانے گی اور قوم نے یہ سمجھ لیا کہ نبیوں نے ان سے جھوٹ کہا، اسی وقت اللہ کی مدد آپہنچی اور جسے اللہ نے چاہا نجات بخشی۔ اسی طرح کی تفسیر اوروں سے بھی مروی ہے۔ ایک نوجوان قریشی نے حضرت سعید بن جبیر ؒ سے کہا کہ حضرت ہمیں بتائیے، اس لفظ کو کیا پڑھیں، مجھ سے تو اس لفظ کی قرأت کی وجہ سے ممکن ہے کہ اس سورت کا پڑھنا ہی چھوٹ جائے۔ آپ نے فرمایا سنو اس کا مطلب یہ کہ انبیاء اس سے مایوس ہوگئے کہ ان کی قوم ان کی بات مانے گی اور قوم والے سمجھ بیٹھے کہ نبیوں نے غلط کہا ہے یہ سن کر حضرت ضحاک بن مزاحم بہت ہی خوش ہوئے اور فرمایا کہ اس جیسا جواب کسی ذی علم کا میں نے نہیں سنا اگر میں یہاں سے یمن پہنچ کر بھی ایسے جواب کو سنتا تو میں اسے بھی بہت آسان جانتا۔ مسلم بن یسار ؒ نے بھی آپ کا یہ جواب سن کر اٹھ کر آپ سے معانقہ کیا اور کہا اللہ تعالیٰ آپ کی پریشانیوں کو بھی اسی طرح دور کر دے، جس طرح آپ نے ہماری پریشانی دور فرمائی۔ بہت سے اور مفسرین نے بھی یہی مطلب بیان کیا ہے بلکہ مجاہد ؒ کی تو قرأت ذال کے زبر سے ہے یعنی کذبوا ہاں بعض مفسرین وظنوا کا فاعل مومنوں کو بتاتے ہیں اور بعض کافروں کو یعنی کافروں نے یا یہ کہ بعض مومنوں نے یہ گمان کیا کہ رسولوں سے جو وعدہ مدد کا تھا اس میں وہ جھوٹے ثابت ہوئے عبداللہ بن مسعود ؓ تو فرماتے ہیں رسول ناامید ہوگئے یعنی اپنی قوم کے ایمان سے اور نصرت ربانی میں دیر دیکھ کر ان کو قوم گمان کرنے لگی کہ وہ جھوٹا وعدہ دئے گئے تھے۔ پس یہ دونوں روایتیں تو ان دونوں بزرگ صحابیوں سے مروی ہیں۔ اور حضرت عائشہ ؓ اس کا صاف انکار کرتی ہیں۔ ابن جریر ؒ بھی قول صدیقہ کی طرفداری کرتے اور دوسرے قول کی تردید کرتے ہیں اور اسے ناپسند کر کے رد کردیتے ہیں، واللہ اعلم۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 110 حَتّٰٓي اِذَا اسْتَيْــــَٔـسَ الرُّسُلُ یعنی متعلقہ قوم میں جس قدر فطرت سلیمہ کی استعداد potential تھی اس لحاظ سے نتائج سامنے آچکے۔ ان میں سے جن لوگوں نے ایمان لانا تھا وہ ایمان لا چکے اور مزید کسی کے ایمان لانے کی توقع نہ رہی۔ بالفاظ دیگر اس چاٹی میں سے جس قدر مکھن نکلنا تھا نکل چکا ‘ اب اسے مزید بلونے کا کوئی فائدہ نظر نہیں آ رہا۔وَظَنُّوْٓا اَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوْایہاں ظَنُّوْٓا کا فاعل متعلقہ قوم کے لوگ ہیں ‘ یعنی اب تک جو لوگ ایمان نہیں لائے تھے وہ مزید دلیر ہوگئے۔ انہوں نے یہ سمجھا کہ یہ سب کچھ واقعی جھوٹ تھا۔ کیونکہ اگر سچ ہوتا تو اتنے عرصے سے ہمیں جو عذاب کی دھمکیاں مل رہی تھیں وہ پوری ہوجاتیں۔ ہم ایمان بھی نہیں لائے اور عذاب بھی نہیں آیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت کا دعویٰ اور عذاب کے یہ ڈراوے سب جھوٹ ہی تھا۔جَاۗءَهُمْ نَصْرُنَایعنی انبیاء و رسل کی دعوت اور حق و باطل کی کشمکش کے دوران ہمیشہ ایسا ہوا کہ جب دونوں طرف کی سوچ اپنی اپنی آخری حد تک پہنچتی پیغمبر سمجھتے کہ اب مزید کوئی شخص ایمان نہیں لائے گا اور منکرین سمجھتے کہ اب کوئی عذاب وغیرہ نہیں آئے گا یہ سب ڈھونگ تھا تو عین ایسے موقع پر نبیوں اور رسولوں کے پاس ہماری طرف سے مدد پہنچ جاتی۔فَنُجِّيَ مَنْ نَّشَاۗءُ ۭ وَلَا يُرَدُّ بَاْسُـنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْنَ یعنی اپنے انبیاء ورسل کے لیے ہماری یہ مدد منکرین حق پر عذاب کی صورت میں آتی اور اس عذاب سے جسے ہم چاہتے بچا لیتے ‘ لیکن اس سلسلے کی اٹل حقیقت یہ ہے کہ ایسے موقع پر مجرمین پر ہمارا عذاب آکر ہی رہتا ہے۔ ان کی طرف سے اس کا رخ کسی طور سے موڑا نہیں جاسکتا۔

حتى إذا استيأس الرسل وظنوا أنهم قد كذبوا جاءهم نصرنا فنجي من نشاء ولا يرد بأسنا عن القوم المجرمين

سورة: يوسف - آية: ( 110 )  - جزء: ( 13 )  -  صفحة: ( 248 )

Surah yusuf Ayat 110 meaning in urdu

(پہلے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا ہے کہ وہ مدتوں نصیحت کرتے رہے اور لوگوں نے سن کر نہ دیا) یہاں تک کہ جب پیغمبر لوگوں سے مایوس ہو گئے اور لوگوں نے بھی سمجھ لیا کہ اُن سے جھوٹ بولا گیا تھا، تو یکا یک ہماری مدد پیغمبروں کو پہنچ گئی پھر جب ایسا موقع آ جاتا ہے تو ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ جسے ہم چاہتے ہیں بچا لیتے ہیں اور مجرموں پر سے تو ہمارا عذاب ٹالا ہی نہیں جا سکتا


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. اور وہ کہ جب ان کو پروردگار کی باتیں سمجھائی جاتی ہیں تو اُن پر
  2. پھر نہ وصیت کرسکیں گے اور نہ اپنے گھر والوں میں واپس جاسکیں گے
  3. اور نفس لوامہ کی (کہ سب لوگ اٹھا کر) کھڑے کئے جائیں گے
  4. اور عاد (کی قوم کے حال) میں بھی (نشانی ہے) جب ہم نے ان پر
  5. اور اپنی لاٹھی ڈال دو۔ جب اُسے دیکھا تو (اس طرح) ہل رہی تھی گویا
  6. (یہ بات) تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے تو تم ہرگز شک کرنے والوں
  7. اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے (سمجھانے کے) لئے بیان کرتے ہیں اور اُسے تو
  8. اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں اور آخرت کے آنے کو جھٹلایا ان کے اعمال
  9. اور آسمان کھولا جائے گا تو (اس میں) دروازے ہو جائیں گے
  10. تو جو کچھ یہ (کفار) بکتے ہیں اس پر صبر کرو اور آفتاب کے طلوع

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah yusuf with the voice of the most famous Quran reciters :

surah yusuf mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter yusuf Complete with high quality
surah yusuf Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah yusuf Bandar Balila
Bandar Balila
surah yusuf Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah yusuf Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah yusuf Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah yusuf Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah yusuf Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah yusuf Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah yusuf Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah yusuf Fares Abbad
Fares Abbad
surah yusuf Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah yusuf Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah yusuf Al Hosary
Al Hosary
surah yusuf Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah yusuf Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Tuesday, May 21, 2024

لا تنسنا من دعوة صالحة بظهر الغيب