Surah taha Ayat 115 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَىٰ آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا﴾
[ طه: 115]
اور ہم نے پہلے آدم سے عہد لیا تھا مگر وہ (اسے) بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا
Surah taha Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) نسیان، ( بھول جانا ) ہر انسان کی سرشت میں داخل ہے اور ارادے کی کمزوری یعنی فقدان عزم۔ یہ بھی انسانی خصلت میں بالعموم پائی جاتی ہے۔ یہ دونوں کمزوریاں ہی شیطان کے وسوسوں میں پھنس جانے کا باعث بنتی ہیں۔ اگر ان کمزوریوں میں اللہ کے حکم سے بغاوت و سرکشی کا جذبہ اور اللہ کی نافرمانی کا عزم مصمم شامل نہ ہو، تو بھول اور ضعف ارادہ سے ہونے والی غلطی عصمت و کمال نبوت کے منافی نہیں، کیونکہ اس کے بعد انسان فوراً نادم ہو کر اللہ کی بارگاہ میں جھک جاتا اور توبہ و استفغار میں مصروف ہو جاتا ہے۔ ( جیسا کہ حضرت آدم (عليه السلام ) نے کیا) حضرت آدم ( عليه السلام ) کو اللہ نے سمجھایا تھا کہ شیطان تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے، یہ تمہیں جنت سے نہ نکلوا دے گا۔ یہی وہ بات ہے جسے یہاں عہد سے تعبیر کیا گیا ہے۔ آدم ( عليه السلام ) اس عہد کو بھول گئے اور اللہ تعالٰی نے حضرت آدم ( عليه السلام ) کو ایک درخت کے قریب جانے یعنی اس سے کچھ کھانے سے منع فرمایا تھا۔ حضرت آدم ( عليه السلام ) کے دل میں یہ بات تھی کہ وہ اس درخت کے قریب نہیں جائیں گے۔ لیکن جب شیطان نے اللہ کی قسمیں کھا کر انہیں یہ باور کرایا کہ اس کا پھل تو یہ تاثیر رکھتا ہے کہ جو کھا لیتا ہے، اسے زندگی جاوداں اور دائمی بادشاہت مل جاتی ہے۔ تو ارادے پر قائم نہ رہ سکے اور اس فقدان عزم کی وجہ سے شیطانی وسوسے کا شکار ہوگئے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
انسان کو انسان کیوں کہا جاتا ہے ؟ حضرت عباس ؓ ما فرماتے ہیں انسان کو انسان اس لئے کہا جاتا ہے کہ اسے جو حکم سب سے پہلے فرمایا گیا یہ اسے بھول گیا۔ مجاہد اور حسن فرماتے ہیں اس حکم کو حضرت آدم ؑ نے چھوڑ دیا۔ پھر حضرت آدم ؑ کی شرافت و بزرگی کا بیان ہو رہا ہے کہ سورة بقرۃ سورة اعراف سورة حجر اور سورة کہف میں شیطان کے سجدہ نہ کرنے والے واقعہ کی پوری تفسیر بیان کی جاچکی ہے اور سورة ص میں بھی اس کا بیان آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ ان تمام سورتوں میں حضرت آدم ؑ کی پیدائش کا پھر ان کی بزرگی کے اظہار کے لئے فرشتوں کو انہیں سجدہ کرنے کے حکم کا اور ابلیس کی مخفی عداوت کے اظہار کا بیان ہوا ہے، اس نے تکبر کیا اور حکم الٰہی کا انکار کردیا۔ اس وقت حضرت آدم ؑ کو سمجھا دیا گیا کہ دیکھ یہ تیرا اور تیری بیوی حضرت حوا ؑ کا دشمن ہے اس کے بہکاوے میں نہ آنا ورنہ محروم ہو کر جنت سے نکال دیے جاؤ گے اور سخت مشقت میں پڑجاؤ گے۔ روزی کی تلاش کی محنت سر پڑجائے گی۔ یہاں تو بےمحنت ومشقت روزی پہنچ رہی ہے۔ یہاں تو ناممکن ہے کہ بھوکے رہو ناممکن ہے کہ ننگے رہو اس اندورنی اور بیرونی تکلیف سے بچے ہوئے ہو۔ پھر یہاں نہ پیاس کی گرمی اندرونی طور سے ستائے، نہ دھوپ کی تیزی کی گرمی بیرونی طور پر پریشان کرے اگر شیطان کے بہکاوے میں آگئے تو یہ راحتیں چھین لی جائیں گی اور ان کے مقابل کی تکلیفیں سامنے آجائیں گی۔ لیکن شیطان نے اپنے جال میں انہیں پھانس لیا اور مکاری سے انہیں اپنی باتوں میں لے لیا قسمیں کھا کھا کر انہیں اپنی خیر خواہی کا یقین دلادیا۔ پہلے ہی سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان سے فرما دیا تھا کہ جنت کے تمام میوے کھانا لیکن اس درخت کے نزدیک نہ جانا۔ مگر شیطان نے انہیں اس قدر پھسلایا کہ آخرکار یہ اس درخت میں سے کھا بیٹھے۔ اس نے دھوکہ کرتے ہوئے ان سے کہا کہ جو اس درخت کو کھا لیتا ہے وہ ہمیشہ یہیں رہتا ہے۔ صادق ومصدوق آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے تلے سوار سو سال تک چلا جائے گا لیکن تاہم وہ ختم نہ ہوگا اس کا نام شجرۃ الخلد ہے ( مسند احمد وابوداؤد طیالسی ) دونوں نے درخت میں سے کچھ کھایا ہی تھا کہ لباس اتر گیا اور اعضا ظاہر ہوگئے۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو گندمی رنگ کا لمبے قدوقامت والازیادہ بالوں والا بنایا تھا کھجور کے درخت جتنا قد تھا ممنوع درخت کو کھاتے ہی لباس چھن گیا۔ اپنے ستر کو دیکھتے ہی مارے شرم کے ادھر ادھر چھپنے لگے، ایک درخت میں بال الجھ گئے، جلدی سے چھڑانے کی کوشش کر رہے تھے جب اللہ تعالیٰ نے آواز دی کہ آدم کیا مجھ سے بھاگ رہا ہے ؟ کلام رحمان سن کر ادب سے عرض کیا کہ اے اللہ مارے شرمندگی کے سرچھپانا چاہتا ہوں۔ اچھا اب یہ تو فرما دے کہ توبہ اور رجوع کے بعد بھی جنت میں پہنچ سکتا ہوں ؟ جواب ملا کہ ہاں۔ یہی معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے۔ آدم نے اپنے رب سے چند کلمات لے لئے جس کی بنا پر اللہ نے اسے پھر سے اپنی مہربانی میں لے لیا۔ یہ روایت منقطع ہے اور اس کے مرفوع ہونے میں بھی کلام ہے۔ جب حضرت آدم ؑ و حضرت حوا ؑ سے لباس چھن گیا تو اب جنت کے درختوں کے پتے اپنے جسم پر چپکانے لگے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں انجیر کے پتوں سے اپنا آپ چھپانے لگے۔ اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے راہ راست سے ہٹ گئے۔ لیکن آخرکار اللہ تعالیٰ نے پھر ان کی رہنمائی کی۔ توبہ قبول فرمائی اور اپنے خاص بندوں میں شامل کرلیا۔ صحیح بخاری شریف وغیرہ میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت آدم ؑ میں گفتگو ہوئی۔ حضرت موسیٰ ؑ فرمانے لگے آپ نے اپنے گناہ کی وجہ سے تمام انسانوں کو جنت سے نکلوا دیا اور انہیں مشقت میں ڈال دیا۔ حضرت آدم ؑ جواب دیا اے موسیٰ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت سے اور اپنے کلام سے ممتاز فرمایا آپ مجھے اس بات پر الزام دیتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے پہلے مقدر اور مقرر کرلیا تھا۔ پس حضرت آدم ؑ نے اس گفتگو میں حضرت موسیٰ ؑ کو لاجواب کردیا۔ اور روایت میں حضرت موسیٰ ؑ کا یہ فرمان بھی ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا تھا اور آپ میں آپ کی روح اس نے پھونکی تھی۔ اور آپ کے سامنے اپنے فرشتوں کو سجدہ کرایا تھا اور آپ کو اپنی جنت میں بسایا تھا۔ حضرت آدم ؑ کے اس جواب میں یہ بھی مروی ہے کہ اللہ نے آپ کو وہ تختیاں دیں جن میں ہر چیز کا بیان تھا اور سرگوشی کرتے ہوئے آپ کو قریب کرلیا بتلاؤ اللہ نے تورات کب لکھی تھی ؟ جواب دیا آپ سے چالیس سال پہلے پوچھا کیا اس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ حضرت آدم ؑ نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور راہ بھول گیا کہا ہاں۔ فرمایا پھر تم مجھے اس امر کا الزام کیوں دیتے ہو ؟ جو میری تقدیر میں اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے بھی چالیس سال پہلے لکھ دیا تھا۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 115 وَلَقَدْ عَہِدْنَآ اِلآی اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ ” یعنی مخصوص درخت کے پاس نہ جانے کا عہد ‘ جس کا ذکر قرآن میں متعدد بار ہوا ہے۔فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا ”آیت زیر نظر میں ”عزم “ کے دو ترجمے کیے گئے ہیں اور دونوں صحیح ہیں۔ ایک ارادے کی پختگی۔ اس لحاظ سے وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا کا مفہوم یہ ہوگا کہ ہم نے آدم علیہ السلام کے اندر ارادے کی پختگی ‘ ہمت اور عزیمت نہیں پائی۔ وہ اللہ سے کیے گئے اپنے عہد کو نبھا نہ سکے اور اس اعتبار سے انہوں نے کمزوری کا مظاہرہ کیا۔ یہ دراصل انسانی خلقت کے اندر موجود اس کمزوری کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر سورة النساء میں اس طرح آیا ہے : وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا کہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔اس کا دوسرا ترجمہ یہ کیا گیا ہے کہ ہم نے اس کے اندر سرکشی کا ارادہ نہیں پایا۔ یعنی آدم علیہ السلام نے جان بوجھ کر اس عہد کی خلاف ورزی نہیں کی تھی۔ ہم نے ان علیہ السلام کی نیت میں سرکشی ‘ بغاوت اور نافرمانی کا کوئی ارادہ نہیں دیکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بھول گئے تھے ‘ ان پر نسیان طاری ہوگیا تھا ‘ جس کی وجہ سے انہیں وقتی طور پر اللہ کا وہ عہد یاد نہیں رہا تھا۔ نسیان دراصل انسان کی ایک فطری کمزوری ہے اور اسی حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ عظیم دعا سکھائی ہے : رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا ج البقرۃ : 286 کہ اے ہمارے پروردگار ! ہمارا مواخذہ نہ کرنا اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے خطا ہوجائے۔
ولقد عهدنا إلى آدم من قبل فنسي ولم نجد له عزما
سورة: طه - آية: ( 115 ) - جزء: ( 16 ) - صفحة: ( 320 )Surah taha Ayat 115 meaning in urdu
ہم نے اِس سے پہلے آدمؑ کو ایک حکم دیا تھا، مگر وہ بھول گیا اور ہم نے اُس میں عزم نہ پایا
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور سیدھا رستہ بھی دکھاتے
- اور خدا ہی نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے پھر تم
- (تمام) بادشاہت خدا ہی کی ہے آسمانوں کی بھی اور زمین کی بھی۔ وہ جو
- وہ آپس میں جھگڑیں گے اور کہیں گے
- فرعون نے کہا کہ پیشتر اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں تم اس پر
- اور اگر وہ تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک
- اور قوم! ماپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کیا کرو اور لوگوں کو
- سو جہاں تک نصیحت (کے) نافع (ہونے کی امید) ہو نصیحت کرتے رہو
- (اور) وہ اس میں بند کر دیئے جائیں گے
- جیسا حال فرعونیوں اور ان سے پہلے لوگوں کا (ہوا تھا ویسا ہی ان کا
Quran surahs in English :
Download surah taha with the voice of the most famous Quran reciters :
surah taha mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter taha Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers