Surah anaam Ayat 116 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ﴾
[ الأنعام: 116]
اور اکثر لوگ جو زمین پر آباد ہیں (گمراہ ہیں) اگر تم ان کا کہا مان لو گے تو وہ تمہیں خدا کا رستہ بھلا دیں گے یہ محض خیال کے پیچھے چلتے اور نرے اٹکل کے تیر چلاتے ہیں
Surah anaam Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) قرآن کی اس بیان کردہ حقیقت کا بھی، واقعے کے طور پر ہر دور میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا «وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ» ( سورۃ یوسف: 103 ) ” آپ کی خواہش کے باوجود اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں “۔ اس سے معلوم ہوا کہ حق وصداقت کے راستے پر چلنے والے لوگ ہمیشہ تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔ جس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ حق وباطل کا معیار، دلائل وبراہین ہیں، لوگوں کی اکثریت واقلیت نہیں۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ جس بات کو اکثریت نے اختیار کیا ہوا ہو، وہ حق ہو اور اقلیت میں رہنے والے باطل پر ہوں۔ بلکہ مذکورہ حقیقت قرآنی کی رو سے یہ زیادہ ممکن ہے کہ اہل حق تعداد کے لحاظ سے اقلیت میں ہوں اور اہل باطل اکثریت میں۔ جس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں نبی ( صلى الله عليه وسلم ) نے فرمایا ہے کہ ” میری امت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی، جن میں سے صرف ایک فرقہ جنتی ہوگا، باقی سب جہنمی۔ اور اس جنتی فرقے کی نشانی آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے یہ بیان فرمائی کہ جو«مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي» میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر چلنے والا ہوگا “ ( أبو داود كتاب السنة، باب شرح السنة، نمبر 4596، ترمذي، كتاب الإيمان، باب ما جاء في افتراق هذه الأمة، وقد حسنه الترمذي في بعض النسخ وأقره الألباني في الطحاوية، حديث نمبر263 )
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
بیکار خیالوں میں گرفتار لوگ اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ اکثر لوگ دنیا میں گمراہ کن ہوتے ہیں جیسے فرمان ہے آیت ( وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ اَكْثَرُ الْاَوَّلِيْنَ ) 37۔ الصافات:71) اور جگہ ہے آیت ( وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ ) 12۔ يوسف:103) گو تو حرص کرے لیکن اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں۔ پھر یہ لوگ اپنی گمراہی میں بھی کسی یقین پر نہیں صرف باطل گمان اور بیکار خیالوں کا شکار ہیں اندازے سے باتیں بنا لیتے ہیں پھر ان کے پیچھے ہو لیتے ہیں، خیالات کے پرو ہیں تو ہم پرستی میں گھرے ہوئے ہیں یہ سب مشیت الٰہی ہے وہ گمراہوں کو بھی جانتا ہے اور ان پر گمراہیاں آسان کردیتا ہے، وہ راہ یافتہ لوگوں سے بھی واقف ہے اور انہیں ہدایت آسان کردیتا ہے، ہر شخص پر وہی کام آسان ہوتے ہیں جن کیلئے وہ پیدا کیا گیا ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 116 وَاِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط۔ جدید جمہوری نظام کے فلسفے کی نفی کے لیے یہ بڑی اہم آیت ہے۔ جمہوریت میں اصابتِ رائے کے بجائے تعداد کو دیکھا جاتا ہے۔ بقول اقبالؔ : جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں ‘ تولا نہیں کرتے !اس حوالے سے قرآن کا یہ حکم بہت واضح ہے کہ اگر زمین میں بسنے والوں کی اکثریت کی بات مانو گے تو وہ تمہیں گمراہ کردیں گے۔ دنیا میں اکثریت تو ہمیشہ باطل پرستوں کی رہی ہے۔ دور صحا بہ رض میں صحابہ کرام رض کی تعداد دنیا کی پوری آبادی کے تناظر میں دیکھیں تو لاکھ کے مقابلے میں ایک کی نسبت بھی نہیں بنتی۔ اس لیے اکثریت کو کلی اختیار دے کر کسی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ہاں ایک صورت میں اکثریت کی رائے کو اہمیت دی جاسکتی ہے۔ وہ یہ کہ اگر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کو قطعی اصولوں اور land makrs کے طور پر مان لیا جائے تو پھر ان کی واضح کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے مباحات کے بارے میں اکثریت کی بنا پر فیصلے ہوسکتے ہیں۔ مثلاً کسی دعوت کے ضمن میں اگر یہ فیصلہ کرنا مقصود ہو کہ مہمانوں کو کون سا مشروب پیش کیا جائے تو ظاہر ہے کہ شراب کے بارے میں تو رائے شماری نہیں ہوسکتی ‘ وہ تو اللہ اور رسول ﷺ کے حکم کے مطابق حرام ہے۔ ہاں روح افزا ‘ کو کا کو لا ‘ سپرائٹ وغیرہ کے بارے میں آپ اکثریت کی رائے کا احترام کرتے ہوئے فیصلہ کرسکتے ہیں۔ لیکن اختیار مطلق absolute authority اور اقتدار اعلیٰ sovereignty اکثریت کے پاس ہو تو اس صورت حال پر اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ہی پڑھا جاسکتا ہے۔ چناچہ کلی اختیار اوراقتدارِاعلیٰ تو بہر حال اللہ کے پاس رہے گا ‘ جو اس کائنات اور اس میں موجود ہرچیز کا خالق اور مالک ہے۔ اکثریت کی رائے پر فیصلے صرف اس کے احکام کی حدود کے اندر رہتے ہوئے ہی کیے جاسکتے ہیں۔ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ الاَّ الظَّنَّ وَاِنْ ہُمْ الاَّ یَخْرُصُوْنَ ۔یعنی یہ محض گمان کی پیروی کرتے ہیں اور اٹکل کے تیر تکے چلاتے ہیں ‘ قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔
وإن تطع أكثر من في الأرض يضلوك عن سبيل الله إن يتبعون إلا الظن وإن هم إلا يخرصون
سورة: الأنعام - آية: ( 116 ) - جزء: ( 8 ) - صفحة: ( 142 )Surah anaam Ayat 116 meaning in urdu
اور اے محمدؐ! اگر تم اُن لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو جو زمین میں بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستہ سے بھٹکا دیں گے وہ تو محض گمان پر چلتے اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اس نے کہا اے ہے میرے بچہ ہوگا؟ میں تو بڑھیا ہوں اور میرے میاں
- اور یہ لوگ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر ان کے پاس
- آج تمہارے لیے سب پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں اور اہل کتاب کا کھانا
- اور اپنا خاندان جس میں وہ رہتا تھا
- جیسا حال فرعونیوں اور ان سے پہلے لوگوں کا (ہوا تھا ویسا ہی ان کا
- پھر دو بارہ (سہ بارہ) نظر کر، تو نظر (ہر بار) تیرے پاس ناکام اور
- اور وہ درخت بھی (ہم ہی نے پیدا کیا) جو طور سینا میں پیدا ہوتا
- یہ تمہارا صلہ اور تمہاری کوشش (خدا کے ہاں) مقبول ہوئی
- فرمایا کہ موسیٰ اسے ڈال دو
- اور تم کو جلد معلوم ہوجائے گا کہ کس پر عذاب آتا ہے اور جو
Quran surahs in English :
Download surah anaam with the voice of the most famous Quran reciters :
surah anaam mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter anaam Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers