Surah Hujurat Ayat 12 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ﴾
[ الحجرات: 12]
اے اہل ایمان! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں۔ اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے۔ (تو غیبت نہ کرو) اور خدا کا ڈر رکھو بےشک خدا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے
Surah Hujurat Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) ظَنَّ کے معنی ہیں گمان کرنا۔ مطلب ہے کہ اہل خیر واہل اصلاح وتقویٰ کے بارے میں ایسے گمان رکھنا جو بےاصل ہوں اور تہمت وافترا کے ضمن میں آتے ہوں اسی لئے اس کا ترجمہ بدگمانی کیا جاتا ہے۔ اور حدیث میں اس کو أَكْذَبُ الْحَدِيثِ ( سب سے بڑا جھوٹ ) کہہ کر اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ ( البخاري، كتاب الأدب ، باب يا أيها الذين آمنوا اجتنبوا كثيرا من الظن - صحيح مسلم، كتاب البر، باب تحريم الظن والتجسس ) ورنہ فسق وفجور میں مبتلا لوگوں سے ان کے گناہوں کی وجہ سے اور ان کے گناہوں پر بدگمانی رکھنا، یہ وہ بدگمانی نہیں ہے جسے یہاں گناہ کہا گیا ہے اور اس سے اجتناب کی تاکید کی گئی ہے «إِنَّ الظَّنَّ الْقَبِيحَ بِمَنْ ظَاهِرُهُ الْخَيْرُ، لا يَجُوزُ، وَإِنَّهُ لا حَرَجَ فِي الظَّنِّ الْقَبِيحِ بِمَنْ ظَاهِرُه الْقَبِيحُ» ( القرطبي )۔
( 2 ) یعنی اس ٹوہ میں رہنا کہ کوئی خامی یا عیب معلوم ہو جائے تاکہ اسے بدنام کیا جائے، یہ تجسس ہے جو منع ہے اور حدیث میں بھی اس سے منع کیا گیا ہے۔ بلکہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر کسی کی خامی، کوتاہی تمہارے علم میں اجائے تو اس کی پردہ پوشی کرو۔ نہ کہ اسے لوگوں کے سامنے بیان کرتے پھرو، بلکہ جستجو کرکے عیب تلاش کرو۔ آج کل حریت اور آزادی کا بڑا چرچا ہے۔ اسلام نے بھی تجسس سےروک کر انسان کی حریت اور آزادی کو تسلیم کیا ہے لیکن اس وقت تک، جب تک وہ کھلے عام بےحیائی کا ارتکاب نہ کرے یا جب تک دوسروں کے لئے ایذا کا باعث نہ ہو۔ مغرب نے مطلق آزادی کا درس دے کر لوگوں کو فساد عام کی اجازت دے دی ہے جس سے معاشرے کا تمام امن وسکون برباد ہو گیا ہے
( 3 ) غیبت کا مطلب یہ ہےکہ دوسرے لوگوں کے سامنےکسی کی برائیوں اور کوتاہیوں کا ذکر کیا جائے جسے وہ برا سمجھے اور اگر اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کی جائیں جو اس کے اندر موجود ہی نہیں تو وہ بہتان ہے۔ اپنی اپنی جگہ دونوں ہی بڑے جرم ہیں۔
( 4 ) یعنی کسی مسلمان بھائی کی کسی کے سامنے برائی بیان کرنا ایسے ہی ہے جیسے مردار بھائی کا گوشت کھانا۔ مردار بھائی کا گوشت کھانا تو کوئی پسند نہیں کرتا۔ لیکن غیبت لوگوں کی نہایت مرغوب غذا ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
دہشت گرد اور ہراس پھیلانے والے ناپسندیدہ لوگ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو بدگمانی کرنے، تہمت رکھنے اپنوں اور غیروں کو خوفزدہ کرنے، خواہ مخواہ کی دہشت دل میں رکھ لینے سے روکتا ہے اور فرماتا ہے کہ بسا اوقات اکثر اس قسم کے گمان بالکل گناہ ہوتے ہیں پس تمہیں اس میں پوری احتیاط چاہیے۔ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا تیرے مسلمان بھائی کی زبان سے جو کلمہ نکلا ہو جہاں تک تجھ سے ہو سکے اسے بھلائی اور اچھائی پر محمول کر۔ ابن ماجہ میں ہے کہ نبی ﷺ نے طواف کعبہ کرتے ہوئے فرمایا تو کتنا پاک گھر ہے ؟ تو کیسی بڑی حرمت والا ہے ؟ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے کہ مومن کی حرمت اس کے مال اور اس کی جان کی حرمت اور اس کے ساتھ نیک گمان کرنے کی حرمت اللہ تعالیٰ کے نزدیک تیری حرمت سے بہت بڑی ہے۔ یہ حدیث صرف ابن ماجہ میں ہی ہے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں بدگمانی سے بچو گمان سب سے بڑی جھوٹی بات ہے بھید نہ ٹٹو لو۔ ایک دوسرے کی ٹوہ حاصل کرنے کی کوشش میں نہ لگ جایا کرو حسد بغض اور ایک دوسرے سے منہ پھلانے سے بچو سب مل کر اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو سہو۔ مسلم وغیرہ میں ہے ایک دوسرے سے روٹھ کر نہ بیٹھ جایا کرو، ایک دوسرے سے میل جول ترک نہ کرلیا کرو، ایک دوسرے کا حسد بغض نہ کیا کرو بلکہ سب مل کر اللہ کے بندے آپس میں دوسرے کے بھائی بند ہو کر زندگی گذارو۔ کسی مسلمان کو حلال نہیں کہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ بول چال اور میل جول چھوڑ دے طبرانی میں ہے کہ تین خصلتیں میری امت میں رہ جائیں گی فال لینا، حسد کرنا اور بدگمانی کرنا۔ ایک شخص نے پوچھا حضور ﷺ پھر ان کا تدارک کیا ہے ؟ فرمایا جب حسد کرے تو استغفار کرلے۔ جب گمان پیدا ہو تو اسے چھوڑ دے اور یقین نہ کر اور جب شگون لے خواہ نیک نکلے خواہ بد اپنے کام سے نہ رک اسے پورا کر۔ ابو داؤد میں ہے کہ ایک شخص کو حضرت ابن مسعود کے پاس لایا گیا اور کہا گیا کہ اس کی ڈاڑھی سے شراب کے قطرے گر رہے ہیں آپ نے فرمایا ہمیں بھید ٹٹولنے سے منع فرمایا گیا ہے اگر ہمارے سامنے کوئی چیز ظاہر ہوگئی تو ہم اس پر پکڑ سکتے ہیں مسند احمد میں ہے کہ عقبہ کے کاتب وجین کے پاس گئے حضرت عقبہ گئے اور ان سے کہا کہ میرے پڑوس میں کچھ لوگ شرابی ہیں میرا ارادہ ہے کہ میں داروغہ کو بلا کر انہیں گرفتار کرا دوں، آپ نے فرمایا ایسا نہ کرنا بلکہ انہیں سمجھاؤ بجھاؤ ڈانٹ ڈپٹ کردو، پھر کچھ دنوں کے بعد آئے اور کہا وہ باز نہیں آتے اب تو میں ضرور داروغہ کو بلاؤں گا آپ نے فرمایا افسوس افسوس تم ہرگز ہرگز ایسا نہ کرو سنو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ نے فرمایا جو شخص کسی مسلمان کی پردہ داری کرے اسے اتنا ثواب ملے گا جیسے کسی نے زندہ درگور کردہ لڑکی کو بچا لیا۔ ابو داؤد میں ہے حضرت معاویہ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے اگر تو لوگوں کے باطن اور ان کے راز ٹٹولنے کے درپے ہوگا تو تو انہیں بگاڑ دے گا یا فرمایا ممکن ہے تو انہیں خراب کر دے۔ حضرت ابو درداء فرماتے ہیں اس حدیث سے اللہ تعالیٰ نے حضرت معاویہ کو بہت فائدہ پہنچایا۔ ابو داؤد کی ایک اور حدیث میں ہے کہ امیر اور بادشاہ جب اپنے ماتحتوں اور رعایا کی برائیاں ٹٹولنے لگ جاتا ہے اور گہرا اترنا شروع کردیتا ہے تو انہیں بگاڑ دیتا ہے۔ پھر فرمایا کہ تجسس نہ کرو یعنی برائیاں معلوم کرنے کی کوشش نہ کرو تاک جھانک نہ کیا کرو اسی سے جاسوس ماخذ ہے تجسس کا اطلاق عموما برائی پر ہوتا ہے اور تحسس کا اطلاق بھلائی ڈھونڈنے پر۔ جیسے حضرت یعقوب اپنے بیٹوں سے فرماتے ہیں ( يٰبَنِيَّ اذْهَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ يُّوْسُفَ وَاَخِيْهِ وَلَا تَايْـــــَٔـسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ ۭ اِنَّهٗ لَا يَايْـــــَٔـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ 87 ) 12۔ يوسف:87) ، بچو تم جاؤ اور یوسف کو ڈھونڈو اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو اور کبھی کبھی ان دونوں کا استعمال شر اور برائی میں بھی ہوتا ہے چناچہ حدیث شریف میں ہے نہ تجسس کرو نہ تحسس کرو نہ حسد و بغض کرو نہ منہ موڑو بلکہ سب مل کر اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ امام اوزاعی فرماتے ہیں تجسس کہتے ہیں کسی چیز میں کرید کرنے کو اور تحسس کہتے ہیں ان لوگوں کی سرگوشی پر کان لگانے کو جو کسی کو اپنی باتیں سنانا نہ چاہتے ہوں۔ اور تدابر کہتے ہیں ایک دوسرے سے رک کر آزردہ ہو کر قطع تعلقات کرنے کو۔ پھر غیبت سے منہ فرماتا ہے ابو داؤد میں ہے لوگوں نے پوچھا یارسول اللہ ﷺ غیبت کیا ہے ؟ فرمایا یہ کہ تو اپنے مسلمان بھائی کی کسی ایسی بات کا ذکر کرے جو اسے بری معلوم ہو تو کہا گیا اگر وہ برائی اس میں ہو جب بھی ؟ فرمایا ہاں غیبت تو یہی ہے ورنہ بہتان اور تہمت ہے۔ ابو داؤد میں ہے ایک مرتبہ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ صفیہ تو ایسی ایسی ہیں مسدد راوی کہتے ہیں یعنی کم قامت، تو حضور ﷺ نے فرمایا تو نے ایسی بات کہی ہے کہ سمندر کے پانی میں اگر ملا دی جائے تو اسے بھی بگاڑ دے اور ایک مرتبہ آپ کے سامنے کسی شخص کی کچھ ایسی ہی باتیں بیان کی گئیں تو آپ نے فرمایا میں اسے پسند نہیں کرتا مجھے چاہے ایسا کرنے میں کوئی بہت بڑا نفع ہی ملتا ہو۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک بی بی صاحبہ حضرت عائشہ کے ہاں آئیں جب وہ جانے لگیں تو صدیقہ نے حضور ﷺ کو اشارے سے کہا کہ یہ بہت پست قامت ہیں، حضور ﷺ نے فرمایا تم نے ان کی غیبت کی الغرض غیبت حرام ہے اور اس کی حرمت پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔ لیکن ہاں شرعی مصلحت کی بنا پر کسی کی ایسی بات کا ذکر کرنا غیبت میں داخل نہیں جیسے جرح و تعدیل نصیحت و خیر خواہی جیسے کہ نبی ﷺ نے ایک فاجر شخص کی نسبت فرمایا تھا یہ بہت برا آدمی ہے اور جیسے کہ حضور ﷺ نے فرمایا تھا معاویہ مفلس شخص ہے اور ابو الجہم بڑا مارنے پیٹنے والا آدمی ہے۔ یہ آپ نے اس وقت فرمایا تھا جبکہ ان دونوں بزرگوں نے حضرت فاطمہ بنت قیس سے نکاح کا مانگا ڈالا تھا اور بھی جو باتیں اس طرح کی ہوں ان کی تو اجازت ہے باقی اور غیبت حرام ہے اور کبیرہ گناہ ہے۔ اسی لئے یہاں فرمایا کہ جس طرح تم اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے گھن کرتے ہو اس سے بہت زیادہ نفرت تمہیں غیبت سے کرنی چاہیے۔ جیسے حدیث میں ہے اپنے دئیے ہوئے ہبہ کو واپس لینے والا ایسا ہے جیسے کتا جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے اور فرمایا بری مثال ہمارے لئے لائق نہیں۔ حجۃ الوداع کے خطبے میں ہے تمہارے خون مال آبرو تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیسی حرمت تمہارے اس دن کی تمہارے اس مہینے میں اور تمہارے اس شہر میں ہے۔ ابو داؤد میں حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ مسلمان کا مال اس کی عزت اور اس کا خون مسلمان پر حرام ہے انسان کو اتنی ہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی حقارت کرے۔ اور حدیث میں ہے اے وہ لوگو جن کی زبانیں تو ایمان لاچکیں ہیں لیکن دل ایماندار نہیں ہوئے تم مسلمانوں کی غیبتیں کرنا چھوڑ دو اور ان کے عیبوں کی کرید نہ کیا کرو یاد رکھو اگر تم نے ان کے عیب ٹٹولے تو اللہ تعالیٰ تمہاری پوشیدہ خرابیوں کو ظاہر کر دے گا یہاں تک کہ تم اپنے گھرانے والوں میں بھی بدنام اور رسوا ہوجاؤ گے، مسند ابو یعلی میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں ایک خطبہ سنایا جس میں آپ نے پردہ نشین عورتوں کے کانوں میں بھی اپنی آواز پہنچائی اور اس خطبہ میں اوپر والی حدیث بیان فرمائی، حضرت ابن عمر نے ایک مرتبہ کعبہ کی طرف دیکھا اور فرمایا تیری حرمت و عظمت کا کیا ہی کہنا ہے لیکن تجھ سے بھی بہت زیادہ حرمت ایک ایماندار شخص کی اللہ کے نزدیک ہے۔ ابو داؤد میں ہے جس نے کسی مسلمان کی برائی کر کے ایک نوالہ حاصل کیا اسے جہنم کی اتنی ہی غذا کھلائی جائے گی اسی طرح جس نے مسلمانوں کی برائی کرنے پر پوشاک حاصل کی اسے اسی جیسی پوشاک جہنم کی پہنائی جائے گی اور جو شخص کسی دوسرے کی بڑائی دکھانے سنانے کو کھڑا ہوا اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن دکھاوے سناوے کے مقام میں کھڑا کر دے گا۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں معراج والی رات میں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کے ناخن تانبے کے ہیں جن سے وہ اپنے چہرے اور سینے نوچ رہے ہیں میں نے پوچھا کہ جبرائیل یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ وہ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے تھے اور ان کی عزتیں لوٹتے تھے ( ابو داؤد ) اور روایت میں ہے کہ لوگوں کے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا معراج والی رات میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا جن میں مرد و عورت دونوں تھے کہ فرشتے انکے پہلوؤں سے گوشت کاٹتے ہیں اور پھر انہیں اس کے کھانے پر مجبور کر رہے ہیں اور وہ اسے چبا رہے ہیں میرے سوال پر کہا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو طعنہ زن، غیبت گو، چغل خور تھے، انہیں جبراً آج خود ان کا گوشت کھلایا جا رہا ہے ( ابن ابی حاتم ) یہ حدیث بہت مطول ہے اور ہم نے پوری حدیث سورة سبحٰن کی تفسیر میں بیان بھی کردی ہے فالحمد اللہ۔ مسند ابو داؤد طیالسی میں ہے حضور ﷺ نے لوگوں کو روزے کا حکم دیا اور فرمایا جب تک میں نہ کہوں کوئی افطار نہ کرے شام کو لوگ آنے لگے اور آپ سے دریافت کرنے لگے آپ انہیں اجازت دیتے اور وہ افطار کرتے اتنے میں ایک صاحب آئے اور عرض کیا حضور ﷺ دو عورتوں نے روزہ رکھا تھا جو آپ ہی کے متعلقین میں سے ہیں انہیں بھی آپ اجازت دیجئے کہ روزہ کھول لیں آپ نے اس سے منہ پھیرلیا اس نے دوبارہ عرض کی تو آپ نے فرمایا وہ روزے سے نہیں ہیں کیا وہ بھی روزے دار ہوسکتا ہے ؟ جو انسانی گوشت کھائے جاؤ انہیں کہو کہ اگر وہ روزے سے ہیں تو قے کریں چناچہ انہوں نے قے کی جس میں خون جمے کے لوتھڑے نکلے اس نے آکر حضور ﷺ کو خبر دی آپ نے فرمایا اگر یہ اسی حالت میں مرجاتیں تو آگ کا لقمہ بنتیں۔ اس کی سند ضعیف ہے اور متن بھی غریب ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ اس شخص نے کہا تھا حضور ﷺ ان دونوں عورتوں کی روزے میں بری حالت ہے مارے پیاس کے مر رہی ہیں اور یہ دوپہر کا وقت تھا حضور ﷺ کی خاموشی پر اس نے دوبارہ کہا کہ یارسول اللہ ﷺ وہ تو مرگئی ہوں گی یا تھوڑی دیر میں مرجائیں گی آپ نے فرمایا جاؤ انہیں بلا لاؤ جب وہ آئیں تو آپ نے دودھ کا مٹکا ایک کے سامنے رکھ کر فرمایا اس میں قے کر اس نے قے کی تو اس میں پیپ خون جامد وغیرہ نکلی جس سے آدھا مٹکا بھر گیا پھر دوسری سے قے کرائی اس میں بھی یہی چیزیں اور گوشت کے لوتھڑے وغیرہ نکلے اور مٹکا بھر گیا، اس وقت آپ نے فرمایا انہیں دیکھو حلال روزہ رکھے ہوئے تھیں اور حرام کھا رہی تھیں دونوں بیٹھ کر لوگوں کے گوشت کھانے لگی تھیں ( یعنی غیبت کر رہی تھیں ) ( مسند احمد ) مسند حافظ ابو یعلی میں ہے کہ حضرت ماعز رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا یارسول اللہ ﷺ میں نے زنا کیا ہے آپ نے منہ پھیرلیا یہاں تک کہ وہ چار مرتبہ کہہ چکے پھر پانچویں دفعہ آپ نے کہا تو نے زنا کیا ہے ؟ جواب دیا ہاں فرمایا جانتا ہے زنا کسے کہتے ہیں ؟ جواب دیا ہاں جس طرح انسان اپنی حلال عورت کے پاس جاتا ہے اسی طرح میں نے حرام عورت سے کیا۔ آپ نے فرمایا اب تیرا مقصد کیا ہے ؟ کہا یہ کہ آپ مجھے اس گناہ سے پاک کریں آپ نے فرمایا کیا تو نے اسی طرح دخول کیا تھا جس طرح سلائی سرمہ دانی میں اور لکڑی کنویں میں ؟ کہا ہاں یارسول اللہ ﷺ اب آپ نے انہیں رجم کرنے یعنی پتھراؤ کرنے کا حکم دیا چناچہ یہ رجم کر دئے گئے۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے دو شخصوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اسے دیکھو اللہ نے اس کی پردہ پوشی کی تھی لیکن اس نے اپنے تئیں نہ چھوڑا یہاں تک کہ کتے کی طرح پتھراؤ کیا گیا۔ آپ یہ سنتے ہوئے چلتے رہے تھوڑی دیر بعد آپ نے دیکھا کہ راستے میں ایک مردہ گدھا پڑا ہوا ہے فرمایا فلاں فلاں شخص کہاں ہیں ؟ وہ سواری سے اتریں اور اس گدھے کا گوشت کھائیں انہوں نے کہا یارسول اللہ، اللہ تعالیٰ آپ کو بخشے کیا یہ کھانے کے قابل ہے ؟ آپ نے فرمایا ابھی جو تم نے اپنے بھائی کی بدی بیان کی تھی وہ اس سے بھی زیادہ بری چیز تھی۔ اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ شخص جسے تم نے برا کہا تھا وہ تو اب اس وقت جنت کی نہروں میں غوطے لگا رہا ہے۔ اس کی اسناد صحیح ہے۔ مسند احمد میں ہے ہم نبی ﷺ کے ساتھ تھے کہ نہایت سڑی ہوئی مرداری بو والی ہوا چلی آپ نے فرمایا جانتے ہو ؟ یہ بو کس چیز کی ہے ؟ یہ بدبو ان کی ہے جو لوگوں کی غیبت کرتے ہیں اور روایت میں ہے کہ منافقوں کے ایک گروہ نے مسلمانوں کی غیبت کی ہے یہ بدبودار ہوا وہ ہے۔ حضرت سدی فرماتے ہیں کہ حضرت سلمان ایک سفر میں دو شخصوں کے ساتھ تھے جن کی یہ خدمت کرتے تھے اور وہ انہیں کھانا کھلاتے تھے ایک مرتبہ حضرت سلمان سو گئے تھے اور قافلہ آگے چل پڑا پڑاؤ ڈالنے کے بعد ان دونوں نے دیکھا کہ حضرت سلمان نہیں تو اپنے ہاتھوں سے انہیں خیمہ کھڑا کرنا پڑا اور غصہ سے کہا سلمان تو بس اتنے ہی کام کا ہے کہ پکی پکائی کھالے اور تیار خیمے میں آ کر آرام کرلے۔ تھوڑی دیر بعد حضرت سلمان پہنچے ان دونوں کے پاس سالن نہ تھا تو کہا تم جاؤ اور رسول اللہ ﷺ سے ہمارے لئے سالن لے آؤ۔ یہ گئے اور حضور ﷺ سے کہا یا رسول اللہ ﷺ مجھے میرے دونوں ساتھیوں نے بھیجا ہے کہ اگر آپ کے پاس سالن ہو تو دے دیجئے آپ نے فرمایا وہ سالن کا کیا کریں گے ؟ انہوں نے تو سالن پا لیا۔ حضرت سلمان واپس گئے اور جا کر ان سے یہ بات کہی وہ اٹھے اور خود حاضر حضور ﷺ ہوئے اور کہا حضور ﷺ ہمارے پاس تو سالن نہیں نہ آپ نے بھیجا آپ نے فرمایا تم نے مسلمان کے گوشت کا سالن کھالیا جبکہ تم نے انہیں یوں کہا اس پر یہ آیت نازل ہوئی ( میتاً ) اس لئے کہ وہ سوئے ہوئے تھے اور یہ ان کی غیبت کر رہے تھے۔ مختار ابو ضیا میں تقریبًا ایسا ہی واقعہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کا ہے اس میں یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا میں تمہارے اس خادم کا گوشت تمہارے دانتوں میں اٹکا ہوا دیکھ رہا ہوں اور ان کا اپنے غلام سے جبکہ وہ سویا ہوا تھا اور ان کا کھانا تیار نہیں کیا تھا صرف اتنا ہی کہنا مروی ہے کہ یہ تو بڑا سونے والا ہے ان دونوں بزرگوں نے حضور ﷺ سے کہا آپ ہمارے لئے استغفار کریں ابو یعلی میں ہے جس نے دنیا میں اپنے بھائی کا گوشت کھایا ( یعنی اس کی غیبت کی ) قیامت کے دن اس کے سامنے وہ گوشت لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ جیسے اس کی زندگی میں تو نے اس کا گوشت کھایا تھا اب اس مردے کا گوشت بھی کھا۔ اب یہ چیخے گا چلائے گا ہائے وائے کرے گا اور اسے جبراً وہ مردہ گوشت کھانا پڑے گا۔ یہ روایت بہت غریب ہے پھر فرماتا ہے اللہ کا لحاظ کرو اس کے احکام بجا لاؤ اس کی منع کردہ چیزوں سے رک جاؤ اور اس سے ڈرتے رہا کرو۔ جو اس کی طرف جھکے وہ اس کی طرف مائل ہوجاتا ہے توبہ کرنے والے کی توبہ قبول فرماتا ہے اور جو اس پر بھروسہ کرے اس کی طرف رجوع کرے وہ اس پر رحم اور مہربانی فرماتا ہے۔ جمہور علماء کرام فرماتے ہیں غیبت گو کی توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اس خصلت کو چھوڑ دے اور پھر سے اس گناہ کو نہ کرے پہلے جو کرچکا ہے اس پر نادم ہونا بھی شرط ہے یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے اور جس کی غیبت کی ہے اس سے معافی حاصل کرلے۔ بعض کہتے ہیں یہ بھی شرط نہیں اس لئے کہ ممکن ہے اسے خبر ہی نہ ہو اور معافی مانگنے کو جب جائے گا تو اسے اور رنج ہوگا۔ پس اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جن مجلسوں میں اس کی برائی بیان کی تھی ان میں اب اس کی سچی صفائی بیان کرے اور اس برائی کو اپنی طاقت کے مطابق دفع کر دے تو اولا بدلہ ہوجائے گا۔ مسند احمد میں ہے جو شخص اس وقت کسی مومن کی حمایت کرے جبکہ کوئی منافق اس کی مذمت بیان کر رہا ہو اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو مقرر کردیتا ہے جو قیامت والے دن اس کے گوشت کو نار جہنم سے بچائے گا اور جو شخص کسی مومن پر کوئی ایسی بات کہے گا جس سے اس کا ارادہ اسے مطعون کرنے کا ہو اسے اللہ تعالیٰ پل صراط پر روک لے گا یہاں تک کہ بدلا ہوجائے یہ حدیث ابو داؤد میں بھی ہے ابو داؤد کی ایک اور حدیث میں ہے جو شخص کسی مسلمان کی بےعزتی ایسی جگہ میں کرے جہاں اس کی آبرو ریزی اور توہین ہوتی ہو تو اسے بھی اللہ تعالیٰ ایسی جگہ رسوا کرے گا جہاں وہ اپنی مدد کا طالب ہو اور جو مسلمان ایسی جگہ اپنے بھائی کی حمایت کرے اللہ تعالیٰ بھی ایسی جگہ اس کی نصرت کرے گا ( ابو داؤد )
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 12{ یٰٓــاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ} ” اے اہل ِایمان ! زیادہ گمان کرنے سے بچو ‘ بیشک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں “ کسی کے بارے میں خواہ مخواہ کوئی بات فرض کر کے یا کسی سنی سنائی بات کو بنیاد بنا کر کوئی برا گمان اپنے دل میں بٹھا لینا اور منفی رائے قائم کرلینا جبکہ متعلقہ شخص نے نہ تو ویسا کوئی اقدام کیا ہو اور نہ ہی اس کے عملی رویے سے ویسی کسی بات کی تصدیق ہوتی ہو ‘ یہ ہے اس گمان کی نوعیت جس سے یہاں منع کیا جا رہا ہے۔ ایسے گمان کو بدگمانی یا سوئے ظن کہا جاتا ہے اور یہ بہتان اور تہمت کے زمرے میں آتا ہے۔ { وَّلَا تَجَسَّسُوْا } ” اور ایک دوسرے کے حالات کی ٹوہ میں نہ رہا کرو “ عام طور پر ریاستی اور حکومتی سطح پر جاسوسی کے باقاعدہ محکمے بھی ہوتے ہیں اور ظاہر ہے ضرورت کے تحت ایسا کوئی محکمہ ایک اسلامی حکومت کے تحت بھی قائم ہوسکتا ہے ‘ لیکن اس حوالے سے جو بات معیوب اور ممنوع ہے وہ افراد کی سطح پر ایک دوسرے کے حالات کے بارے میں خواہ مخواہ کا تجسس ّہے۔ جیسے بعض لوگ عادتاً دوسروں کے معاملات کی ٹوہ میں رہتے ہیں اور ُ کرید کرید کر جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ فلاں گھر کے اندر کیا ہو رہا ہے ؟ فلاں دو بھائیوں کے معاملات کیا ہیں ؟ اور کیا وجہ ہے کہ ابھی تک ان میں کوئی جھگڑاوغیرہ نہیں ہوا ؟ { وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا } ” اور تم میں سے کوئی دوسرے کی غیبت نہ کرے۔ “ اس حکم کا تقاضا یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی غیر حاضری میں اس کی برائی بیان نہ کرے ‘ خواہ وہ برائی اس شخص میں بالفعل پائی بھی جاتی ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے غیبت کی تعریف ان الفاظ میں فرمائی ہے : ذِکْرُکَ اَخَاکَ بِمَا یَکْرَہُ ” تمہارا اپنے بھائی کا ذکر اس انداز سے کرنا جسے وہ ناپسند کرے “۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا : ” دیکھئے ‘ اگر میرے بھائی میں وہ برائی واقعتا پائی جاتی ہو جس کا میں ذکر کرتا ہوں پھر بھی یہ غیبت ہے ؟ “ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اِنْ کَانَ فِیْہِ مَا تَقُوْلُ فَقَدِ اغْتَبْتَہٗ ‘ وَاِنْ لَمْ یَکُنْ فِیْہِ فَقَدْ بَھَتَّہُ 1 ” اگر وہ برائی اس میں موجود ہے جس کا تم ذکر کر رہے ہو تو تم نے اس کی غیبت کی ہے ‘ اور اگر وہ برائی اس میں موجود ہی نہیں تب تو تم نے اس پر بہتان لگا دیا۔ “ { اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ } ” کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ اپنے ُ مردہ بھائی کا گوشت کھائے ؟ یہ تو تمہیں بہت ناگوار لگا ! “ یعنی مردہ بھائی کے گوشت کھانے والی بات یا مثال سے تو تمہیں بہت گھن محسوس ہوتی ہے۔ لیکن یاد رکھو ! اگر تم اپنے کسی مسلمان بھائی کی غیبت کرتے ہو تو اخلاقی سطح پر یہ حرکت اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے ہی مترادف ہے۔ کیونکہ ایسی حرکت کا ارتکاب کر کے آپ اپنے بھائی کی عزت پر ایسی حالت میں حملہ کرتے ہیں جب وہ اس کا دفاع بھی نہیں کرسکتا۔ اگر تم اس کے سامنے اس کی برائی بیان کرتے تو وہ تمہارے الزامات کا ضرور جواب دیتا اور سو طرح سے اپنا دفاع کرتا۔ بہر حال کسی کی عدم موجودگی میں اسے برا بھلا کہنا ایسے ہے جیسے اس کی لاش آپ کے سامنے ہو اور آپ اس کی بوٹیاں نوچ رہے ہوں۔ { وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ } ” اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو ‘ اللہ تو بہ کا بہت قبول فرمانے والا اور بہت رحم فرمانے والا ہے۔ “ اس کے بعد اس سورت کا تیسرا حصہ شروع ہو رہا ہے جو بہت اہم اور عظیم مضامین پر مشتمل ہے۔ یہاں پر ضمنی طور پر یہ نکتہ بھی نوٹ کرلیں کہ گزشتہ بارہ آیات میں اہل ایمان کو پانچ مرتبہ یٰٓــاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا کے الفاظ میں مخاطب کیا گیا ہے۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ پورے مکی قرآن میں یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا کا صیغہ گویا ہے ہی نہیں۔ بہر حال اب اس مدنی سورت میں بھی خطاب کا رخ نوع انسانی کی طرف پھیرا جا رہا ہے :
ياأيها الذين آمنوا اجتنبوا كثيرا من الظن إن بعض الظن إثم ولا تجسسوا ولا يغتب بعضكم بعضا أيحب أحدكم أن يأكل لحم أخيه ميتا فكرهتموه واتقوا الله إن الله تواب رحيم
سورة: الحجرات - آية: ( 12 ) - جزء: ( 26 ) - صفحة: ( 517 )Surah Hujurat Ayat 12 meaning in urdu
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں تجسس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو، تم خود اس سے گھن کھاتے ہو اللہ سے ڈرو، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- مومنو! جب تم میں سے کسی کی موت آموجود ہو تو شہادت (کا نصاب) یہ
- بلکہ یہ روشن آیتیں ہیں۔ جن لوگوں کو علم دیا گیا ہے اُن کے سینوں
- اور ان سے پہلے قوم نوحؑ کو بھی۔ کچھ شک نہیں کہ وہ لوگ بڑے
- پھر زنجیر سے جس کی ناپ ستر گز ہے جکڑ دو
- جو اس کے بعد بھی خدا پر جھوٹے افترا کریں تو ایسے لوگ ہی بےانصاف
- ان کو کیا ہوا ہے کہ نصیحت سے روگرداں ہو رہے ہیں
- اور وہی تو ہے جس نے تم کو حیات بخشی۔ پھر تم کو مارتا ہے۔
- لیکن ان اعمال کی وجہ سے، جو ان کے ہاتھ آگے بھیج چکے ہیں، یہ
- یہاں تک کہ جب یہ لوگ وہ (دن) دیکھ لیں گے جس کا ان سے
- تاکہ تم ان کی پیٹھ پر چڑھ بیٹھو اور جب اس پر بیٹھ جاؤ پھر
Quran surahs in English :
Download surah Hujurat with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Hujurat mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Hujurat Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers