Surah anaam Ayat 121 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ ۗ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ ۖ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ﴾
[ الأنعام: 121]
اور جس چیز پر خدا کا نام نہ لیا جائے اسے مت کھاؤ کہ اس کا کھانا گناہ ہے اور شیطان (لوگ) اپنے رفیقوں کے دلوں میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم لوگ ان کے کہے پر چلے تو بےشک تم بھی مشرک ہوئے
Surah anaam Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی عمداً اللہ کا نام جس جانور پر نہ لیا گیا، اس کا کھانا فسق اور ناجائز ہے۔ حضرت ابن عباس ( رضي الله عنه ) نے اس کے یہی معنی بیان کئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ بھول جانے والے کو فاسق نہیں کہا جاتا اور امام بخاری کا رجحان بھی یہی ہے اور یہی احناف کا مسلک ہے تاہم امام شافعی کامسلک یہ ہے کہ مسلمان کا ذبیحہ دونوں صورتوں میں حلال ہے چاہے وہ اللہ کا نام لے یا عمداً چھوڑ دے اور وہ ” وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ “ کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کئے گئے جانور سے متعلق قرار دیتے ہیں۔
( 2 ) شیطان نے اپنے ساتھیوں کے ذریعے سے یہ بات پھیلائی کہ یہ مسلمان اللہ کے ذبح کئے ہوئے جانور ( یعنی مردہ ) کو تو حرام اور اپنے ہاتھ سے ذبح شدہ کو حلال قرار دیتے ہیں اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ہم اللہ کو ماننے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شیطان اور اس کے دوستوں کے وسوسوں کے پیچھے مت لگو، جو جانور مردہ ہے یعنی بغیر ذبح کئے مر گیا ( سوائے سمندری میتہ کے کہ وہ حلال ہے ) اس پر چونکہ اللہ کا نام نہیں لیا گیا، اس لئے اس کا کھانا حلال نہیں ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
سدھائے ہوئے کتوں کا شکار یہی آیت ہے جس سے بعض علماء نے یہ سمجھا ہے کہ گو کسی مسلمان نے ہی ذبح کیا ہو لیکن اگر بوقت ذبح اللہ کا نام نہیں لیا تو اس ذبیحہ کا کھانا حرام ہے، اس بارے میں علماء کے تین قول ہیں ایک تو وہی جو مذکور ہوا، خواہ جان بوجھ کر اللہ کا نام نہ لیا ہو یا بھول کر، اس کی دلیل آیت ( فَكُلُوْا مِمَّآ اَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهِ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ ) 5۔ المائدة:4) ہے یعنی جس شکار کو تمہارے شکاری کتے روک رکھیں تم اسے کھالو اور اللہ کا نام اس پر لو، اس آیت میں اسی کی تاکید کی اور فرمایا کہ یہ کھلی نافرمانی ہے یعنی اس کا کھانا یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا، احادیث میں بھی شکار کے اور ذبیحہ کے متعلق حکم وارد ہوا ہے آپ فرماتے ہیں جب تو اپنے سدھائے ہوئے کتے کو اللہ کا نام لے کر چھوڑے جس جانور کو وہ تیرے لئے پکڑ کر روک لے تو اسے کھالے اور حدیث میں ہے جو چیز خون بہا دے اور اللہ کا نام بھی اس پر لیا گیا ہو اسے کھالیا کرو، جنوں سے حضور نے فرمایا تھا تمہارے لئے ہر وہ ہڈی غذا ہے جس پر اللہ کا نام لیا جائے، عید کی قربانی کے متعلق آپ کا ارشاد مروی ہے کہ جس نے نماز عید پڑھنے سے پہلے ہی ذبح کرلیا وہ اس کے بدلے دوسرا جانور ذبح کرلے اور جس نے قربانی نہیں کی وہ ہمارے ساتھ عید کی نماز پڑھے پھر اللہ کا نام لے کر اپنی قربانی کے جانور کو ذبح کرے، چند لوگوں نے حضور سے پوچھا کہ بعض نو مسلم ہمیں گوشت دیتے ہیں کیا خبر انہوں نے ان جانوروں کے ذبح کرنے کے وقت اللہ کا نام بھی لیا یا نہیں ؟ تو آپ نے فرمایا تم ان پر اللہ کا نام لو اور کھالو، الغرض اس حدیث سے بھی یہ مذہب قومی ہوتا ہے کیونکہ صحابہ نے بھی سمجھا کر بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے اور یہ لوگ احکام اسلام سے صحیح طور پر واقف نہیں ابھی ابھی مسلمان ہوئے ہیں کیا خبر اللہ کا نام لیتے بھی ہیں یا نہیں ؟ تو حضور نے انہیں بطور مزید احتیاط فرما دیا کہ تم خود اللہ کا نام لے لو تاکہ بالفرض انہوں نے نہ بھی لیا ہو تو یہ اس کا بدلہ ہوجائے، ورنہ ہر مسلمان پر ظاہر احسن ظن ہی ہوگا، دوسرا قول اس مسئلہ میں یہ ہے کہ بوقت ذبح بسم اللہ کا پڑھنا شرط نہیں بلکہ مستحب ہے اگر چھوٹ جائے گوہ عمداً ہو یا بھول کر، کوئی حرج نہیں۔ اس آیت میں جو فرمایا گیا ہے کہ یہ فسق ہے اس کا مطلب یہ لوگ یہ لیتے ہیں کہ اس سے مراد غیر اللہ کے لئے ذبح کیا ہوا جانور ہے جیسے اور آیت میں ہے ( اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ ) 6۔ الأنعام:145) بقول عطا ان جانوروں سے روکا گیا ہے جنہیں کفار اپنے معبودوں کے نام ذبح کرتے تھے اور مجوسیوں کے ذبیحہ سے بھی ممکن کی گئی، اس کا جواب بعض متأخرین نے یہ بھی دیا ہے کہ ( وانہ ) میں واؤ حالیہ یہ۔ تو فسق فعلیہ حالیہ پر لازم آئے گا، لیکن یہ دلیل اس کے بعد کے جملے ( وان الشیاطین ) سے ہی ٹوٹ جاتی ہے اس لئے کہ وہ تو یقینا عاطفہ جملہ ہے۔ تو جس اگلے واؤ کو حالیہ کہا گیا ہے اگر اسے حالیہ مان لیا جائے تو پھر اس پر اس جملے کا عطف ناجائز ہوگا اور اگر اسے پہلے کے حالیہ جملے پر عطف ڈالا جائے تو جو اعتراض یہ دوسرے پر وارد کر رہے تھے وہی ان پر پڑے گا ہاں اگر اس واؤ کو حالیہ نہ مانا جائے تو یہ اعتراض ہٹ سکتا ہے لیکن جو بات اور دعویٰ تھا وہ سرے سے باطل ہوجائے گا۔ واللہ اعلم۔ ابن عباس کا قول ہے مراد اس سے مردار جانور ہے جو اپنی موت آپ مرگیا ہو۔ اس مذہب کی تائید ابو داؤد کی ایک مرسل حدیث سے بھی ہوسکتی ہے جس میں حضور کا فرمان ہے کہ مسلمان کا ذبیحہ حلال ہے اس نے اللہ کا نام لیا ہو یا نہ لیا ہو کیونکہ اگر وہ لیتا تو اللہ کا نام ہی لیتا۔ اس کی مضبوطی دار قطنی کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا جب مسلمان ذبح کرے اور اللہ کا نام نہ ذکر کرے تو کھالیا کرو کیونکہ مسلمان اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، اسی مذہب کی دلیل میں وہ حدیث بھی پیش ہوسکتی ہے جو پہلے بیان ہوچکی ہے کہ نو مسلموں کے ذبیحہ کے کھانے کی جس میں دونوں اہتمال تھے آپ نے اجازت دی تو اگر بم اللہ کا کہنا شرط اور لازم ہوتا تو حضور تحقیق کرنے کا حکم دیتے، تیسرا قول یہ ہے کہ اگر بسم اللہ کہنا بوقت ذبح بھول گیا ہے تو ذبیحہ پر عمداً بسم اللہ نہ کہی جائے وہ حرام ہے اسی لئے امام ابو یوسف اور مشائخ نے کہا ہے کہ اگر کوئی حاکم اسے بچنے کا حکم بھی دے تو وہ حکم جاری نہیں ہوسکتا کیونکہ اجماع کے خلاف ہے لیکن صاحب ہدایہ کا یہ قول محض غلط ہے، امام شافعی سے پہلے بھی بہت سے ائمہ اس کے خلاف تھے چناچہ اوپر جو دوسرا مذہب بیان ہوا ہے کہ بسم اللہ پڑھنا شرط نہیں بلکہ مستحب ہے یہ امام شافعی کا ان کے سب ساتھیوں کا اور ایک روایت میں امام احمد کا اور امام مالک کا اور اشہب بن عبدالعزیز کا مذہب ہے اور یہی بیان کیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس حضرت ابوہریرہ حضرت عطاء بن ابی رباح کا اس سے اختلاف ہے۔ پھر اجماع کا دعویٰ کرنا کیسے درست ہوسکتا ہے واللہ اعلم۔ امام ابو جعفر بن جریر ؒ فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے بوقت ذبح بسم اللہ بھول کر نہ کہے جانے پر بھی ذبیحہ حرام کہا ہے انہوں نے اور دلائل سے اس حدیث کی بھی مخالفت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسلم کو اس کا نام ہی کافی ہے اگر وہ ذبح کے وقت اللہ کا نام ذکر کرنا بھول گیا تو اللہ کا نام لے اور کھالے۔ یہ حدیث بیہقی میں ہے لیکن اس کا مرفوع روایت کرنا خطا ہے اور یہ خطا معقل بن عبید اللہ خرزمی کی ہے، ہیں تو یہ صحیح مسلم کے راویوں میں سے مگر سعید بن منصور اور عبداللہ بن زبیر حمیری اسے عبداللہ بن عباس سے موقوف روایت کرتے ہیں۔ بقول امام بہیقی یہ روایت سب سے زیادہ صحیح ہے۔ شعبی اور محمد بن سیرین اس جانور کا کھانا مکروہ جانتے تھے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو گو بھول سے ہی رہ گیا ہو۔ ظاہر ہے کہ سلف کراہئیت کا اطلاق حرمت پر کرتے تھے۔ واللہ اعلم۔ ہاں یہ یاد رہے کہ امام ابن جریر کا قاعدہ یہ ہے کہ وہ ان دو ایک قولوں کو کوئی چیز نہیں سمجھتے جو جمہور کے مخالف ہوں اور اسے اجماع شمار کرتے ہیں۔ واللہ الموفق۔ امام حسن بصری ؒ سے ایک شخص نے مسئلہ پوچھا کہ میرے پاس بہت سے پرند ذبح شدہ آئے ہیں ان سے بعض کے ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھی گئی ہے اور بعض پر بھول سے رہ گئی ہے اور سب غلط ملط ہوگئے ہیں آپ نے فتوی دیا کہ سب کھالو، پھر محمد بن سیرین سے یہی سوال ہوا تو آپ نے فرمایا جن پر اللہ کا نام ذکر نہیں کیا گیا انہیں نہ کھاؤ۔ اس تیسرے مذہب کی دلیل میں یہ حدیث بھی پیش کی جاتی ہے کہحضور ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میری امت کی خطاء کو بھول کو اور جس کام پر زبردستی کی جائے اس کو معاف فرما دیا ہے لیکن اس میں ضعف ہے ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ بتائیے تو ہم میں سے کوئی شخص ذبح کرے اور بسم اللہ کہنا بھول جائے ؟ آپ نے فرمایا اللہ کا نام ہر مسلمان کی زبان پر ہے ( یعنی وہ حلال ہے ) لیکن اس کی اسناد ضعیف ہے، مردان بن سالم ابو عبداللہ شامی اس حدیث کا راوی ہے اور ان پر بہت سے ائمہ نے جرح کی ہے، واللہ اعلم، میں نے اس مسئلہ پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے اس میں تمام مذاہب اور ان کے دلائل وغیرہ تفصیل سے لکھے ہیں اور پوری بحث کی ہے، بظاہر دلیلوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ذبح کے وقت بسم اللہ کہنا ضروری ہے لیکن اگر کسی مسلمان کی زبان سے جلدی میں یا بھولے سے یا کسی اور وجہ سے نہ نکلے اور ذبح ہوگیا تو وہ حرما نہیں ہوتا ( واللہ اعلم مترجم ) عام اہل علم تو کہتے ہیں کہ اس آیت کا کوئی حصہ منسوخ نہیں لیکن بعض حضرات کہتے ہیں اس میں اہل کتاب کے ذبیحہ کا استثناء کرلیا گیا ہے اور ان کا ذبح کیا ہوا حلال جانور کھا لینا ہمارے ہاں حلال ہے تو گو وہ اپنی اصطلاح میں اسے نسخ سے تعبیر کریں لیکن دراصل یہ ایک مخصوص صورت ہے پھر فرمایا کہ شیطان اپنے ولیوں کی طرف وحی کرتے ہیں حضرت عبداللہ بن عمر سے جب کہا گیا کہ مختار گمان کرتا ہے کہ اس کے پاس وحی آتی ہے تو آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرما کر فرمایا وہ ٹھیک کہتا ہے۔ شیطان بھی اپنے دوستوں کی طرف وحی کرتے ہیں اور روایت میں ہے کہ اس وقت مختار حج کو آیا ہوا تھا۔ ابن عباس کے اس جواب سے کہ وہ سچا ہے اس شخص کو سخت تعجب ہوا اس وقت آپ نے تفصیل بیان فرمائی کہ ایک تو اللہ کی وحی جو آنحضرت کی طرف آئی اور ایک شیطانی وحی ہے جو شیطان کے دوستوں کی طرف آتی ہے۔ شیطانی وساوس کو لے کر لشکر شیطان اللہ والوں سے جھگڑتے ہیں۔ چناچہ یہودیوں نے آنحضرت ﷺ سے کہا کہ یہ کیا اندھیر ہے ؟ کہ ہم اپنے ہاتھ سے مارا ہوا جانور تو کھا لیں اور جسے اللہ مار دے یعنی اپنی موت آپ مرجائے اسے نہ کھائیں ؟ اس پر یہ آیت اتری اور بیان فرمایا کہ وجہ حلت اللہ کے نام کا ذکر ہے لیکن ہے یہ قصہ غور طلب اولاً اس وجہ سے کہ یہودی از خود مرے ہوئے جانور کا کھانا حلال نہیں جانتے تھے دوسرے اس وجہ سے بھی کہ یہودی تو مدینے میں تھے اور یہ پوری سورت مکہ میں اتری ہے۔ تیسرے یہ کہ یہ حدیث ترمذی میں مروی تو ہے لیکن مرسل طبرانی میں ہے کہ اس حکم کے نازل ہونے کے بعد کہ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اسے کھالو اور جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اسے نہ کھاؤ تو اہل فارس نے قریشوں سے کہلوا بھیجا کہ آنحضرت ﷺ سے وہ جھگڑیں اور کہیں کہ جسے تم اپنی چھری سے ذبح کرو وہ تو حلال اور جسے اللہ تعالیٰ سونے کی چھری سے خود ذبح کرے وہ حرام ؟ یعنی میتہ از خود مرا ہوا جانور۔ اس پر یہ آیت اتری، پس شیاطین سے مراد فارسی ہیں اور ان کے اولیاء قریش ہیں اور بھی اس طرح کی بہت سی روایتیں کئی ایک سندوں سے مروی ہیں لیکن کسی میں بھی یہود کا ذکر نہیں پس صحیح یہی ہے کیونکہ آیت مکی ہے اور یہود مدینے میں تھے اور اس لئے بھی کہ یہودی خود مردار خوار نہ تھے۔ ابن عباس فرماتے ہیں جسے تم نے ذبح کیا یہ تو وہ ہے جس پر اللہ کا نام لیا گیا اور جو از خود مرگیا وہ وہ ہے جس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا، مشرکین قریش فارسیوں سے خط و کتابت کر رہے تھے اور رومیوں کے خلاف انہیں مشورے اور امداد پہنچاتے تھے اور فارسی قریشیوں سے خط و کتابت رکھتے تھے اور آنحضرت ﷺ کے خلاف انہیں اکساتے اور ان کی امداد کرتے تھے، اسی میں انہوں نے مشرکین کی طرف یہ اعتراض بھی بھیجا تھا اور مشرکین نے صحابہ سے یہی اعتراض کیا اور بعض صحابہ کے دل میں بھی یہ بات کھٹکی اس پر یہ آیت اتری۔ پھر فرمایا اگر تم نے ان کی تابعداری کی تو تم مشرک ہوجاؤ گے کہ تم نے اللہ کی شریعت اور فرمان قرآن کے خلاف دوسرے کی مان لی اور یہی شرک ہے کہ اللہ کے قول کے مقابل دوسرے کا قول مان لیا چناچہ قرآن کریم میں ہے آیت ( اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــهًا وَّاحِدًا ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭسُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ) 9۔ التوبة:31) یعنی انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو الہ بنا لیا ہے، ترمذی میں ہے کہ جب حضرت عدی بن حاتم نے رسول ﷺ سے کہا کہ حضور انہوں نے ان کی عبادت نہیں کی تو آپ نے فرمایا انہوں نے حرام کو حلال کہا اور حلال کو حرام کہا اور انہوں نے ان کا کہنا مانا یہی عبادت ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 121 وَلاَ تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ ط۔ اس آیت کا تعلق بھی مشرکین عرب کے خود ساختہ اعتقادات اور توہمات سے ہے۔ وہ کہتے تھے کہ بعض جانوروں کو ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام سرے سے لینا ہی نہیں چاہیے۔ یہ حکم ایک خاص مسئلے کے حوالے سے ہے ‘ جس کی وضاحت آگے آیت 138 میں آئے گی۔وَاِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ الآی اَوْلِیٰٓءِہِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْج وَاِنْ اَطَعْتُمُوْہُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ ۔مشرکین مکہ اپنے غلط اعتقادات کی حمایت میں طرح طرح کی حجت بازی کرتے رہتے تھے ‘ مثلاً یہ کیا بات ہوئی کہ جو جانور اللہ نے مارا ہے یعنی ازخود مرگیا ہے وہ تو حرام قرار دے دیاجائے اور جس کو تم خود مارتے ہو یعنی ذبح کرتے ہو اس کو حلال مانا جائے ؟ اسی طرح وہ سود کے بارے میں بھی دلیل دیتے تھے کہ اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا 7 البقرۃ : 275 کہ یہ بیع بھی تو ربا سود ہی کی طرح ہے۔ جیسے تجارت میں نفع ہوتا ہے ایسے ہی سودی لین دین میں بھی نفع ہوتا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ دس لاکھ کسی کو قرض دیے ‘ اس سے چار ہزار روپے ماہانہ منافع لے لیا تو وہ ناجائز اور دس لاکھ کا مکان کسی کو کرائے پردے کر چار ہزار روپے ماہانہ اس سے کرایہ لیا جائے تو وہ جائز ! اس طرح کے اشکالات بظاہر بڑے دلنشین ہوتے ہیں ‘ جن کے بارے میں یہاں بتایا جا رہا ہے کہ اس طرح کی باتیں ان کے شیاطین انہیں سکھاتے رہتے ہیں تاکہ وہ تم سے مجادلہ کریں ‘ تاکہ تمہیں بھی اپنے ساتھ گمراہی کے راستے پر لے چلیں۔ لہٰذا تم ان کی اس طرح کی باتوں کو نظر انداز کرتے رہا کرو۔
ولا تأكلوا مما لم يذكر اسم الله عليه وإنه لفسق وإن الشياطين ليوحون إلى أوليائهم ليجادلوكم وإن أطعتموهم إنكم لمشركون
سورة: الأنعام - آية: ( 121 ) - جزء: ( 8 ) - صفحة: ( 143 )Surah anaam Ayat 121 meaning in urdu
اور جس جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو اس کا گوشت نہ کھاؤ، ایسا کرنا فسق ہے شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک و اعتراضات القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں لیکن اگر تم نے اُن کی اطاعت قبول کر لی تو یقیناً تم مشرک ہو
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- تو ان کو بھونچال نے آپکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے
- اہل جنت اس روز عیش ونشاط کے مشغلے میں ہوں گے
- اور ہم نے ان کو اہل و عیال اور ان کے ساتھ ان کے برابر
- وہ بولے کہ تم (اور کچھ) نہیں مگر ہماری طرح کے آدمی (ہو) اور خدا
- اور دیوؤں (کی جماعت کو بھی ان کے تابع کردیا تھا کہ ان) میں سے
- اور ان کے دلوں میں جو کدورت ہوگی ان کو ہم نکال کر (صاف کر)
- جب وہاں پہنچے تو آواز آئی کہ موسیٰ
- جب وہ ان کو صحیح و سالم (بچہ) دیتا ہے تو اس (بچے) میں جو
- تو خدا پر اور اس کے رسول پر اور نور (قرآن) پر جو ہم نے
- اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو
Quran surahs in English :
Download surah anaam with the voice of the most famous Quran reciters :
surah anaam mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter anaam Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers