Surah Ahqaf Ayat 13 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾
[ الأحقاف: 13]
جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا ہے پھر وہ (اس پر) قائم رہے تو ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے
Surah Ahqaf UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
نبی اکرم ﷺ کا اظہار بےبسی مشرکوں کی سرکشی اور ان کا کفر بیان ہو رہا ہے کہ جب انہیں اللہ کی ظاہر و باطن واضح اور صاف آیتیں سنائی جاتی ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو صریح جادو ہے تکذیب و افترا، ضلالت و کفر گویا ان کا شیوہ ہوگیا ہے۔ جادو کہہ کر ہی بس نہیں کرتے بلکہ یوں بھی کہتے ہیں کہ اسے تو محمد ﷺ نے گھڑ لیا ہے۔ پس نبی کی زبانی اللہ جواب دلواتا ہے کہ اگر میں نے ہی اس قرآن کو بنایا ہے اور میں اس کا سچا نبی نہیں تو یقینًا وہ مجھے میرے اس جھوٹ اور بہتان پر سخت تر عذاب کرے گا اور پھر تم کیا سارے جہان میں کوئی ایسا نہیں جو مجھے اس کے عذابوں سے چھڑا سکے۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( قُلْ اِنِّىْ لَنْ يُّجِيْرَنِيْ مِنَ اللّٰهِ اَحَدٌ ڏ وَّلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا 22ۙ ) 72۔ الجن:22) ، یعنی تو کہہ دے کہ مجھے اللہ کے ہاتھ سے کوئی نہیں بچا سکتا اور نہ اس کے سوا کہیں اور مجھے پناہ کی جگہ مل سکے گی لیکن میں اللہ کی تبلیغ اور اس کی رسالت کو بجا لاتا ہوں۔ اور جگہ ہے آیت ( وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ 44 ۙ ) 69۔ الحاقة :44) ، یعنی اگر یہ ہم پر کوئی بات بنا لیتا، تو ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ کر اس کی رگ گردن کاٹ ڈالتے اور تم میں سے کوئی بھی اسے نہ بچا سکتا پھر کفار کو دھمکایا جا رہا ہے کہ تمہاری گفتگو کا پورا علم اس علیم اللہ کو ہے وہی میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا۔ اس کی دھمکی کے بعد انہیں توبہ اور انابت کی رغبت دلائی جا رہی ہے اور فرماتا ہے وہ غفور و رحیم ہے اگر تم اس کی طرف رجوع کرو اپنے کرتوت سے باز آؤ تو وہ بھی تمہیں بخش دے گا اور تم پر رحم کرے گا۔ سورة فرقان میں بھی اسی مضمون کی آیت ہے۔ فرمان ہے آیت ( وَقَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا ) 25۔ الفرقان:5) ، یعنی یہ کہتے ہیں کہ یہ اگلوں کی کہانیاں ہیں جو اس نے لکھ لی ہیں اور صبح شام لکھائی جا رہی ہیں تو کہہ دے کہ اسے اس اللہ نے اتارا ہے جو ہر پوشیدہ جو جانتا ہے خواہ آسمانوں میں ہو خواہ زمین میں ہو وہ غفور و رحیم ہے پھر ارشاد ہوتا ہے کہ میں دنیا میں کوئی پہلا نبی تو نہیں۔ مجھ سے پہلے بھی تو دنیا میں لوگوں کی طرف رسول آتے رہے پھر میرے آنے سے تمہیں اس قدر اچنبھا کیوں ہوا ؟ مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا ؟ بقول حضرت ابن عباس اس آیت کے بعد آیت ( لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَمَا تَاَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَـقِيْمًا ۙ ) 48۔ الفتح:2) ، اتری ہے۔ اسی طرح حضرت عکرمہ، حضرت حسن، حضرت قتادہ بھی اسے منسوخ بتاتے ہیں۔ یہ بھی مروی ہے کہ جب آیت بخشش اتری جس میں فرمایا گیا تاکہ اللہ تیرے اگلے پچھلے گناہ بخشے تو ایک صحابی نے کہا حضور ﷺ یہ تو اللہ نے بیان فرما دیا کہ وہ آپ کے ساتھ کیا کرنے والا ہے پس وہ ہمارے ساتھ کیا کرنے والا ہے ؟ اس پر آیت ( لِّيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا وَيُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ ۭ وَكَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللّٰهِ فَوْزًا عَظِيْمًا ۙ ) 48۔ الفتح:5) اتری یعنی تاکہ اللہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں صحیح حدیث سے بھی یہ تو ثابت ہے کہ مومنوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ آپ کو مبارک ہو فرمائیے ہمارے لئے کیا حکم ہے ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری حضرت ضحاک اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ میں کیا حکم دیا جاؤ اور کس چیز سے روک دیا جاؤں ؟ امام حسن بصری کا قول ہے کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ آخرت کا انجام تو مجھے قطعًا معلوم ہے کہ میں جنت میں جاؤں گا ہاں دنیوی حال معلوم نہیں کہ اگلے بعض انبیاء کی طرح قتل کیا جاؤں یا اپنی زندگی کے دن پورے کر کے اللہ کے ہاں جاؤں ؟ اور اسی طرح میں نہیں کہہ سکتا کہ تمہیں دھنسایا جائے یا تم پر پتھر برسائے جائیں امام ابن جریر اسی کو معتبر کہتے ہیں اور فی الواقع ہے بھی یہ ٹھیک۔ آپ بالیقین جانتے تھے کہ آپ اور آپ کے پیرو جنت میں ہی جائیں گے اور دنیا کی حالت کے انجام سے آپ بیخبر تھے کہ انجام کار آپ کا اور آپ کے مخالفین قریش کا کیا حال ہوگا ؟ آیا وہ ایمان لائیں گے یا کفر پر ہی رہیں گے اور عذاب کئے جائیں گے یا بالکل ہی ہلاک کر دئیے جائیں گے لیکن جو حدیث مسند احمد میں ہے حضرت ام العلاء فرماتی ہیں جنہوں نے حضور ﷺ سے بیعت کی تھی کہ جس وقت مہاجرین بذریعہ قرعہ اندازی انصاریوں میں تقسیم ہو رہے تھے اس وقت ہمارے حصہ میں حضرت عثمان بن مظعون آئے آپ ہمارے ہاں بیمار ہوئے اور فوت بھی ہوگئے جب ہم آپ کو کفن پہنا چکے اور حضور ﷺ بھی تشریف لاچکے تو میرے منہ سے نکل گیا اے ابو السائب اللہ تجھ پر رحم کرے میری تو تجھ پر گواہی ہے کہ اللہ تعالیٰ یقینا تیرا اکرام ہی کرے گا۔ اس پر جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہیں کیسے معلوم ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ یقینا اس کا اکرام ہی کرے گا۔ میں نے کہا حضور ﷺ پر میرے ماں باپ فدا ہوں مجھے کچھ نہیں معلوم پس آپ نے فرمایا سنو ان کے پاس تو ان کے رب کی طرف کا یقین آپہنچا اور مجھے ان کیلئے بھلائی اور خیر کی امید ہے قسم ہے اللہ کے باوجود رسول ہونے کے میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ؟ اس پر میں نے کہا اللہ کی قسم اب اس کے بعد میں کسی کی برات نہیں کروں گی اور مجھے اس کا بڑا صدمہ ہوا لیکن میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت عثمان بن مظعون کی ایک نہر بہہ رہی ہے میں نے آکر حضور ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا یہ ان کے اعمال ہیں یہ حدیث بخاری میں ہے مسلم میں نہیں اور اس کی ایک سند میں ہے میں نہیں جانتا باوجودیکہ میں اللہ کا رسول ہوں کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ؟ دل کو تو کچھ ایسا لگتا ہے کہ یہی الفاظ موقعہ کے لحاظ سے ٹھیک ہیں کیونکہ اس کے بعد ہی یہ جملہ ہے کہ مجھے اس بات سے بڑا صدمہ ہوا۔ الغرض یہ حدیث اور اسی کی ہم معنی اور حدیثیں دلالت ہیں اس امر پر کہ کسی معین شخص کے جنتی ہونے کا قطعی علم کسی کو نہیں نہ کسی کو ایسی بات زبان سے کہنی چاہیے۔ بجز ان بزرگوں کے جن کے نام لے کر شارع ؑ نے انہیں جنتی کہا ہے جیسے عشرہ مبشرہ اور حضرت ابن سلام اور عمیصا اور بلال اور سراقہ اور عبداللہ بن عمرو بن حرام جو حضرت جابر کے والد ہیں اور وہ ستر قاری جو بیرمعونہ کی جنگ میں شہید کئے گئے اور زید بن حارثہ اور جعفر اور ابن رواحہ اور ان جیسے اور بزرگ ؓ اجمعین۔ پھر فرماتا ہے نبی تم کہہ دو کہ میں تو صرف اس وحی کا مطیع ہوں جو اللہ کی جناب سے میری جانب آئے اور میں تو صرف ڈرانے والا ہوں کہ کھول کھول کر ہر شخص کو آگاہ کر رہا ہوں ہر عقلمند میرے منصب سے باخبر ہے۔ واللہ اعلم۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 13 { اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا } ” بیشک جن لوگوں نے اقرار کیا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر جم گئے “ نوٹ کیجیے یہ وہی الفاظ ہیں جو اس سے پہلے ہم سورة حٰمٓ السجدۃ کی آیت 30 میں پڑھ آئے ہیں۔ وہاں بھی میں نے عرض کیا تھا اور اب پھر دہرا رہا ہوں کہ اس ” استقامت “ کو صرف ایک لفظ مت سمجھئے ‘ غور کریں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ اس ” استقامت “ میں ایک ” قیامت “ مضمر ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنا رب مان کر ہر حال میں اس کی رضا پر راضی رہنا ‘ اس کی رضا کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لینا ‘ اسی پر توکل ّکرنا ‘ اس کے احکامات کی پابندی کرنا اور اس کی طرف سے عائد کردہ جملہ ذمہ داریوں کو نبھانے میں اپنا تن من دھن دائو پر لگا دینا وغیرہ سب اس استقامت میں شامل ہے۔ سورة حٰمٓ السجدۃ آیت 30 کے مطالعہ کے دوران ہم حضرت سفیان بن عبداللہ رض کی حدیث پڑھ چکے ہیں کہ انہوں نے حضور ﷺ سے درخواست کی تھی کہ مجھے اسلام کے بارے میں کوئی ایک بات ایسی بتادیجیے جسے میں پلے ّباندھ لوں اور میرے لیے وہ کافی ہوجائے۔ اس کے جواب میں حضور ﷺ نے فرمایا : قُلْ آمَنْتُ بِاللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ ” کہو کہ میں ایمان لایا اللہ پر ‘ پھر اس پر جم جائو ! “ بہر حال اللہ پر ایمان لانے کے بعد استقامت یہی ہے کہ انسان کا دل اس سوچ پر جم جائے کہ اللہ ہی میرا پروردگار ہے اور وہی حاجت روا ‘ وہی مشکل کشا ہے اور وہی میری دعائوں کا سننے والا ہے ‘ اور پھر انسان خود کو اللہ کے لیے وقف کر دے۔ ایک بندہ مومن کی اسی کیفیت کا نقشہ سورة الأنعام کی اس آیت میں دکھایا گیا ہے : { قُلْ اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ } ” آپ ﷺ کہیے : میری نماز ‘ میری قربانی ‘ میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ “ { فَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ } ” تو ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ حزن سے دوچار ہوں گے۔ “ ملاحظہ کیجیے سورة يونس کی آیت 62 میں ” اولیاء اللہ “ کے مخصوص مقام و مرتبہ کے حوالے سے بھی بالکل یہی الفاظ آئے ہیں : { اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لاَخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ۔ ” آگاہ ہو جائو ! اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے “۔ گویا جو لوگ ایمان لائے اور پھر ایمان پر مستقیم ہوگئے وہ اولیاء اللہ ہیں اور آخرت میں انہیں کسی قسم کے خوف اور حزن و ملال کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
إن الذين قالوا ربنا الله ثم استقاموا فلا خوف عليهم ولا هم يحزنون
سورة: الأحقاف - آية: ( 13 ) - جزء: ( 26 ) - صفحة: ( 503 )Surah Ahqaf Ayat 13 meaning in urdu
یقیناً جن لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ ہی ہمارا رب ہے، پھر اُس پر جم گئے، اُن کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور اگر تکلیف پہنچنے کے بعد ہم اس کو اپنی رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں
- اور ہم نے ہر چیز کو لکھ کر ضبط کر رکھا ہے
- اور یہ کہ (قیامت کو) اسی پر دوبارہ اٹھانا لازم ہے
- یہی خدا تمہارا پروردگار ہے جو ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے۔ اس کے
- اور خدا ہی تو ہے جو ہوائیں چلاتا ہے اور وہ بادل کو اُبھارتی ہیں
- تو نوح نے کشتی بنانی شروع کردی۔ اور جب ان کی قوم کے سردار ان
- اور ہم نے داؤد کو سلیمان عطا کئے۔ بہت خوب بندے (تھے اور) وہ (خدا
- اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمان سے پانی کس نے نازل فرمایا پھر
- اور نہ پیپ کے سوا (اس کے لئے) کھانا ہے
- اور جس صورت میں چاہا تجھے جوڑ دیا
Quran surahs in English :
Download surah Ahqaf with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Ahqaf mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Ahqaf Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers