Surah Hadid Ayat 13 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِكُمْ قِيلَ ارْجِعُوا وَرَاءَكُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا فَضُرِبَ بَيْنَهُم بِسُورٍ لَّهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ مِن قِبَلِهِ الْعَذَابُ﴾
[ الحديد: 13]
اُس دن منافق مرد اور منافق عورتیں مومنوں سے کہیں گے کہ ہماری طرف سے (شفقت) کیجیئے کہ ہم بھی تمہارے نور سے روشنی حاصل کریں۔ تو ان سے کہا جائے گا کہ پیچھے کو لوٹ جاؤ اور (وہاں) نور تلاش کرو۔ پھر ان کے بیچ میں ایک دیوار کھڑی کر دی جائے گی۔ جس میں ایک دروازہ ہوگا جو اس کی جانب اندرونی ہے اس میں تو رحمت ہے اور جو جانب بیرونی ہے اس طرف عذاب (واذیت)
Surah Hadid Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یہ منافقین کچھ فاصلے تک اہل ایمان کے ساتھ ان کی روشنی میں چلیں گے، پھر اللہ تعالیٰ منافقین پر اندھیرا مسلط فرما ئےگا، اس وقت وہ اہل ایمان سے یہ کہیں گے۔
( 2 ) اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جا کر اسی طرح ایمان اور عمل صالح کی پونجی لے کر آؤ، جس طرح ہم لائے ہیں۔ یا استہزا کے طور پراہل ایمان کہیں گےکہ پیچھے جہاں سے ہم یہ نور لائے تھے وہیں جا کر اسے تلاش کرو۔
( 3 ) یعنی مومنین اور منافقین کے درمیان۔
( 4 ) اس سے مراد جنت ہے جس میں اہل ایمان داخل ہو چکےہوں گے۔
( 5 ) یہ وہ حصہ ہے جس میں جہنم ہوگی۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
اعمال کے مطابق بدلہ دیا جائے گا یہاں بیان ہو رہا ہے کہ مسلمانوں کے نیک اعمال کے مطابق انہیں نور ملے گا جو قیامت کے دن کے ان کے ساتھ ساتھ رہے گا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں ان میں بعض کا نور پہاڑوں کے برابر ہوگا اور بعض کا کھجوروں کے درختوں کے برابر اور بعض کا کھڑے انسان کے قد کے برابر سب سے کم نور جس گنہگار مومن کا ہوگا اس کے پیر کے انگوٹھے پر نور ہوگا جو کبھی روشن ہوتا ہوگا اور کبھی بجھ جاتا ہوگا ( ابن جریر ) حضرت قتادہ فرماتے ہیں ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے بعض مومن ایسے بھی ہوں گے جن کا نور اس قدر ہوگا کہ جس قدر مدینہ سے عدن دور ہے اور ابین دور ہے اور صنعا دور ہے۔ بعض اس سے کم بعض اس سے کم یہاں تک کہ بعض وہ بھی ہوں گے جن کے نور سے صرف ان کے دونوں قدموں کے پاس ہی اجالا ہوگا۔ حضرت جنادہ بن ابو امیہ فرماتے ہیں لوگو ! تمہارے نام مع ولدیت کے اور خاص نشانیوں کے اللہ کے ہاں لکھے ہوئے ہیں اسی طرح تمہارا ہر ظاہر باطن عمل بھی وہاں لکھا ہوا ہے قیامت کے دن نام لے کر پکار کر کہہ دیا جائے گا کہ اے فلاں یہ تیرا نور ہے اور اے فلاں تیرے لئے کوئی نور ہمارے ہاں نہیں۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ حضرت ضحاک فرماتے ہیں اول اول تو ہر شخص کو نور عطا ہوگا لیکن جب پل صراط پر جائیں گے تو منافقوں کا نور بجھ جائے گا اسے دیکھ کر مومن بھی ڈرنے لگیں گے کہ ایسا نہ ہو ہمارا نور بھی بجھ جائے تو اللہ سے دعائیں کریں گے کہ یا اللہ ہمارا نور ہمارے لئے پورا پورا کر۔ حضرت حسن فرماتے ہیں اس آیت سے مراد پل صراط پر نور کا ملنا ہے تاکہ اس اندھیری جگہ سے با آرام گذر جائیں۔ رسول مقبول ﷺ فرماتے ہیں سب سے پہلے سجدے کی اجازت قیامت کے دن مجھے دی جائے گی اور اسی طرح سب سے پہلے سجدے سے سر اٹھانے کا حکم بھی مجھے ہوگا میں آگے پیچھے دائیں بائیں نظریں ڈالوں گا اور اپنی امت کو پہچان لوں گا تو ایک شخص نے کہا حضور ﷺ حضرت نوح ؑ سے لے کر آپ کی امت تک کی تمام امتیں اس میدان میں اکٹھی ہوں گی ان میں سے آپ اپنی امت کی شناخت کیسے کریں گے ؟ آپ نے فرمایا بعض مخصوص نشانیوں کی وجہ سے میری امت کے اعضاء وضو چمک رہے ہوں گے یہ وصف کسی اور امت میں نہ ہوگا اور انہیں ان کے نامہ اعمال ان کے داہنے ہاتھوں میں دیئے جائیں گے اور ان کے چہرے چمک رہے ہوں گے اور ان کا نور ان کے آگے آگے چلتا ہوگا اور ان کی اولاد ان کے ساتھ ہی ہوگی۔ ضحاک فرماتے ہیں ان کے دائیں ہاتھ میں ان کا عمل نامہ ہوگا جیسے اور آیتوں میں تشریح ہے۔ ان سے کہا جائے گا کہ آج تمہیں ان جنتوں کی بشارت ہے جن کے چپے چپے پر چشمے جاری ہیں جہاں سے کبھی نکلنا نہیں، یہ زبردست کامیابی ہے۔ اس کے بعد کی آیت میں میدان قیامت کے ہولناک دل شکن اور کپکپا دینے والے واقعہ کا بیان ہے کہ سوائے سچے ایمان اور کھرے اعمال والوں کے نجات کسی کو منہ دکھائے گی۔ سلیم بن عامر فرماتے ہیں ہم ایک جنازے کے ساتھ باب دمشق میں تھے جب جنازے کی نماز ہوچکی اور دفن کا کام شروع ہوا تو حضرت ابو امامہ باہلی ؓ نے فرمایا لوگو ! تم اس دنیا کی منزل میں آج صبح شام کر رہے ہو نیکیاں برائیاں کرسکتے ہو اس کے بعد ایک اور منزل کی طرف تم سب کوچ کرنے والے ہو وہ منزل یہی قبر کی ہے جو تنہائی کا، اندھیرے کا، کیڑوں کا اور تنگی اور تاریکی والا گھر ہے مگر جس کے لئے اللہ تعالیٰ اسے وسعت دے دے۔ یہاں سے تم پھر میدان قیامت کے مختلف مقامات پر وارد ہو گے۔ ایک جگہ بہت سے لوگوں کے چہرے سفید ہوجائیں گے اور بہت سے لوگوں کے سیاہ پڑجائیں گے، پھر ایک اور میدان میں جاؤ گے جہاں سخت اندھیرا ہوگا وہاں ایمانداروں کو نور تقسیم کیا جائے گا اور کافر و منافق بےنور رہ جائے گا، اسی کا ذکر آیت ( او ظلمات ) الخ، میں ہے پس جس طرح آنکھوں والے کی بصارت سے اندھا کوئی نفع حاصل نہیں کرسکتا منافق و کافر ایماندار کے نور سے کچھ فائدہ نہ اٹھا سکے گا۔ تو منافق ایمانداروں سے آرزو کریں گے کہ اس قدر آگے نہ بڑھ جاؤ کچھ تو ٹھہرو جو ہم بھی تمہارے نور کے سہارے چلیں تو جس طرح یہ دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ مکر و فریب کرتے تھے آج ان سے کہا جائے گا کہ لوٹ جاؤ اور نور تلاش کر لاؤ یہ واپس نور کی تقسیم کی جگہ جائیں گے لیکن وہاں کچھ نہ پائیں گے، یہی اللہ کا وہ مکر ہے جس کا بیان آیت ( اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ ۚ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِيْلًا01402ۡۙ ) 4۔ النساء:142) ، میں ہے۔ اب لوٹ کر یہاں جو آئیں گے تو دیکھیں گے کہ مومنوں اور ان کے درمیان ایک دیوار حائل ہوگئی ہے جس کے اس طرف رحمت ہی رحمت ہے اور اس طرف عذاب و سزا ہے۔ پس منافق نور کی تقسیم کے وقت تک دھوکے میں ہی پڑ رہے گا نور مل جانے پر بھید کھل جائے گا تمیز ہوجائے گی اور یہ منافق اللہ کی رحمت سے مایوس ہوجائیں گے۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ جب کامل اندھیرا چھایا ہوا ہوگا کہ کوئی انسان اپنا ہاتھ بھی نہ دیکھ سکے اس وقت اللہ تعالیٰ ایک نور ظاہر کرے گا مسلمان اس طرف جانے لگیں گے تو منافق بھی پیچھے لگ جائیں گے۔ جب مومن زیادہ آگے نکل جائیں گے تو یہ انہیں ٹھہرانے کے لئے آواز دیں گے اور یاد دلائیں گے کہ دنیا میں ہم سب ساتھ ہی تھے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کی پردہ پوشی کے لئے ان کے ناموں سے پکارا جائے گا لیکن پل صراط پر تمیز ہوجائے گی مومنوں کو نور ملے گا اور منافقوں کو بھی ملے گا لیکن جب درمیان میں پہنچ جائیں گے منافقوں کا نور بجھ جائے گا یہ مومنوں کو آواز دیں گے لیکن اس وقت خود مومن خوف زدہ ہو رہے ہوں گے یہ وہ وقت ہوگا کہ ہر ایک آپادھاپی میں ہوگا، جس دیوار کا یہاں ذکر ہے یہ جنت و دوزخ کے درمیان حد فاصل ہوگی اسی کا ذکر آیت ( وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ ۚ وَعَلَي الْاَعْرَافِ رِجَالٌ يَّعْرِفُوْنَ كُلًّاۢ بِسِيْمٰىهُمْ ۚ وَنَادَوْا اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ اَنْ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ ۣ لَمْ يَدْخُلُوْهَا وَهُمْ يَطْمَعُوْنَ 46 ) 7۔ الأعراف:46) میں ہے۔ پس جنت میں رحمت اور جہنم میں عذاب۔ ٹھیک بات یہی ہے لیکن بعض کا قول ہے کہ اس سے مراد بیت المقدس کی دیوار ہے جو جہنم کی وادی کے پاس ہوگی، ابن عمر سے مروی ہے کہ یہ دیوار بیت المقدس کی شرقی دیوار ہے جس کے باطن میں مسجد وغیرہ ہے اور جس کے ظاہر میں وادی جہنم ہے اور بعض بزرگوں نے بھی یہی کہا ہے، لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ان کا مطلب یہ نہیں کہ بعینہ یہی دیوار اس آیت میں مراد ہے بلکہ اس کا ذکر بطور قرب کے معنی میں آیت کی تفسیر میں ان حضرات نے کردیا ہے اس لئے کہ جنت آسمانوں میں اعلیٰ علین میں ہے اور جہنم اسفل السافلین میں حضرت کعب احبار سے مروی ہے کہ جس دروازے کا ذکر اس آیت میں ہے اس سے مراد مسجد کا باب الرحمت ہے یہ بنو اسرائیل کی روایت ہے جو ہمارے لئے سند نہیں بن سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دیوار قیامت کے دن مومنوں اور منافقوں کے درمیان علیحدگی کے لئے کھڑی کی جائے گی مومن تو اس کے دروازے میں سے جا کر جنت میں پہنچ جائیں گے پھر دروازہ بند ہوجائے گا اور منافق حیرت زدہ ظلمت و عذاب میں رہ جائیں گے۔ جیسے کہ دنیا میں بھی یہ لوگ کفر و جہالت شک و حیرت کی اندھیروں میں تھے، اب یہ یاد دلائیں گے کہ دیکھو دنیا میں ہم تمہارے ساتھ تھے جمعہ جماعت ادا کرتے تھے عرفات اور غزوات میں موجود رہتے تھے واجبات ادا کرتے تھے۔ ایماندار کہیں گے ہاں بات تو ٹھیک ہے لیکن اپنے کرتوت تو دیکھو گناہوں میں نفسانی خواہشوں میں اللہ کی نافرمانیوں میں عمر بھر تم لذتیں اٹھاتے رہے اور آج توبہ کرلیں گے کل بد اعمالیوں چھوڑ دیں گے اسی میں رہے۔ انتظار میں ہی عمر گزاری دی کہ دیکھیں مسلمانوں کا نتیجہ کیا ہوتا ہے ؟ اور تمہیں یہ بھی یقین نہ آیا کہ قیامت آئے گی بھی یا نہیں ؟ اور پھر اس آرزو میں رہے کہ اگر آئے گی پھر تو ہم ضرور بخش دیئے جائیں گے اور مرتے دم تک اللہ کی طرف یقین خلوص کے ساتھ جھکنے کی توفیق میسر نہ آئی اور اللہ کے ساتھ تمہیں دھوکے باز شیطان نے دھوکے میں ہی رکھا۔ یہاں تک کہ آج تم جہنم واصل ہوگئے۔ مطلب یہ ہے کہ جسموں سے تو تم ہمارے ساتھ تھے لیکن دل اور نیت سے ہمارے ساتھ نہ تھے بلکہ حیرت و شک میں ہی پڑے رہے ریا کاری میں رہے اور دل لگا کر یاد الٰہی کرنا بھی تمہیں نصیب نہ ہوا۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ یہ منافق مومنوں کے ساتھ تھے نکاح بیاہ مجلس مجمع موت زیست میں شریک رہے۔ کہ خبردار ان کا رنگ تم پر نہ چڑھ جائے۔ اصل و فرع میں ان سے بالکل الگ رہو، ابن ابی حاتم میں ہے حضرت ربیع بن ابو عمیلہ فرماتے ہیں قرآن حدیث کی مٹھاس تو مسلم ہی ہے لیکن میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے ایک بہت ہی پیاری اور میٹھی بات سنی ہے جو مجھے بیحد محبوب اور مرغوب ہے آپ نے فرمایا جب بنو اسرائیل کی الہامی کتاب پر کچھ زمانہ گذر گیا تو ان لوگوں نے کچھ کتابیں خود تصنیف کرلیں اور ان میں وہ مسائل لکھے جو انہیں پسند تھے اور جو ان کے اپنے ذہن سے انہوں نے تراش لئے تھے، اب مزے لے لے کر زبانیں موڑ موڑ کر انہیں پڑھنے لگے ان میں سے اکثر مسائل اللہ کی کتاب کے خلاف تھے جن جن احکام کے ماننے کو ان کا جی نہ چاہتا تھا انہوں نے بدل ڈالے تھے اور اپنی کتاب میں اپنی طبیعت کے مطابق مسائل جمع کر لئے تھے اور انہی پر عامل بن گئے، اب انہیں سوجھی کہ اور لوگوں کو بھی منوائیں اور انہیں بھی آمادہ کریں کہ ان ہی ہماری لکھی ہوئی کتابوں کو شرعی کتابیں سمجھیں اور مدار عمل انہیں پر رکھیں اب لوگوں کو اسی کی دعوت دینے لگے اور زور پکڑتے گئے، یہاں تک کہ جو ان کی ان کتابوں کو نہ مانتا اسے یہ ستاتے تکلیف دیتے مارتے پیٹتے بلکہ قتل کر ڈالتے، ان میں ایک شخص اللہ والے پورے عالم اور متقی تھے انہوں نے ان کی طاقت سے اور زیادتی سے مرعوب ہو کر کتاب اللہ کو ایک لطیف چیز پر لکھ کر ایک نر سنگھے میں ڈال کر اپنی گردن میں اسے ڈال لیا، ان لوگوں کا شر و فساد روز بروز بڑھتا جا رہا تھا یہاں تک کہ بہت سے ان لوگوں کو جو کتاب اللہ پر عامل تھے انہوں نے قتل کردیا، پھر آپس میں مشورہ کیا کہ دیکھو کہ یوں ایک ایک کو کب تک قتل کرتے رہیں گے ؟ ان کا بڑا عالم اور ہماری اس کتاب کو بالکل نہ ماننے والا تمام بنی اسرائیل میں سب سے بڑھ کر کتاب اللہ کا عامل فلاں عالم ہے اسے پکڑو اور اس سے اپنی یہ رائے قیاس کی کتاب منواؤ اگر وہ مان لے گا تو پھر ہماری چاندی ہی چاندی ہے اور اگر وہ نہ مانے تو اسے قتل کردو پھر تمہاری اس کتاب کا مخالف کوئی نہ رہے گا اور دوسرے لوگ خواہ مخواہ ہماری ان کتابوں کو قبول کرلیں گے اور انہیں ماننے لگیں گے، چناچہ ان رائے قیاس والوں نے کتاب اللہ کے عالم و عامل اس بزرگ کو پکڑوا منگوایا اور اس سے کہا کہ دیکھ ہماری اس کتاب میں جو ہے اسے سب کو تو مانتا ہے یا نہیں ؟ ان پر تیرا ایمان ہے یا نہیں ؟ اس اللہ ترس کتاب اللہ کے ماننے والے عالم نے کہا اس میں تم نے کیا لکھا ہے ؟ ذرا مجھے سناؤ تو، انہوں نے سنایا اور کہا اس کو تو مانتا ہے ؟ اس بزرگ کو اپنی جان کا ڈر تھا اس لئے جرات کے ساتھ یہ تو نہ کہہ سکا کہ نہیں مانتا بلکہ اپنے اس نرسنگھے کی طرف اشارہ کر کے کہا میرا اسپر ایمان ہے وہ سمجھ بیٹھے کہ اس کا اشارہ ہماری اس کتاب کی طرف ہے۔ چانچہ اس کی ایذاء رسانی سے باز رہے لیکن تاہم اس کے اطوار و افعال سے کھٹکتے ہی رہے یہاں تک کہ جب اس کا انتقال ہوا تو انہوں نے تفتیش شروع کی کہ ایسا نہ ہو اس کے پاس کتاب اللہ اور دین کے سچے مسائل کی کوئی کتاب ہو آخر وہ نرسنگھا ان کے ہاتھ لگ گیا پڑھا تو اس میں اصلی مسائل کتاب اللہ کے موجود تھے اب بات بنالی کہ ہم نے تو کبھی یہ مسائل نہیں سنے ایسی باتیں ہمارے دین کی نہیں چناچہ زبردست فتنہ برپا ہوگیا اور بہتر گروہ ہوگئے ان سب میں بہتر گروہ جو راستی پر اور حق پر تھا وہ تھا جو اس نرسنگھے والے مسائل پر عامل تھا۔ حضرت ابن مسعود نے یہ واقعہ بیان فرما کر کہا لوگو تم میں سے بھی جو باقی رہے گا وہ ایسے ہی امور کا معائنہ کرے گا اور وہ بالکل بےبس ہوگا ان بری کتابوں کے مٹانے کی اس میں قدرت نہ ہوگی، پس ایسے مجبوری اور بےکسی کے وقت بھی اس کا یہ فرض تو ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ پر یہ ثابت کر دے کہ وہ ان سب کو برا جانتا ہے۔ امام ابو جعفر طبری ؒ نے بھی یہ روایت نقل کی ہے کہ عتریس بن عرقوب حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے اے ابو عبد اللہ جو شخص بھلائی کا حکم نہ کرے اور برائی سے نہ روکے وہ ہلاک ہوا آپ نے فرمایا ہلاک وہ ہوگا جو اپنے دل سے اچھائی کو اچھائی نہ سمجھے اور برائی کو برائی نہ جانے، پھر آپ نے بنی اسرائیل کا یہ واقعہ بیان فرمایا۔ پھر ارشاد باری لیکن اب یہاں بالکل الگ کردیئے گئے۔ سورة مدثر کی آیتوں میں ہے کہ مسلمان مجرموں سے انہیں جہنم میں دیکھ کر پوچھیں گے کہ آخر تم یہاں کیسے پھنس گئے اور وہ اپنے بد اعمال گنوائیں گے۔ تو یاد رہے کہ یہ سوال صرف بطور ڈانٹ ڈپٹ کے اور انہیں شرمندہ کرنے کے لئے ہوگا ورنہ حقیقت حال سے مسلمان خوب آگاہ ہوں گے۔ پھر یہ جیسے وہاں فرمایا تھا کہ کسی کی سفارش انہیں نفع نہ دے گی، یہاں فرمایا آج ان سے فدیہ نہ لیا جائے گا گو زمین بھر کر سونا دیں قبول نہ کیا جائے گا نہ منافقوں سے نہ کافروں سے ان کا مرجع و ماویٰ جہنم ہے وہی ان کے لائق ہے اور ظاہر ہے کہ وہ بدترین جگہ ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 13{ یَوْمَ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُّوْرِکُمْ } ” جس دن کہیں گے منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں سے کہ ذرا ہمارا انتظار کرو کہ ہم بھی تمہاری روشنی سے فائدہ اٹھالیں۔ “ اس صورت حال کو یوں سمجھیں جیسے کچھ مسافر ایک خطرناک جنگل کے اندر تنگ پگڈنڈی پر گھپ اندھیرے میں سفر کر رہے ہوں۔ ان میں سے جن لوگوں کے پاس ٹارچ ہے وہ تو تیز تیز قدموں کے ساتھ پگڈنڈی پر رواں دواں ہیں ‘ لیکن جن کے پاس ٹارچ نہیں ہے ‘ وہ ان کی منتیں کر رہے ہیں کہ خدا را ذرا رکو ‘ ذرا ٹھہرو ‘ ہم پر عنایت کرو ‘ ہمیں بھی ساتھ لے لو۔ نَقْتَبِسْ کا مادہ قبس ہے ‘ جس کے لغوی معنی ہیں کسی کی آگ سے چنگاری لے کر اپنی آگ جلانا۔ لفظ ” اقتباس “ اردو میں quotation کے معنی میں مستعمل ہے۔ آپ نے اپنے مضمون میں کسی اور کی تحریر سے اقتباس شامل کیا تو گویا آپ نے کسی کے چولہے کی ایک چنگاری لا کر اپنے چولہے میں شامل کی ہے۔ { قِیْلَ ارْجِعُوْا وَرَآئَ کُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًا } ” کہا جائے گا : لوٹ جائو پیچھے کی طرف اور تلاش کرو نور ! “ انہیں بتادیا جائے گا کہ یہ نور یہاں سے نہیں ملتا۔ اس وقت جن لوگوں کے پاس تمہیں نور نظر آ رہا ہے وہ اسے دنیا سے کما کر لائے ہیں۔ چناچہ اب اگر تمہیں اس کی ضرورت محسوس ہورہی ہے تو اس کے لیے تمہیں واپس دنیا میں جانا ہوگا اور وہاں جاکر اسے تلاش کرنا ہوگا ‘ جس کا اب کوئی امکان نہیں ہے۔ یہاں پر یہ لطیف نکتہ بھی لائق توجہ ہے کہ منافقین روشنی کے لیے درخواست تو اہل ایمان سے کریں گے لیکن اس کا جواب کوئی اور دے گا۔ کیونکہ یہاں قَالُوْا نہیں بلکہ قِیْلَ کہا جائے گا کا صیغہ آیا ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ اہل ایمان کی مروت اور شرافت سے بعید ہوگا کہ وہ انہیں کورا جواب دیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے حکم سے کوئی فرشتہ انہیں ان کی مذکورہ درخواست کا جواب دے گا۔ { فَضُرِبَ بَیْنَھُمْ بِسُوْرٍ لَّہٗ بَابٌ} ” پھر ان کے درمیان ایک فصیل کھڑی کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا۔ “ { بَاطِنُہٗ فِیْہِ الرَّحْمَۃُ وَظَاھِرُہٗ مِنْ قِبَلِہِ الْعَذَابُ۔ } ” اس فصیل کی اندرونی جانب رحمت ہوگی اور اس کے باہر کی طرف عذاب ہوگا۔ “ یعنی اس دیوار کے اندر کی طرف رحمت باری تعالیٰ کا نزول شروع ہوجائے گا ‘ اہل ایمان کی ابتدائی مہمان نوازی کا سلسلہ شروع ہوجائے گا ‘ جبکہ اس فصیل کے باہر کی طرف عذاب الٰہی کا نزول شروع ہوجائے گا۔ اس طرح اس چھلنی سے گزار کر منافقین کو سچے اہل ایمان سے الگ کرلیا جائے گا۔ اب اگلی دو آیات میں منافقت کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ مرض کیسے پیدا ہوتا ہے اور اس کی پیتھالوجی کیسے ارتقاء پاتی ہے۔
يوم يقول المنافقون والمنافقات للذين آمنوا انظرونا نقتبس من نوركم قيل ارجعوا وراءكم فالتمسوا نورا فضرب بينهم بسور له باب باطنه فيه الرحمة وظاهره من قبله العذاب
سورة: الحديد - آية: ( 13 ) - جزء: ( 27 ) - صفحة: ( 539 )Surah Hadid Ayat 13 meaning in urdu
اُس روز منافق مردوں اور عورتوں کا حال یہ ہوگا کہ وہ مومنوں سے کہیں گے ذرا ہماری طرف دیکھو تاکہ ہم تمہارے نور سے کچھ فائدہ اٹھائیں، مگر ان سے کہا جائے گا پیچھے ہٹ جاؤ، اپنا نور کہیں اور تلاش کرو پھر ان کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا اُس دروازے کے اندر رحمت ہوگی اور باہر عذاب
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور اگر تم سے کافر لڑتے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے پھر کسی کو
- اور یہ بھی (بتاتا ہے) کہ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اُن کے لئے
- اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ہے تو کوئی ہے کہ
- خدا تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر مومن ہو تو پھر کبھی ایسا کام نہ
- تو) خدا پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور جس (مال) میں اس
- جب (حساب کتاب کا) کام فیصلہ ہوچکے گا تو شیطان کہے گا (جو) وعدہ خدا
- اور یہ خدا کو کچھ مشکل نہیں
- جو لوگ اپنے (ناپسند) کاموں سے خوش ہوتے ہیں اور پسندیدہ کام) جو کرتے نہیں
- اور کہتے ہیں کہ اس پر اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی کیوں
- اس میں وہی داخل ہو گا جو بڑا بدبخت ہے
Quran surahs in English :
Download surah Hadid with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Hadid mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Hadid Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers