Surah taghabun Ayat 14 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ ۚ وَإِن تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾
[ التغابن: 14]
مومنو! تمہاری عورتیں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن (بھی) ہیں سو ان سے بچتے رہو۔ اور اگر معاف کردو اور درگزر کرو اور بخش دو تو خدا بھی بخشنے والا مہربان ہے
Surah taghabun Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی جو تمہیں عمل صالح اور اطاعت الٰہی سے روکیں، سمجھ لو وہ تمہارے خیر خواہ نہیں، دشمن ہیں۔
( 2 ) یعنی ان کے پیچھے لگنے سے بچو۔ بلکہ انہیں اپنے پیچھے لگاؤ تاکہ وہ بھی اطاعت الٰہی اختیار کریں، نہ کہ تم ان کے پیچھے لگ کر اپنی عاقبت خراب کرلو۔
( 3 ) اس کا سبب نزول یہ بیان کیا گیا ہے کہ مکے میں مسلمان ہونے والے بعض مسلمانوں نے مکہ چھوڑ کر مدینہ آنے کا ارادہ کیا، جیسا کہ اس وقت ہجرت کا حکم نہایت تاکید کے ساتھ دیا گیا تھا۔ لیکن ان کے بیوی بچے آڑے آگئے اور انہوں نے انہیں ہجرت نہیں کرنے دی۔ پھر بعد میں جب وہ رسول اللہ ( صلى الله عليه وسلم ) کے پاس آ گئے تو دیکھا کہ ان سے پہلے آنے والوں نے دین میں بہت زیادہ سمجھ حاصل کرلی ہے تو انہیں اپنے بیوی بچوں پر غصہ آیا، جنہوں نے انہیں ہجرت سے روکے رکھا تھا، چنانچہ انہوں نے ان کو سزا دینے کا ارادہ کیا۔ اللہ نے اس میں انہیں معاف کرنے اور درگزر سے کام لینے کی تلقین فرمائی۔ ( سنن الترمذي، تفسير سورة التغابن )۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
اللہ کی یاد اور دولت ارشاد ہوتا ہے کہ بعض عورتیں اپنے مردوں کو اور بعض اولاد اپنے ماں باپ کو یاد اللہ اور نیک عمل سے روک دیتی ہے جو درحقیقت دشمنی ہے، جس سے پہلے تنبیہ ہوچکی ہے کہ ایسا نہ ہو تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں یاد اللہ سے غافل کردیں اگر ایسا ہوگیا تو تمہیں بڑا گھاٹا رہے گا یہاں بھی فرماتا ہے کہ ان سے ہوشیار رہو، اپنے دین کی نگہبانی ان کی ضروریات اور فرمائشات کے پورا کرنے پر مقدم رکھو، بیوی بچوں اور مال کی خاطر انسان قطع رحمی کر گزرتا ہے اللہ کی نافرمانی پر تل جاتا ہے ان کی محبت میں پھنس کر احکام اسلامی کو پس پشت ڈال دیتا ہے، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں بعض اہل مکہ اسلام قبول کرچکے تھے مگر زن و فرزند کی محبت نے انہیں ہجرت سے روک دیا پھر جب اسلام کا خوب افشا ہوگیا تب یہ لوگ حاضر حضور ﷺ ہوئے دیکھا کہ ان سے پہلے کے مہاجرین نے بہت کچھ علم دین حاصل کرلیا ہے اب جی میں آیا کہ اپنے ہاں بچوں کو سزا دیں جس پر یہ فرمان ہوا کہ ان تعفوا الخ، یعنی اب درگزر کرو آئندہ کے لئے ہوشیار رہو، اللہ تعالیٰ مال و اولاد دے کر انسان کو پرکھ لیتا ہے کہ معصیت میں مبتلا ہونے والے کون ہیں اور اطاعت گذار کون ہیں ؟ اللہ کے پاس جو اجر عظیم ہے تمہیں چاہئے اس پر نگاہیں رکھو جیسے اور جگہ فرمان ہے ( ترجمہ ) الخ، یعنی بطور آزمائش کے لوگوں کے لئے دنیوی خواہشات یعنی بیویاں اور اولاد، سونے چاندی کے بڑے بڑے لگے ہوئے ڈھیر، شائستہ گھوڑے، مویشی، کھیتی کی محبت کو زینت دی گئی ہے مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان ہے اور ہمیشہ رہنے والا اچھا ٹھکانا تو اللہ ہی کے پاس ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ خطبہ فرما رہے تھے کہ حضرت حسن اور حضرت حسین لانبے لانبے کرتے پہنے آگئے دونوں بچے کرتوں میں الجھ الجھ کر گرتے پڑتے آ رہے تھے یہ کرتے سرخ، رنگ کے تھے حضور ﷺ کی نظریں جب ان پر پڑیں تو منبر سے اتر کر انہیں اٹھا کر لائے اور اپنے سامنے بٹھا لیا پھر فرمانے لگے اللہ تعالیٰ سچا ہے اور اس کے رسول ﷺ نے بھی سچ فرمایا ہے کہ تمہارے مال اولاد فتنہ ہیں میں ان دونوں کو گرتے پڑتے آتے دیکھ کر صبر نہ کرسکا آخر خطبہ چھوڑ کر انہیں اٹھانا پڑا۔ مسند میں ہے حضرت اشعت بن قیس فرماتے ہیں کندہ قبیلے کے وفد میں میں بھی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے مجھ سے پوچھا تمہاری کچھ اولاد بھی ہے میں نے کہا ہاں اب آتے ہوئے ایک لڑکا ہوا ہے کاش کہ اس کے بجائے کوئی درندہ ہی ہوتا آپ نے فرمایا خبردار ایسا نہ کہو ان میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور انتقال کر جائیں تو اجر ہے، پھر فرمایا ہاں ہاں یہی بزدلی اور غم کا سبب بھی بن جاتے ہیں یہ بزدلی اور غم و رنج بھی ہیں، بزاز میں ہے اولاد دل کا پھل ہے اور یہ بخل ونامردی اور غمگینی کا باعث بھی ہے، طبرانی میں ہے تیرا دشمن صرف وہی نہیں جو تیرے مقابلہ میں کفر پر جم کر لڑائی کے لئے آیا کیونکہ اگر تو نے اسے قتل کردیا تو تیرے لئے باعث نور ہے اور اگر اس نے تجھے قتل کردیا تو قطعاً جنتی ہوگیا۔ پھر فرمایا شاید تیرا دشمن تیرا بچہ ہے جو تیری پیٹھ سے نکلا پھر تجھ سے دشمنی کرنے لگا تیرا پورا دشمن تیرا مال ہے جو تیری ملکیت میں ہے پھر دشمنی کرتا ہے۔ پھر فرماتا ہے اپنے مقدور بھر اللہ کا خوف رکھو اس کے عذاب سے بچنے کی کوشش کرو، بخاری و مسلم میں ہے جو حکم میں کروں اسے اپنی مقدور بھر بجا لاؤ جس سے میں روک دوں رک جاؤ، بعض مفسرین کا فرمان ہے کہ سورة آل عمران کی آیت ( ترجمہ ) کی ناسخ یہ آیت ہے، یعنی پہلے فرمایا تھا اللہ تعالیٰ سے اس قدر ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہئے لیکن اب فرما دیا کہ اپنی طاقت کے مطابق چناچہ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں پہلی آیت لوگوں پر بڑی بھاری پڑی تھی اس قدر لمبے قیام اپنی طاقت کے مطابق چناچہ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں پہلی آیت لوگوں پر بڑی بھاری پڑی تھی اس قدر لمبے قیام کرتے تھے کہ پیروں پر ورم آجاتا تھا اور اتنے لمبے سجدے کرتے تھے کہ پیشانیاں زخمی ہوجاتی تھیں پس اللہ تعالیٰ نے یہ دوسری آیت اتار کر تخفیف کردی اور بھی بعض مفسرین نے یہی فرمایا ہے اور پہلی آیت کو منسوخ اور اس دوسری آیت کو ناسخ بتایا ہے، پھر فرماتا ہے اللہ اور اس کے رسول کے فرمانبردار بن جاؤ ان کے فرمان سے ایک انچ ادھر ادھر نہ ہٹو نہ آگے بڑھو نہ پیچھے سرکو نہ امر کو چھوڑو نہ نہی کے خلاف کرو، جو اللہ نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے رشتہ داروں کو فقیروں، مسکینوں کو اور حاجت مندوں کو دیتے رہو، اللہ نے تم پر احسان کیا تم دوسری مخلوق پر احسان کرو تاکہ اس جہان میں بھی اللہ کے احسان کے مستحق بن جاؤ اور اگر یہ نہ کیا تو دونوں جہان کی بربادی اپنے ہاتھوں آپ مول لو گے، ومن یوق کی تفسیر سورة حشر کی اس آیت میں گذر چکی ہے۔ جب تم کوئی چیز راہ اللہ دو گے اللہ اس کا بدلہ دے گا ہر صدقے کی جزا عطا فرمائے گا، تمہارا مسکینوں کے ساتھ سلوک کرنا گویا اللہ کو قرض دینا ہے۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کون ہے ؟ جو ایسے کو قرض دے جو نہ تو ظالم ہے نہ مفلس نہ نادہندہ، پس فرماتا ہے وہ تمہیں بہت کچھ بڑھا چڑھا کر پھیر دے گا، جیسے سورة بقرہ میں بھی فرمایا ہے کہ کئی کئی گنا بڑھا کر دے گا، ساتھ ہی خیرات سے تمہارے گناہ معاف کر دے گا، اللہ بڑا قدر دان ہے، تھوڑی سی نیک کا بہت بڑا اجر دیتا ہے، وہ بردبار ہے درگزر کرتا ہے بخش دیتا ہے گناہوں سے اور لغزشوں سے چشم پوشی کرلیتا ہے، خطاؤں اور برائیوں کو معاف فرما دیتا ہے چھپے کھلے کا عالم وہ غالب اور باحکمت ہے، ان اسماء حسنیٰ کی تفسیر کئی کئی مرتبہ اس سے پہلے گذر چکی ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور لطف و رحم سے سورة تغابن کی تفسیر ختم ہوئی۔ فالحمد للہ۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 14{ یٰٓــاَیـُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلَادِکُمْ عَدُوًّا لَّــکُمْ فَاحْذَرُوْہُمْ } ” اے ایمان کے دعوے دارو ! تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں ‘ سو ان سے بچ کر رہو۔ “ یہ بہت مشکل اور نازک معاملہ ہے۔ گزشتہ سورت میں رسول اللہ ﷺ کو منافقین کی عداوت سے بھی انہی الفاظ میں خبردار کیا گیا تھا : { ہُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْہُمْ } المنٰفقُون : 4 کہ یہ لوگ تمہارے دشمن ہیں ‘ ان سے بچ کر رہیے ! جس طرح منافقین کی دشمنی تمہارے لیے نقصان دہ ہے ‘ اسی طرح تمہارے بیوی بچوں کی محبت بھی تمہیں نقصان پہنچا سکتی ہے۔ نقصان بیشک کسی کی دشمنی کی وجہ سے ہو یا محبت کی وجہ سے ‘ نقصان ہی ہے اور جو کوئی بھی آپ کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو وہ ظاہر ہے آپ کا دشمن ہے۔ بیوی کی بےجا فرمائشیں اور بچوں کی حد سے بڑھی ہوئی ضروریات اگر حلال کی کمائی سے پوری نہیں ہوں گی تو انسان کیا کرے گا ؟ ظاہر ہے حرام میں منہ مارے گا۔ اور اگر کوئی یہ نہیں کرے گا تو ڈالر اور پونڈ کمانے کے چکر میں ملک سے باہر چلا جائے گا۔ پیچھے سے بیوی بچے کیا کرتے ہیں ؟ بوڑھے والدین کس حال میں ہیں ؟ انہیں بیماری کی حالت میں ڈاکٹر کے پاس کون لے کر جائے گا ؟ اس کی بلا جانے ! اس کی اپنی مجبوری ہے ‘ مکان بنانا ہے ‘ بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانی ہے ‘ ان کی شادیاں کرنی ہیں اور اس سب کچھ کے لیے سرمایہ چاہیے۔ اور ظاہر ہے سرمایہ گھر بیٹھے تو نہیں ملتا ‘ نہ ہی حلال کی کمائی سے ملتا ہے۔ اگر کسی کو اللہ تعالیٰ نے دین کی سمجھ اور آخرت کی فکر عطا کی ہے اور وہ حرام سے بچتے ہوئے روکھی سوکھی کھا کر گزارا کرنا چاہتا ہے تو اسے صبح وشام بیوی کے طعنے چین نہیں لینے دیتے کہ تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے ‘ تمہیں بچوں کے مستقبل کی فکر بھی نہیں۔ ذرا ہمسائے سے ہی سبق حاصل کرلیتے ‘ کیا وہ مسلمان نہیں ہیں ؟ وہ تم سے زیادہ نمازیں پڑھتے ہیں ‘ ان کی داڑھی بھی تم سے لمبی ہے ‘ مگر وہ دین کے ساتھ ساتھ دنیا کو بھی نبھا رہے ہیں۔ ذرا دیکھوان کے بیوی بچے کیسے عیش کر رہے ہیں اور کون نہیں جانتا کہ یہ سب کچھ اوپر کی کمائی سے ہو رہا ہے۔ اب تم کیا ان سے بھی بڑے دین دار ہو کہ جو سب کچھ ان کے لیے حلال ہے تم اسے اپنے اوپر خواہ مخواہ حرام کرکے بیٹھ گئے ہو ؟ وغیرہ وغیرہ۔ آج ہمارے ہاں کے روایتی مسلمانوں کو تو بیوی بچوں کی دشمنی والی یہ بات سمجھ میں نہیں آئے گی ‘ لیکن اگر کوئی بندئہ مومن اللہ تعالیٰ کی توفیق سے کسی انقلابی تحریک کے کارکن کی حیثیت سے اقامت دین کی جدوجہد میں مصروف ہے تو اس پر یہ حقیقت بہت جلد واضح ہوجائے گی کہ اس راستے میں بیوی بچوں کی محبت کس طرح پائوں کی زنجیر بنتی ہے۔ یہ معاملہ چونکہ بہت نازک اور حساس ہے اس لیے اس سخت حکم کے بعد اگلے جملے میں اس ضمن میں نرمی اختیار کرنے کی ہدایت بھی کی جا رہی ہے۔ قوانین اور احکام کا یہ توازن کلام الٰہی کا خاص معجزہ ہے اور اس اعتبار سے یہ آیت اعجازِ قرآن کی بہت بڑی مثال ہے۔ ایک طرف متنبہ بھی کردیا کہ تمہیں اپنے اہل و عیال کے معاملے میں سانپ کی طرح ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ بیوی اور اولاد کی محبت تمہیں کسی غلط راستے پر ڈال دے۔ لیکن اگلے جملے میں عفو و درگزر کا حکم بھی دے دیا کہ تم اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے اپنے اہل و عیال کے معاملات کو نرمی اور حکمت سے نبٹائو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارا گھر صبح و شام میدانِ جنگ کا نقشہ پیش کرنے لگے : { وَاِنْ تَـعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا وَتَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ } ” اور اگر تم معاف کردیا کرو اور چشم پوشی سے کام لو اور بخش دیا کرو تو اللہ بہت بخشنے والا ‘ نہایت مہربان ہے۔ “ اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ بھی عفو و درگزر کا معاملہ فرمائے تو تم بھی اپنے اہل و عیال کے ساتھ ایسا ہی رویہ اختیار کرو۔ سورة النور کی اس آیت میں بھی بالکل یہی اسلوب نظر آتا ہے : { وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْاط اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ } ” اور چاہیے کہ وہ معاف کردیں اور درگزر سے کام لیں۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے ؟ اور اللہ بہت بخشنے والا ‘ نہایت مہربان ہے “۔ یہ آیت واقعہ افک کے حوالے سے حضرت ابوبکر صدیق رض کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ آپ رض نے اپنے ایک نادار رشتہ دار حضرت مسطح رض کی کفالت کا ذمہ لے رکھا تھا ‘ لیکن جب آپ رض کو معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ رض پر کیچڑ اچھالنے میں اس کا بھی حصہ تھا تو آپ رض نے اس کی مدد سے ہاتھ روک لیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر تم خود اللہ سے معافی کے خواستگار ہو تو تم اسے معاف کر دو۔ بہرحال ان دونوں آیات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ نہ صرف اللہ تعالیٰ خود بہت معاف اور درگزر کرنے والا ہے بلکہ اپنے بندوں سے بھی وہ ایسے ہی رویے کو پسند کرتا ہے۔ زیر مطالعہ آیات میں اب تک ایمان کے چار ثمرات کا ذکر ہوا ہے۔ ان میں سے پہلے تین کا تعلق تو ایک فرد کی انفرادی زندگی سے ہے ‘ جبکہ چوتھا ثمرہ فرد کے گرد بننے والی اجتماعیت کے پہلے حلقے یعنی اس کے افراد خانہ سے متعلق ہے۔ انفرادی سطح کے تین ثمرات کو میں نے بندئہ مومن کی شخصیت کے چمن میں کھلنے والے خوبصورت پھولوں سے تشبیہہ دی ہے۔ ان میں سے دو پھول تو وہ ہیں جو اس کے دل کے اندر کھلتے ہیں اور باہر سے ہر کسی کو نظر نہیں آتے ‘ یعنی خوئے تسلیم و رضا اور توکل علی اللہ۔ جبکہ تیسرا پھول اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کا پھول ہے ‘ جو شخصیت کے خارج میں کھلتا ہے۔ ظاہر ہے اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ کے حکم میں تو پورے کے پورے دین کا احاطہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے معاشرے میں رہتے ہوئے یہ پھول بجا طور پر بندئہ مومن کی شخصیت کا طرئہ امتیاز بنتا ہے۔ ایمان کے چوتھے ثمرے کا تعلق بندئہ مومن کی عائلی زندگی سے ہے۔ اس حوالے سے آیت زیر مطالعہ ہمیں انتہائی متوازن اور معتدل رویے کا شعور عطا کرتی ہے۔ اس نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ہمیں اہل و عیال کی طبعی محبتوں کے منفی اثرات سے ہوشیار بھی رہنا ہے اور ساتھ ہی ساتھ عفو و درگزر کی حکمت عملی اپناتے ہوئے گھر کی فضا کو محاذ آرائی اور نفرت کے تکدر سے محفوظ رکھنے کی کوشش بھی کرتے رہنا ہے۔ اب اسی حوالے سے دوسری اصولی اور انتہائی اہم بات :
ياأيها الذين آمنوا إن من أزواجكم وأولادكم عدوا لكم فاحذروهم وإن تعفوا وتصفحوا وتغفروا فإن الله غفور رحيم
سورة: التغابن - آية: ( 14 ) - جزء: ( 28 ) - صفحة: ( 557 )Surah taghabun Ayat 14 meaning in urdu
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں، ان سے ہوشیار رہو اور اگر تم عفو و درگزر سے کام لو اور معاف کر دو تو اللہ غفور و رحیم ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- پیغمبر اور مسلمانوں کو شایاں نہیں کہ جب ان پر ظاہر ہوگیا کہ مشرک اہل
- بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب سے حصہ دیا گیا
- اور آرام کی چیزیں جن میں عیش کیا کرتے تھے
- اے منکرین خدا) کیا تم اس کلام سے تعجب کرتے ہو؟
- اے ایمان والو! نہ تو خدا اور رسول کی امانت میں خیانت کرو اور نہ
- اور اگر تم کو ثابت قدم نہ رہنے دیتے تو تم کسی قدر ان کی
- اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو حکم خدا نے نازل فرمایا ہے
- پھر دو دن میں سات آسمان بنائے اور ہر آسمان میں اس (کے کام) کا
- خدا تمہاری بےارادہ قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا لیکن پختہ قسموں پر
- اور دن کو معاش (کا وقت) قرار دیا
Quran surahs in English :
Download surah taghabun with the voice of the most famous Quran reciters :
surah taghabun mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter taghabun Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers