Surah baqarah Ayat 142 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿۞ سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا ۚ قُل لِّلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ﴾
[ البقرة: 142]
احمق لوگ کہیں گے کہ مسلمان جس قبلے پر (پہلے سے چلے آتے) تھے (اب) اس سے کیوں منہ پھیر بیٹھے۔ تم کہہ دو کہ مشرق اور مغرب سب خدا ہی کا ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے، سیدھے رستے پر چلاتا ہے
Surah baqarah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) جب آنحضرت ( صلى الله عليه وسلم ) مکے سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے تو ، مہینے تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے، درآں حالیکہ آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کی خواہش تھی کہ خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی جائے جو قبلہء ابراہیمی ہے اس کے لئے آپ دعا بھی فرماتے اور بار بار آسمان کی طرف نظر اٹھاتے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے تحویل قبلہ کا حکم دے دیا، جس پر یہودیوں اور منافقین نے شور مچا دیا، حالانکہ نماز اللہ کی ایک عبادت ہے اور عبادت میں عابد کو جس طرح حکم ہوتا ہے، اس طرح کرنے کا وہ پابند ہوتا ہے، اس لئے جس طرف اللہ نے رخ پھیر دیا، اس طرف پھر جانا ضروری تھا۔ علاوہ ازیں جس اللہ کی عبادت کرنی ہے مشرق، مغرب ساری جہتیں اسی کی ہیں، اس لئے جہتوں کی کوئی اہمیت نہیں، ہر جہت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت ہوسکتی ہے، بشرطیکہ اس جہت کو اختیار کرنے کا حکم اللہ نے دیا ہو۔ تحویل قبلہ کا یہ حکم نماز عصر کے وقت آیا اور عصر کی نماز خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے پڑھی گئی۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
تحویل کعبہ ایک امتحان بھی تھا۔ اور تقرر جہت بھی بیوقوفوں سے مراد یہاں مشرکین عرب اور علماء یہود اور منافقین وغیرہ ہیں۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت براء ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی لیکن خود آپ کی چاہت یہ تھی کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ شریف ہو۔ چناچہ اب حکم آگیا اور آپ نے عصر کی نماز اس کی طرف ادا کی۔ آپ کے ساتھ کے نمازیوں میں سے ایک شخص کسی اور مسجد میں پہنچا، وہاں جماعت رکوع میں تھی اس نے ان سے کہا اللہ کی قسم میں نبی ﷺ کے ساتھ مکہ کی طرف نماز پڑھ کر ابھی آ رہا ہوں۔ جب ان لوگوں نے سنا تو اسی حالت میں وہ کعبہ کی طرف گھوم گئے، اب بعض لوگوں نے یہ کہا کہ جو لوگ اگلے قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے ہوئے شہید ہوچکے ہیں ان کی نمازوں کا کیا حال ہے۔ تب یہ فرمان نازل ہوا کہ ( وما کان اللہ ) الخ یعنی اللہ تمہارے ایمان کو ضائع نہ کرے گا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ " جب حضور ﷺ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے تو آپ اکثر آسمان کی طرف نظریں اٹھاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے منتظر تھے یہاں تک کہ آیت ( قدنری ) الخ یعنی اللہ تمہارے ایمان کو ضائع نہ کرے گا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ " حضور ﷺ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے تو آپ اکثر آسمان کی طرف نظریں اٹھاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے منتظر تھے یہاں تک کہ آیت جس پر فرمان ( ماکان اللہ ) الخ نازل ہوا اور ان کی نمازوں کی طرف سے اطمینان ہوا۔ اب بعض بیوقوف اہل کتاب نے قبلہ کے بدلے جانے پر اعتراض کیا، جس پر یہ آیتیں ( سَیَقُوْلُ السُّفَہَآءُ ) الخ نازل ہوئیں " شروع ہجرت کے وقت مدینہ شریف میں آپ کو بیت المقدس کی طرف نمازیں ادا کرنے کا حکم ہوا تھا۔ یہود اس سے خوش تھے لیکن آپ کی چاہت اور دعا قبلہ ابراہیمی کی تھی۔ آخر جب یہ حکم نازل ہوا تو یہودیوں نے جھٹ سے اعتراض جڑ دیا۔ جس کا جواب ملا کہ مشرق و مغرب اللہ ہی کے ہیں۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی روایتیں ہیں خلاصہ یہ ہے کہ مکہ شریف میں آپ دونوں رکن کے درمیان نماز پڑھتے تھے تو آپ کے سامنے کعبہ ہوتا تھا اور بیت المقدس کے صخرہ کی طرف آپ کا منہ ہوتا تھا، لیکن مدینہ جا کر یہ معاملہ مشکل ہوگیا۔ دونوں جمع نہیں ہوسکتے تھے تو وہاں آپ کو بیت المقدس کی طرف نماز ادا کرنے کا حکم قرآن میں نازل ہوا تھا یا دوسری وحی کے ذریعہ یہ حکم ملا تھا۔ بعض بزرگ تو کہتے ہیں یہ صرف حضور ﷺ کا اجتہادی امر تھا اور مدینہ آنے کے بعد کئی ماہ تک اسی طرف آپ نمازیں پڑھتے رہے گو چاہت اور تھی۔ یہاں تک کہ پروردگار نے بیت العتیق کی طرف منہ پھیرنے کو فرمایا اور آپ نے اس طرف منہ کر کے پہلے نماز عصر پڑھی اور پھر لوگوں کو اپنے خطبہ میں اس امر سے آگاہ کیا۔ بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ یہ ظہر کی نماز تھی۔ حضرت ابو سعید بن معلی فرماتے ہیں " میں نے اور میرے ساتھی نے اول اول کعبہ کی طرف نماز پڑھی ہے اور ظہر کی نماز تھی " بعض مفسرین وغیرہ کا بیان ہے کہ " نبی ﷺ پر جب قبلہ بدلنے کی آیت نازل ہوئی۔ اس وقت آپ مسجد بنی سلمہ میں ظہر کی نماز پڑھ رہے تھے، دو رکعت ادا کرچکے تھے پھر باقی کی دو رکعتیں آپ نے بیت اللہ شریف کی طرف پڑھیں، اسی وجہ سے اس مسجد کا نام ہی مسجد ذو قبلتین یعنی دو قبلوں والی مسجد ہے۔ حضرت نویلہ بنت مسلم فرماتی ہیں کہ ہم ظہر کی نماز میں تھے جب ہمیں یہ خبر ملی اور ہم نماز میں ہی گھوم گئے۔ مرد عورتوں کی جگہ آگئے اور عورتیں مردوں کی جگہ جا پہنچیں۔ ہاں اہل قبا کو دوسرے دن صبح کی نماز کے وقت یہ خبر پہنچی بخاری و مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے مروی ہے کہ لوگ مسجد قبا میں صبح کی نماز ادا کر رہے تھے۔ اچانک کسی آنے والے نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ پر رات کو حکم قرآنی نازل ہوا اور کعبہ کی طرف متوجہ ہونے کا حکم ہوگیا۔ چناچہ ہم لوگ بھی شام کی طرف سے منہ ہٹا کر کعبہ کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ناسخ کے حکم کا لزوم اسی وقت ہوتا ہے۔ جب اس کا علم ہوجائے گو وہ پہلے ہی پہنچ چکا ہو۔ اس لئے کہ ان حضرات کو عصر مغرب اور عشا کو لوٹانے کا حکم نہیں ہوا۔ واللہ اعلم۔ اب باطل پرست کمزور عقیدے والے باتیں بنانے لگے کہ اس کی کیا وجہ ہے کبھی اسے قبلہ کہتا ہے کبھی اسے قبلہ قرار دیتا ہے۔ انہیں جواب ملا کہ حکم اور تصرف اور امر اللہ تعالیٰ ہی کا ہے جدھر منہ کرو۔ اسی طرف اس کا منہ ہے بھلائی اسی میں نہیں آگئی بلکہ اصلیت تو ایمان کی مضبوطی ہے جو ہر حکم کے ماننے پر مجبور کردیتی ہے اور اس میں گویا مومنوں کو ادب سکھایا گیا ہے کہ ان کا کام صرف حکم کی بجا آوری ہے جدھر انہیں متوجہ ہونے کا حکم دیا جائے یہ متوجہ ہوجاتے ہیں اطاعت کے معنی اس کے حکم کی تعمیل کے ہیں اگر وہ ایک دن میں سو مرتبہ ہر طرف گھمائے تو ہم بخوشی گھوم جائیں گے ہم اس کے غلام ہیں ہم اس کے ماتحت ہیں اس کے فرمانبردار ہیں اور اس کے خادم ہیں جدھر وہ حکم دے گا پھیر لیں گے۔ امت محمدیہ پر یہ بھی اللہ تعالیٰ کا اکرام ہے کہ انہیں خلیل الرحمن ؑ کے قبلہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہوا جو اسی اللہ لا شریک کے نام پر بنایا گیا ہے اور تمام تر فضیلتیں جسے حاصل ہیں۔ مسند احمد کی ایک مرفوع حدیث ہے کہ یہودیوں کو ہم سے اس بات پر بہت حسد ہے کہ اللہ نے ہمیں جمعہ کے دن کی توفیق دی اور یہ اس سے بھٹک گئے اور اس پر کہ ہمارا قبلہ یہ ہے اور وہ اس سے گمراہ ہوگئے اور بڑا حسد ان کو ہماری آمین کہنے پر بھی ہے جو ہم امام کے پیچھے کہتے ہیں
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
دو ‘ رکوعوں پر مشتمل تمہید کے بعد اب تحویل قبلہ کا مضمون براہ راست آرہا ہے ‘ جو پورے دو رکوعوں پر پھیلا ہوا ہے۔ کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ یہ کون سی ایسی بڑی بات تھی جس کے لیے قرآن مجید میں اتنے شدومدّ کے ساتھ اور اس قدر تفصیل بلکہ تکرار کے ساتھ بات کی گئی ہے ؟ اس کو یوں سمجھئے کہ ایک خاص مذہبی ذہنیت ہوتی ہے ‘ جس کے حامل لوگوں کی توجہّ اعمال کے ظاہر پر زیادہ مرکوز ہوجاتی ہے اور اعمال کی روح ان کی توجہ کا مرکز نہیں بنتی۔ عوام الناس کا معاملہ بالعموم یہی ہوجاتا ہے کہ ان کے ہاں اصل اہمیت دین کے ظواہر اور مراسم عبودیت کو حاصل ہوجاتی ہے اور جو اصل روح دین ہے ‘ جو مقاصد دین ہیں ‘ ان کی طرف توجہّ نہیں ہوتی۔ نتیجتاً ظواہر میں ذرا سا فرق بھی انہیں بہت زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اس کی مثال یوں سامنے آتی ہے کہ احناف کی مسجد میں اگر کسی نے رفع یدین کرلیا یا کسی نے آمین ذرا اونچی آواز میں کہہ دیا تو گویا قیامت آگئی۔ یوں محسوس ہوا جیسے ہماری مسجد میں کوئی اور ہی آگیا۔ اس مذہبی ذہنیت کے پس منظر میں یہ کوئی چھوٹا مسئلہ نہیں تھا۔اس کے علاوہ یہ مسئلہ قبائلی اور قومی پس منظر کے حوالے سے بھی سمجھنا چاہیے۔ مکہ مکرمہ میں جو لوگ ایمان لائے تھے ظاہر ہے ان سب کو خانہ کعبہ کے ساتھ بڑی عقیدت تھی۔ خود نبی اکرم ﷺ نے جب مکہ سے ہجرت فرمائی تو آپ ﷺ روتے ہوئے وہاں سے نکلے تھے اور آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ اے کعبہ ! مجھے تجھ سے بڑی محبت ہے ‘ لیکن تیرے یہاں کے رہنے والے مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جب تک آپ ﷺ مکہ میں تھے تو آپ ﷺ ‘ کعبہ کی جنوبی دیوار کی طرف رخ کر کے کھڑے ہوتے۔ یوں آپ ﷺ ‘ کا رخ شمال کی طرف ہوتا ‘ کعبہ آپ ﷺ کے سامنے ہوتا اور اس کی سیدھ میں بیت المقدس بھی آجاتا۔ اس طرح استقبال القبلتین کا اہتمام ہوجاتا۔ لیکن مدینہ میں آکر آپ ﷺ نے رخ بدل دیا اور بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے لگے۔ یہاں استقبال القبلتین ممکن نہ تھا ‘ اس لیے کہ یروشلم مدینہ منورہ کے شمال میں ہے ‘ جبکہ مکہ مکرمہ جنوب میں ہے۔ اب اگر خانہ کعبہ کی طرف رخ کریں گے تو یروشلم کی طرف پیٹھ ہوگی اور یروشلم کی طرف رخ کریں گے تو کعبہ کی طرف پیٹھ ہوگی۔ چناچہ اب اہل ایمان کا امتحان ہوگیا کہ آیا وہ محمد رسول اللہ ﷺ کے فرمان کی پیروی کرتے ہیں یا اپنی پرانی عقیدتوں اور پرانی روایات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ جو لوگ مکہ مکرمہ سے آئے تھے ان کی اتنی تربیت ہوچکی تھی کہ ان میں سے کسی کے لیے یہ مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ بقول اقبال : بمصطفیٰ ﷺ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر باو نہ رسیدی تمام بولہبی است !حالانکہ قرآن مجید میں کہیں منقول نہیں ہے کہ اللہ نے اپنے نبی ﷺ کو بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا تھا۔ ہوسکتا ہے یہ حکم وحئ خفی کے ذریعے سے دیا گیا ہو ‘ تاہم وحئ جلی میں یہ حکم کہیں نہیں ہے کہ اب یروشلم کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیے۔ یہ مسلمانوں کا اتباع رسول ﷺ کے حوالے سے ایک امتحان تھا جس میں وہ سرخرو ہوئے۔ پھر جب یہ حکم آیا کہ اپنے رخ مسجد حرام کی طرف پھیر دو تو یہ اب ان مسلمانوں کا امتحان تھا جو مدینہ کے رہنے والے تھے۔ اس لیے کہ ان میں سے بعض یہودیت ترک کر کے ایمان لائے تھے۔ مثلاً عبداللہ بن سلام رض علماء یہود میں سے تھے ‘ لیکن جو اور دوسرے لوگ تھے وہ بھی علماء یہود کے زیراثر تھے اور ان کے دل میں بھی یروشلم کی عظمت تھی۔ اب جب انہیں بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا حکم ہوا تو یہ ان کے ایمان کا امتحان ہوگیا۔ مزید برآں بعض لوگوں کے دلوں میں یہ خیال بھی پیدا ہوا ہوگا کہ اگر اصل قبلہ بیت اللہ تھا تو ہم نے اب تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے جو نمازیں پڑھی ہیں ان کا کیا بنے گا ؟ کیا وہ نمازیں ضائع ہوگئیں ؟ نماز تو ایمان کا رکن رکین ہے ! چناچہ اس اعتبار سے بھی بڑی تشویش پیدا ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی ایک مسئلہ سیاسی اعتبار سے یہ پیدا ہوا کہ یہود اب تک یہ سمجھ رہے تھے کہ مسلمانوں اور محمد ﷺ نے ہمارا قبلہ اختیار کرلیا ہے ‘ تو یہ گویا ہمارے ہی پیروکار ہیں ‘ لہٰذا ہمیں ان کی طرف سے کوئی خاص اندیشہ نہیں ہے۔ لیکن اب جب تحویل قبلہ کا حکم آگیا تو ان کے کان کھڑے ہوگئے کہ یہ تو کوئی نئی ملتّ ہے اور ایک نئی امت کی تشکیل ہو رہی ہے۔ چناچہ ان کی طرف سے مخالفت کے اندر شدت پیدا ہوگئی۔ یہ سارے مضامین یہاں پر زیر بحث آ رہے ہیں۔آیت 142 سَیَقُوْلُ السُّفَہَآءُ مِنَ النَّاسِ مَاوَلّٰٹہُمْ عَنْ قِبْلَتِہِمُ الَّتِیْ کَانُوْا عَلَیْہَاط ؟ یعنی سولہ سترہ مہینے تک انہوں نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی ہے ‘ اب انہیں بیت اللہ کی طرف کس چیز نے پھیر دیا ؟ قُلْ لِّلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ط یہ وہی الفاظ ہیں جو چودہویں رکوع میں تحویل قبلہ کی تمہید کے طور پر آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کسی ایک سمت میں محدود نہیں ہے ‘ بلکہ مشرق و مغرب اور شمال و جنوب سب اسی کے ہیں۔
سيقول السفهاء من الناس ما ولاهم عن قبلتهم التي كانوا عليها قل لله المشرق والمغرب يهدي من يشاء إلى صراط مستقيم
سورة: البقرة - آية: ( 142 ) - جزء: ( 2 ) - صفحة: ( 22 )Surah baqarah Ayat 142 meaning in urdu
نادان لوگ ضرور کہیں گے : اِنہیں کیا ہوا کہ پہلے یہ جس قبلے کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے، اس سے یکایک پھر گئے؟ اے نبی، ان سے کہو: "مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں اللہ جسے چاہتا ہے، سیدھی راہ دکھا دیتا ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- بےشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی اور مہاجرین اور انصار پر جو باوجود اس
- (اے محمدﷺ) خدا کی مہربانی سے تمہاری افتاد مزاج ان لوگوں کے لئے نرم واقع
- وہی تو ہے جو تم کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور تم پر آسمان سے
- کہ جس نے (اپنے) نفس (یعنی روح) کو پاک رکھا وہ مراد کو پہنچا
- اور اگر خدا تم کو کوئی سختی پہنچائے تو اس کے سوا اس کو کوئی
- خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے
- پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا غالب اور حکمت والا ہے
- جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا ہے پھر وہ (اس پر) قائم رہے
- آسمان اور زمین میں جتنے لوگ ہیں سب اسی سے مانگتے ہیں۔ وہ ہر روز
- کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا
Quran surahs in English :
Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers