Surah baqarah Ayat 143 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۗ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ﴾
[ البقرة: 143]
اور اسی طرح ہم نے تم کو امتِ معتدل بنایا ہے، تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر (آخرالزماں) تم پر گواہ بنیں۔ اور جس قبلے پر تم (پہلے) تھے، اس کو ہم نے اس لیے مقرر کیا تھا کہ معلوم کریں، کون (ہمارے) پیغمبر کا تابع رہتا ہے، اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔ اور یہ بات (یعنی تحویل قبلہ لوگوں کو) گراں معلوم ہوئی، مگر جن کو خدا نے ہدایت بخشی (وہ اسے گراں نہیں سمجھتے) اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یونہی کھو دے۔ خدا تو لوگوں پر بڑا مہربان (اور) صاحبِ رحمت ہے
Surah baqarah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) «وَسَطٌ» کے لغوی معنی تو درمیان کے ہیں، لیکن یہ بہتر اور افضل کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، یہاں اسی معنی میں اس کا استعمال ہوا ہے،یعنی جس طرح تمہیں سب سے بہتر قبلہ عطاکیاگیا ہے، اسی طرح تمہیں سب سے افضل امت بھی بنایا گیا ہے اور مقصد اس کا یہ ہے کہ تم لوگوں پر گواہی دو۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ہے «لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ» ( سورۂ الحج۔78 ) ” رسول تم پر اور تم لوگوں پر گواہ ہو۔ “ اس کی وضاحت بعض احادیث میں اس طرح آتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ پیغمبروں سے قیامت والے دن پوچھے گا کہ تم نے میرا پیغام لوگوں تک پہنچایا تھا؟ وہ اثبات میں جواب دیں گے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا، تمہارا کوئی گواہ ہے؟ وہ کہیں گے ہاں محمد ( صلى الله عليه وسلم ) اور ان کی امت، چنانچہ یہ امت گواہی دے گی۔ اس لئے اس کا ترجمہ عادل بھی کیا گیا ہے۔ ( ابن کثیر ) ایک معنی وسط کے اعتدال کے بھی کئے گئے ہیں۔ یعنی امت معتدل یعنی افراط وتفریط سے پاک۔ یہ اسلام کی تعلیمات کے اعتبار سے ہے کہ اس میں اعتدال ہے، افراط وتفریط نہیں۔
( 2 ) یہ تحویل قبلہ کی ایک غرض بیان کی گئی ہے، مومنین صادقین تو رسول اللہ ( صلى الله عليه وسلم ) کے اشارۂ ابرو کے منتظر رہا کرتے تھے، اس لئے ان کے تو ادھر سے ادھر پھر جانا کوئی مشکل معاملہ نہ تھا بلکہ ایک مقام پر تو عین نماز کی حالت میں جب کہ وہ رکوع میں تھے یہ حکم پہنچا تو انہوں نے رکوع ہی میں اپنا رخ خانہ کعبہ کی طرف پھیر لیا۔ یہ مسجد قبلتین ( یعنی وہ مسجد جس میں ایک نماز دو قبلوں کی طرف رخ کرکے پڑھی گئی ) کہلاتی ہے اور ایسا ہی واقعہ مسجد قبا میں بھی ہوا۔ «لِنَعْلَمَ» ” تاکہ ہم جان لیں “ اللہ کو تو پہلے بھی علم تھا، اس کا مطلب ہے تاکہ ہم اہل یقین کو اہل شک سے علیحدہ کردیں تاکہ لوگوں کے سامنےبھی دونوں قسم کے لوگ واضح ہوجائیں ( فتح القدیر )
( 3 ) بعض صحابہ ( رضي الله عنهم ) کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوا کہ جو صحابہ ( رضي الله عنهم ) بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کے زمانے میں فوت ہوچکے تھے، یا ہم جتنے عرصے اس طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے ہیں یہ ضائع ہوگئیں،یا شاید ان کا ثواب نہیں ملے گا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ نمازیں ضائع نہیں ہوں گی، تمہیں پورا ثواب ملے گا۔ یہاں نماز کو ایمان سے تعبیر کرکے یہ بھی واضح کردیا کہ نماز کے بغیر ایمان کی کوئی حیثیت نہیں۔ ایمان تب ہی معتبر ہے جب نماز اور دیگر احکام الٰہی کی پابندی ہوگی۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
پھر فرماتا ہے کہ اس پسندیدہ قبلہ کی طرف تمہیں متوجہ کرنا اس لیے ہے کہ تم خود بھی پسندیدہ امت ہو تم اور امتوں پر قیامت کے دن گواہ بنے رہو گے کیونکہ وہ سب تمہاری فضیلت مانتے ہیں وسط کے معنی یہاں پر بہتر اور عمدہ کے ہیں جیسے کہا جاتا ہے کہ قریش نسب کے اعتبار سے وسط عرب ہیں اور کہا گیا ہےحضور ﷺ اپنی قوم میں وسط تھے یعنی اشرف نسب والے اور صلوۃ وسطی یعنی افضل تر نماز جو عصر ہے جیسے صحیح احادیث سے ثابت ہے اور چونکہ تمام امتوں میں یہ امت بھی بہتر افضل اور اعلی تھی اس لئے انہیں شریعت بھی کامل راستہ بھی بالکل درست ملا اور دین بھی بہت واضح دیا گیا جیسے فرمایا ( هُوَ اجْتَبٰىكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ ) 22۔ الحج:78) اس اللہ نے تمہیں چن لیا اور تمہارے دین میں کوئی تنگی نہیں کی تمہارے باپ ابراہیم کے دین پر تم ہو۔ اسی نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے اس سے پہلے بھی اور اس میں بھی تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں نوح ؑ کو قیامت کے دن بلایا جائے گا اور ان سے دریافت کیا جائے گا کہ کیا تم نے میرا پیغام میرے بندوں کو پہنچا دیا تھا ؟ وہ کہیں گے کہ ہاں اللہ پہنچا دیا تھا۔ ان کی امت کو بلایا جائے گا اور ان سے پرسش ہوگی کیا نوح ؑ نے میری باتیں تمہیں پہنچائی تھیں وہ صاف انکار کریں گے اور کہیں گے ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا نوح ؑ سے کہا جائے گا تمہاری امت انکار کرتی ہے تم گواہ پیش کرو یہ کہیں گے کہ ہاں محمد ﷺ اور آپ کی امت میری گواہ ہے یہی مطلب اس آیت ( وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ) 2۔ البقرۃ :143) کا ہے وسط کے معنی عدل کے ہیں اب تمہیں بلایا جائے گا اور تم گواہی دو گے اور میں تم پر گواہی دوں گا ( بخاری ترمذی، نسائی ابن ماجہ ) مسند احمد کی ایک اور روایت میں ہے قیامت کے دن نبی آئیں گے اور ان کے ساتھ ان کی امت کے صرف دو ہی شخص ہوں گے اور اس سے زیادہ بھی اس کی امت کو بلایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا اس نبی نے تمہیں تبلیغ کی تھی ؟ وہ انکار کریں گے نبی سے کہا جائے گا تم نے تبلیغ کی وہ کہیں گے ہاں، کہا جائے گا تمہارا گواہ کون ہے ؟ وہ کہیں گے کہ محمد ﷺ اور آپ کی امت۔ پس محمد ﷺ اور آپ کی امت بلائی جائے گی ان سے یہی سوال ہوگا کہ کیا اس پیغمبر نے تبلیغ کی ؟ یہ کہیں گے ہاں، ان سے کہا جائے گا کہ تمہیں کیسے علم ہوا ؟ یہ جواب دیں گے کہ ہمارے پاس ہمارے نبی آئے اور آپ نے خبر دی کہ انبیاء ( علیہم السلام ) نے تیرا پیغام اپنی اپنی امتوں کو پہنچایا۔ یہی مطلب ہے اللہ عزوجل کے اس فرمان ( وکذلک ) الخ کا مسند احمد کی ایک اور حدیث میں وسطاً بمعنی عدلاً آیا ہے ابن مردویہ اور ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں اور میری امت قیامت کے دن ایک اونچے ٹیلے پر ہوں گے تمام مخلوق میں نمایاں ہو گے اور سب کو دیکھ رہے ہوں گے اس روز تمام دنیا تمنا کرے گی کہ کاش وہ بھی ہم میں سے ہوتے جس جس نبی کی قوم نے اسے جھٹلایا ہے ہم دربار رب العالمین میں شہادت دیں گے کہ ان تمام انبیاء نے حق رسالت ادا کیا تھا۔ مستدرک حاکم کی ایک حدیث میں ہے کہ بنی مسلمہ کے قبیلے کے ایک شخص کے جنازے میں ہم نے حضور ﷺ کے ساتھ تھے لوگ کہنے لگے حضور یہ بڑا نیک آدمی تھا۔ بڑا متقی پارسا اور سچا مسلمان تھا اور بھی بہت سی تعریفیں کیں آپ نے فرمایا تم یہ کس طرح کہ رہے ہو ؟ اس شخص نے کہا حضور ﷺ پوشیدگی کا علم تو اللہ ہی کو ہے لیکن ظاہرداری تو اس کی ایسی ہی حالت تھی آپ نے فرمایا اس کے لیے جنت واجب ہوگئی پھر بنو حارثہ کے ایک شخص کے جنازے میں تھے لوگ کہنے لگے حضرت یہ برا آدمی تھا بڑا بد زبان اور کج خلق تھا آپ نے اس کی برائیاں سن کر پوچھا تم کیسے کہہ رہے ہو اس شخص نے بھی یہی کہا کہ آپ نے فرمایا اس کے لیے واجب ہوگئی محمد بن کعب اس حدیث کو سن کر فرمانے لگے اللہ کے رسول ﷺ سچے ہیں دیکھو قرآن بھی کہہ رہا ہے ( وکذلک ) الخ مسند احمد میں ہے۔ ابو الاسود فرماتے ہیں میں مدینہ میں آیا یہاں بیماری تھی لوگ بکثرت مر رہے تھے میں حضرت عمر بن خطاب ؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا جو ایک جنازہ نکلا اور لوگوں نے مرحوم کی نیکیاں بیان کرنی شروع کیں آپ نے فرمایا اس کے لیے واجب ہوگئی اتنے میں دوسرا جنازہ نکلا لوگوں نے اس کی برائیاں بیان کیں آپ نے فرمایا اس کے لیے واجب ہوگئی میں نے کہا امیر المومنین کیا واجب ہوگئی ؟ آپ نے فرمایا میں نے وہی کہا جو جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس مسلمان کی بھلائی کی شہادت چار شخص دیں اسے جنت میں داخل کرتا ہے ہم نے کہا حضور ﷺ اگر تین دیں ؟ آپ نے فرمایا تین بھی ہم نے کہا اگر دو ہوں آپ نے فرمایا دو بھی۔ پھر ہم نے ایک کی بابت کا سوال نہ کیا ابن مردویہ کی ایک حدیث میں ہے قریب ہے کہ تم اپنے بھلوں اور بروں کو پہچان لیا کرو۔ لوگوں نے کہا حضور کس طرح ؟ آپ نے فرمایا اچھی تعریف اور بری شہادت سے تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو پھر فرماتا ہے کہ اگلا قبلہ صرف امتحاناً تھا یعنی پہلے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کر کے پھر کعبۃ اللہ کی طرف پھیرنا صرف اس لئے تھا کہ معلوم ہوجائے کہ سچا تابعدار کون ہے ؟ اور جہاں آپ توجہ کریں وہیں اپنی توجہ کرنے والا کون ہے ؟ اور کون ہے جو ایک دم کروٹ لے لیتا ہے اور مرتد ہوجاتا ہے، یہ کام فی الحقیقت اہم کام تھا لیکن جن کے دلوں میں ایمان و یقین ہے جو رسول اللہ ﷺ کے سچے پیروکار ہیں جو جانتے ہیں کہ حضور ﷺ جو فرمائیں سچ ہے جن کا عقیدہ ہے کہ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے جو ارادہ کرتا ہے حکم کرتا ہے۔ اپنے بندوں کو جس طرح چاہے حکم دے جو چاہے مٹائے جو چاہے باقی رکھے اسکا ہر کام، ہر حکم حکمت سے پر ہے ان پر اس حکم کی بجا آوری کچھ بھی مشکل نہیں۔ ہاں بیمار دل والے تو جہاں نیا حکم آیا انہیں فوراً نیا درد اٹھا قرآن کریم میں اور جگہ ہے ( وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ نَّظَرَ بَعْضُھُمْ اِلٰى بَعْضٍ ۭ هَلْ يَرٰىكُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوْا ۭ صَرَفَ اللّٰهُ قُلُوْبَھُمْ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ ) 9۔ التوبة:127) یعنی جب کبھی کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو ان میں سے بعض پوچھتے ہیں اس سے کس کا ایمان بڑھا ؟ حقیقت یہ ہے کہ ایمانداروں کے ایمان بڑھتے ہیں اور ان کی دلی خوشی بھی اور بیمار دل والے اپنی پلیدی میں اور بڑھ جاتے ہیں اور جگہ فرمان ہے ( قُلْ هُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّشِفَاۗءٌ ۭ وَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ فِيْٓ اٰذَانِهِمْ وَقْرٌ وَّهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى ) 41۔ فصلت :44) یعنی ایمان والوں کے لیے یہ ہدایت اور شفا ہے اور بےایمان لوگوں کے کانوں میں بوجھ اور آنکھوں پر اندھاپا ہے اور جگہ فرمان ہے ( وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ۙ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا ) 17۔ الاسرآء :82) یعنی ہمارا اتارا ہوا قرآن مومنوں کے لئے سراسر شفاء اور رحمت ہے اور ظالموں کا نقصان ہی بڑھتا رہتا ہے اس واقعہ میں بھی تمام بزرگ صحابہ ثابت قدم رہے اول سبقت کرنے والے مہاجر اور انصار دونوں قبیلوں کی طرف نماز پڑھنے والے ہیں۔ چناچہ اوپر حدیث بیان ہوچکی کہ کس طرح وہ نماز پڑھتے ہوئے یہ خبر سن کر گھوم گئے۔ مسلم شریف میں روایت ہے کہ رکوع کی حالت میں تھے اور اسی میں کعبہ کی طرف پھرگئے جس سے ان کی کمال اطاعت اور اعلیٰ درجہ کی فرمان برداری ثابت ہوئی پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرے گا۔ یعنی تمہاری بیت المقدس کی طرف پڑھی ہوئی نمازیں رد نہیں ہوں گے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں بلکہ ان کی اعلیٰ ایمانداری ثابت ہوئی انہیں دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھنے کا ثواب عطا ہوگا یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ محمد ﷺ کو اور ان کے ساتھ تمہارے گھوم جانے کو ضائع نہ کرے گا پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ رؤف رحیم ہے ؟ صحیح حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے ایک جنگی قیدی عورت کو دیکھا جس سے اس کا بچہ چھوٹ گیا تھا وہ اپنے بچہ کو پاگلوں کی طرح تلاش کر رہی تھی اور جب وہ نہیں ملا تو قیدیوں میں سے جس کسی بچہ کو دیکھتی اسی کو گلے لگا لیتی یہاں تک کہ اس کا اپنا بچہ مل گیا خوشی خوشی لپک کر اسے گود میں اٹھا لیا سینے سے لگایا پیار کیا اور اس کے منہ میں دودھ دیا یہ دیکھ کر حضور ﷺ نے صحابہ سے فرمایا بتاؤ تو یہ اپنا بس چلتے ہوئے اس بچہ کو آگ میں ڈال دے گی ؟ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ہرگز نہیں آپ نے فرمایا اللہ کی قسم جس قدر یہ ماں اپنے بچہ پہ مہربان ہے اس سے کہیں زیادہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رؤف و رحیم ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 143 وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا اب یہ خاص بات کہی جا رہی ہے کہ اے مسلمانو ! تم اس تحویل قبلہ کو معمولی بات نہ سمجھو ‘ یہ علامت ہے اس بات کی کہ اب تمہیں وہ حیثیت حاصل ہوگئی ہے :لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا ط۔ اب یہ تمہارا فرض منصبی ہے کہ رسول ﷺ نے جس دین کی گواہی تم پر اپنے قول و عمل سے دی ہے اسی دین کی گواہی تمہیں اپنے قول اور عمل سے پوری نوع انسانی پر دینی ہے۔ اب تمٌ محمد رسول اللہ ﷺ اور نوع انسانی کے درمیان واسطہ link بن گئے ہو۔ اب تک نبوت کا سلسلہ جاری تھا۔ ایک نبی کی تعلیم ختم ہوجاتی یا اس میں تحریف ہوجاتی تو دوسرا نبی آجاتا۔ اس طرح پے در پے انبیاء و رسل علیہ السلام چلے آ رہے تھے اور ہر دور میں یہ معاملہ تسلسل کے ساتھ چل رہا تھا۔ ابٌ محمد رسول اللہ ﷺ پر نبوت ختم ہو رہی ہے ‘ لیکن نسل انسانی کا سلسلہ تو قیامت تک جاری رہنا ہے۔ لہٰذا اب آگے لوگوں کو تبلیغ کرنا ‘ ان تک دین پہنچانا ‘ ان پر حجت قائم کرنا اور شہادت علی الناس کا فریضہ سرانجام دینا کس کیّ ذمہ داری ہوگی ؟ پہلے تو ہمیشہ یہی ہوتا رہا کہ اللہ کی طرف سے جبرائیل علیہ السلام وحی لائے اور نبی کے پاس آگئے ‘ نبی نے لوگوں کو سکھا دیا۔ اب یہ معاملہ اس طرح ہے کہ اللہ سے جبرائیل علیہ السلام وحی لائےٌ محمد رسول اللہ ﷺ کے پاس اور محمد ﷺ نے سکھایا تمہیں ‘ اور اب تمہیں سکھانا ہے پوری نوع انسانی کو ! تو اب تمہاری حیثیت درمیانی واسطے کی ہے۔ یہ مضمون سورة الحج کی آخری آیات میں زیادہ وضاحت کے ساتھ آئے گا۔وَکَذٰلِکَ اسی طرح سے مراد یہ ہے کہ تحویل قبلہ اس کا ایک مظہر ہے۔ اس سے اب تم اپنی ذمہّ داریوں کا اندازہ کرو۔ صرف خوشیاں نہ مناؤ ‘ بلکہ ایک بہت بڑی ذمہ داری کا جو بوجھ تم پر آگیا ہے اس کا ادراک کرو۔ یہی بوجھ جب ہم نے اپنے بندے محمد ﷺ کے کاندھوں پر رکھا تھا تو ان سے بھی کہا تھا : اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا المزمل اے نبی ﷺ ! ہم آپ پر ایک بھاری بات ڈالنے والے ہیں۔ وہی بھاری بات بہت بڑے پیمانے پر اب تمہارے کاندھوں پر آگئی ہے۔ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْہَآ اِلاَّ لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ ط یہاں اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کرنے کی نسبت اپنی طرف کی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے بعد وحی ‘ خفی کے ذریعے نبی اکرم ﷺ کو بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہو ‘ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ آنحضور ﷺ کا اجتہاد ہو ‘ اور اسے اللہ نے قبول فرما لیا ہو۔ رسول اللہ ﷺ کے اجتہاد پر اگر اللہ کی طرف سے نفی نہ آئے تو وہ گویا اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ بیت المقدس کو قبلہ مقرر کیا جانا ایک امتحان قرار دیا گیا کہ کون اتباع رسول ﷺ ‘ کی روش پر گامزن رہتا ہے اور کون دین سے پھرجاتا ہے۔ اس آزمائش میں تمام مسلمان کامیاب رہے اور ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ ٹھیک ہے ‘ ہمارا قبلہ وہ تھا ‘ اب آپ نے اپنا قبلہ بدل لیا ہے تو آپ کا راستہ اور ہے ہمارا راستہ اور !وَاِنْ کَانَتْ لَکَبِیْرَۃً الاَّ عَلَی الَّذِیْنَ ہَدَی اللّٰہُ ط۔ واقعہ یہ ہے کہ اتنی بڑی تبدیلی قبول کرلینا آسان بات نہیں ہوتی۔ یہ بڑا حساسّ مسئلہ ہوتا ہے۔وَمَا کَان اللّٰہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ ط ایمان سے یہاں مراد نماز ہے جسے دین کا ستون قرار دیا گیا ہے۔ یہ بات اس تشویش کے جواب میں فرمائی گئی جو بعض مسلمانوں کو لاحق ہوگئی تھی کہ ہماری ان نمازوں کا کیا بنے گا جو ہم نے سولہ مہینے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے پڑھی ہیں ؟ مسلمان تو رسول اللہ ﷺ کے حکم کا پابند ہے ‘ اس وقت رسول کا وہ حکم تھا ‘ وہ اللہ کے ہاں مقبول ٹھہرا ‘ اس وقت یہ حکم ہے جو تمہیں رسول کی جانب سے مل رہا ہے ‘ اب تم اس کی پیروی کرو۔
وكذلك جعلناكم أمة وسطا لتكونوا شهداء على الناس ويكون الرسول عليكم شهيدا وما جعلنا القبلة التي كنت عليها إلا لنعلم من يتبع الرسول ممن ينقلب على عقبيه وإن كانت لكبيرة إلا على الذين هدى الله وما كان الله ليضيع إيمانكم إن الله بالناس لرءوف رحيم
سورة: البقرة - آية: ( 143 ) - جزء: ( 2 ) - صفحة: ( 22 )Surah baqarah Ayat 143 meaning in urdu
اور اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک "امت وسط" بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو پہلے جس طرف تم رخ کرتے تھے، اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لیے قبلہ مقرر کیا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھر جاتا ہے یہ معاملہ تھا تو بڑا سخت، مگر اُن لوگوں کے لیے کچھ بھی سخت نہ ثابت ہوا، جو اللہ کی ہدایت سے فیض یاب تھے اللہ تمہارے اس ایمان کو ہرگز ضائع نہ کرے گا، یقین جانو کہ وہ لوگوں کے حق میں نہایت شفیق و رحیم ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- پھر جب انہوں نے اس (عذاب کو) دیکھا کہ بادل (کی صورت میں) ان کے
- اور اگر تم کنائے کی باتوں میں عورتوں کو نکاح کا پیغام بھیجو یا (نکاح
- پھر ان کو داہنے ہاتھ سے مارنا (اور توڑنا) شروع کیا
- اے ایمان والو! خدا اور اس کے رسول کے حکم پر چلو اور اس سے
- اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ان کو بتدریج اس طریق سے پکڑیں
- اور اپنے پروردگار کا فرمان بجا لائے گا اور اسے واجب بھی یہ ہی ہے
- یہ جو کچھ چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں خدا اس کو ضرور جانتا
- جس دن ان کے منہ آگ میں الٹائے جائیں گے کہیں اے کاش ہم خدا
- جو لوگ اپنے مونہوں کے بل دوزخ کی طرف جمع کئے جائیں گے ان کا
- سلیمان نے کہا کہ ملکہ کے (امتحان عقل کے) لئے اس کے تخت کی صورت
Quran surahs in English :
Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers