Surah Al Hajj Ayat 16 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَكَذَٰلِكَ أَنزَلْنَاهُ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ وَأَنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يُرِيدُ﴾
[ الحج: 16]
اور اسی طرح ہم نے اس قرآن کو اُتارا ہے (جس کی تمام) باتیں کھلی ہوئی (ہیں) اور یہ (یاد رکھو) کہ خدا جس کو چاہتا ہے ہدایات دیتا ہے
Surah Al Hajj UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
مخالفین نبی ﷺ ہلاک ہوں یعنی جو یہ جان رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ کی مدد نہ دنیا میں کرے گا نہ آخرت میں وہ یقین مانے کہ اس کا یہ خیال محض خیال ہے۔ آپ کی مدد ہو کر ہی رہے گی چاہے ایسا شخص اپنے غصے میں ہار ہی جائے بلکہ اسے چاہے کہ اپنے مکان کی چھت میں رسی باندھ کر اپنے گلے میں پھندا ڈال کر اپنے آپ کو ہلاک کردے۔ ناممکن ہے کہ وہ چیز یعنی اللہ کی مدد اس کے نبی کے لئے نہ آئے گویہ جل جل کر مرجائیں مگر ان کی خیال آرائیاں غلط ثابت ہو کر رہیں گی۔ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی سمجھ کے خلاف ہو کر ہی رہے گا۔ اللہ کی امداد آسمان سے نازل ہوگی۔ ہاں اگر اس کے بس میں ہو تو ایک رسی لٹکا کر آسمان پر چڑھ جائے اور اس اترتی ہوئی مدد آسمانی کو کاٹ دے۔ لیکن پہلا معنی زیادہ ظاہر ہے اور اس میں ان کی پوری بےبسی اور نامرادی کا ثبوت ہے کہ اللہ اپنے دین کو اپنی کتاب کو اپنے نبی کو ترقی دے گا ہی چونکہ یہ لوگ اسے دیکھ نہیں سکتے اس لئے انہیں چاہئے کہ یہ مرجائیں، اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالیں۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ 51ۙ ) 40۔ غافر:51) ہم اپنے رسولوں کی اور ایماندروں کی مدد کرتے ہی ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی یہاں فرمایا کہ یہ پھانسی پر لٹک کر دیکھ لے کہ شان محمدی کو کس طرح کم کرسکتا ہے ؟ اپنے سینے کی آگ کو کسی طرح بجھا سکتا ہے اس قرآن کو ہم نے اتارا ہے جس کی آیتیں الفاظ اور معنی کے لحاظ سے بہت ہی واضع ہیں۔ اللہ کی طرف سے اس کے بندوں پر یہ حجت ہے۔ ہدایت گمراہی اللہ کے ہاتھ میں ہے اس کی حکمت وہی جانتا ہے کوئی اس سے باز پرس نہیں کرسکتا وہ سب کا حاکم ہے، وہ رحمتوں والا، عدل والا، غلبے والا، حکمت والا، عظمت والا، اور علم والا ہے۔ کوئی اس پر مختار نہیں جو چاہے کرے سب سے حساب لینے والا وہی ہے اور وہ بھی بہت جلد۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
فَلْیَنْظُرْ ہَلْ یُذْہِبَنَّ کَیْدُہٗ مَا یَغِیْظُ ” یہ آیت مشکلات القرآن میں سے ہے اور مختلف مفسرین نے اپنے اپنے انداز میں اس کی تعبیر کی ہے۔ میرے نزدیک ”موضح القرآن “ میں شاہ عبدالقادر دہلوی رح کی تعبیر سب سے بہتر ہے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جو پورے اخلاص کے ساتھ ہمہ وقت دین کی خدمت میں مصروف ہے اور اس رستے میں آنے والی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اللہ سے مسلسل امید رکھتا ہے کہ آج نہیں تو کل ‘ کل نہیں تو پرسوں اللہ کی مدد ضرور آئے گی۔ لیکن خدانخواستہ کسی مرحلے پر اگر وہ اللہ کی مدد سے مایوس ہوجائے تو اس کی یہ کیفیت اس کے لیے ناکامی کا باعث بن جائے گی۔ چناچہ اللہ کے راستے میں جدوجہد کرنے والوں کو ع ” پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ “ کے مصداق کبھی بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور اللہ کی مدد سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ سورة الزمر کی آیت 53 میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے : لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط کہ تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ۔ اگر کسی خوش قسمت انسان کو اللہ کے رستے میں جدوجہد کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے تو اسے اللہ کے اس حکم کی تعمیل بھی کرنی چاہیے۔ اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کے فیصلے اس کی اپنی مشیت کے مطابق ہوتے ہیں اور اس کی مشیت میں بندوں کا کوئی عمل دخل نہیں۔ بندوں کو تو بس یہ چاہیے کہ وہ اپنے اپنے حصے کی کوشش کریں اور اس کے وعدوں پر پختہ یقین رکھیں۔ جیسے اس کے بہت سے وعدوں میں سے ایک خوش کن وعدہ یہ بھی ہے : وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا ط العنکبوت : 69 ” اور جو لوگ ہماری راہ میں جدو جہد کریں گے ‘ ہم لازماً انہیں اپنے راستے دکھائیں گے “۔ چناچہ داعیانِ حق کو اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھتے ہوئے اس کے حضور یوں التجا کرتے رہنا چاہیے : اِنَّکَ لاَ تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ آل عمران ” یقیناً تو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا “۔ ہمیں یہ اندیشہ تو نہیں ہے کہ تو اپنا وعدہ پورا نہیں کرے گا ‘ بلکہ ہمیں یہ فکر دامن گیر ہے کہ ہم تیرے وعدوں کا مصداق بننے میں کامیاب ہوں گے یا نہیں۔ اس کے لیے جو شرائط مطلوب ہیں وہ شرائط ہم پوری کر بھی سکیں گے یا نہیں ! آیت زیر نظر میں یہ نکتہ سمجھانے کے لیے ایک شخص کی مثال دی گئی ہے جس نے اپنے اوپر ایک رسی اللہ کی طرف سے امید کو تھاما ہوا ہے۔ وہ شخص اگر کسی مرحلے پر مایوس ہو کر خود ہی رسی کو چھوڑ دے گا تو وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔ جیسے ایک حدیث میں قرآن کو اللہ کی رسی قرار دیا گیا ہے ایسے ہی اللہ کی امید بھی ایک معنوی رسی ہے جو ہمیں اللہ کے ساتھ وابستہ کیے ہوئے ہے۔ جب تک یہ رسی ہمارے ہاتھ میں رہے گی اللہ سے ہمارا تعلق قائم رہے گا ‘ اور ہمارے لیے ایک سہارا موجود رہے گا۔ اگر ہم اس رسی کو کاٹ دیں گے یعنی اللہ سے اپنی امید منقطع کرلیں گے تو اس مضبوط سہارے کو گویا خود ہی اپنے ہاتھ سے چھوڑ دیں گے۔ ایسا کرنے کا نتیجہ اس کے سوا اور کیا نکلے گا کہ ہم بےیارو مددگار ہوجائیں گے زمین پر اوندھے منہ گرجائیں گے۔ چناچہ اس آیت کے پیغام کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کی نصرت کی امید اور اس کے وعدوں پر یقین رکھو ‘ یہ تمہارے لیے بہت مضبوط سہارا ہے۔
وكذلك أنـزلناه آيات بينات وأن الله يهدي من يريد
سورة: الحج - آية: ( 16 ) - جزء: ( 17 ) - صفحة: ( 334 )Surah Al Hajj Ayat 16 meaning in urdu
ایسی ہی کھُلی کھُلی باتوں کے ساتھ ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے، اور ہدایت اللہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- تم پر آگ کے شعلے اور دھواں چھوڑ دیا جائے گا تو پھر تم مقابلہ
- (ان سے) پوچھو کہ بھلا تمھارے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے کہ مخلوق کو
- خدا کا حکم ناطق ہے کہ میں اور میرے پیغمبر ضرور غالب رہیں گے۔ بےشک
- پھر دیکھو تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا
- اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بےجا اُڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو
- اور جو مجھے مارے گا اور پھر زندہ کرے گا
- کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ (بےآزمائش) بہشت میں جا داخل ہو گے حالانکہ ابھی
- تم فرعون کے پاس جاؤ (کہ) وہ سرکش ہو رہا ہے
- عاد نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا
- اے اہل ایمان خدا کا بہت ذکر کیا کرو
Quran surahs in English :
Download surah Al Hajj with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Hajj mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Hajj Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers