Surah Qaaf Ayat 16 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ ق کی آیت نمبر 16 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah Qaaf ayat 16 best quran tafseer in urdu.
  
   
Verse 16 from surah Qaf

﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ﴾
[ ق: 16]

Ayat With Urdu Translation

اور ہم ہی نے انسان کو پیدا کیا ہے اور جو خیالات اس کے دل میں گزرتے ہیں ہم ان کو جانتے ہیں۔ اور ہم اس کی رگ جان سے بھی اس سے زیادہ قریب ہیں

Surah Qaaf Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) یعنی انسان جو کچھ چھپاتا اور دل میں مستور رکھتا ہے، وہ سب ہم جانتے ہیں۔ وسوسہ، دل میں گزرنے والےخیالات کو کہا جاتا ہے جس کا علم اس انسان کے علاوہ کسی کو نہیں ہوتا۔ لیکن اللہ ان وسوسوں کو بھی جانتا ہے۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے ” اللہ تعالیٰ نے میری امت سےدل میں گزرنے والے خیالات کو معاف فرما دیا ہے یعنی ان پرگرفت نہیں فرمائے گا۔ جب تک وہ زبان سے ان کا اظہار یا ان پر عمل نہ کرے “۔ ( البخاري كتاب الإيمان باب إذا حنث ناسيا في الأيمان مسلم، باب تجاوز الله عن حديث النفس والخواطر بالقلب إذا لم تستقر )۔
( 2 ) وَرِيدٌ شہ رگ یا رگ جان کو کہا جاتا ہے جس کے کٹنے سے موت واقع ہو جاتی ہے۔ یہ رگ حلق کے ایک کنارے سے انسان کے کندھے تک ہوتی ہے۔ اس قرب سے مراد قرب علمی ہے یعنی علم کے لحاظ سے ہم انسان کے بالکل بلکہ اتنے قریب ہیں کہ اس کے نفس کی باتوں کو بھی جانتے ہیں۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ نَحْنُ سے مراد فرشتے ہیں۔ یعنی ہمارے فرشتے انسان کی رگ جان سے بھی قریب ہیں۔ کیونکہ انسان کے دائیں بائیں دو فرشتے ہر وقت موجود رہتے ہیں، وہ انسان کی ہر بات اور عمل کو نوٹ کرتے ہیں يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ کے معنی ہیں يَأْخُذَانِ وَيُثَبّتَانِ۔ امام شوکانی نے اس کا مطلب بیان کیا ہے کہ ہم انسان کےتمام احوال کو جانتے ہیں، بغیر اس کے کہ ہم ان فرشتوں کےمحتاج ہوں جن کو ہم نے انسان کے اعمال واقوال لکھنے کے لئے مقرر کیا ہے، یہ فرشتے تو ہم نے صرف اتمام حجت کے لئے مقرر کیے ہیں، دو فرشتوں سےمراد بعض کے نزدیک ایک نیکی اور دوسرا بدی لکھنےکے لئے۔ اور بعض کےنزدیک رات اور دن کے فرشتے مراد ہیں۔ رات کے دو فرشتے الگ اور دن کے دو فرشتے الگ ( فتح القدیر )۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


دائیں اور بائیں دو فرشتے اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ وہی انسان کا خالق ہے اور اس کا علم تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے یہاں تک کہ انسان کے دل میں جو بھلے برے خیالات پیدا ہوتے ہیں انہیں بھی وہ جانتا ہے صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دل میں جو خیالات آئیں ان سے درگذر فرما لیا ہے جب تک کہ وہ زبان سے نہ نکالیں یا عمل نہ کریں اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس کے نزدیک ہیں یعنی ہمارے فرشتے اور بعض نے کہا ہے ہمارا علم ان کی غرض یہ ہے کہ کہیں حلول اور اتحاد نہ لازم آجائے جو بالاجماع اس رب کی مقدس ذات سے بعید ہے اور وہ اس سے بالکل پاک ہے لیکن لفظ کا اقتضاء یہ نہیں ہے اس لئے کہ ( وانا ) نہیں کہا بلکہ ( ونحن ) کہا ہے یعنی میں نہیں کہا بلکہ ہم کہا ہے۔ یہی لفظ اس شخص کے بارے میں کہے گئے ہیں جس کی موت قریب آگئی ہو اور وہ نزع کے عالم میں ہو فرمان ہے آیت ( ونحن اقرب الیہ منکم ) الخ، یعنی ہم تم سب سے زیادہ اس سے قریب ہیں لیکن تم نہیں دیکھتے یہاں بھی مراد فرشتوں کا اس قدر قریب ہونا ہے۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ) 15۔ الحجر:9) یعنی ہم نے ذکر کو نازل فرمایا اور ہم ہی اس کے محافظ بھی ہیں فرشتے ہی ذکر قرآن کریم کو لے کر نازل ہوئے ہیں اور یہاں بھی مراد فرشتوں کی اتنی نزدیکی ہے جس پر اللہ نے انہیں قدرت بخش رکھی ہے پس انسان پر ایک پہرا فرشتے کا ہوتا ہے اور ایک شیطان کا اسی طرح شیطان بھی جسم انسان میں اسی طرح پھرتا ہے جس طرح کون جیسے کہ سچوں کے سچے اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا ہے اس لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ دو فرشتے جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں وہ تمہارے اعمال لکھ رہے ہیں ابن آدم کے منہ سے جو کلمہ نکلتا ہے اسے محفوظ رکھنے والے اور اسے نہ چھوڑنے والے اور فورًا لکھ لینے والے فرشتے مقرر ہیں۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَاِنَّ عَلَيْكُمْ لَحٰفِظِيْنَ 10 ۙ ) 82۔ الإنفطار :10) ، تم پر محافظ ہیں بزرگ فرشتے جو تمہارے فعل سے باخبر ہیں اور لکھنے والے ہیں حضرت حسن اور حضرت قتادہ تو فرماتے ہیں یہ فرشتے ہر نیک و بد عمل لکھ لیا کرتے ہیں ابن عباس کے دو قول ہیں ایک تو یہی ہے دوسرا قول آپ کا یہ ہے کہ ثواب و عذاب لکھ لیا کرتے ہیں۔ لیکن آیت کے ظاہری الفاظ پہلے قول کی ہی تائید کرتے ہیں کیونکہ فرمان ہے جو لفظ نکلتا ہے اس کے پاس محافظ تیار ہیں۔ مسند احمد میں ہے انسان ایک کلمہ اللہ کی رضامندی کا کہہ گذرتا ہے جسے وہ کوئی بہت بڑا اجر کا کلمہ نہیں جانتا لیکن اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اپنی رضامندی اس کے لئے قیامت تک کی لکھ دیتا ہے۔ اور کوئی برائی کا کلمہ ناراضگی اللہ کا اسی طرح بےپرواہی سے کہہ گذرتا ہے جس کی وجہ سے اللہ اپنی ناراضی اس پر اپنی ملاقات کے دن تک کی لکھ دیتا ہے، حضرت علقمہ فرماتے ہیں اس حدیث نے مجھے بہت سی باتوں سے بچا لیا۔ ترمذی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی اسے حسن بتلاتے ہیں احنف بن قیس فرماتے ہیں دائیں طرف والا نیکیاں لکھتا ہے اور یہ بائیں طرف والے پر امین ہے۔ جب بندے سے کوئی خطا ہوجاتی ہے تو یہ کہتا ہے ٹھہر جا اگر اس نے اسی وقت توبہ کرلی تو اسے لکھنے نہیں دیتا اور اگر اس نے توبہ نہ کی تو وہ لکھ لیتا ہے ( ابن ابی حاتم ) امام حسن بصری اس آیت کی تلاوت کر کے فرماتے تھے اے ابن آدم تیرے لئے صحیفہ کھول دیا گیا ہے اور دو بزرگ فرشتے تجھ پر مقرر کر دئیے گئے ہیں ایک تیرے داہنے دوسرا بائیں۔ دائیں طرف والا تو تیری نیکیوں کی حفاظت کرتا ہے اور بائیں طرف والا برائیوں کو دیکھتا رہتا ہے اب تو جو چاہ عمل کر کمی کر یا زیادتی کر جب تو مرے گا تو یہ دفتر لپیٹ دیا جائے گا اور تیرے ساتھ تیری قبر میں رکھ دیا جائے گا اور قیامت کے دن جب تو اپنی قبر سے اٹھے گا تو یہ تیرے سامنے پیش کردیا جائے گا۔ اسی کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( وَكُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰۗىِٕرَهٗ فِيْ عُنُقِهٖ ۭ وَنُخْرِجُ لَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ كِتٰبًا يَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا 13؀ ) 17۔ الإسراء :13) ہر انسان کی شامت اعمال کی تفصیل ہم نے اس کے گلے لگا دی ہے اور ہم قیامت کے دن اس کے سامنے نامہ اعمال کی ایک کتاب پھینک دیں گے جسے وہ کھلی ہوئی پائے گا پھر اس سے کہیں گے کہ اپنی کتاب پڑھ لے آج تو خود ہی اپنا حساب لینے کو کافی ہے۔ پھر حضرت حسن نے فرمایا اللہ کی قسم اس نے بڑا ہی عدل کیا جس نے خود تجھے ہی تیرا محاسب بنادیا۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جو کچھ تو بھلا برا کلمہ زبان سے نکالتا ہے وہ سب لکھا جاتا ہے یہاں تک کہ تیرا یہ کہنا بھی کہ میں نے کھایا میں نے پیا میں گیا میں آیا میں نے دیکھا۔ پھر جمعرات والے دن اس کے اقوال و افعال پیش کئے جاتے ہیں خیر و شر باقی رکھ لی جاتی ہے اور سب کچھ مٹا دیا جاتا ہے یہی معنی ہیں فرمان باری تعالیٰ شانہ کے آتی ( يَمْحُوا اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ وَيُثْبِتُ ښ وَعِنْدَهٗٓ اُمُّ الْكِتٰبِ 39۔ ) 13۔ الرعد:39) حضرت امام احمد کی بابت مروی ہے کہ آپ اپنے مرض الموت میں کراہ رہے تھے تو آپ کو معلوم ہوا کہ حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ فرشتے اسے بھی لکھتے ہیں چناچہ آپ نے کراہنا بھی چھوڑ دیا اللہ آپ پر اپنی رحمت نازل فرمائے اپنی موت کے وقت تک اف بھی نہ کی۔ پھر فرماتا ہے اے انسان موت کی بیہوشی یقینًا آئے گی اس وقت وہ شک دور ہوجائے گا جس میں آجکل تو مبتلا ہے اس وقت تجھ سے کہا جائے گا کہ یہی ہے جس سے تو بھاگتا پھرتا تھا اب وہ آگئی تو کسی طرح اس سے نجات نہیں پاسکتا نہ بچ سکتا ہے نہ اسے روک سکتا ہے نہ اسے دفع کرسکتا ہے نہ ٹال سکتا ہے نہ مقابلہ کرسکتا ہے نہ کسی کی مدد و سفارش کچھ کام آسکتی ہے صحیح یہی ہے کہ یہاں خطاب مطلق انسان سے ہے اگرچہ بعض نے کہا ہے کافر سے ہے اور بعض نے کچھ اور بھی کہا ہے حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں میں اپنے والد کے آخری وقت میں آپ کے سرہانے بیٹھی تھی آپ پر غشی طاری ہوئی تو میں نے یہ بیت پڑھا من لا یزال دمعہ سقنعا فانہ لا بدمرۃ مدفوق مطلب یہ ہے کہ جس کے آنسو ٹھہرے ہوئے ہیں وہ بھی ایک مرتبہ ٹپک پڑیں گے۔ تو آپ نے اپنا سر اٹھا کر کہا پیاری بچی یوں نہیں بلکہ جس طرح اللہ نے فرمایا آیت ( وَجَاۗءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بالْحَقِّ ۭ ذٰلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِيْدُ 19؀ ) 50۔ ق :19) ، اور روایت میں بیت کا پڑھنا اور صدیق اکبر کا یہ فرمانا مروی ہے کہ یوں نہیں بلکہ یہ آیت پڑھو۔ اس اثر کے اور بھی بہت سے طریق ہیں جنہیں میں نے سیرۃ الصدیق میں آپ کی وفات کے بیان میں جمع کردیا ہے صحیح حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ پر جب موت کی غشی طاری ہونے لگی تو آپ اپنے چہرہ مبارک سے پسینہ پونچھتے جاتے اور فرماتے جاتے سبحان اللہ موت کی بڑی سختیاں ہیں۔ اس آیت کے پچھلے جملے کی تفسیر دو طرح کی گئی ہے ایک تو یہ کہ ( ما ) موصولہ ہے یعنی یہ وہی ہے جسے تو بعید از مکان جانتا تھا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہاں ( ما ) نافیہ ہے تو معنی یہ ہوں گے کہ یہ وہ چیز ہے جس کے جدا کرنے کی جس سے بچنے کی تجھے قدرت نہیں تو اس سے ہٹ نہیں سکتا۔ معجم کبیر طبرانی میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں اس شخص کی مثال جو موت سے بھاگتا ہے اس لومڑی جیسی ہے جس سے زمین اپنا قرضہ طلب کرنے لگی اور یہ اس سے بھاگنے لگی بھاگتے بھاگتے جب تھک گئی اور بالکل چکنا چور ہوگئی تو اپنے بھٹ میں جا گھسی۔ زمین چونکہ وہاں بھی موجود تھی اس نے لومڑی سے کہا میرا قرض دے تو یہ وہاں سے پھر بھاگی سانس پھولا ہوا تھا حال برا ہو رہا تھا آخر یونہی بھاگتے بھاگتے بےدم ہو کر مرگئی۔ الغرض جس طرح اس لومڑی کو زمین سے بھاگنے کی راہیں بند تھیں اسی طرح انسان کو موت سے بچنے کے راستے بند ہیں اس کے بعد صور پھونکے جانے کا ذکر ہے جس کی پوری تفسیر والی حدیث گذر چکی ہے اور حدیث میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں میں کس طرح راحت وآرام حاصل کرسکتا ہوں حالانکہ صور پھونکنے والے فرشتے نے صور منہ میں لے لیا ہے اور گردن جھکائے حکم اللہ کا انتظار کر رہا ہے کہ کب حکم ملے اور کب وہ پھونک دے صحابہ نے کہا پھر یارسول اللہ ﷺ ہم کیا کہیں آپ نے فرمایا کہو آیت ( وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ01703 )آل عمران:173) پھر فرماتا ہے ہر شخص کے ساتھ ایک فرشتہ تو میدان محشر کی طرف لانے والا ہوگا اور ایک فرشتہ اس کے اعمال کی گواہی دینے والا ہوگا۔ ظاہر آیت یہی ہے اور امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں۔ حضرت عثمان بن عفان نے اس آیت کی تلاوت منبر پر کی اور فرمایا ایک چلانے والا جس کے ہمراہ یہ میدان محشر میں آئے گا اور ایک گواہ ہوگا جو اس کے اعمال کی شہادت دے گا۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں سائق سے مراد فرشتہ ہے اور شہید سے مراد عمل ہے ابن عباس کا قول ہے سائق فرشتوں میں سے ہوں گے اور شہید سے مراد خود انسان ہے جو اپنے اوپر آپ گواہی دے گا۔ پھر اس کے بعد کی آیت میں جو خطاب ہے اس کی نسبت تین قول ہیں ایک تو یہ کہ یہ خطاب کافر سے ہوگا دوسرا یہ کہ اس سے مراد عام انسان ہیں نیک و بد سب تیسرا یہ کہ اس سے مراد رسول اللہ ﷺ ہیں۔ دوسرے قول کی توجیہ یہ ہے کہ آخرت اور دنیا میں وہی نسبت ہے جو بیداری اور خواب میں ہے اور تیسرے قول کا مطلب یہ ہے کہ تو اس قرآن کی وحی سے پہلے غفلت میں تھا۔ ہم نے یہ قرآن نازل فرما کر تیری آنکھوں پر سے پردہ ہٹا دیا اور تیری نظر قوی ہوگئی۔ لیکن الفاظ قرآنی سے تو ظاہر یہی ہے کہ اس سے مراد عام ہے یعنی ہر شخص سے کہا جائے گا کہ تو اس دن سے غافل تھا اس لئے کہ قیامت کے دن ہر شخص کی آنکھیں خوب کھل جائیں گی یہاں تک کہ کافر بھی استقامت پر ہوجائے گا لیکن یہ استقامت اسے نفع نہ دے گی جیسے فرمان باری ہے آیت ( اَسْمِعْ بِهِمْ وَاَبْصِرْ ۙيَوْمَ يَاْتُوْنَنَا لٰكِنِ الظّٰلِمُوْنَ الْيَوْمَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ 38؀ ) 19۔ مریم :38) یعنی جس روز یہ ہمارے پاس آئیں گے خوب دیکھتے سنتے ہوں گے اور آیت میں ہے ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ 12 ؀ ) 32۔ السجدة :12) ، یعنی کاش کہ تو دیکھتا جب گنہگار لوگ اپنے رب کے سامنے سرنگوں پڑے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہمیں لوٹا دے تو ہم نیک اعمال کریں گے اور کامل یقین رکھیں گے۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 16 { وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ ج } ” اور ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم خوب جانتے ہیں جو اس کا نفس وسوسے ڈالتا ہے۔ “ یہ اس قوت شرکا ذکر ہے جو انسان کے اندر ہے۔ نفس انسانی کے شر کا ذکر سورة يوسف میں یوں آیا ہے :{ وَمَـآ اُبَرِّیُٔ نَفْسِیْج اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ م بِالسُّوْٓ ئِ اِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّیْط اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ } ” اور میں اپنے نفس کو بری قرار نہیں دیتا ‘ یقینا انسان کا نفس تو برائی ہی کا حکم دیتا ہے سوائے اس کے جس پر میرا ربّ رحم فرمائے۔ یقینا میرا ربّ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔ “فطری طور پر انسان کے اندر داعیہ خیر بھی ہے اور داعیہ شر بھی۔ انسان کی اندرونی قوت شر کو سورة يوسف کی اس آیت میں ” نفس ِامارہ “ کا نام دیا گیا ہے۔ فرائیڈ اسے id یا libido کہتا ہے۔ دوسری طرف انسان کے اندر خیر کی قوت اس کی روح ہے جس کا مسکن قلب انسانی ہے۔ انسان کی روح اسے بلندی کی طرف لے جانا چاہتی ہے۔ اس داعیہ یا قوت کو فرائیڈ super ego کا نام دیتا ہے ‘ یعنی ego انسانی انا کا اعلیٰ درجہ۔ فرائیڈ کے دیے ہوئے یہ عنوانات تو کسی حد تک ہمارے لیے قابل قبول ہیں ‘ لیکن ان عنوانات کی تشریح جو اس نے کی ہے اسے ہم درست نہیں سمجھتے۔ اس کی وجہ وہی ہے جو اس حوالے سے کئی مرتبہ پہلے بھی بیان ہوچکی ہے کہ مغربی سائنسدان اور فلاسفرز سب کے سب ایک آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ وہ صرف ” عالم خلق “ یعنی اسباب و علل کی دنیا سے واقف ہیں اور اس میں کوئی کلام نہیں کہ مادی دنیا کے اسرار و رموز کو وہ خوب سمجھتے ہیں۔ اس میدان میں انہوں نے تحقیق و تفتیش کے ایسے معیار قائم کیے ہیں کہ انسانی عقل واقعی دنگ رہ جاتی ہے۔ لیکن دوسری طرف ” عالم امر “ کے بارے میں وہ بالکل اندھے اور کورے ہیں۔ یعنی ان کے ہاں روح ‘ وحی اور فرشتے وغیرہ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ” انسان “ کے بارے میں ان کے فلسفیانہ تجزیے اکثر درست نہیں ہوتے۔ بہرحال آیت زیر مطالعہ میں انسان کے اندر موجود قوت شر نفس امارہ کا ذکر ہے کہ انسان کا نفس اسے جو پٹیاں پڑھاتا ہے اس کی تفصیلات اس کے خالق سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ { وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَـیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ۔ } ” اور ہم تو اس سے اس کی رَگِ جاں سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ “ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کے اس قرب کی کیفیت اور نوعیت کے بارے میں ہم کچھ نہیں جان سکتے ‘ بقول شاعر یہ قرب ” بےتکیف و بےقیاس “ ہے : ؎اتصالے بےتکیف بےقیاس ہست ربّ الناس را با جانِ ناس سورة الحدید کی آیت 4 میں بندوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس قرب کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے : { وَھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ } کہ تم جہاں کہیں بھی ہوتے ہو وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ہم اس ” معیت “ کا تصور نہیں کرسکتے۔ اسی طرح قرآن میں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ اور چہرے کا ذکر بھی ہے ‘ اس کا چہرہ کیسا ہے ؟ ہم نہیں جانتے۔ اس کا ہاتھ کیسا ہے ؟ ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ اللہ تعالیٰ رات کے آخری حصے میں آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے۔ وہ کیسے نزول فرماتا ہے ؟ ہم اس کی کیفیت کو نہیں سمجھ سکتے۔ ایسے معاملات میں خواہ مخواہ کا تجسس ہمیں فتنوں میں مبتلا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں آخری بات یہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ” عالم امر “ اور اس کی کیفیات ہماری سمجھ سے وراء الوراء ہیں۔ ہم اپنے حواس خمسہ اور عقل و شعور کے ذریعے جو علم حاصل کرسکتے ہیں اس کا تعلق ” عالم خلق “ سے ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اسی ” دائرے “ میں رہتے ہوئے ‘ سوچیں سمجھیں ‘ تحقیق کریں ‘ نتائج اخذ کریں اور ان نتائج کو بروئے کار لائیں۔ دوسری طرف ” عالم امر “ سے متعلق جو معلومات وحی کے ذریعے ہم تک پہنچیں انہیں من وعن تسلیم کرلیں۔ سورة بنی اسرائیل کی آیت 36 کے الفاظ { اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ } میں اسی طرزعمل کی طرف ہماری راہنمائی کی گئی ہے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کے حوالے سے ہمارے لیے بس یہ جان لینا کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری رگِ جان سے بھی زیادہ ہمارے قریب ہے۔ اس قرب کی منطق اور کیفیت کے بارے میں ہمیں عقل کے گھوڑے دوڑانے کی ضرورت نہیں ہے۔

ولقد خلقنا الإنسان ونعلم ما توسوس به نفسه ونحن أقرب إليه من حبل الوريد

سورة: ق - آية: ( 16 )  - جزء: ( 26 )  -  صفحة: ( 519 )

Surah Qaaf Ayat 16 meaning in urdu

ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں تک کو ہم جانتے ہیں ہم اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ اُس سے قریب ہیں


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. اور تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو جب کہ وہاں کے باشندے نیکوکار
  2. تو اگر سچے ہو تو روح کو پھیر کیوں نہیں لیتے؟
  3. اور کہنے لگے کہ ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ (عجیب
  4. کہ اِل یاسین پر سلام
  5. موسٰی نے کہا اے پروردگار اُن میں کا ایک شخص میرے ہاتھ سے قتل ہوچکا
  6. اور تم سے پہلے کبھی پیغمبر جھٹلائے جاتے رہے تو وہ تکذیب اور ایذا پر
  7. یہ اس لئے کہ خدا نے کتاب سچائی کے ساتھ نازل فرمائی۔ اور جن لوگوں
  8. تو تم کافروں کا کہا نہ مانو اور ان سے اس قرآن کے حکم کے
  9. (حکم ہوگا کہ) اسے پکڑ لو اور طوق پہنا دو
  10. یہ جو مال دنیا کی زندگی میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال ہوا کی

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah Qaaf with the voice of the most famous Quran reciters :

surah Qaaf mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Qaaf Complete with high quality
surah Qaaf Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah Qaaf Bandar Balila
Bandar Balila
surah Qaaf Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah Qaaf Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah Qaaf Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah Qaaf Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah Qaaf Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah Qaaf Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah Qaaf Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah Qaaf Fares Abbad
Fares Abbad
surah Qaaf Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah Qaaf Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah Qaaf Al Hosary
Al Hosary
surah Qaaf Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah Qaaf Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Sunday, May 19, 2024

لا تنسنا من دعوة صالحة بظهر الغيب