Surah Al Araaf Ayat 164 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ اعراف کی آیت نمبر 164 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah Al Araaf ayat 164 best quran tafseer in urdu.
  
   
Verse 164 from surah Al-Araf

﴿وَإِذْ قَالَتْ أُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا ۙ اللَّهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا ۖ قَالُوا مَعْذِرَةً إِلَىٰ رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ﴾
[ الأعراف: 164]

Ayat With Urdu Translation

اور جب ان میں سے ایک جماعت نے کہا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جن کو الله ہلاک کرنے والا یا سخت عذاب دینے والا ہے تو انہوں نے کہا اس لیے کہ تمہارے پروردگار کے سامنے معذرت کرسکیں اور عجب نہیں کہ وہ پرہیزگاری اختیار کریں

Surah Al Araaf Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) اس جماعت سے صالحین کی وہ جماعت مراد ہے جو اس حیلے کا ارتکاب بھی نہیں کرتی تھی اور حیلہ گروں کو سمجھا سمجھا کر ان کی اصلاح سے مایوس بھی ہوگئی تھی ۔ تاہم کچھ اور لوگ بھی سمجھانے والے تھے جو انہیں وعظ ونصیحت کرتے تھے ۔ صالحین کی یہ جماعت انہیں یہ کہتی کہ ایسے لوگوں کو وعظ ونصیحت کا کیا فائدہ جن کی قسمت میں ہلاکت وعذاب الٰہی ہے ۔ یا اس جماعت سے وہی نافرمان اور تجاوز کرنے والے مراد ہیں، جب ان کو وعظ کرنے والے نصیحت کرتے تو یہ کہتے کہ جب تمہارے خیال میں ہلاکت یا عذاب الٰہی ہمارا مقدر ہے تو پھر ہمیں کیوں وعظ کرتے ہو؟ تو وہ جواب دیتے کہ ایک تو اپنے رب کے سامنے معذرت پیش کرنے کے لیے تاکہ ہم تو اللہ کی گرفت سے محفوظ رہیں۔ کیونکہ معصیت الٰہی کا ارتکاب ہوتے ہوئے دیکھنا اور پھر اسے روکنے کی کوشش نہ کرنا بھی جرم ہے، جس پر اللہ تعالیٰ کی گرفت ہوسکتی ہے۔ اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ شاید یہ لوگ حکم الٰہی سے تجاوز کرنے سے باز ہی آجائیں ۔ پہلی تفسیر کی رو سے یہ تین جماعتیں ہوئیں ۔ ( 1 ) ۔ نافرمان اور شکار کرنے والی جماعت
( 2 ) ۔ وہ جماعت جو بالکل کنارہ کش ہوگئی، نہ وہ نافرمانوں میں تھی نہ منع کرنے والوں میں
( 3 ) ۔ وہ جماعت جو نافرمان بھی نہیں تھی۔ اور بالکل کنارہ کش بھی نہیں ہوئی تھی ۔ بلکہ نافرمانوں کو منع کرتی تھی۔ دوسری تفسیر کی رو سے یہ دو جماعتیں ہوں گی ۔ ایک نافرمانوں کی اور دوسری منع کرنے والوں کی۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


اصحاب سبت جس بستی کے لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے ان کے تین گروہ ہوگئے تھے ایک تو حرام شکار کھیلنے والا اور حیلے حوالوں سے مچھلی پکڑنے والا۔ دوسرا گروہ انہیں روکنے والا اور ان سے بیزاری ظاہر کر کے ان سے الگ ہوجانے والا اور تیسرا گروہ چپ چاپ رہ کر نہ اس کام کو کرنے والا نہ اس سے روکنے والا جیسے کہ سورة بقرہ کی تفسیر میں ہم خلاصہ وار بیان کر آئے ہیں۔ جو لوگ خاموش تھے نہ برائی کرتے تھے نہ بروں کو برائی سے روکتے تھے انہوں نے روکنے والوں کو سمجھانا شروع کیا کہ میاں ان لوگوں کو کہنے سننے سے کیا فائدہ ؟ انہوں نے تو اللہ کے عذاب مول لے لئے ہیں رب کے غضب کیلئے تیار ہوگئے ہیں اب تم ان کے پیچھے کیوں پڑے ہو ؟ تو اس پاک گروہ نے جواب دیا کہ اس میں دو فائدے ہیں ایک تو یہ کہ اللہ کے پاس ہم معذرت خواہ ہوجائیں کہ ہم اپنا فرض برابر ادا کرتے رہے انہیں ہر وقت سمجھاتے بجھاتے رہے۔ معذرت کے پیش سے بھی ایک قرأت ہے تو گوایا ھذا کا لفظ یہاں مقرر مانا یعنی انہوں نے کہا یہ ہماری معذرت ہے اور زبر کی قرأت پر یہ مطلب ہے کہ ہم جو انہیں روک رہے ہیں یہ کام بطور اس کے کر رہے ہیں کہ اللہ کے ہاں ہم پر الزام نہ آئے کیونکہ اللہ کا حکم ہے کہ ہمیشہ نیکی کا حکم کرتے رہو اور برائی سے روکتے رہو، دوسرا فائدہ اس میں یہ ہے کہ بہت ممکن ہے کسی وقت کی نصیحت ان پر اثر کر جائے یہ لوگ اپنی اس حرام کاری سے باز آجائیں اللہ سے توبہ کریں تو اللہ تعالیٰ بھی ان پر مہربانی کرے اور ان کے گناہ معاف فرما دے۔ آخر کار ان کی نصیحت خیر خواہی بھی بےنتیجہ ثابت ہوئی۔ ان بدکاروں نے ایک نہ مانی تو ہم نے اس مسلم گروہ کو تو جو برابر ان سے نالاں رہا ان سے الگ رہا اور انہیں سمجھتا بجھتا رہا نجات دے دی اور باقی کے ظالموں کو جو ہماری نافرمانیوں کے مرتکب تھے اپنے بدترین عذابوں سے پکڑ لیا۔ عبارت کی عمدگی ملاحظہ ہو کہ روکنے والوں کی نجات کا کھلے لفظوں میں اعلان کیا ظالموں کی ہلاکت کا بھی غیر مشتبہ الفاظ میں بیان کیا اور چپ رہنے والوں کے حالات سے سکوت کیا گیا، اس لئے کہ ہر عمل کی جزا اسی کی ہم جنس ہے۔ یہ لوگ نہ تو اس ظلم عظیم میں شریک تھے کہ ان کی مذمت اعلانیہ کی جائے نہ دلیری سے روکتے تھے کہ صاف طور پر قابل تعریف ٹھہریں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جو گروہ ممانعت کرنے کے بعد تھک کر بیٹھ گیا تھا اور پھر روکنا جھوڑ دیا تھا اللہ کا عذاب جب آیا تو یہ گروہ بھی اس عذاب سے بچ گیا صرف وہی ہلاک ہوئے جو گناہ میں مبتلا تھے۔ آپ کے شاگرد حضرت عکرمہ کا بیان ہے کہ پہلے حضرت ابن عباس کو اس میں بڑا تردد تھا کہ آیا یہ لوگ ہلاک ہوئے یا بچ گئے یہاں تک کہ ایک روز میں آیا تو دیکھا کہ قرآن گود میں رکھے ہوئے رو رہے ہیں۔ اول اول تو میرا حوصلہ نہ پڑا کہ سامنے آؤں لیکن دیر تک جب یہی حالت رہی تو میں نے قریب آکر سلام کیا بیٹھ گیا اور رونے کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا دیکھو یہ سورة اعراف ہے اس میں ایلہ کے یہودیوں کا ذکر ہے کہ انہیں ہفتے کے روز مچھلی کے شکار کی ممانعت کردی گئی اور ان کی آزمائش کے لئے مچھلیوں کو حکم ھوا کہ وہ صرف ہفتے کے دن ہی نکلیں ہفتے کے دن دریا مچھلیوں سے بھرے رہتے تھے۔ ترو تازہ موٹی اور عمدہ بکثرت مچھلیاں پانی کے اوپر اجھلتی کودتی رہتی تھیں اور دنوں میں سخت کوشش کے باوجود بھی نہ ملتی تھیں۔ کچھ دنوں تو ان کے دلوں کے اندر حکم الٰہی کی عظمت رہی اور یہ ان کے پکڑنے سے رکے رہے لیکن پھر شیطان نے ان کے دل میں یہ قیاس ڈال دیا کہ اس دن منع کھانے سے ہے تم نے آج کھانا نہیں۔ پکڑ لو اور جائز دن کھا لینا۔ سچے مسلمانوں نے انہیں اس حیلہ جوئی سے ہرچند روکا اور سمجھایا کہ دیکھو شکار کھیلنا شروع نہ کرو شکار اور کھانا دونوں منموع ہیں۔ اگلے جمعہ کے دن جو جماعت شیطانی پھندے میں پھنس چکی تھی وہ اپنے بال بچوں سمیت شکار کو نکل کھڑی ہوئی۔ باقی کے لوگوں کی دو جماعتیں بن گئیں ایک ان کے دائیں ایک بائیں۔ دائیں جانب والی تو برابر انہیں روکتی رہی کہ اللہ سے ڈرو اور اللہ کے عذابوں کے لئے تیاری نہ کرو۔ بائیں والوں نے کہا میاں تمہیں کیا پڑی ؟ یہ تو خراب ہونے والے ہیں اب تم انہیں نصیحت کر کے کیا لو گے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ خیر اللہ کے ہاں ہم تو چھوٹ جائیں گے اور ہمیں تو اب تک مایوسی بھی نہیں کیا عجب کہ یہ لوگ سنور جائیں تو ہلاکت اور عذاب سے محفوظ رہیں۔ ہماری تو عین منشا یہ ہے لیکن یہ بدکار اپنی بےایمانی سے باز نہ آئے اور نصیحت انہیں کار گر نہ ہوئی تو دائیں طرف کے لوگوں نے کہا تم نے ہمارا کہا نہ مانا۔ اللہ کی نافرمانی کی، ارتکاب حرمت کیا۔ عجب نہیں راتوں رات تم پر کوئی عذاب رب آئے۔ اللہ تمہیں زمین میں دھنسا دے یا تم پر پتھر برسا دے یا کسی اور طرح تمہیں سزا دے۔ رات ہم تو یہیں گذاریں گے تمہارے ساتھ شہر میں نہیں رہیں گے۔ جب صبح ہوگئی اور شہر کے دروازے نہ کھلے تو انہوں نے کواڑ کھٹ کھٹائے، آوازیں دیں لیکن کوئی جواب نہ آیا آخر سیڑھی لگا کر ایک شخص کو قلعہ کی دیوار پر چڑھایا اس نے دیکھا تو حیران ہوگیا کہ سب لوگ بندر بنا دیئے گئے۔ اس نے ان سب مسلمانوں کو خبر دی۔ یہ دروازے توڑ کر اندر گئے تو دیکھا کہ سب دم دار بندر بن گئے ہیں یہ تو کسی کو پہچان نہ سکے لیکن وہ پہچان گئے ہر بندر اپنے اپنے رشتے دار کے قدموں میں لوٹنے لگا ان کے کپڑے پکڑ پکڑ کر رونے لگا تو انہوں نے کہا دیکھو ہم تو تمہیں منع کر رہے تھے لیکن تم نے مانا ہی نہیں۔ وہ اپنا سر ہلاتے تھے کہ ہاں ٹھیک ہے ہمارے اعمال کی شامت نے ہی ہمیں برباد کیا ہے۔ تو اب یہ تو قرآن میں ہے کہ روکنے والے نجات یافتہ ہوئے لیکن یہ بیان نہیں کہ جو روکنے والوں کو منع کرتے تھے ان کا کیا حشر ہوا ؟ اب ہم بھی بہت سی خلاف باتیں دیکھتے ہیں اور کچھ نہیں کرسکتے، میں نے آپ سے یہ سن کر کہا اللہ مجھے آپ پر نثار کر دے آپ یہ تو دیکھئے کہ وہ لوگ ان کے اس فعل کو برا سمجھتے رہے تھے ان کی مخالفت کرتے تھے جانتے تھے کہ یہ ہلاک ہونے والے ہیں ظاہر ہے کہ یہ بچ گئے، آپ کی سمجھ میں آگیا اور اسی وقت حکم دیا کہ مجھے دو چادریں انعام میں دی جائیں۔ الغرض اس بیچ کی جماعت کی نسبت ایک قول تو یہ ہے کہ عذاب سے بچ گئی دوسرا قول یہ ہے کہ عذاب ان پر بھی آیا۔ ابن رومان فرماتے ہیں کہ ہفتے والے دن خوب مچھلیاں آتیں پانی ان سے بھر جاتا پھر بیچ کے کسی دن نظر نہ آتیں دوسرے ہفتے کو پھر یہی حال ہوتا، سب سے پہلے ایک شخص نے یہ حیلہ نکالا کہ ڈور اور کانٹا تیار کیا، مچھلی کو اس میں ہفتے کے دن پھنسا لیا اور پانی میں ہی چھوڑ دیا اتوار کی رات کو جا کر نکال لیں بھونا لوگوں کو مچھلی کی خوشبو پہنچی تو سب نے گھیر لیا۔ ہرچند پوچھا لیکن اول تو یہ سختی سے انکار کرتا رہا آخر اسنے بات بنادی کہ دراصل ایک مچھلی کا چھلکا مجھے مل گیا تھا میں نے اسے بھونا تھا، دوسرے ہفتے کے دن اس نے اسی طرح دو مچھلیاں پھانس لیں اتوار کی رات کو نکال کر بھوننے لگا لوگ آگئے تو اس نے کہا میں نے ایک ترکیب نکال لی ہے جس سے نافرمانی بھی نہ ہو اور کام بھی نہ رکے اب جو حیلہ بیان کیا تو ان سب نے اسے پسند کیا اور اکثر لوگ یونہی کرنے لگے۔ یہ لوگ رات کو شہر پناہ کے پھاٹک بند کر کے سوتے تھے جس رات عذاب آیا حسب دستور یہ شہر پناہ کے پھاٹک لگا کر سوئے تھے۔ صبح کو جب باہر والے شہر میں داخل ہونے کو آئے تو خلاف معمول اب تک دروازے بند پائے آوازیں دیں کوئی جواب نہ ملا قلعہ پر چڑھ گئے دیکھا تو بندر بنا دیئے گئے ہیں کھول کر اندر گئے تو بندر اپنے اپنے رشتہ داروں کے قدموں میں لوٹنے لگے اس سے پہلے سورة بقرہ کی ایسی ہی آیت کی تفسیر کے موقعہ پر بالتفصیل ان واقعات کو اچھی طرح بیان کرچکے ہیں وہیں دیکھ لیجئے۔ فالحمد اللہ، دوسرا قول یہ ہے کہ جو چپ رہے تھے وہ بھی ان گنہگاروں کے ساتھ ہلاک ہوئے، ابن عباس سے منقول ہے کہ پہلے ہفتہ کے دن کی تعظیم بطور بدعت خود ان لوگوں نے نکالی اب اللہ کی طرف سے بطور آزمائش کے وہ تعظیم ان پر ضروری قرار دے دی گئی اور حکم ہوگیا کہ اس دن مجھلی کا شکار نہ کرو پھر مچھلیوں کا اس دن نمایاں ہونا اور دنوں میں نہ نکلنا وغیرہ بیان فرما کر فرمایا کہ پھر ان میں سے ایک شخص نے ایک مچھلی ہفتے کے دن پکڑی اس کی ناک میں سوراخ کرکے ڈور باندھ کر ایک کیل کنارے گاڑ کر اس میں ڈور اٹکا کر مچھلی کو دریا میں ڈال دیا دوسرے دن جا کر پانی میں سے نکال لایا اور بھون کر کھالی سوائے اس پاک باز حق گو جماعت کے لوگوں کے کسی نے نہ اسے روکا نہ منع کیا نہ سمجھایا لیکن ان کی نصیحت کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ اس ایک کی دیکھا دیکھی اور بھی یہی کام کرنے لگے یہاں تک کہ بازاروں میں مچھلی آنے لگی اور اعلانیہ یہ کام ہونے لگا۔ ایک اور جماعت کے لوگوں نے اس حق والی جماعت سے کہا کہ تم ان لوگوں کو کیوں وعظ کرتے ہو اللہ تو انہیں ہلاک کرنے والا سخت عذاب کرنے والا ہے تو انہوں نے وہ جواب دیا یعنی اللہ کا فرمان دہرایا۔ لیکن لوگ فرمان ربانی کو بھول بیٹھے اور عذاب رب کے خود شکار ہوگئے۔ یہ تین گروہوں میں بٹ گئے تھے ایک تو شکار کھیلنے والا، ایک منع کرنے والا، ایک ان منع کرنے والوں سے کہنے والا کہ اب نصیحت بیکار ہے۔ بس وہ تو بچ گئے جو برابر روکتے رہے تھے اور دونوں جماعتیں ہلاک کردی گئیں۔ سند اس کی نہایت عمدہ ہے لیکن حضرت ابن عباس کا حضرت عکرمہ کے قول کی طرف رجوع کرنا اس قول کے کہنے سے اولیٰ ہے اس لئے کہ اس قول کے بعد ان پر ان کے حال کی حقیقت کھل گئی واللہ اعلم۔ پھر فرمان ہے کہ ہم نے ظالموں کو سخت عذابوں سے دبوچ لیا۔ مفہوم کی دلالت تو اس بات پر ہے کہ جو باقی رہے بچ گئے۔ ( بئیس ) کی کئی ایک قرأتیں ہیں اس کے معنی سخت کے، دردناک کے، تکلیف دہ کے ہیں اور سب کا مطلب قریب قریب یکساں ہے۔ ان کی سرکشی اور ان کے حد سے گذر جانے کے باعث ہم نے ان سے کہہ دیا کہ تم ذلیل حقیر اور ناقدرے بندر بن جاؤ چناچہ وہ ایسے ہی ہوگئے۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 164 وَاِذْ قَالَتْ اُمَّۃٌ مِّنْہُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَا نِ لا اللّٰہُ مُہْلِکُہُمْ اَوْ مُعَذِّبُہُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا ط دوسرے گروہ کے لوگ تیسرے گروہ کے لوگوں سے کہتے کہ تم خواہ مخواہ اپنے آپ کو ان مجرموں کے لیے ہلکان کر رہے ہو۔ اب یہ لوگ ماننے والے نہیں۔ اللہ کا عذاب اور تباہی ان کا مقدر بن چکی ہے۔قَالُوْا مَعْذِرَۃً اِلٰی رَبِّکُمْ تیسرے گروہ کے لوگ جواب دیتے کہ اس طرح ہم اللہ کے سامنے عذر پیش کرسکیں گے کہ اے پروردگار ! ہم آخری وقت تک نافرمان لوگوں کو ان کی غلط حرکتوں سے باز رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے ‘ نہی عن المنکر کا فرض ادا کرتے رہے۔ ہم نہ صرف خود اس گناہ سے بچے رہے بلکہ ان ظالموں کو خبردار بھی کرتے رہے کہ وہ اللہ کے قانون کے سلسلے میں حد سے تجاوز نہ کریں۔وَلَعَلَّہُمْ یَتَّقُوْنَ ۔ پھر اس بات کا امکان بھی بہرحال موجود ہے کہ ہماری نصیحت ان پر اثر کرے اور اس طرح سمجھانے بجھانے سے کسی نہ کسی کے دل کے اندر خدا خوفی کا جذبہ پیدا ہو ہی جائے۔ جیسا کہ حضور اکرم ﷺ نے حضرت علی رض سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا : لَاَنْ یَھْدِیَ اللّٰہُ بِکَ رَجُلاً وَاحِدًا خَیْرٌ لَکَ مِنْ اَنْ یَکُوْنَ لَکَ حُمْرُ النَّعَمِ 1 اے علی رض اگر اللہ تمہارے ذریعے سے ایک شخص کو بھی ہدایت دے دے تو یہ دولت تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بڑھ کر ہے۔

وإذ قالت أمة منهم لم تعظون قوما الله مهلكهم أو معذبهم عذابا شديدا قالوا معذرة إلى ربكم ولعلهم يتقون

سورة: الأعراف - آية: ( 164 )  - جزء: ( 9 )  -  صفحة: ( 172 )

Surah Al Araaf Ayat 164 meaning in urdu

اور انہیں یہ بھی یاد لاؤ کہ جب اُن میں سے ایک گروہ نے دوسرے گروہ سے کہا تھا کہ "تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت سزا دینے والا ہے " تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ "ہم یہ سب کچھ تمہارے رب کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کے لیے کرتے ہیں اور اس امید پر کرتے ہیں کہ شاید یہ لوگ اس کی نافرمانی سے پرہیز کرنے لگیں"


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. تختوں پر بیٹھے ہوئے نظارے کریں گے
  2. اور ہم نے تم پر ایک بار اور بھی احسان کیا تھا
  3. تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے کہ تم اور تمہارے ساتھ کے لوگ (کبھی) دو تہائی
  4. یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور تنور جوش مارنے لگا تو ہم نے
  5. یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا
  6. اور تم سے پہلے کبھی پیغمبر جھٹلائے جاتے رہے تو وہ تکذیب اور ایذا پر
  7. کہ تمام ماہر جادوگروں کو آپ کے پاس لے آئیں
  8. اور جب الله کے ہاں سے ان کے پاس کتاب آئی جو ان کی (آسمانی)
  9. اور وہ جو خدا کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور جن جاندار
  10. اور اگر وہ باز آجائیں تو خدا بخشنے والا (اور) رحم کرنے والا ہے

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah Al Araaf with the voice of the most famous Quran reciters :

surah Al Araaf mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Araaf Complete with high quality
surah Al Araaf Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah Al Araaf Bandar Balila
Bandar Balila
surah Al Araaf Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah Al Araaf Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah Al Araaf Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah Al Araaf Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah Al Araaf Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah Al Araaf Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah Al Araaf Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah Al Araaf Fares Abbad
Fares Abbad
surah Al Araaf Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah Al Araaf Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah Al Araaf Al Hosary
Al Hosary
surah Al Araaf Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah Al Araaf Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Tuesday, September 17, 2024

Please remember us in your sincere prayers