Surah Al Anbiya Ayat 17 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿لَوْ أَرَدْنَا أَن نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنَاهُ مِن لَّدُنَّا إِن كُنَّا فَاعِلِينَ﴾
[ الأنبياء: 17]
اگر ہم چاہتے کہ کھیل (کی چیزیں یعنی زن وفرزند) بنائیں تو اگر ہم کو کرنا ہوتا تو ہم اپنے پاس سے بنالیتے
Surah Al Anbiya Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی اپنے پاس سے ہی کچھ چیزیں کھیل کے لئے بنا لیتے اور اپنا شوق پورا کر لیتے۔ اتنی لمبی چوڑی کائنات بنانے کی اور پھر میں ذی روح اور ذی شعور مخلوق بنانے کی کیا ضرورت تھی؟۔
( 2 ) ” اگر ہم کرنے والے ہی ہوتے “ عربی اسلوب کے اعتبار سے یہ زیادہ صحیح ہے بہ نسبت اس ترجمہ کے کہ ” ہم کرنے والے ہی نہیں “ ( فتح القدیر )
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
آسمان و زمین کوئی کھیل تماشہ نہیں آسمان و زمین کو اللہ تعالیٰ نے عدل سے پیدا کیا ہے تاکہ بروں کو سزا اور نیکوں کو جزا دے۔ اس نے انہیں بیکار اور کھیل تماشے کے طور پر پیدا نہیں کیا۔ اور آیت میں اس مضمون کے ساتھ ہی بیان ہے کہ یہ گمان تو کفار کا ہے جن کے لئے جہنم کی آگ تیار ہے۔ دوسری آیت کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ اگر ہم کھیل تماشہ ہی چاہتے تو اسے بنالیتے۔ ایک معنی یہ ہیں کہ اگر ہم عورت کرنا چاہتے۔ لہو کے معنی اہل یمن کے نزدیک بیوی کے بھی آتے ہیں۔ یعنی یہ دونوں معنے ہے اگر بیوی بنانا چاہتے تو حورعین میں سے جو ہمارے پاس ہے کسی کو بنا لیتے۔ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اگر ہم اولاد چاہتے۔ لیکن یہ دونوں معنی آپس میں لازم ملزوم ہیں۔ بیوی کے ساتھ ہی اولاد ہے۔ جیسے فرمان ہے آیت ( لَوْ اَرَاد اللّٰهُ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفٰى مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ ۙ سُبْحٰنَهٗ ۭ هُوَ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ) 39۔ الزمر:4) ، یعنی اگر اللہ کو یہی منظور ہوتا کہ اس کی اولاد ہو تو مخلوق میں کسی اعلیٰ درجے کی مخلوق کو یہ منصب عطا فرماتا لیکن وہ اس بات سے پاک اور بہت دور ہے۔ اس کی توحید اور غلبہ کے خلاف ہے کہ اس کی اولاد ہو۔ پس وہ مطلق اولاد سے پاک ہے نہ عیسیٰ اس کا بیٹا ہے نہ عزیر۔ نہ فرشتے اس کی لڑکیاں ہیں۔ ان عیسائیوں یہودیوں اور کفار مکہ کی لغویات اور تہمت سے اللہ واحد قہار پاک ہے اور بلند ہے۔ آیت ( ان کنا فاعلین ) میں ان کو نافیہ کہا گیا ہے یعنی ہم یہ کرنے والے ہی نہ تھے۔ بلکہ مجاہد ؒ کا قول ہے کہ قرآن مجید میں ہر جگہ ان نفی کے لئے ہی ہے۔ فرشتوں کا تذکرہ ہم حق کو واضح کرتے ہیں، اسے کھول کر بیان کرتے ہیں جس سے باطل دب جاتا ہے، ٹوٹ کر چورا ہوجاتا ہے اور فورا ہٹ جاتا ہے۔ وہ ہے بھی لائق، وہ ٹھہر نہیں سکتا نہ جم سکتا ہے نہ دیر تک قائم رہ سکتا ہے۔ اللہ کے لئے جو لوگ اولادیں ٹھیرا رہے ہیں ان کے اس واہی قول کی وجہ سے ان کے لئے ویل ہے انہیں پوری خرابی ہے۔ پھر ارشاد فرماتا ہے کہ جن فرشتوں کو تم اللہ کی لڑکیاں کہتے ہو ان کا حال سنو اور اللہ کی الوہیت کی عظمت دیکھو آسمان و زمین کی ہر چیز اسی کی ملکیت میں ہے۔ فرشتے اس کی عبادت میں مشغول ہیں۔ ناممکن ہے کہ کسی وقت سرکشی کریں نہ حضرت مسیح کو بندہ رب ہونے سے شرم، نہ فرشتوں کو اللہ کی عبادت سے عار، نہ ان میں سے کوئی تکبر کرے یا عبادت سے جی چرائے اور جو کوئی ایسا کرے تو ایک وقت آرہا ہے کہ وہ اللہ کے سامنے میدان محشر میں سب کے ساتھ ہوگا اور اپنا کیا بھرے گا۔ یہ بزرگ فرشتے اس کی عبادت سے تھکتے بھی نہیں، گھبراتے بھی نہیں، سستی اور کاہلی ان کے پاس بھی نہیں پھٹکتی۔ دن رات اللہ کی فرماں برداری میں اس کی عبادت میں اس کی تسبیح واطاعت میں لگے ہوئے ہیں۔ نیت اور عمل دونوں موجود ہیں۔ اللہ کی کوئی نافرمانی نہیں کرتے نہ کسی فرمان کی تعمیل سے رکتے ہیں۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ صحابہ کے مجمع میں تھے کہ فرمایا لوگو ! جو میں سنتا ہوں کیا تم بھی سنتے ہو ؟ سب نے جواب دیا کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ تو کچھ بھی نہیں سن رہے۔ آپ نے فرمایا میں آسمانوں کی چرچراہٹ سن رہا ہوں اور حق تو یہ ہے کہ اسے چرچرانا ہی چاہے اس لئے کہ اس میں ایک بالشت بھر جگہ ایسی نہیں جہاں کسی نہ کسی فرشتے کا سر سجدے میں نہ ہو۔ عبداللہ حارث بن نوفل فرماتے ہیں میں حضرت کعب احبار ؒ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اس وقت میں چھوٹی عمر کا تھا میں نے ان سے اس آیت کا مطلب پوچھا کہ بولنا چالنا اللہ کا پیغام لے کر جانا عمل کرنا یہ بھی انہیں تسبیح سے نہیں روکتا ؟ میرے اس سوال پر چوکنے ہو کر آپ نے فرمایا یہ بچہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا بنو عبدالمطلب سے ہے آپ نے میری پیشانی چوم لی اور فرمایا پیارے بچے تسبیح ان فرشتوں کے لئے ایسی ہی ہے جیسے ہمارے لئے سانس لینا۔ دیکھو چلتے پھرتے بولتے چالتے تمہارا سانس برابر آتا جاتا رہتا ہے۔ اسی طرح فرشتوں کی تسبیح ہر وقت جاری رہتی ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 16 وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا لٰعِبِیْنَ ” یعنی ہم نے یہ دنیا کھیل تماشے اور شغل کے لیے نہیں بنائی ہے۔ ہماری ہر تخلیق بامقصد اور اٹل قوانین پر مبنی ہے۔ اسی طرح دنیا میں قوموں کے عروج وزوال کے بارے میں بھیُ ”سنتّ اللہ “ اور قواعد و ضوابط بالکل غیرمبدلّ اور ناقابل تغیر ہیں۔
لو أردنا أن نتخذ لهوا لاتخذناه من لدنا إن كنا فاعلين
سورة: الأنبياء - آية: ( 17 ) - جزء: ( 17 ) - صفحة: ( 323 )Surah Al Anbiya Ayat 17 meaning in urdu
اگر ہم کوئی کھلونا بنانا چاہتے اور بس یہی کچھ ہمیں کرنا ہوتا تو اپنے ہی پاس سے کر لیتے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور کہتے ہیں کہ یہ کیسا پیغمبر ہے کہ کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا
- کہو کہ ہم خدا پر ایمان لائے اور جو کتاب ہم پر نازل ہوئی اور
- پھر جب فرشتے لوط کے گھر گئے
- ہم نے اس کو ظالموں کے لئے عذاب بنا رکھا ہے
- موسٰی نے کہا کہ مجھ میں اور آپ میں یہ (عہد پختہ ہوا) میں جونسی
- اپنے پروردگار کی بخشش اور بہشت کی طرف لپکو جس کا عرض آسمان اور زمین
- کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو سرگوشیاں کرنے سے منع کیا
- جو ریا کاری کرتے ہیں
- اور نہ اندھوں کو اُن کی گمراہی سے (نکال کر) راہ راست پر لاسکتے ہو۔
- پھر جب آسمان پھٹ کر تیل کی تلچھٹ کی طرح گلابی ہوجائے گا (تو) وہ
Quran surahs in English :
Download surah Al Anbiya with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Anbiya mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Anbiya Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers