Surah Al Araaf Ayat 176 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَٰكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ ۚ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث ۚ ذَّٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ﴾
[ الأعراف: 176]
اور اگر ہم چاہتے تو ان آیتوں سے اس (کے درجے) کو بلند کر دیتے مگر وہ تو پستی کی طرف مائل ہوگیا اور اپنی خواہش کے پیچھے چل پڑا۔ تو اس کی مثال کتے کی سی ہوگئی کہ اگر سختی کرو تو زبان نکالے رہے اور یونہی چھوڑ دو تو بھی زبان نکالے رہے۔ یہی مثال ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو ان سے یہ قصہ بیان کردو۔ تاکہ وہ فکر کریں
Surah Al Araaf Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) ” لَهَثٌ “ کہتے ہیں تھکاوٹ یا پیاس وغیرہ کی وجہ سے زبان کے باہر نکالے کو۔ کتے کی یہ عادت ہے کہ تم اسے ڈانٹو ڈپٹو یا اس کے حال پر چھوڑ دو، دونوں حالتوں میں وہ بھونکنے سے باز نہیں آتا، اسی طرح اس کی یہ عادت بھی ہے کہ وہ شکم سیر ہویا بھوکا، تندرست ہو یا بیمار، تھکا ماندہ ہو یا توانا، ہر حال میں زبان باہر نکالنے ہانپتا رہتا ہے۔ یہی حال ایسے شخص کا ہے، اسے وعظ کرو یا نہ کرو، اس کا حال ایک ہی رہے گا اور دنیا کے مال ومتاع کے لیے اس کی رال ٹپکتی رہے گی۔
( 2 ) اور اس قسم کے لوگوں سے عبرت حاصل کرکے، گمراہی سے بچیں اور حق کو اپنائیں۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
بلعم بن باعورا مروی ہے کہ جس کا واقعہ ان آیتوں میں بیان ہو رہا ہے اس کا نام بلعم بن باعورا ہے۔ یہ بھی کہ کہا گیا ہے کہ اس کا نام ضفی بن راہب تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ بلقاء کا ایک شخص تھا جو اسم اعظم جانتا تھا اور جبارین کے سات ہی بیت المقدس میں رہا کرتا تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ یمنی شخص تھا جس نے کلام اللہ کو ترک کردیا تھا، یہ شخص بنی اسرائیل کے علماء میں سے تھا، اس کی دعا مقبول ہوجایا کرتی تھی۔ بنی اسرائیل سختیوں کے وقت اسے آگے کردیا کرتے تھے۔ اللہ اس کی دعا مقبول فرما لیا کرتا تھا۔ اسے حضرت موسیٰ ؑ نے مدین کے بادشاہ کی طرف اللہ کے دین کی دعوت دینے کیلئے بھیجا تھا اس عقلمند بادشاہ نے اسے مکرو فریب سے اپنا کرلیا۔ اس کے نام کئی گاؤں کردیئے اور بہت کجھ انعام و اکرام دیا۔ یہ بدنصیب دین موسوی کو چھوڑ کر اس کے مذہب میں جا ملا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا نام بلعام تھا۔ یہ بھی ہے کہ یہ امیہ بن ابو صلت ہے۔ ممکن ہے یہ کہنے والے کی یہ مراد ہو کہ یہ امیہ بھی اسی کے مشابہ تھا۔ اسے بھی اگلی شریعتوں کا علم تھا لیکن یہ ان سے فائدہ نہ اٹھا سکا۔ خود حضور ﷺ کے زمانے کو بھی اس نے پایا آپ کی آیات بینات دیکھیں، معجزے اپنی آنکھوں سے دیکھ لئے، ہزارہا کو دین حق میں داخل ہوتے دیکھا، لیکن مشرکین کے میل جول، ان میں امتیاز، ان میں دوستی اور وہاں کی سرداری کی ہوس نے اسے اسلام اور قبول حق سے روک دیا۔ اسی نے بدری کافروں کے ماتم میں مرثئے کہے، لعنتہ اللہ۔ بعض احادیث میں وارد ہے کہ اس کی زبان تو ایمان لا چکی تھی لیکن دل مومن نہیں ہوا تھا کہتے ہیں کہ اس شخص سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ اس کی دعائیں جو بھی یہ کرے گا مقبول ہوں گی اس کی بیوی نے ایک مرتبہ اس سے کہا کہ ان تین دعاؤں میں سے ایک دعا میرے لئے کر۔ اس نے منظور کرلیا اور پوچھا کیا دعا کرانا چاہتی ہو ؟ اس نے کہا یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس قدر حسن و خوبصورتی عطا فرمائے کہ مجھ سے زیادہ حسین عورت بنی اسرائیل میں کوئی نہ ہو۔ اس نے دعا کی اور وہ ایسی ہی حسین ہوگئی۔ اب تو اس نے پر نکالے اور اپنے میاں کو محض بےحقیقت سمجھنے لگی بڑے بڑے لوگ اس کی طرف جھکنے لگے اور یہ بھی ان کی طرف مائل ہوگئی اس سے یہ بہت کڑھا اور اللہ سے دعا کی کہ یا اللہ اسے کتیا بنا دے۔ یہ بھی منظور ہوئی وہ کتیا بن گئی۔ اب اس کے بچے آئے انہوں نے گھیر لیا کہ آپ نے غضب کیا لوگ ہمیں طعنہ دیتے ہیں اور ہم کتیا کے بچے مشہور ہو رہے ہیں۔ آپ دعا کیجئے کہ اللہ اسے اس کی اصلی حالت میں پھر سے لا دے۔ اس نے وہ تیسری دعا بھی کرلی تینوں دعائیں یوں ہی ضائع ہوگئیں اور یہ خالی ہاتھ بےخیر رہ گیا۔ مشہور بات تو یہی ہے کہ بنی اسرائیل کے بزرگوں میں سے یہ ایک شخص تھا۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ یہ نبی تھا۔ یہ محض غلط ہے، بالکل جھوٹ ہے اور کھلا افترا ہے۔ مروی ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ جب قوم جبارین سے لڑائی کے لئے بنی اسرائیل کی ہمراہی میں گئے انہی جبارین میں بلغام نامی یہ شخص تھا اس کی قوم اور اس کے قرابت دار چچا وغیرہ سب اس کے پاس آئے اور کہا کہ موسیٰ اور اس کی قوم کے لئے آپ بد دعا کیجئے۔ اس نے کہا یہ نہیں ہوسکتا اگر میں ایسا کروں گا تو میری دنیا آخرت دونوں خراب ہوجائیں گی لیکن قوم سر ہوگئی۔ یہ بھی لحاظ مروت میں آگیا۔ بد دعا کی، اللہ تعالیٰ نے اس سے کرامت چھین لی اور اسے اس کے مرتبے سے گرا دیا۔ سدی کہتے ہیں کہ جب بنی اسرائیل کو وادی تیہ میں چالیس سال گذر گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت یوشع بن نون ؑ کو نبی بنا کر بھیجا انہوں نے فرمایا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تمہیں لے کر جاؤں اور ان جبارین سے جہاد کروں۔ یہ آمادہ ہوگئے، بیعت کرلی۔ انہی میں بلعام نامی ایک شخص تھا جو بڑا عالم تھا اسم اعظم جانتا تھا۔ یہ بدنصیب کافر ہوگیا، قوم جبارین میں جا ملا اور ان سے کہا تم نہ گھبراؤ جب بنی اسرائیل کا لشکر آجائے گا میں ان پر بد دعا کروں گا تو وہ دفعتاً ہلاک ہوجائے گا۔ اس کے پاس تمام دنیوی ٹھاٹھ تھے لیکن عورتوں کی عظمت کی وجہ سے یہ ان سے نہیں ملتا تھا بلکہ ایک گدھی پال رکھی تھی۔ اسی بدقسمت کا ذکر اس آیت میں ہے۔ شیطان اس پر غالب آگیا اسے اپنے پھندے میں پھانس لیا جو وہ کہتا تھا یہ کرتا تھا آخر ہلاک ہوگیا۔ مسند ابو یعلی موصلی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تم سب سے زیادہ اس سے ڈرتا ہوں جو قرآن پڑھ لے گا جو اسلام کی چادر اوڑھے ہوئے ہوگا اور دینی ترقی پر ہوگا کہ ایک دم اس سے ہٹ جائے گا، اسے پس پشت ڈال دے گا، اپنے پڑوسی پر تلوار لے دوڑے گا اور اسے شرک کی تہمت لگائے گا۔ حضرت حذیفہ بن یمان ؓ نے یہ سن کر دریافت کیا کہ یا رسول اللہ مشرک ہونے کے زیادہ قابل کون ہوگا ؟ یہ تہمت لگانے والا ؟ وہ جسے تہمت لگا رہا ہے فرمایا نہیں بلکہ تہمت دھرنے والا۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر ہم چاہتے تو قادر تھے کہ اسے بلند مرتبے پر پہنچائیں، دنیا کی آلائشوں سے پاک رکھیں، اپنی دی ہوئی آیتوں کی تابعداری پر قائم رکھیں لیکن وہ دنیوی لذتوں کی طرف جھک پڑا یہاں تک کہ شیطان کا پورا مرید ہوگیا۔ اسے سجدہ کرلیا۔ کہتے ہیں کہ اس بلعام سے لوگوں نے درخواست کی کہ آپ حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کے حق میں بد دعا کیجئے۔ اس نے کہا اچھا میں اللہ سے حکم لے لوں۔ جب اس نے اللہ تعالیٰ سے مناجات کی تو اسے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل مسلمان ہیں اور ان میں اللہ کے نبی موجود ہیں اس نے سب سے کہا کہ مجھے بد دعا کرنے سے روک دیا گیا ہے انہوں نے بہت سارے تحفے تحائف جمع کر کے اسے دیئے اس نے سب رکھ لئے۔ پھر دوبارہ درخواست کی کہ ہمیں ان سے بہت خوف ہے آپ ضرور ان پر بد دعا کیجئے اس نے جواب دیا کہ جب تک میں اللہ تعالیٰ سے اجازت نہ لے لوں میں ہرگز یہ نہ کروں گا اس نے پھر اللہ سے مناجات کی لیکن اسے کچھ معلوم نہ ہوسکا اس نے یہی جواب انہیں دیا تو انہوں نے کہا دیکھو اگر منع ہی مقصود ہوتا تو آپ کو روک دیا جاتا جیسا کہ اس سے پہلے روک دیا گیا۔ اس کی بھی سمجھ میں آگیا اٹھ کر بد دعا شروع کی۔ اللہ کی شان ہے بد دعا ان پر کرنے کے بجائے اس کی زبان سے اپنی ہی قوم کے لئے بد دعا نکلی اور جب اپنی قوم کی فتح کی دعا مانگنا چاہتا تو بنی اسرائیل کی فتح و نصرت کی دعا نکلتی۔ قوم نے کہا آپ کیا غضب کر رہے ہیں ؟ اس نے کہا کیا کروں ؟ میری زبان میرے قابو میں نہیں۔ سنو اگر سچ مچ میری زبان سے ان کے لئے بد دعا نکلی بھی تو قبول نہ ہوگی۔ سنو اب میں تمہیں ایک ترکیب بتاتا ہوں اگر تم اس میں کامیاب ہوگئے تو سمجھ لو کہ بنی اسرائیل برباد ہوجائیں گے تم اپنی نوجوان لڑکیوں کو بناؤ سنگھار کرا کے ان کے لشکروں میں بھیجو اور انہیں ہدایت کردو کہ کوئی ان کی طرف جھکے تو یہ انکار نہ کریں ممکن ہے بوجہ مسافرت یہ لوگ زناکاری میں مبتلا ہوجائیں اگر یہ ہوا تو چونکہ یہ حرام کاری اللہ کو سخت ناپسند ہے اسی وقت ان پر عذاب آجائے گا اور یہ تباہ ہوجائیں گے۔ ان بےغیرتوں نے اس بات کو مان لیا اور یہی کیا۔ خود بادشاہ کی بڑی حسین و جمیل لڑکی بھی بن ٹھن کر نکلی اسے ہدایت کردی گئی تھی کہ سوائے حضرت موسیٰ کے اور کسی کو اپنا نفس نہ سونپے۔ یہ عورتیں جب بنی اسرائیل کے لشکر میں پہنچیں تو عام لوگ بےقابو ہوگئے حرام کاری سے بچ نہ سکے۔ شہزادی بنی اسرائیل کے ایک سردار کے پاس پہنچی۔ اس سردار نے اس لڑکی پر ڈورے ڈالے لیکن اس لڑکی نے انکار کیا۔ اس نے بتایا کہ میں فلاں فلاں ہوں، اس نے اپنے باپ سے یا بلعام سے پچھوایا اس نے اجازت دی۔ یہ خبیث اپنا منہ کالا کر رہا تھا جسے حضرت ہارون ؑ کی اولاد میں سے کسی صاحب نے دیکھ لیا اپنے نیزے سے ان دونوں کو پرودیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے دست و بازی قوی کردیئے اس نے یونہی ان دونوں کو چھدے ہوئے اٹھا لیا لوگوں نے بھی انہیں دیکھا۔ اب اس لشکر پر عذاب رب بشکل طاعون آیا اور ستر ہزار آدمی فوراً ہلاک ہوگئے۔ بلعام اپنی گدھی پر سوار ہو کر چلا وہ ایک ٹیلے پر چڑھ کر رک گئی اب بلعام اسے مارتا پیٹتا ہے لیکن وہ قدم نہیں اٹھاتی۔ آخر گدھی نے اس کی طرف دیکھا اور کہا مجھے کیوں مار رہا ہے سامنے دیکھ کون ہے ؟ اس نے دیکھ تو شیطان لعین کھڑا ہوا تھا یہ اتر پڑا اور سجدے میں گرگیا۔ الغرض ایمان سے خالی ہوگیا اس کا نام یا تو بلعام تھا۔ یا بلعم بن با عورا یا ابن ابر بار بن باعور بن شہوم بن قوشتم بن مآب بن لوط بن ہارون یا ابن مران بن آزر۔ یہ بلقا کا رئیس تھا، اسم اعظم جانتا تھا لیکن اخیر میں دین حق سے ہٹ گیا۔ واللہ اعلم۔ ایک روایت میں ہے کہ قوم کے زیادہ کہنے سننے سے جب یہ اپنی گدھی پر سوار ہو کر بد دعا کے لئے چلا تو اس کی گدھی بیٹھ گئی۔ اس نے اسے مار پیٹ کر اٹھایا کچھ دور چل کر پھر بیٹھ گئی۔ اس نے اسے پھر مار پیٹ کر اٹھایا، اسے اللہ نے زبان دی۔ اس نے کہا تیرا ناس جائے تو کہاں اور کیوں جا رہا ہے اللہ کے مقابلے اس کے رسول سے لڑنے اور مومنوں کو نقصان دلانے جا رہا ہے ؟ دیکھ تو سہی فرشتے میری راہ روکے کھڑے ہیں۔ اس نے پھر بھی کچھ خیال نہ کیا آگے بڑھ گیا۔ حبان نامی پہاڑی پر چڑھ گیا جہاں سے بنو اسرائیل کا لشکر سامنے ہی نظر آتا تھا۔ اب ان کیلئے بددعا اور اپنی قوم کے لئے دعائیں کرنے لگا لیکن زبان الٹ گئی دعا کی جگہ بد دعا اور بد دعا کی جگہ دعا نکلنے لگی۔ قوم نے کہا کیا کر رہے ہو ؟ کہا بےبس ہوں۔ اسی وقت اس کی زبان نکل پڑی سینے پر لٹکنے لگی اس نے کہا لو میری دنیا بھی خراب ہوئی اور دین تو بالکل برباد ہوگیا پھر اس نے خوبصورت لڑکیاں بھیجنے کی ترکیب بتائی جیسے کہ اوپر بیان ہوا اور کہا کہ اگر ان میں سے ایک نے بھی بدکاری کرلی تو ان پر عذاب رب آجائے گا ان عورتوں میں سے ایک بہت ہی حسین عورت جو کنانیہ تھی اور جس کا نام کستی تھا جو صور نامی ایک رئیس کی بیٹی تھی وہ جب بنی اسرائیل کے ایک بہت بڑے سردار زمری بن شلوم کے پاس سے گذری جو شمعون بن یعقوب کی نسل میں سے تھا وہ اس پر فریفتہ ہوگیا۔ دلیری کے ساتھ اس کا ہاتھ تھامے ہوئے حضرت موسیٰ ؑ کے پاس گیا اور کہنے لگا آپ تو شاید کہہ دیں گے کہ یہ مجھ پر حرام ہے ؟ آپ نے کہا بیشک۔ اس نے کہا اچھا میں آپ کی یہ بات تو نہیں مان سکتا، اسے اپنے خیمے میں لے گیا اور اس سے منہ کالا کرنے لگا۔ وہیں اللہ تعالیٰ نے ان پر طاعون بھیج دیا۔ حضرت فحاص بن غیرار بن ہارون اس وقت لشکر گاہ سے کہیں باہر گئے ہوئے تھے جب آئے اور تمام حقیقت سنی تو بیتاب ہو کر غصے کے ساتھ اس بد کردار کے خیمے میں پہنچے اور اپنے نیزے میں ان دونوں کو پرو لیا اور اپنے ہاتھ میں نیزہ لئے ہوئے انہیں اوپر اٹھائے ہوئے باہر نکلے کہنی کو کھ پر لگائے ہوئے تھے کہنے لگے یا اللہ ہمیں معاف فرما ہم پر سے یہ وبا دور فرما دیکھ لے ہم تیرے نافرمانوں کے ساتھ یہ کرتے ہیں۔ ان کی دعا اور اس فعل سے طاعون اٹھ گیا لیکن اتنی دیر میں جب حساب لگایا گیا تو ستر ہزار آدمی اور ایک روایت کی رو سے بیس ہزار مرچکے تھے۔ دن کا وقت تھا اور کنانیوں کی یہ چھوکریاں سودا بیچنے کے بہانے صرف اس لئے آئی تھیں کہ بنو اسرائیل بدکاری میں پھنس جائیں اور ان پر عذاب آجائیں۔ بنو اسرائیل میں اب تک یہ دستور چلا آتا ہے کہ وہ اپنے ذبیحہ میں سے گردن اور دست اور سری اور ہر قسم کا سب سے پہلا پھل فحاص کی اولاد کو دیا کرتے ہیں۔ اسی بلعام بن باعورا کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔ فرمان ہے کہ اس کی مثال کتے کی سی ہے کہ کالی ہے تو ہانپتا ہے اور دھتکارا جائے تو ہانپتا رہتا ہے۔ یا تو اس مثال سے یہ مطلب ہے کہ بلعام کی زبان نیچے کو لٹک پڑی تھی جو پھر اندر کو نہ ہوئی کتے کی طرح ہانپتا رہتا تھا اور زبان باہر لٹکائے رہتا تھا۔ یہ بھی معنی ہیں کہ اس کی ضلالت اور اس پر جمے رہنے کی مثال دی کہ اسے ایمان کی دعوت، علم کی دولت غرض کسی چیز نے برائی سے نہ ہٹایا جیسے کتے کی اس کی زبان لٹکنے کی حالت برابر قائم رہتی ہے خواہ اسے پاؤں تل روندو خواہ جھوڑ دو۔ جیسے بعض کفار مکہ کی نسبت فرمان ہے کہ انہیں وعظ و پند کہنا نہ کہنا سب برابر ہے انہیں ایمان نصیب نہیں ہونے کا اور جیسے بعض منافقوں کی نسبت فرمان ہے کہ ان کے لئے تو استغفار کر یا نہ کر اللہ انہیں نہیں بخشے گا۔ یہ بھی مطلب اس مثال کا بیان کیا گیا ہے کہ ان کافروں منافقوں اور گمراہ لوگوں کے دل بودے اور ہدایت سے خالی ہیں یہ کبھی مطمئن نہیں ہوتے۔ پھر اللہ عزوجل اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ تو انہیں پند و نصیحت کرتا رہ تاکہ ان میں سے جو عالم ہیں، وہ غور و فکر کر کے اللہ کی راہ پر آجائیں یہ سوچیں کہ بلعام ملعون کا کیا حال ہوا دینی علم جیسی زبردست دولت کو جس نے دنیا کی سفلی راحت پر کھو دیا۔ آخر نہ یہ ملا نہ وہ۔ دونوں ہاتھ خالی رہ گئے۔ اسی طرح یہ علماء یہود جو اپنی کتابوں میں اللہ کی ہدایتیں پڑھ رہے ہیں، آپ کے اوصاف لکھے پاتے ہیں، انہیں چاہئے کہ دنیا کی طمع میں پھنس کر اپنے مریدوں کو پھانس کر پھول نہ جائیں ورنہ یہ بھی اس کی طرح دنیا میں کھو دیئے جائیں گے انہیں چاہئے کہ اپنی علمیت سے فائدہ اٹھائیں۔ سب سے پہلے تیری اطاعت کی طرف جھکیں اور اوروں پر حق کو ظاہر کریں۔ دیکھ لو کہ کفار کی کیسی بری مثالیں ہیں کہ کتوں کی طرح صرف نگلنے اگلنے اور شہوت رانی میں پڑے ہوئے ہیں۔ پس جو بھی علم و ہدایت کو چھوڑ کر خواہش نفس کے پورا کرنے میں لگ جائے وہ بھی کتے جیسا ہی ہے۔ حضور فرماتے ہیں ہمارے لئے بری مثالیں نہیں اپنی ہبہ کی ہوئی چیز کو پھر لے لینے والا کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ گنہگار لوگ اللہ کا کچھ بگاڑتے نہیں یہ تو اپنا ہی خسارہ کرتے ہیں۔ طاعت مولیٰ ، اتباع ہدی سے ہٹا کر خواہش کی غلامی دنیا کی چاہت میں پڑ کر اپنے دونوں جہان خراب کرتے ہیں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 176 وَلَوْ شِءْنَا لَرَفَعْنٰہُ بِہَا وَلٰکِنَّہٗٓ اَخْلَدَ اِلَی الْاَرْضِ یعنی اللہ کی آیات اور جو بھی علم اس کو عطا ہو اتھا اس کے ذریعے سے اس کو بڑا بلند مقام مل سکتا تھا مگر وہ تو زمین ہی کی طرف دھنستا چلا گیا۔ یہاں پر زمین کی طرف دھنسنے کے استعارے کو بھی اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انسان دراصل حیوانی جسم اور ملکوتی روح سے مرکب ہے۔ جسم کے اجزائے ترکیبی کا تعلق زمین سے ہے ‘ جیسا کہ سورة طٰہٰ کی آیت 55 میں فرمایا گیا : مِنْہَا خَلَقْنٰکُمْ یعنی ہم نے تمہیں اس زمین سے پیدا کیا۔ اس کے برعکس انسانی روح کا تعلق عالم بالا سے ہے اور وہ اللہ سے اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ط والا عہد کر کے آئی ہے۔ چناچہ اصل کے اس تضاد کی بنیاد پر جسم اور روح میں متواتر کشمکش رہتی ہے۔ کُلُّ شَیْءٍ یَرْجِعُ اِلٰی اَصْلِہٖ ہر چیز اپنے منبع کی طرف لوٹتی ہے کے مصداق روح اوپر اٹھنا چاہتی ہے تاکہ اللہ سے قرب حاصل کرسکے ‘ جبکہ جسم کی ساری کشش زمین کی طرف ہوتی ہے۔ چونکہ جسم کی تقویت کا سارا سامان ‘ غذا وغیرہ زمین ہی کے مرہون منت ہے ‘ اس لیے زمینی اور دنیاوی لذتوں میں ہی اسے سکون ملتا ہے اور ع بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست کا نعرہ اسے اچھا لگتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص فیصلہ کرلیتا ہے کہ جسمانی ضرورتوں اور لذتوں کے حصول کے لیے اس نے زمین کے ساتھ ہی چمٹ کر رہنا ہے تو گویا اب اس نے اپنے آپ کو اللہ کی توفیق سے محروم کرلیا۔ اب اس کی روح سسکتی رہے گی ‘ احتجاج کرتی رہے گی اور اگر زیادہ مدت تک اس کی روحانی غذا کا بندوبست نہیں کیا جائے گا تو روح کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ اگر کسی انسان کے جیتے جی اس کی روح کے ساتھ یہ حادثہ ہوجائے ‘ یعنی اس کی روح کی موت واقع ہوجائے تو گویا وہ چلتا پھرتا حیوان بن جاتا ہے ‘ جو اپنے سارے حیوانی تقاضے حیوانی انداز میں پورے کرتا رہتا ہے۔ پھر زمینی غذائیں ‘ سفلی آرزوئیں اور مادی امنگیں ہی اس کی زندگی کا مقصد و محور قرار پاتی ہیں۔ نتیجتاً اسے فیضان سماوی اور توفیق الٰہی سے کلی طور پر محروم کردیا جاتا ہے۔وَاتَّبَعَ ہَوٰٹہُ ج فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ الْکَلْبِج اِنْ تَحْمِلْ عَلَیْہِ یَلْہَثْ اَوْ تَتْرُکْہُ یَلْہَثْ ط یعنی اس شخص نے اللہ کی نعمتوں کی قدر کرنے کے بجائے خود کو کتے سے مشابہ کرلیا ‘ جو ہر وقت زبان نکالے ہانپتا رہتا ہے اور حرص وطمع کے غلبے کی وجہ سے ہر وقت زمین کو سونگھتے رہنا اس کی فطرت میں شامل ہے۔ذٰلِکَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا ج۔ اوپر تفصیل کے ساتھ یہود کی جو سرگزشت بیان ہوئی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ قوم شروع سے ہی بلعم بن باعوراء بنی رہی ہے۔ آج اس کی سب سے بڑی مثال پاکستانی قوم ہے۔ پاکستان کا بن جانا اور اس کا قائم رہنا ایک معجزہ تھا۔ انگریزوں اور ہندوؤں کو یقین تھا کہ پاکستان کی بقا بحیثیت ایک آزاد اور خودمختار ملک کے ممکن نہیں ہے ‘ اس لیے یہ جلد ہی ختم ہوجائے گا۔ لیکن یہ ملک نہ صرف قائم رہا بلکہ 1965 ء کی جنگ جیسی بڑی بڑی آزمائشوں سے بھی سر خرو ہو کر نکلا۔ اس لیے کہ ہم نے اس ملک کو حاصل کیا تھا اسلام کے نام پر کہ اسے اسلامی نظام کی تجربہ گاہ بنائیں گے ‘ تاکہ پوری دنیا اسلامی نظام کے عملی نمونے اور اس کی برکات کا مشاہدہ کرسکے۔ قائد اعظم نے بھی فرمایا تھا کہ ہم پاکستان اس لیے چاہتے ہیں کہ ہم عہد حاضر میں اسلام کے اصول حریت و اخوت و مساوات کا ایک نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرسکیں ‘ لیکن عملی طور پر آج ہمارا طرز عمل فانْسَلَخَ مِنْہَا کی عبرتناک تصویر بن چکا ہے۔ ہم ان تمام وعدوں سے پیچھا چھڑا کر نکل بھاگے اور شیطان کی پیروی اختیار کی۔ پھر ہمارا جو حال ہوا اور مسلسل ہو رہا ہے وہ سامنے رکھیں اور اس پس منظر میں اس آیت کو دوبارہ پڑھیں۔
ولو شئنا لرفعناه بها ولكنه أخلد إلى الأرض واتبع هواه فمثله كمثل الكلب إن تحمل عليه يلهث أو تتركه يلهث ذلك مثل القوم الذين كذبوا بآياتنا فاقصص القصص لعلهم يتفكرون
سورة: الأعراف - آية: ( 176 ) - جزء: ( 9 ) - صفحة: ( 173 )Surah Al Araaf Ayat 176 meaning in urdu
اگر ہم چاہتے تو اسے اُن آیتوں کے ذریعہ سے بلندی عطا کرتے، مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا اور اپنی خواہش نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا، لہٰذا اس کی حالت کتے کی سی ہو گئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور اسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے یہی مثال ہے اُن لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں تم یہ حکایات اِن کو سناتے رہو، شاید کہ یہ کچھ غور و فکر کریں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور جن لوگوں کو علم دیا گیا ہے وہ جانتے ہیں کہ جو (قرآن) تمہارے
- وہ (خدا) جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے بڑی برکت والا ہے۔ اور وہ ہر
- بلکہ انسان آپ اپنا گواہ ہے
- غرض (مردود نے) دھوکہ دے کر ان کو (معصیت کی طرف) کھینچ ہی لیا جب
- اور جو ایمان لائے اور عمل نیک کیے وہ بہشتوں میں داخل کیے جائیں گے
- اور گھنے گھنے باغ
- اس (دن کی تکلیفوں) کو خدا کے سوا کوئی دور نہیں کرسکے گا
- اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا اور سب یوسفؑ کے آگے سجدہ میں گر
- اور ہم نے آسمان اور زمین کو جو اور (مخلوقات) ان دونوں کے درمیان ہے
- (غرض موسیٰ اور ہارون فرعون کے پاس گئے) اس نے کہا کہ موسیٰ تمہارا پروردگار
Quran surahs in English :
Download surah Al Araaf with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Araaf mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Araaf Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers