Surah hashr Ayat 18 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ﴾
[ الحشر: 18]
اے ایمان والوں! خدا سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھنا چاہیئے کہ اس نے کل (یعنی فردائے قیامت) کے لئے کیا (سامان) بھیجا ہے اور (ہم پھر کہتے ہیں کہ) خدا سے ڈرتے رہو بےشک خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے
Surah hashr Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اہل ایمان کو خطاب کرکے انہیں وعظ کیا جارہا ہے۔ اللہ سے ڈرنے کا مطلب ہے، اس نے جن چیزوں کے کرنے کا حکم دیا ہے، انہیں بجا لاؤ۔ جن سے روکا ہے، ان سے رک جاؤ، آیت میں یہ بطور تاکید دو مرتبہ فرمایا کیونکہ یہ تقویٰ ( اللہ کا خوف ) ہی انسان کو نیکی کرنے پر اور برائی سے اجتناب پر آمادہ کرتا ہے۔
( 2 ) اسے کل سے تعبیر کرکے اس طرف بھی اشارہ فرما دیا کہ اس کا وقوع زیادہ دور نہیں، قریب ہی ہے۔
( 3 ) چنانچہ وہ ہر ایک کو اس کے عمل کی جزا دے گا، نیک کو نیکی کی جزا اور بد کو بدی کی جزا۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
اجتماعی اور خیر کی ایک نوعیت اور انفرادی اعمال خیر حضرت جریر ؓ فرماتے ہیں کہ ہم دن چڑھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ کچھ لوگ آئے جو ننگے بدن اور کھلے پیر تھے۔ صرف چادروں یا عباؤں سے بدن چھپائے ہوئے تلواریں گردنوں میں حمائل کئے ہوئے تھے یہ تمام لوگ قبیلہ مضر میں سے تھے، ان کی اس فقرہ فاقہ کی حالت نے رسول اللہ ﷺ کے چہرے کی رنگت کو متغیر کردیا، آپ گھر میں گئے پھر باہر آئے پھر حضرت بلال کو اذان کہنے کا حکم دیا اذان ہوئی پھر اقامت ہوئی آپ نے نماز پڑھائی پھر خطبہ شروع کیا اور آیت ( ترجمہ ) الخ، تلاوت کی پھر سورة حشر کی آیت ( ترجمہ ) الخ، پڑھی اور لوگوں کو خیرات دینے کی رغبت دلائی جس پر لوگوں نے صدقہ دینا شروع کیا بہت سے درہم دینار کپڑے لتے کھجوریں وغیرہ آگئیں آپ برابر تقریر کئے جاتے تھے یہاں تک کہ فرمایا اگر آدھی کھجور بھی دے سکتے ہو تو لے آؤ، ایک انصاری ایک تھیلی نقدی کی بھری ہوئی بہت وزنی جسے بمشکل اٹھا سکتے تھے لے آئے پھر تو لوگوں نے لگاتار جو کچھ پایا لانا شروع کردیا یہاں تک کہ ہر چیز کے ڈھیر لگ گئے اور حضور ﷺ کا اداس چہرہ بہت کھل گیا اور مثل سونے کے چمکنے لگا اور آپ نے فرمایا جو بھی کسی اسلامی کار خیر کر شروع کرے اسے اپنا بھی اور اس کے بعد جو بھی اس کام کو کریں سب کا بدلہ ملتا ہے لیکن بعد والوں کے اجر گھٹ کر نہیں، اسی طرح جو اسلام میں کسی برے اور خلاف شروع طریقے کو جاری کرے اس پر اس کا اپنا گناہ بھی ہوتا ہے اور پھر جتنے لوگ اس پر کاربند ہوں سب کو جتنا گناہ ملے گا اتنا ہی اسے بھی ملتا ہے مگر ان کے گناہ گھٹتے نہیں ( مسلم ) آیت میں پہلے حکم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچاؤ کی صورت پیدا کرو یعنی اس کے احکام بجا لا کر اور اس کی نافرمانیوں سے بچ کر، پھر فرمان ہے کہ وقت سے پہلے اپنا حساب آپ لیا کرو دیکھتے رہو کہ قیامت کے دن جب اللہ کے سامنے پیش ہو گے تب کام آنے والے نیک اعمال کا کتنا کچھ ذخیرہ تمہارے پاس ہے، پھر تاکید ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ تمہارے تمام اعمال و احوال سے اللہ تعالیٰ پورا باخبر ہے نہ کوئی چھوٹا کام اس سے پوشیدہ نہ بڑا نہ چھپا نہ کھلا۔ پھر فرمان ہے کہ اللہ کے ذکر کو نہ بھولو ورنہ وہ تمہارے نیک اعمال جو آخرت میں نفع دینے والے ہیں بھلا دے گا اس لئے کہ ہر عمل کا بدلہ اسی کے جنس سے ہوتا ہے اسی لئے فرمایا کہ یہی لوگ فاسق ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل جانے والے اور قیامت کے دن نقصان پہنچانے والے اور ہلاکت میں پڑنے والے یہی لوگ ہیں، جیسے اور جگہ ارشاد ہے۔ ( ترجمہ ) مسلمانو ! تمہیں تمہارے مال و اولاد یاد اللہ سے غافل نہ کریں جو ایسا کریں وہ سخت زیاں کار ہیں، طبرانی میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ نہ کے ایک خطبہ کا مختصر سا حصہ یہ منقول ہے کہ آپ نے فرمایا، کیا تم نہیں جانتے ؟ کہ صبح شام تم اپنے مقررہ وقت کی طرف بڑھ رہے ہو، پس تمہیں چاہئے کہ اپنی زندگی کے اوقات اللہ عزوجل کی فرمانبرداری میں گذارو، اور اس مقصد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے کوئی شخص صرف اپنی طاقت و قوت سے حاصل نہیں کرسکتا، جن لوگوں نے اپنی عمر اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے سوا اور کاموں میں کھپائی ان جیسے تم نہ ہونا، اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان جیسے بننے سے منع فرمایا ہے ( ترجمہ ) خیال کرو کہ تمہاری جان پہچان کے تمہارے بھائی آج کہاں ہیں ؟ انہوں نے اپنے گزشتہ ایام میں جو اعمال کئے تھے ان کا بدلہ لینے یا ان کی سزا پانے کے لئے وہ دربار اہلیہ میں جا پہنچے، یا تو انہوں نے سعادت اور خوش نصیبی پائی یا نامرادی اور شقاوت حاصل کرلی، کہاں ہیں ؟ وہ سرکش لوگ جنہوں نے بارونق شہر بسائے اور ان کے مضبوط قلعے کھڑے کئے، آج وہ قبروں کے گڑھوں میں پتھروں تلے دبے پڑے ہیں، یہ ہے کتاب اللہ قرآن کریم تم اس نور سے مضبوط قلعے کھڑے کئے، آج وہ قبروں کے گڑھوں میں پتھروں تلے دبے پڑے ہیں، یہ ہے کتاب اللہ قرآن کریم تم اس نور سے روشنی حاصل کرو جو تمہیں قیامت کے دن کی اندھیروں میں کام آسکے، اس کی خوبی بیان سے عبرت حاصل کرو اور بن سنور جاؤ، دیکھو اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا اور ان کی اہل بیت کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا ( ترجمہ ) یعنی وہ نیک کاموں میں سبقت کرتے تھے اور بڑے لالچ اور سخت خوف کے ساتھ ہم سے دعائیں کیا کرتے تھے اور ہمارے سامنے جھکے جاتے تھے، سنو وہ بات بھلائی سے خالی ہے جس سے اللہ کی رضامندی مقصود نہ ہو، وہ مال خیرو و برکت والا نہیں جو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کیا جاتا ہو، وہ شخص نیک بختی سے دور ہے جس کی جہالت بردباری پر غالب ہو اس طرح وہ شخص بھی نیکی سے خالی ہاتھ ہے جو اللہ کے احکام کی تعمیل میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوف کھائے۔ اس کی اسناد بہت عمدہ ہیں اور اس کے راوی ثقہ ہیں، گو اس کے ایک راوی نعیم بن نمحہ ثقابت یا عدم ثقاہت سے معرف نہیں، لیکن امام ابو داؤد سجستانی ؒ کا یہ فیصلہ کافی ہے کہ جریر بن عثمان کے تمام استاد ثقہ ہیں اور یہ بھی آپ ہی کے استاذہ میں سے ہیں اور اس خطبہ کے اور شواہد بھی مروی ہیں، واللہ علم۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جہنمی اور جنتی اللہ تعالیٰ کے نزدیک یکساں نہیں، جیسے فرمان ہے ( ترجمہ ) الخ، یعنی کیا بدکاروں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم انہیں باایمان نیک کار لوگوں کے مثل کردیں گے ان کا جینا اور مرنا یکساں ہے ان کا یہ دعویٰ بالکل غلط اور برا ہے اور جگہ ہے ( ترجمہ ) الخ، اندھا اور دیکھتا ایماندار صالح اور بدکار برابر نہیں، تم بہت ہی کم نصیحت اصل کر رہے ہو، اور ( ترجمہ ) الخ کیا ہم ایمان لانے اور نیک اعمال کرنے والوں کو فساد کرنے والوں جیسا بنادیں گے یا پرہیزگاروں کو مثل فاجروں کے بنادیں گے ؟ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں، مطلب یہ ہے کہ نیک کار لوگوں کا اکرام ہوگا اور بدکار لوگوں کو رسوا کن عذاب ہوگا۔ یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ جنتی لوگ فائز بمرام اور مقصدور، کامیاب اور فلاح و نجات یافتہ ہیں اللہ عزوجل کے عذاب سے بال بال بچ جائیں گے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
اب ہم اس سورت کے تیسرے اور آخری رکوع کا مطالعہ کرنے جا رہے ہیں جو بہت اہم آیات پر مشتمل ہے۔ اس حوالے سے یہ نکتہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ جب قرآن مجید کے کسی مقام یا کسی آیت کی خصوصی اہمیت کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس سے اس مقام یا آیت کا کوئی خاص پہلو یا خاص موضوع مراد ہوتا ہے ‘ ورنہ قرآن مجید کا تو ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف اہم ہے۔ مثلاً قرآن مجید کے بعض مقامات فلسفہ و حکمت کے اعتبار سے اہم ہیں تو بعض دوسرے مقامات سائنسی حوالے سے لائق توجہ ہیں۔ بعض آیات روح دین سے بحث کرتی ہیں تو بعض ایمان کی ماہیت واضح کرتی ہیں۔ اسی طرح ہر آیت اور ہر مقام کی اہمیت اپنے موضوع اور مضمون کے اعتبار سے ہے۔ چناچہ سورة الحشر کے آخری رکوع کی اہمیت فلسفہ اور تصوف کے موضوع کی وجہ سے بھی ہے اور اسمائے حسنیٰ کے اس عظیم الشان گلدستے کے اعتبار سے بھی جو پورے قرآن میں بالکل یکتا اور منفرد ہے۔ اس سورت کی آخری تین آیات اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کے ذکر کے حوالے سے سورة الحدید کی ابتدائی چھ آیات کے ہم وزن ہیں۔ ان تین آیات میں ایک ساتھ سولہ اسمائے حسنیٰ آئے ہیں اور ان میں سے آٹھ اسمائے حسنیٰ تو ایک ہی آیت میں ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں اسمائے حسنیٰ کے ایک مقام پر اکٹھے ہونے کی اور کوئی مثال قرآن مجید میں نہیں ملتی۔آیت 18{ یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْـتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍج } ” اے اہل ِایمان ! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ہر جان کو دیکھتے رہنا چاہیے کہ اس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے ! “ ظاہر ہے یہ اس کل کے دن کی بات ہے جو بعث بعد الموت کے بعد آنے والا ہے ‘ جس دن ہر شخص کو اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو کر اپنے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہوگا۔ اس دن کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ہر اہل ایمان اپنی زندگی اللہ کے تقویٰ کے سائے میں گزارنے کا اہتمام کرے اور اپنے اعمال کا مسلسل جائزہ لیتا رہے کہ اس نے آخرت کے حوالے سے اب تک کیا کمائی کی ہے اور کائناتی حکومت کے امپیریل بینک میں اپنے کل کے لیے اب تک کتنا سرمایہ جمع کرایا ہے۔ { وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْـرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ۔ } ” اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو ‘ یقینا تم جو کچھ کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ “ اس آیت میں بنیادی طور پر دو باتوں پرز ور دیا گیا ہے۔ یعنی اللہ کا تقویٰ اور فکر آخرت۔ بلکہ اِتَّقُوا اللّٰہَ کا حکم یہاں خصوصی تاکید کے طور پر دو مرتبہ آیا ہے۔ تقویٰ سے عام طور پر اللہ کا خوف اور ڈر مراد لیا جاتا ہے۔ لیکن اس ضمن میں یہ اہم نکتہ ضرور مدنظر رہنا چاہیے کہ اس خوف میں شیر یا سانپ کے خوف کی طرح دہشت کا عنصر بالکل نہیں ‘ بلکہ اس کی مثال ایسے خوف کی سی ہے جیسا خوف اولاد اپنے والد سے محسوس کرتی ہے۔ اس خوف میں محبت اور احتیاط کے جذبات غالب ہوتے ہیں کہ ہمارے والد ہم سے ناراض نہ ہوجائیں اور ہم کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے ہمارے والد کے جذبات و احساسات مجروح ہوں۔ چناچہ تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کے دل میں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا ڈر رہے۔۔۔۔ تقویٰ کے لغوی معنی بچنے کے ہیں ‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچ بچ کر زندگی گزارنا۔
ياأيها الذين آمنوا اتقوا الله ولتنظر نفس ما قدمت لغد واتقوا الله إن الله خبير بما تعملون
سورة: الحشر - آية: ( 18 ) - جزء: ( 28 ) - صفحة: ( 548 )Surah hashr Ayat 18 meaning in urdu
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو، اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ یقیناً تمہارے اُن سب اعمال سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- مگر نماز گزار
- جب سورج لپیٹ لیا جائے گا
- رہے عاد تو ان کا نہایت تیز آندھی سے ستیاناس کردیا گیا
- اگر تم کو (میرے کہنے کا) یقین ہو تو خدا کا دیا ہوا نفع ہی
- جو لوگ خدا سے اور اس کے پیغمبروں سے کفر کرتے ہیں اور خدا اور
- بےشک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوں گے
- اور شہر میں نو شخص تھے جو ملک میں فساد کیا کرتے تھے اور اصلاح
- جو خوض (باطل) میں پڑے کھیل رہے ہیں
- خدا تم میں سے ان لوگوں کو بھی جانتا ہے جو (لوگوں کو) منع کرتے
- آسمان اور رات کے وقت آنے والے کی قسم
Quran surahs in English :
Download surah hashr with the voice of the most famous Quran reciters :
surah hashr mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter hashr Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers