Surah baqarah Ayat 180 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ﴾
[ البقرة: 180]
تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے تو اگر وہ کچھ مال چھوڑ جانے والا ہو تو ماں با پ اور رشتہ داروں کے لئے دستور کے مطابق وصیت کرجائے (خدا سے) ڈر نے والوں پر یہ ایک حق ہے
Surah baqarah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) وصیت کرنے کا یہ حکم آیت مواریث کے نزول سے پہلے دیا گیا تھا۔ اب یہ منسوخ ہے۔ نبی ( صلى الله عليه وسلم ) کا فرمان ہے «إِنَّ اللهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ ، فَلا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ» ( أخرجه السنن بحواله ابن كثير ) ” اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے ( یعنی ورثا کے حصے مقرر کر دیئے ہیں ) پس اب کسی وراث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں “، البتہ اب ایسے رشتہ داروں کے لئے وصیت کی جاسکتی ہے جو وارث نہ ہوں، یا راہ خیر میں خرچ کرنے کے لئے کی جاسکتی ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ حد ثلث ( ایک تہائی ) مال ہے، اس سے زیادہ کی وصیت نہیں کی جاسکتی ( صحيح بخاري ، كتاب الفرائض باب ميراث البنات )
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
وصیت کی وضاحت اس آیت میں ماں باپ اور قرابت داروں کے لئے وصیت کرنے کا حکم ہو رہا ہے، میراث کے حکم سے پہلے یہ واجب تھا ٹھیک قول یہی ہے، لیکن میراث کے احکام نے اس وصیت کے حکم کو منسوخ کردیا، ہر وارث اپنا مقررہ حصہ بےوصیت لے لے گا، سنن وغیرہ میں حضرت عمرو بن خارجہ سے حدیث ہے کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو خطبہ میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق پہنچا دیا ہے اب کسی وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں، ابن عباس ؓ سورة بقرہ کی تلاوت کرتے ہیں جب آپ اس آیت پر پہنچتے ہیں تو فرماتے ہیں یہ آیت منسوخ ہے ( مسند احمد ) آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ پہلے ماں باپ کے ساتھ اور کوئی رشتہ دار وارث نہ تھا اوروں کے لئے صرف وصیت ہوتی تھی پھر میراث کی آیتیں نازل ہوئیں اور ایک تہائی مال میں وصیت کا اختیار باقی رہا۔ اس آیت کے حکم کو منسوخ کرنے والی آیت ( لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ ۠ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ ۭ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا ) 4۔ النساء:7) ہے، حضرت ابن عمر ؓ حضرت ابو موسیٰ ؓ سعید بن مسیب، حسن، مجاہد، عطاء، سعید بن جبیر، محمد بن سیرین، عکرمہ، زید بن اسلم، ربیع بن انس، قتادہ، سدی، مقاتل بن حیان، طاؤس، ابراہیم نخعی، شریح، ضحاک اور زہری رحمہم اللہ یہ سب حضرات بھی اس آیت کو منسوخ بتاتے ہیں، لیکن باوجود اس کے تعجب ہے کہ امام رازی نے اپنی تفسیر کبیر میں ابو مسلم اصفہانی سے یہ کیسے نقل کردیا کہ یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ آیت میراث اس کی تفسیر ہے اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ تم پر وہ وصیت فرض کی گئی جس کا بیان آیت ( يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْٓ اَوْلَادِكُمْ ۤ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ ) 4۔ النساء:11) میں ہے اور یہی قول اکثر مفسرین اور معتبر فقہا کا ہے بعض کہتے ہیں کہ وصیت کا حکم وارثوں کے حق میں منسوخ ہے اور جن کا ورثہ مقرر نہیں ان کے حق میں ثابت ہے حضرت ابن عباس ؓ حسن، مسروق، طاؤس، ضحاک، مسلم بن یسار اور علاء بن زیاد کا مذہب بھی یہی ہے، میں کہتا ہوں سعید بن جبیر، ربیع بن انس، قتادہ اور مقاتل بن حیان بھی یہی کہتے ہیں لیکن ان حضرات کے اس قول کی بنا پر پہلے فقہاء کی اصطلاح میں یہ آیت منسوخ نہیں ٹھہرتی اس لئے کہ میراث کی آیت سے وہ لوگ تو اس حکم سے مخصوص ہوگئے جن کا حصہ شریعت نے خود مقرر کردیا اور جو اس سے پہلے اس آیت کے حکم کی رو سے وصیت میں داخل تھے کیونکہ قرابت دار عام ہیں خواہ ان کا ورثہ مقرر ہو یا نہ ہو تو اب وصیت ان کے لئے ہوئی جو وارث نہیں اور ان کے حق میں نہ رہی جو وارث ہیں، یہ قول اور بعض دیگر حضرات کا یہ قول کہ وصیت کا حکم ابتداء اسلام میں تھا اور وہ بھی غیر ضروری، دونوں کا مطلب قریبا ایک ہوگیا، لیکن جو لوگ وصیت کے اس حکم کو واجب کہتے ہیں اور روانی عبارت اور سیاق وسباق سے بھی بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے ان کے نزدیک تو یہ آیت منسوخ ہی ٹھہرے گی جیسے کہ اکثر مفسرین اور معتبر فقہاء کرام کا قول ہے، پس والدین اور وراثت پانے والے قرابت داروں کے لئے وصیت کرنا بالاجماع منسوخ ہے بلکہ ممنوع ہے حدیث شریف میں آچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے اب وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں، آیت میراث کا حکم مستقل ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ واجب و فرض ہے ذوی الفروض اور عصبات کا حصہ مقرر ہے اور اس سے اس آیت کا حکم کلیتہ اٹھ گیا، باقی رہے وہ قرابت دار جن کا کوئی ورثہ مقرر نہیں ان کے لئے تہائی مال میں وصیت کرانا مستحب ہے کچھ تو اس کا حکم اس آیت سے بھی نکلتا ہے دوسرے یہ کہ حدیث شریف میں صاف آچکا ہے بخاری و مسلم میں حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کسی مرد مسلمان کو لائق نہیں کہ اس کے پاس کوئی چیز ہو اور وہ وصیت کرنی چاہتا ہو تو دو راتیں بھی بغیر وصیت لکھے ہوئے گذارے راوی حدیث حضرت عمر فاروق کے صاحبزادے فرماتے ہیں کہ اس فرمان کے سننے کے بعد میں نے تو ایک رات بھی بلا وصیت نہیں گذاری، قرابت داروں اور رشتہ داروں سے سلوک واحسان کرنے کے بارے میں بہت سی آیتیں اور حدیثیں آئی ہیں، ایک حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم تو جو مال میری راہ میں خرچ کرے گا میں اس کی وجہ سے تجھے پاک صاف کروں گا اور تیرے انتقال کے بعد بھی میرے نیک بندوں کی دعاؤں کا سبب بناؤں گا۔ خیرا سے مراد یہاں مال ہے اکثر جلیل القدر مفسرین کی یہی تفسیر ہے بعض مفسرین کا تو قول ہے کہ مال خواہ تھوڑا ہو خواہ بہت وصیت مشروع ہے جیسے میراث تھوڑے مال میں بھی ہے اور زیادہ میں بھی، بعض کہتے ہیں وصیت کا حکم اس وقت ہے جب زیادہ مال ہو، حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ ایک قریشی مرگیا ہے اور تین چار سو دینار اس کے ورثہ میں تھے اور اس نے وصیت کچھ نہیں کی آپ نے فرمایا یہ رقم وصیت کے قابل نہیں اللہ تعالیٰ نے آیت ( ان ترک خیرا ) فرمایا ہے، ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت علی ؓ اپنی قوم کے ایک بیمار کی بیمار پرسی کو گئے اس سے کسی نے کہا وصیت کرو تو آپ نے فرمایا وصیت خیر میں ہوتی ہے اور تو تو کم مال چھوڑ رہا ہے اسے اولاد کے لئے ہی چھوڑ جا، حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں ساٹھ دینار جس نے نہیں چھوڑے اس نے خیر نہیں چھوڑی یعنی اس کے ذمہ وصیت کرنا نہیں، طاؤس، اسی دینار بتاتے ہیں قتادہ ایک ہزار بتاتے ہیں۔ معروف سے مراد نرمی اور احسان ہے۔ حضرت حسن فرماتے ہیں وصیت کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے اس میں بھلائی کرے برائی نہ کرے وارثوں کو نقصان نہ پہنچائے اسراف اور فضول خرچی نہ کرے۔ بخاری ومسلم میں ہے کہ حضرت سعد ؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ میں مالدار ہوں اور میری وارث صرف مری ایک لڑکی ہی ہے تو آپ اجازت دیجئے کہ میں اپنے دو تہائی مال کی وصیت کروں آپ نے فرمایا نہیں کہا آدھے کی اجازت دیجئے فرمایا نہیں کہا ایک تہائی کی اجازت دیجئے فرمایا خیر تہائی مال کی وصیت کرو گو یہ بھی بہت ہے تم اپنے پیچھے اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ کر جاؤ یہ بہتر ہے اس سے کہ تم انہیں فقیر اور تنگ دست چھوڑ کر جاؤ کہ وہ اوروں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں، صحیح بخاری شریف میں ہے ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کاش کہ لوگ تہائی سے ہٹ کر چوتھائی پر آجائیں اس لئے کہ آنحضرت ﷺ نے تہائی کی رخصت دیتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے کہ تہائی بہت ہے مسند احمد میں ہے حنظلہ بن جذیم بن حنفیہ کے دادا حنفیہ نے ایک یتیم بچے کے لئے جو ان کے ہاں پلتے تھے سو اونٹوں کی وصیت کی ان کی اولاد پر یہ بہت گراں گزرا معاملہ حضور ﷺ تک پہنچا حضور نے فرمایا نہیں نہیں نہیں صدقہ میں پانچ دو ورنہ دس دو ورنہ پندرہ ورنہ بیس ورنہ پچیس دو ورنہ تیس دو ورنہ پینتیس دو اگر اس پر بھی نہ مانوں تو خیر زیادہ سے زیادہ چالیس دو۔ پھر فرمایا جو شخص وصیت کو بدل دے اس میں کمی بیشی کر دے یا وصیت کو چھپالے اس کا گناہ بدلنے والے کے ذمہ ہے میت کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ثابت ہوگیا، اللہ تعالیٰ وصیت کرنے والے کی وصیت کی اصلیت کو بھی جانتا ہے اور بدلنے والے کی تبدیلی کو بھی نہ اس سے کوئی آواز پوشیدہ نہ کوئی راز۔ حیف کے معنی خطا اور غلطی کے ہیں مثلا کسی وارث کو کسی طرح زیادہ دلوا دینا مثلا کہہ دیا کہ فلاں چیز فلاں کے ہاتھ اتنے اتنے میں بیچ دی جائے وغیرہ اب یہ خواہ بطور غلطی اور خطا کے ہو یا زیادتی محبت و شفقت کی وجہ سے بغیر قصد ایسی حرکت سرزد ہوگئی ہو یا گناہ کے طور پر ہو تو وصی کو اس کے رد و بدل میں کوئی گناہ نہیں۔ وصیت کو شرعی احکام کے مطابق پوری ہو ایسی حالت میں بدلنے والے پر کوئی گناہ یا حرج نہیں واللہ اعلم۔ ابی حاتم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں زندگی میں ظلم کر کے صدقہ دینے والے کا صدقہ اسی طرح لوٹا دیا جائے گا جس طرح موت کے وقت گناہگار کرنے والے کا صدقہ لوٹا دیا جاتا ہے یہ حدیث ابن مردویہ میں بھی مروی ہے ابن ابی حاتم فرماتے ہیں ولید بن یزید جو اس حدیث کا راوی ہے اس نے اس میں غلطی کی ہے دراصل یہ کلام حضرت عروہ کا ہے، ولید بن مسلم نے اسے اوزاعی سے روایت کیا ہے اور عروہ سے آگے سند نہیں لے گئے امام ابن مردویہ بھی ایک مرفوع حدیث بروایت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ وصیت کی کمی بیشی کبیرہ گناہ ہے لیکن اس حدیث کے مرفوع ہونے میں بھی کلام ہے اس بارے میں سب سے اچھی وہ حدیث ہے جو مسند عبدالرزاق میں بروایت حضرت ابوہریرہ مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آدمی نیک لوگوں کے اعمال ستر سال تک کرتا رہتا ہے اور وصیت میں ظلم کرتا ہے اور برائی کے عمل پر خاتمہ ہونے کی وجہ سے جہنمی بن جاتا ہے اور بعض لوگ ستر برس تک بد اعمالیاں کرتے رہتے ہیں لیکن وصیت میں عدل وانصاف کرتے ہیں اور آخری عمل ان کا بھلا ہوتا ہے اور وہ جنتی بن جاتے ہیں، پھر حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا اگر چاہو تو قرآن پاک کی اس آیت کو پڑھ آیت ( تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَاتَعْتَدُوْھَا ۚ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ) 65۔ الطلاق:1) یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی حدیں ہیں ان سے آگے نہ بڑھو۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 180 کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرَنِ ا ج الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ بالْمَعْرُوْفِ ج۔ ابھی قانون وراثت نازل نہیں ہوا تھا ‘ اس ضمن میں یہ ابتدائی قدم اٹھایا گیا۔ دورِجاہلیت میں وراثت کی تقسیم اس طرح ہوتی تھی ‘ جیسے آج بھی ہندوؤں میں ہوتی ہے ‘ کہ مرنے والے کی ساری جائیداد کا مالک بڑا بیٹا بن جاتا تھا۔ اس کی بیوی ‘ بیٹیاں ‘ حتیٰ کہ دوسرے بیٹے بھی وراثت سے محروم رہتے۔ چناچہ یہاں وراثت کے بارے میں پہلا حکم دیا گیا کہ مرنے والا والدین اوراقرباء کے بارے میں وصیت کر جائے تاکہ ان کے حقوق کا تحفظ ہو سکے۔ پھر جب سورة النساء میں پورا قانون وراثت آگیا تو اب یہ آیت منسوخ شمار ہوتی ہے۔ البتہ اس کے ایک جزو کو رسول اللہ ﷺ نے باقی رکھا ہے کہ مرنے والا اپنے ایک تہائی مال کے بارے میں وصیت کرسکتا ہے ‘ اس سے زیادہ نہیں ‘ اور یہ کہ جس شخص کا وراثت میں حق مقرر ہوچکا ہے ‘ اس کے لیے وصیت نہیں ہوگی۔ وصیت غیر وارث کے لیے ہوگی۔ مرنے والا کسی یتیم کو ‘ بیوہ کو ‘ کسی یتیم خانہ کو یا کسی دینی ادارے کو اپنی وراثت میں سے کچھ دینا چاہے تو اسے حق حاصل ہے کہ ایک تہائی کی وصیت کر دے۔ باقی دو تہائی میں لازمی طور پر قانونی وراثت کی تنفیذ ہوگی۔ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ ۔ ان پر واجب اور ضروری ہے کہ وہ وصیت کر جائیں کہ ہمارے والدین کو یہ مل جائے ‘ فلاں رشتہ دار کو یہ مل جائے ‘ باقی جو بھی ورثاء ہیں ان کے حصے میں یہ آجائے۔
كتب عليكم إذا حضر أحدكم الموت إن ترك خيرا الوصية للوالدين والأقربين بالمعروف حقا على المتقين
سورة: البقرة - آية: ( 180 ) - جزء: ( 2 ) - صفحة: ( 27 )Surah baqarah Ayat 180 meaning in urdu
تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو، تو والدین اور رشتہ داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے یہ حق ہے متقی لوگوں پر
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- خدا نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ فرمایا کہ تم ان کو حاصل
- اور اگر خدا نے ان کے بارے میں جلاوطن کرنا نہ لکھ رکھا ہوتا تو
- اور تم دیکھو گے کہ ان میں اکثر گناہ اور زیادتی اور حرام کھانے میں
- مومنو! جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کماتے ہوں اور جو چیزیں ہم تمہارے لئے
- محمدﷺ خدا کے پیغمبر ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے
- اور جب اُن پر (دریا کی) لہریں سائبانوں کی طرح چھا جاتی ہیں تو خدا
- اور ہم نے پہلی اُمتوں کے ہلاک کرنے کے بعد موسٰی کو کتاب دی جو
- ابّا شیطان کی پرستش نہ کیجیئے۔ بےشک شیطان خدا کا نافرمان ہے
- تو ان کو کنواریاں بنایا
- اور تمہارا پروردگار تو لوگوں پر فضل کرنے والا ہے لیکن ان میں سے اکثر
Quran surahs in English :
Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers