Surah baqarah Ayat 183 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾
[ البقرة: 183]
مومنو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں۔ جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو
Surah baqarah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) صِيَامٌ، صَوْمٌ ( روزہ ) کا مصدر ہے جس کے شرعی معنی ہیں، صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور بیوی سے ہم بستری کرنے سے، اللہ کی رضا کے لئے، رکے رہنا، یہ عبادت چوں کہ نفس کی طہارت اور تزکیہ کے لئے بہت اہم ہے، اس لئے اسے تم سے پہلی امتوں پر بھی فرض کیا گیا تھا۔ اس کا سب سے بڑا مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ اور تقویٰ انسان کے اخلاق وکردار کے سنوارنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
روداد روزہ اور صلوۃ اللہ تعالیٰ اس امت کے ایمان داروں کو مخاطب کر کے انہیں حکم دے رہا ہے کہ روزے رکھو روزے کے معنی اللہ تعالیٰ کے فرمان کی بجا آوری کی خالص نیت کے ساتھ کھانے پینے اور جماع سے رک جانے کے ہیں اس سے فائدہ یہ ہے کہ نفس انسان پاک صاف اور طیب و طاہر ہوجاتا ہے ردی اخلاط اور بےہودہ اخلاق سے انسان کا تنقیہ ہوجاتا ہے، اس حکم کے ساتھ ہی فرمایا گیا ہے کہ اس حکم کے ساتھ تم تنہا نہیں بلکہ تم سے اگلوں کو بھی روزے رکھنے کا حکم تھا، اس بیان سے یہ بھی مقصد ہے کہ یہ امت اس فریضہ کی بجاآوری میں اگلی امتوں سے پیچھے نہ رہ جائے جیسے اور جگہ ہے آیت ( لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا ) 5۔ المائدة:48) یعنی ہر ایک کے لئے ایک طریقہ اور راستہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت کردیتا لیکن وہ تمہیں آزما رہا ہے تمہیں چاہئے کہ نیکیوں میں سبقت کرتے رہو، یہی یہاں بھی فرمایا کہ تم پر بھی روزے اسی طرح فرض ہیں جس طرح تم سے پہلے گزرنے والوں پر تھے، روزے سے بدن کو پاکیزگی ملتی ہے اور عمل شیطانی راہ پر چلنے سے رک جاتا ہے، بخاری ومسلم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں اے جوانو تم میں سے جسے نکاح کی طاقت ہو وہ نکاح کرلے اور جسے طاقت نہ ہو وہ روزے رکھے اس کے لئے یہ جوش کو سرد کردیتے ہیں پھر روزوں کی مقدار بیان ہو رہی ہے کہ یہ چند دن ہی ہیں تاکہ کسی پر بھاری نہ پڑے اور ادائیگی سے قاصر نہ رہ جائے بلکہ ذوق وشوق سے اس الٰہی فریضہ کو بجا لائے، پہلے تو ہر ماہ میں تین روزوں کا حکم تھا پھر رمضان کے روزوں کا حکم ہوا اور اگلا حکم منسوخ ہوا اس کا مفصل بیان آ رہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ۔ حضرت معاذ ؓ حضرت ابن مسعود ؓ حضرت ابن عباس ؓ عطاء قتادہ ضحاک کا فرمان ہے کہ حضرت نوح ؑ کے زمانے سے ہر مہینہ میں تین روزوں کا حکم تھا جو حضور ﷺ کی امت کے لئے بدلا اور ان پر اس مبارک مہینہ کے روزے فرض ہوئے۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ اگلی امتوں پر بھی ایک مہینہ کامل کے روزے فرض تھے۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ رمضان کے روزے تم سے پہلے کی امتوں پر بھی فرض تھے، حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ پہلی امتوں کو یہ حکم تھا کہ جب وہ عشاء کی نماز ادا کرلیں اور سو جائیں تو ان پر کھانا پینا عورتوں سے مباشرت کرنا حرام ہوجاتا ہے، حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اگلے لوگوں سے مراد اہل کتاب ہیں۔ پھر بیان ہو رہا ہے کہ تم میں سے جو شخص ماہ رمضان میں بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اس حالت میں روزے چھوڑ دے مشقت نہ اٹھائے اور اس کے بعد اور دنوں میں جبکہ یہ عذر ہٹ جائیں قضا کرلیں، ہاں ابتداء اسلام میں جو شخص تندرست ہو اور مسافر بھی نہ ہو اسے بھی اختیار تھا خواہ روزہ رکھے خواہ نہ رکھے مگر فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دے اگر ایک سے زیادہ کو کھلائے تو افضل تھا گو روزہ رکھنا فدیہ دینے سے زیادہ بہتر تھا، ابن مسعود ابن عباس مجاہد طاؤس مقاتل وغیرہ یہی فرماتے ہیں مسند احمد میں ہے حضرت معاذ بن جبل ؓ فرماتے ہیں نماز کی اور روزے کی تین حالتیں بدلی گئیں پہلے تو سولہ سترہ مہینہ تک مدینہ میں آکر حضور ﷺ نے بیت المقدس کی طرف نماز ادا کی پھر " قدنری " والی آیت آئی اور مکہ شریف کی طرف آپ نے منہ پھیرا۔ دوسری تبدیلی یہ ہوئی کہ نماز کے لئے ایک دوسرے کو پکارتا تھا اور جمع ہوجاتے تھے لیکن اس سے آخر عاجز آگئے پھر ایک انصاری حضرت عبداللہ بن زید حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میں نے خواب میں دیکھا لیکن وہ خواب گویا بیداری کی سی حالت میں تھا کہ ایک شخص سبز رنگ کا حلہ پہنے ہوئے ہے اور قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر کہہ رہا ہے آیت اللہ اکبر اللہ اکبرا شھدان لا الہ الا اللہ دوبارہ یونہی اذان پوری کی پھر تھوڑی دیر کے بعد اس نے تکبیر کہی جس میں آیت قدقامت الصلوۃ بھی دو مرتبہ کہا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حضرت بلال ؓ کو یہ سکھاؤ وہ اذان کہیں گے چناچہ سب سے پہلے حضرت بلال نے اذان کہی دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عمر نے بھی آ کر اپنا یہی خواب بیان کیا تھا۔ لیکن ان سے پہلے حضرت زید آچکے تھے۔ تیسری تبدیلی یہ ہوئی کہ پہلے یہ دستور تھا کہ حضور ﷺ نماز پڑھا رہے ہیں کوئی آیا کچھ رکعتیں ہوچکی ہیں تو وہ کسی سے دریافت کرتا کہ کتنی رکعتیں ہوچکی ہیں وہ جواب دیتا کہ اتنی رکعتیں پڑھ لی ہیں وہ اتنی رکعتیں ادا کرتا پھر حضور کے ساتھ مل جاتا حضرت معاذ ؓ ایک مرتبہ آئے اور کہنے لگے کہ میں حضور کو جس حال میں پاؤں گا اسی میں مل جاؤں گا اور جو نماز چھوٹ گئی ہے اسے حضور کے سلام پھیرنے کے بعد ادا کروں گا چناچہ انہوں نے یہی کیا اور آنحضرت ﷺ کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی رہی ہوئی رکعتیں ادا کرنے کے لئے کھڑے ہوئے آنحضرت ﷺ نے انہیں دیکھ کر فرمایا معاذ نے تمہارے لئے یہ اچھا طریقہ نکالا ہے تم بھی اب یونہی کیا کرو، یہ تین تبدیلیاں تو نماز کی ہوئیں، روزوں کی تبدیلیاں سنئے اول جب نبی ﷺ مدینہ میں آئے تو ہر مہینہ میں تین روزے رکھتے تھے اور عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ) 2۔ البقرۃ :183) نازل فرما کر رمضان کے روزے فرض کئے۔ دوسرا ابتدائی یہ حکم تھا کہ جو چاہے روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے اور فدیہ دے دے پھر یہ آیت ( فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ) 2۔ البقرۃ :185) تم میں سے جو شخص رمضان کے مہینے میں قیام کی حالت میں ہو وہ روزہ رکھا کرے پس جو شخص مقیم ہو مسافر نہ ہو تندرست ہو بیمار نہ ہو اس پر روزہ رکھنا ضروری ہوگیا ہاں بیمار اور مسافر کے لئے رخصت ملی اور ایسا بوڑھا انتہائی جو روزے کی طاقت ہی نہ رکھتا ہو اسے بھی رخصت دی گئی۔ تیسری حالت یہ ہے کہ ابتداء میں کھانا پینا عورتوں کے پاس آنا سونے سے پہلے پہلے جائز تھا سو گیا تو پھر گو رات کو ہی جاگے لیکن کھانا پینا اور جماع اس کے لئے منع تھا پھر صرمہ نامی ایک انصاری صحابی دن بھر کام کاج کر کے رات کو تھکے ہارے گھر آئے عشاء کی نماز ادا کی اور نیند آگئی دوسرے دن کچھ کھائے پئے بغیر روزہ رکھا لیکن حالت بہت نازک ہوگئی حضور ﷺ نے پوچھا کہ یہ کیا بات ؟ تو انہوں نے سارا واقعہ کہہ دیا، ادھر یہ واقعہ تو ان کے ساتھ ہوا ادھر حضرت عمر ؓ نے سو جانے کے بعد اپنی بیوی صاحبہ سے مجامعت کرلی اور حضور کے پاس آکر حسرت و افسوس کے ساتھ اپنے اس قصور کا اقرار کیا جس پر آیت ( اُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَام الرَّفَثُ اِلٰى نِسَاۗىِٕكُمْ ) 2۔ البقرۃ :187) سے ( ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَى الَّيْلِ ۚ وَلَا تُـبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ ۙ فِي الْمَسٰجِدِ ) 2۔ البقرۃ :187) تک نازل ہوئی اور مغرب کے بعد سے لے کر صبح صادق کے طلوع ہونے تک رمضان کی راتوں میں کھانے پینے اور مجامعت کرنے کی رخصت دے دی گئی، بخاری مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا جب رمضان کی فرضیت نازل ہوئی تو اب ضروری نہ رہا جو چاہتا رکھ لیتا جو نہ چاہتا نہ رکھتا، حضرت ابن مسعود ؓ سے بھی یہ مروی ہے۔ آیت ( وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ ) 2۔ البقرۃ :184) کا مطلب حضرت معاذ بیان فرماتے ہی کہ ابتداء اسلام میں جو چاہتا روزہ رکھتا جو چاہتا نہ رکھتا اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا۔ حضرت سلمہ بن اکوع سے بھی صحیح بخاری میں ایک روایت آئی ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے وقت جو شخص چاہتا افطار کرتا اور فدیہ دے دیتا یہاں تک کہ اس کے بعد کی آیت اتری اور یہ منسوخ ہوئی، حضرت ابن عمر بھی اسے منسوخ کہتے ہیں حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہ منسوخ نہیں مراد اس سے بوڑھا مرد اور بڑھیا عورت ہے جسے روزے کی طاقت نہ ہو، ابن ابی لیلیٰ ، کہتے ہیں عطار ؒ کے پاس رمضان میں گیا دیکھا کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں مجھے دیکھ کر فرمانے لگے کہ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ اس آیت نے پہلی آیت کا حکم منسوخ کردیا، اب یہ حکم صرف بہت زیادہ بےطاقت بوڑھے بڑے کے لئے ہے، حاصل کلام یہ ہے کہ جو شخص مقیم ہو اور تندرست ہو اس کے لئے یہ حکم نہیں بلکہ اسے روزہ ہی رکھنا ہوگا ہاں ایسے بوڑھے، بڑے معمر اور کمزور آدمی جنہیں روزے کی طاقت ہی نہ ہو روزہ نہ رکھیں اور نہ ان پر قضا ضروری ہے لیکن اگر وہ مالدار ہوں تو آیا انہیں کفارہ بھی دینا پڑے گا یا نہیں ہمیں اختلاف ہے امام شافعی کا ایک قول تو یہ ہے کہ چونکہ اس میں روزے کی طاقت نہیں لہذا یہ بھی مثل بچے کے ہے نہ اس پر کفارہ ہے نہ اس پر قضا کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، دوسرا قول حضرت امام شافعی ؒ کا یہ ہے کہ اس کے ذمہ کفارہ ہے، اکثر علماء کرام کا بھی یہی فیصلہ ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ کی تفسیروں سے بھی یہی ثابت ہوا ہے امام بخاری ؒ کا پسندیدہ مسئلہ بھی یہی ہے وہ فرماتے ہیں کہ بہت بڑی عمر والا بوڑھا جسے روزے کی طاقت نہ ہو تو فدیہ دے دے جیسے حضرت انس بن مالک ؓ نے اپنی بڑی عمر میں بڑھاپے کے آخری دنوں میں سال دو سال تک روزہ نہ رکھا اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو روٹی گوشت کھلا دیا کرے، مسند ابو لیلیٰ میں ہے کہ جب حضرت انس ؓ روزہ رکھنے سے عاجز ہوگئے تو گوشت روٹی تیار کر کے تیس مسکینوں کو بلا کر کھلا دیا کرتے، اسی طرح حمل والی اور دودھ پلانے والی عورت کے بارے میں جب انہیں اپنی جان کا یا اپنے بچے کی جان کا خوف ہو علماء میں سخت اختلاف ہے، بعض تو کہتے ہیں کہ وہ روزہ نہ رکھیں فدیہ دے دیں اور جب خوف ہٹ جائے قضا بھی کرلیں بعض کہتے ہیں صرف فدیہ ہے قضا نہ کریں، بعض کہتے ہیں قضا کرلیں فدیہ نہیں اور بعض کا قول ہے کہ نہ روزہ رکھیں نہ فدیہ نہ قضا کریں امام ابن کثیر نے اس مسئلہ کو اپنی کتاب الصیام میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے فلحمد للہ ( بظاہر یہی بات دلائل سے زیادہ قریب نظر آتی ہے کہ یہ دونوں ایسی حالت میں روزہ رکھیں اور بعد میں قضا کریں۔ نہ فدیہ دیں۔ )
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
سورة البقرة کے نصف آخر کے مضامین کے بارے میں عرض کیا جا چکا ہے کہ یہ چار لڑیوں کی مانند ہیں جو آپس میں گتھی ہوئی ہیں۔ اب ان میں سے عبادات والی لڑی آرہی ہے اور زیر مطالعہ رکوع میں صوم کی عبادت کا تذکرہ ہے۔ جہاں تک صلوٰۃ نماز کا تعلق ہے تو اس کا ذکر مکی سورتوں میں بےتحاشا آیا ہے ‘ لیکن مکی دور میں صوم کا بطور عبادت کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔عربوں کے ہاں صوم یا صیام کے لفظ کا اطلاق اور مفہوم کیا تھا اور اس سے وہ کیا مراد لیتے تھے ‘ اسے ذراسمجھ لیجیے ! عرب خود تو روزہ نہیں رکھتے تھے ‘ البتہ اپنے گھوڑوں کو رکھواتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اکثر عربوں کا پیشہ غارت گری اور لوٹ مار تھا۔ پھر مختلف قبائل کے مابین وقفہ وقفہ سے جنگیں ہوتی رہتی تھیں۔ ان کاموں کے لیے ان کو گھوڑوں کی ضرورت تھی اور گھوڑا اس مقصد کے لیے نہایت موزوں جانور تھا کہ اس پر بیٹھ کر تیزی سے جائیں ‘ لوٹ مار کریں ‘ شب خون ماریں اور تیزی سے واپس آجائیں۔ اونٹ تیز رفتار جانور نہیں ہے ‘ پھر وہ گھوڑے کے مقابلے میں تیزی سے اپنا رخ بھی نہیں پھیر سکتا۔ مگر گھوڑا جہاں تیز رفتار جانور ہے ‘ وہاں تنک مزاج اور نازک مزاج بھی ہے۔ چناچہ وہ تربیت کے لیے ان گھوڑوں سے یہ مشقت کراتے تھے کہ ان کو بھوکا پیاسا رکھتے تھے اور ان کے ُ منہ پر ایک تو بڑا چڑھا دیتے تھے۔ اس عمل کو وہ صوم کہتے تھے اور جس گھوڑے پر یہ عمل کیا جائے اسے وہ صائم کہتے تھے ‘ یعنی یہ روزہ سے ہے۔ اس طرح وہ گھوڑوں کو بھوک پیاس جھیلنے کا عادی بناتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مہم کے دوران گھوڑا بھوک پیاس برداشت نہ کرسکے اور جی ہار دے۔ اس طرح تو سوار کی جان شدید خطرے میں پڑجائے گی اور اسے زندگی کے لالے پڑجائیں گے ! مزید یہ کہ عرب اس طور پر گھوڑوں کو بھوکا پیاسا رکھ کر موسم گرما اور لو کی حالت میں انہیں لے کر میدان میں جا کھڑے ہوتے تھے۔ وہ اپنی حفاظت کے لیے اپنے سروں پر ڈھاٹے باندھ کر اور جسم پر کپڑے وغیرہ لپیٹ کر ان گھوڑوں کی پیٹھ پر سوار رہتے تھے اور ان گھوڑوں کا منہ سیدھا لو اور باد صرصر کے تھپیڑوں کی طرف رکھتے تھے ‘ تاکہ ان کے اندر بھوک پیاس کے ساتھ ساتھ لو کے ان تھپیڑوں کو برداشت کرنے کی عادت بھی پڑجائے ‘ تاکہ کسی ڈاکے کی مہم یا قبائلی جنگ کے موقع پر گھوڑا سوار کے قابو میں رہے اور بھوک پیاس یا باد صرصر کے تھپیڑوں کو برداشت کر کے سوار کی مرضی کے مطابق مطلوبہُ رخ برقرار رکھے اور اس سے منہ نہ پھیرے۔ تو عرب اپنے گھوڑوں کو بھوکا پیاسا رکھ کر جو مشقت کراتے تھے اس پر وہ صوم کے لفظ یعنی روزہ کا اطلاق کرتے تھے۔لیکن رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو یہاں یہود کے ہاں روزہ رکھنے کا رواج تھا۔ وہ عاشورہ کا روزہ بھی رکھتے تھے ‘ اس لیے کہ اس روز بنی اسرائیل کو فرعونیوں سے نجات ملی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو ابتداءً ہر مہینے ایامِّ بیض کے تین روزے رکھنے کا حکم دیا۔ اس رکوع کی ابتدائی دو آیات میں غالباً اسی کی توثیق ہے۔ اگر ابتدا ہی میں پورے مہینے کے روزے فرض کردیے جاتے تو وہ یقیناً شاق گزرتے۔ ظاہر بات ہے کہ مہینے سخت گرم بھی ہوسکتے ہیں۔ اب اگر تیس کے تیس روزے ایک ہی مہینے میں فرض کردیے گئے ہوتے اور وہ جون جولائی کے ہوتے تو جان ہی تو نکل جاتی۔ چناچہ بہترین تدبیر یہ کی گئی کہ ہر مہینے میں تین دن کے روزے رکھنے کا حکم دیا گیا اور یہ روزے مختلف موسموں میں آتے رہے۔ پھر کچھ عرصے کے بعد رمضان کے روزے فرض کیے گئے۔ ہر مہینے میں تین دن کے روزوں کا جو ابتدائی حکم تھا اس میں علی الاطلاق یہ اجازت تھی کہ جو شخص یہ روزہ نہ رکھے وہ اس کا فدیہ دے ‘ اگرچہ وہ بیمار یا مسافر نہ ہو اور روزہ رکھنے کی طاقت بھی رکھتا ہو۔ جب رمضان کے روزوں کی فرضیت کا حکم آگیا تو اب یہ رخصت ختم کردی گئی۔ البتہ رسول اللہ ﷺ نے فدیہ کی اس رخصت کو ایسے شخص کے لیے باقی رکھا جو بہت بوڑھا ہے ‘ یا کسی ایسی سخت بیماری میں مبتلا ہے کہ روزہ رکھنے سے اس کے لیے جان کی ہلاکت کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔ یہ ہے ان آیات کی تاویل جس پر میں بہت عرصہ پہلے پہنچ گیا تھا ‘ لیکن چونکہ اکثر مفسرین نے یہ بات نہیں لکھی اس لیے میں اسے بیان کرنے سے جھجکتا رہا۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ مولانا انور شاہ کا شمیری رح کی رائے یہی ہے تو مجھے اپنی رائے پر اعتماد ہوگیا۔ پھر مجھے اس کا ذکر تفسیر کبیر میں امام رازی رح کے ہاں بھی مل گیا کہ متقدمین کے ہاں یہ رائے موجود ہے کہ روزے سے متعلق پہلی دو آیتیں 183 ‘ 184 رمضان کے روزے سے متعلق نہیں ہیں ‘ بلکہ وہ ایام بیض کے روزوں سے متعلق ہیں۔ ایام بیض کے روزے رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد بھی نفلاً رکھے ہیں۔روزے کے احکام پر مشتمل یہ رکوع چھ آیتوں پر مشتمل ہے اور یہ اس اعتبار سے ایک عجیب مقام ہے کہ اس ایک جگہ روزے کا تذکرہ جامعیت کے ساتھ آگیا ہے۔ قرآن مجید میں دیگراحکام بہت دفعہ آئے ہیں۔ نماز کے احکام بہت سے مقامات پر آئے ہیں۔ کہیں وضو کے احکام آئے ہیں تو کہیں تیمم کے ‘ کہیں نماز قصر اور نماز خوف کا ذکر ہے۔ لیکن صوم کی عبادت پر یہ کل چھ آیات ہیں ‘ جن میں اس کی حکمت ‘ اس کی غرض وغایت اور اس کے احکام سب کے سب ایک جگہ آگئے ہیں۔ فرمایا :آیت 183 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ وہ جنگ کے لیے گھوڑے کو تیار کرواتے تھے ‘ تمہیں تقویٰ کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا ہے۔ روزے کی مشق تم سے اس لیے کرائی جا رہی ہے تاکہ تم بھوک کو قابو میں رکھ سکو ‘ شہوت کو قابو میں رکھ سکو ‘ پیاس کو برداشت کرسکو۔ تمہیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ کے لیے نکلنا ہوگا ‘ اس میں بھوک بھی آئے گی ‘ پیاس بھی آئے گی۔ اپنے آپ کو جہاد و قتال کے لیے تیار کرو۔ سورة البقرة کے اگلے رکوع سے قتال کی بحث شروع ہوجائے گی۔ چناچہ روزے کی یہ بحث گویا قتال کے لیے بطور تمہیدآ رہی ہے۔
ياأيها الذين آمنوا كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم لعلكم تتقون
سورة: البقرة - آية: ( 183 ) - جزء: ( 2 ) - صفحة: ( 28 )Surah baqarah Ayat 183 meaning in urdu
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیروؤں پر فرض کیے گئے تھے اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- نوح نے کہا کہ مجھے کیا معلوم کہ وہ کیا کرتے ہیں
- (یہ سب کچھ) تمہارے اور تمہارے چارپایوں کے لیے بنایا
- (لیکن انہوں نے عہد کو توڑ ڈالا) تو ان کے عہد توڑ دینے اور خدا
- جن لوگوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی ان کی مثال بری ہے اور انہوں
- اور ان دونوں کو کتاب واضح (المطالب) عنایت کی
- کیا تم بہرے کو سنا سکتے ہو یا اندھے کو رستہ دکھا سکتے ہو اور
- اور ان کو بہشت میں جس سے انہیں شناسا کر رکھا ہے داخل کرے گا
- اور جب تم عورتوں کو (دو دفعہ) طلاق دے چکو اور ان کی عدت پوری
- تو (مشرکو تم) زمین میں چار مہینے چل پھر لو اور جان رکھو کہ تم
- میرا مددگار تو خدا ہی ہے جس نے کتاب (برحق) نازل کی۔ اور نیک لوگوں
Quran surahs in English :
Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers