Surah Al Anbiya Ayat 19 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَلَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَمَنْ عِندَهُ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ﴾
[ الأنبياء: 19]
اور جو لوگ آسمانوں میں اور جو زمین میں ہیں سب اسی کے (مملوک اور اُسی کا مال) ہیں۔ اور جو (فرشتے) اُس کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے نہ کنیاتے ہیں اور نہ اکتاتے ہیں
Surah Al Anbiya Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) سب اسی کی ملک اور اسی کے غلام ہیں، پھر جب تم کسی غلام کو اپنا بیٹا اور کسی لونڈی کو بیوی بنانے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ تو اللہ تعالٰی اپنے مملوکین اور غلاموں میں سے بعض کو بیٹا اور بعض کو بیوی کس طرح بنا سکتا ہے؟۔
( 2 ) اس سے مراد فرشتے ہیں، وہ بھی اس کے غلام اور بندے ہیں، ان الفاظ سے ان کا شرف و اکرام بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ اس کی بارگاہ کے مقربین ہیں۔ اس کی بیٹیاں نہیں ہیں جیسا کہ مشرکین کا عقیدہ تھا۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
آسمان و زمین کوئی کھیل تماشہ نہیں آسمان و زمین کو اللہ تعالیٰ نے عدل سے پیدا کیا ہے تاکہ بروں کو سزا اور نیکوں کو جزا دے۔ اس نے انہیں بیکار اور کھیل تماشے کے طور پر پیدا نہیں کیا۔ اور آیت میں اس مضمون کے ساتھ ہی بیان ہے کہ یہ گمان تو کفار کا ہے جن کے لئے جہنم کی آگ تیار ہے۔ دوسری آیت کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ اگر ہم کھیل تماشہ ہی چاہتے تو اسے بنالیتے۔ ایک معنی یہ ہیں کہ اگر ہم عورت کرنا چاہتے۔ لہو کے معنی اہل یمن کے نزدیک بیوی کے بھی آتے ہیں۔ یعنی یہ دونوں معنے ہے اگر بیوی بنانا چاہتے تو حورعین میں سے جو ہمارے پاس ہے کسی کو بنا لیتے۔ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اگر ہم اولاد چاہتے۔ لیکن یہ دونوں معنی آپس میں لازم ملزوم ہیں۔ بیوی کے ساتھ ہی اولاد ہے۔ جیسے فرمان ہے آیت ( لَوْ اَرَاد اللّٰهُ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفٰى مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ ۙ سُبْحٰنَهٗ ۭ هُوَ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ) 39۔ الزمر:4) ، یعنی اگر اللہ کو یہی منظور ہوتا کہ اس کی اولاد ہو تو مخلوق میں کسی اعلیٰ درجے کی مخلوق کو یہ منصب عطا فرماتا لیکن وہ اس بات سے پاک اور بہت دور ہے۔ اس کی توحید اور غلبہ کے خلاف ہے کہ اس کی اولاد ہو۔ پس وہ مطلق اولاد سے پاک ہے نہ عیسیٰ اس کا بیٹا ہے نہ عزیر۔ نہ فرشتے اس کی لڑکیاں ہیں۔ ان عیسائیوں یہودیوں اور کفار مکہ کی لغویات اور تہمت سے اللہ واحد قہار پاک ہے اور بلند ہے۔ آیت ( ان کنا فاعلین ) میں ان کو نافیہ کہا گیا ہے یعنی ہم یہ کرنے والے ہی نہ تھے۔ بلکہ مجاہد ؒ کا قول ہے کہ قرآن مجید میں ہر جگہ ان نفی کے لئے ہی ہے۔ فرشتوں کا تذکرہ ہم حق کو واضح کرتے ہیں، اسے کھول کر بیان کرتے ہیں جس سے باطل دب جاتا ہے، ٹوٹ کر چورا ہوجاتا ہے اور فورا ہٹ جاتا ہے۔ وہ ہے بھی لائق، وہ ٹھہر نہیں سکتا نہ جم سکتا ہے نہ دیر تک قائم رہ سکتا ہے۔ اللہ کے لئے جو لوگ اولادیں ٹھیرا رہے ہیں ان کے اس واہی قول کی وجہ سے ان کے لئے ویل ہے انہیں پوری خرابی ہے۔ پھر ارشاد فرماتا ہے کہ جن فرشتوں کو تم اللہ کی لڑکیاں کہتے ہو ان کا حال سنو اور اللہ کی الوہیت کی عظمت دیکھو آسمان و زمین کی ہر چیز اسی کی ملکیت میں ہے۔ فرشتے اس کی عبادت میں مشغول ہیں۔ ناممکن ہے کہ کسی وقت سرکشی کریں نہ حضرت مسیح کو بندہ رب ہونے سے شرم، نہ فرشتوں کو اللہ کی عبادت سے عار، نہ ان میں سے کوئی تکبر کرے یا عبادت سے جی چرائے اور جو کوئی ایسا کرے تو ایک وقت آرہا ہے کہ وہ اللہ کے سامنے میدان محشر میں سب کے ساتھ ہوگا اور اپنا کیا بھرے گا۔ یہ بزرگ فرشتے اس کی عبادت سے تھکتے بھی نہیں، گھبراتے بھی نہیں، سستی اور کاہلی ان کے پاس بھی نہیں پھٹکتی۔ دن رات اللہ کی فرماں برداری میں اس کی عبادت میں اس کی تسبیح واطاعت میں لگے ہوئے ہیں۔ نیت اور عمل دونوں موجود ہیں۔ اللہ کی کوئی نافرمانی نہیں کرتے نہ کسی فرمان کی تعمیل سے رکتے ہیں۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ صحابہ کے مجمع میں تھے کہ فرمایا لوگو ! جو میں سنتا ہوں کیا تم بھی سنتے ہو ؟ سب نے جواب دیا کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ تو کچھ بھی نہیں سن رہے۔ آپ نے فرمایا میں آسمانوں کی چرچراہٹ سن رہا ہوں اور حق تو یہ ہے کہ اسے چرچرانا ہی چاہے اس لئے کہ اس میں ایک بالشت بھر جگہ ایسی نہیں جہاں کسی نہ کسی فرشتے کا سر سجدے میں نہ ہو۔ عبداللہ حارث بن نوفل فرماتے ہیں میں حضرت کعب احبار ؒ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اس وقت میں چھوٹی عمر کا تھا میں نے ان سے اس آیت کا مطلب پوچھا کہ بولنا چالنا اللہ کا پیغام لے کر جانا عمل کرنا یہ بھی انہیں تسبیح سے نہیں روکتا ؟ میرے اس سوال پر چوکنے ہو کر آپ نے فرمایا یہ بچہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا بنو عبدالمطلب سے ہے آپ نے میری پیشانی چوم لی اور فرمایا پیارے بچے تسبیح ان فرشتوں کے لئے ایسی ہی ہے جیسے ہمارے لئے سانس لینا۔ دیکھو چلتے پھرتے بولتے چالتے تمہارا سانس برابر آتا جاتا رہتا ہے۔ اسی طرح فرشتوں کی تسبیح ہر وقت جاری رہتی ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 18 بَلْ نَقْذِفُ بالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ہُوَ زَاہِقٌ ط ” یہ تاریخ انسانی کا قرآنی فلسفہ ہے۔ دوسری طرف ایک نظریہ سپنگلر کا بھی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ قوموں کی زندگی ایک فرد کی زندگی سے مشابہ ہے۔ جس طرح ایک بچہ پیدا ہوتا ہے ‘ بچپن گزارتا ہے ‘ جوانی کو پہنچتا ہے ‘ بوڑھا ہوتا ہے اور پھر مرجاتا ہے ‘ ایسے ہی دنیا میں قومیں اور ان کی تہذیبیں پیدا ہوتی ہیں ‘ ترقی کرتی ہیں ‘ بام عروج پر پہنچتی ہیں ‘ اور پھر کمزوریوں اور خرابیوں کے باعث زوال پذیر ہو کر ختم ہوجاتی ہیں۔ اس ضمن میں کارل مارکس نے جو Dialectical Materialism کا نظریہ وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو الرعد : 17 کی تشریح پیش کیا ہے ‘ وہ بھی اپنی جگہ اہم ہے۔بہر حال آیت زیر نظر میں جو فلسفہ دیا گیا ہے اس کے مطابق دنیا میں حق و باطل کی کشمکش مسلسل جاری ہے۔ ایک طرف ابلیس ‘ اس کی نسل اور اس کے ایجنٹ ہیں ‘ جبکہ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے نیک بندے ‘ انبیاء ورسل ‘ صدیقین ‘ شہداء اور مؤمنین صادقین ہیں۔ قرآن کے اس فلسفہ کو اقبالؔ نے اس طرح بیان کیا ہے : ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز چراغ مصطفوی ﷺ سے شرار بولہبی مشیتِ الٰہی سے کبھی کبھی یہ کشمکش دھماکہ خیزہو کر باقاعدہ ایک معرکے کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ ایسے مواقع پر اللہ تعالیٰ طالبانِ حق کی مدد کرتا ہے اور ان کی طاقت کے ذریعے باطل کو کچل کر رکھ دیتا ہے۔حق و باطل کا ایسا ہی ایک بہت خوفناک معرکہ قرب قیامت کے زمانے میں ہونے والا ہے۔ یہ جنگوں کا ایک طویل سلسلہ ہوگا جس کو عیسائی روایات میں Armageddon جبکہ احادیث میں ”المَلحَمۃ العُظمٰی “ کا نام دیا گیا ہے۔ علامہ اقبال نے مستقبل کے اس معرکے کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے : دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا اللہ کو پامردئ مؤمن پہ بھروسہ ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا یہاں علامہ اقبال نے لفظ ” تہذیب “ کے ذریعے اسی مخصوص ذہنیت اور سوچ کی طرف اشارہ کیا ہے جس کے تحت فرعون نے اپنے عوام کو ” طَرِیقَتکُمُ المُثْلٰی “ کے نام پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف ابھارنے کی کوشش کی تھی کہ اس وقت تمہارے مثالی تہذیب و تمدن کو بڑا خطرہ درپیش ہے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ کو جب بھی منظور ہوتا ہے کوئی تحریک یا کوئی جمعیت حق کی علمبردار بن کر کھڑی ہوجاتی ہے اور باطل اس سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجاتا ہے۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں ایسی ہی قوم یا جماعت اللہ کے دست قدرت کی وہ تلوار ہے جس سے وہ باطل کا قلع قمع کرتا ہے : صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب !لیکن یہ مقام رفیع صرف وہی قوم حاصل کرسکتی ہے جو قدم قدم پر خود اپنا احتساب کرنے کی پالیسی پر عمل پیراہو۔
وله من في السموات والأرض ومن عنده لا يستكبرون عن عبادته ولا يستحسرون
سورة: الأنبياء - آية: ( 19 ) - جزء: ( 17 ) - صفحة: ( 323 )Surah Al Anbiya Ayat 19 meaning in urdu
زمین اور آسمان میں جو مخلوق بھی ہے اللہ کی ہے اور جو (فرشتے) اس کے پاس ہیں وہ نہ اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر اُس کی بندگی سے سرتابی کرتے ہیں اور نہ ملول ہوتے ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- جس دن دلوں کے بھید جانچے جائیں گے
- جس دن زمین اور پہاڑ کانپنے لگیں اور پہاڑ ایسے بھر بھرے (گویا) ریت کے
- تم ان میں سے بہتوں کو دیکھو گے کہ کافروں سے دوستی رکھتے ہیں انہوں
- تم ان کے مال اور اولاد سے تعجب نہ کرنا۔ خدا چاہتا ہے کہ ان
- اس کا مرجع ہاویہ ہے
- خدا نے مومنوں پر بڑا احسان کیا ہے کہ ان میں انہیں میں سے ایک
- اور میں ان کی طرف کچھ تحفہ بھیجتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ قاصد کیا
- پس تم صبر کرو بیشک خدا کا وعدہ سچا ہے اور (دیکھو) جو لوگ یقین
- تمہیں معلوم نہیں کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت خدا ہی کی ہے، اور خدا
- اے داؤد ہم نے تم کو زمین میں بادشاہ بنایا ہے تو لوگوں میں انصاف
Quran surahs in English :
Download surah Al Anbiya with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Anbiya mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Anbiya Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers