Surah fatah Ayat 2 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿لِّيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا﴾
[ الفتح: 2]
تاکہ خدا تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دے اور تم پر اپنی نعمت پوری کردے اور تمہیں سیدھے رستے چلائے
Surah fatah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اس سے مراد ترک اولیٰ والے معاملات یا وہ امور ہیں جو آپ ( صلى الله عليه وسلم )پنے اپنی فہم واجتہاد سے کیے، لیکن اللہ نے انہیں ناپسند فرمایا، جیسے عبداللہ بن ام مکتوم ( رضي الله عنه ) وغیرہ کا واقعہ ہے جس پر سورۂ عبس کا نزول ہوا، یہ معاملات وامور اگرچہ گناہ اور منافی عصمت نہیں، لیکن آپ( صلى الله عليه وسلم ) کی شان ارفع کے پیش نظر انہیں بھی کوتاہیاں شمار کر لیا گیا، جس پر معافی کا اعلان فرمایا جا رہا ہے۔ لِيَغْفِرَ میں لام تعلیل کے لئے ہے۔ یعنی یہ فتح مبین ان تین چیزوں کا سبب ہے جو آیت میں مذکور ہیں۔ اور یہ مغفرت ذنوب کا سبب، اس اعتبار سے ہے کہ اس صلح کے بعد قبول اسلام کرنے والوں کی تعداد میں بکثرت اضافہ ہوا، جس سے آپ( صلى الله عليه وسلم ) کے اجر عظیم میں بھی خوب اضافہ ہوا اور حسنات، وبلندی درجات میں بھی۔
( 2 ) اس دین کو غالب کرکے جس کی تم دعوت دیتے ہو۔ یا فتح وغلبہ عطا کرکے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ مغفرت اور ہدایت پر استقامت یہی اتمام نعمت ہے ( فتح القدیر )۔
( 3 ) یعنی اس پر استقامت نصیب فرمائے۔ ہدایت کے اعلیٰ سے اعلیٰ درجات سے نوازے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
ذی قعدہ سنہ006ہجری میں رسول اللہ ﷺ عمرہ ادا کرنے کے ارادے سے مدینہ سے مکہ کو چلے لیکن راہ میں مشرکین مکہ نے روک دیا اور مسجد الحرام کی زیارت سے مانع ہوئے پھر وہ لوگ صلح کی طرف جھکے اور حضور ﷺ نے بھی اس بات پر کہ اگلے سال عمرہ ادا کریں گے ان سے صلح کرلی جسے صحابہ کی ایک بڑی جماعت پسند نہ کرتی تھی جس میں خاص قابل ذکر ہستی حضرت عمر فاروق کی ہے آپ نے وہیں اپنی قربانیاں کیں اور لوٹ گئے جس کا پورا واقعہ ابھی اسی سورت کی تفسیر میں آرہا ہے، انشاء اللہ۔ پس لوٹتے ہوئے راہ میں یہ مبارک سورت آپ پر نازل ہوئی جس میں اس واقعہ کا ذکر ہے اور اس صلح کو بااعتبار نتیجہ فتح کہا گیا۔ ابن مسعود وغیرہ سے مروی ہے کہ تم تو فتح فتح مکہ کو کہتے ہو لیکن ہم صلح حدیبیہ کو فتح جانتے تھے۔ حضرت جابر سے بھی یہی مروی ہے، صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت براء فرماتے ہیں تم فتح مکہ کو فتح شمار کرتے ہو اور ہم بیعت الرضوان کے واقعہ حدیبیہ کو فتح گنتے ہیں۔ ہم چودہ سو آدمی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس موقعہ پر تھے حدیبیہ نامی ایک کنواں تھا ہم نے اس میں سے پانی اپنی ضرورت کے مطابق لینا شروع کیا تھوڑی دیر میں پانی بالکل ختم ہوگیا ایک قطرہ بھی نہ بچا آخر پانی نہ ہونے کی شکایت حضور ﷺ کے کانوں میں پہنچی آپ اس کنویں کے پاس آئے اس کے کنارے بیٹھ گئے اور پانی کا برتن منگوا کر وضو کیا جس میں کلی بھی کی پھر کچھ دعا کی اور وہ پانی اس کنویں میں ڈلوا دیا تھوڑی دیر بعد جو ہم نے دیکھا تو وہ تو پانی سے لبالب بھرا ہوا تھا ہم نے پیا جانوروں نے بھی پیا اپنی حاجتیں پوری کیں اور سارے برتن بھر لئے۔ مسند احمد میں حضرت عمر بن خطاب سے مروی ہے کہ ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا تین مرتبہ میں نے آپ سے کچھ پوچھا آپ نے کوئی جواب نہ دیا اب تو مجھے سخت ندامت ہوئی اس امر پر کہ افسوس میں نے حضور ﷺ کو تکلیف دی آپ جواب دینا نہیں چاہتے اور میں خوامخواہ سر ہوتا رہا۔ پھر مجھے ڈر لگنے لگا کہ میری اس بےادبی پر میرے بارے میں کوئی وحی آسمان سے نہ نازل ہو چناچہ میں نے اپنی سواری کو تیز کیا اور آگے نکل گیا تھوڑی دیر گذری تھی کہ میں نے سنا کوئی منادی میرے نام کی ندا کر رہا ہے میں نے جواب دیا تو اس نے کہا چلو تمہیں حضور ﷺ یاد فرماتے ہیں اب تو میرے ہوش گم ہوگئے کہ ضرور کوئی وحی نازل ہوئی اور میں ہلاک ہوا جلدی جلدی حاضر حضور ﷺ کے پاس حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا گذشتہ شب مجھ پر ایک سورت اتری ہے جو مجھے دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے پھر آپ نے آیت ( اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا ۙ ) 48۔ الفتح:1) ، تلاوت کی۔ یہ حدیث بخاری ترمذی اور نسائی میں بھی ہے حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں حدیبیہ سے لوٹتے ہوئے آیت ( لیغفرک لک اللہ ) الخ، نازل ہوئی تو حضور ﷺ نے فرمایا مجھ پر ایک آیت اتاری گئی ہے جو مجھے روئے زمین سے زیادہ محبوب ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھ سنائی صحابہ آپ کو مبارکباد دینے لگے اور کہا حضور ﷺ یہ تو ہوئی آپ کے لئے ہمارے لئے کیا ہے ؟ اس پر یہ آیت ( لِّيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا وَيُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ ۭ وَكَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللّٰهِ فَوْزًا عَظِيْمًا ۙ ) 48۔ الفتح:5) نازل ہوئی ( بخاری و مسلم ) حضرت مجمع بن حارثہ انصاری جو قاری قرآن تھے فرماتے ہیں حدیبیہ سے ہم واپس آرہے تھے کہ میں نے دیکھا کہ لوگ اونٹوں کو بھگائے لئے جا رہے ہیں پوچھا کیا بات ہے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ پر کوئی وحی نازل ہوئی ہے تو ہم لوگ بھی اپنے اونٹوں کو دوڑاتے ہوئے سب کے ساتھ پہنچے آپ اس وقت کراع الغمیم میں تھے جب سب جمع ہوگئے تو آپ نے یہ سورت تلاوت کر کے سنائی تھی ایک صحابی نے کہا یا رسول اللہ ﷺ کیا یہ فتح ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے یہ فتح ہے، خیبر کی تقسیم صرف انہی پر کی گئی جو حدیبیہ میں موجود تھے اٹھارہ حصے بنائے گئے کل لشکر پندرہ سو کا تھا جس میں تین سو گھوڑے سوار تھے پس سوار کو دوہرا حصہ ملا اور پیدل کو اکہرا۔ ( ابو داؤد وغیرہ ) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں حدیبیہ سے آتے ہوئے ایک جگہ رات گذارنے کیلئے ہم اتر کر سو گئے تو ایسے سوئے کہ سورج نکلنے کے بعد جاگے، دیکھا رسول اللہ ﷺ بھی سوئے ہوئے ہیں ہم نے کہا آپ کو جگانا چاہیے کہ آپ خود جاگ گئے اور فرمانے لگے جو کچھ کرتے تھے کرو اور اسی طرح کرے جو سو جائے یا بھول جائے۔ اسی سفر میں حضور ﷺ کی اونٹنی کہیں گم ہوگئی ہم ڈھونڈنے نکلے تو دیکھا کہ ایک درخت میں نکیل اٹک گئی ہے اور وہ رکی کھڑی ہے اسے کھول کر حضور ﷺ کے پاس لائے آپ سوار ہوئے اور ہم نے کوچ کیا ناگہاں راستے میں ہی آپ پر وحی آنے لگی وحی کے وقت آپ پر بہت دشواری ہوتی تھی جب وحی ہٹ گئی تو آپ نے ہمیں بتایا کہ آپ پر سورة ( اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا ۙ ) 48۔ الفتح:1) ، اتری ہے ( ابو داؤد، ترمذی مسند وغیرہ ) حضور ﷺ نوافل تہجد وغیرہ میں اس قدر وقت لگاتے کہ پیروں پر ورم چڑھ جاتا تو آپ سے کہا گیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف نہیں فرما دیئے ؟ آپ نے جواب دیا کیا پھر میں اللہ کا شکر گذار غلام نہ بنوں ؟ ( بخاری ومسلم ) اور روایت میں ہے کہ یہ پوچھنے والی ام المومنین عائشہ تھیں ( مسلم ) پس مبین سے مراد کھلی صریح صاف ظاہر ہے اور فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے جس کی وجہ سے بڑی خیرو برکت حاصل ہوئی لوگوں میں امن وامان ہوا مومن کافر میں بول چال شروع ہوگئی علم اور ایمان کے پھیلانے کا موقعہ ملا آپ کے اگلے پچھلے گناہوں کی معافی یہ آپ کا خاصہ ہے جس میں کوئی آپ کا شریک نہیں۔ ہاں بعض اعمال کے ثواب میں یہ الفاظ اوروں کے لئے بھی آئے ہیں، اس میں حضور ﷺ کی بہت بڑی شرافت و عظمت ہے آپ اپنے تمام کاموں میں بھلائی استقامت اور فرمانبرداری الہٰی پر مستقیم تھے ایسے کہ اولین و آخرین میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا آپ تمام انسانوں میں سب سے زیادہ اکمل انسان اور دنیا اور آخرت میں کم اولاد آدم کے سردار اور رہبر تھے۔ اور چونکہ حضور ﷺ سب سے زیادہ اللہ کے فرمانبردار اور سب سے زیادہ اللہ کے احکام کا لحاظ کرنے والے تھے اسی لئے جب آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر بیٹھ گئی تو آپ نے فرمایا اسے ہاتھیوں کے روکنے والے نے روک لیا ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آج یہ کفار مجھ سے جو مانگیں گے دوں گا بشرطیکہ اللہ کی حرمت کی ہتک نہ ہو پس جب آپ نے اللہ کی مان لی اور صلح کو قبول کرلیا تو اللہ عزوجل نے فتح سورت اتاری اور دنیا اور آخرت میں اپنی نعمتیں آپ پر پوری کیں اور شرع عظیم اور دین قدیم کی طرف آپ کی رہبری کی اور آپ کے خشوع و خضوع کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بلند وبالا کیا آپ کی تواضع، فروتنی، عاجزی اور انکساری کے بدلے آپ کو عز و جاہ مرتبہ منصب عطا فرمایا آپ کے دشمنوں پر آپ کو غلبہ دیا چناچہ خود آپ کا فرمان ہے بندہ درگذر کرنے سے عزت میں بڑھ جاتا ہے اور عاجزی اور انکساری کرنے سے بلندی اور عالی رتبہ حاصل کرلیتا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب کا قول ہے کہ تو نے کسی کو جس نے تیرے بارے میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہو ایسی سزا نہیں دی کہ تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 2 { لِّیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ } ” تاکہ اللہ بخش دے آپ کی کوئی کوتاہیاں جو پیچھے ہوئیں اور جو بعد میں ہوئیں “ رسول اللہ ﷺ کے حوالے سے لفظ ” ذنب “ کی وضاحت کے لیے سورة محمد ﷺ کی آیت 19 کی تشریح ملاحظہ ہو۔ یہاں بھی ذَنْبِکَ آپ کی کوتاہیوں سے مراد وہ خامیاں اور کوتاہیاں ہیں جو غلبہ اسلام کی اس جدوجہد میں رہ گئی تھیں جو رسول اللہ ﷺ کی قیادت میں مسلمان کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے ان ساری کمزوریوں اور کوتاہیوں سے درگزر کر کے محض اپنے فضل سے ان کی تلافی کردی ہے اور آپ ﷺ کے لیے فتح و نصرت کا دروازہ کھول دیا ہے۔ { وَیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا } ” اور تاکہ اللہ اپنی نعمت کا اتمام فرما دے آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کی راہنمائی کرے سیدھے راستے کی طرف۔ “ بظاہر اس فقرے سے بھی لفظ ” ذنب “ کی طرح اشکال پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ تو پہلے ہی سیدھی راہ پر تھے بلکہ { وَاِنَّکَ لَتَھْدِیْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔ } الشوریٰ کا مصداق تھے ‘ اور آپ ﷺ کے تمام اہل ایمان ساتھی بھی پچھلے اٹھارہ برسوں سے سربکف ہو کر اسی راہ ہدایت پر گامزن تھے تو پھر یہاں { وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا } کے فرمان کا کیا مفہوم ہے ؟ اس بارے میں مفسرین کی بہت سی آراء ہیں ‘ جن کی تفصیل بیان کرنا یہاں ممکن نہیں۔ بہر حال میرے نزدیک اس کی توجیہہ وہی ہے جو میں قبل ازیں سورة محمد کی آیت 19 کے ضمن میں لفظ ” ذنب “ کی وضاحت کے حوالے سے بیان کرچکا ہوں کہ اے نبی ﷺ ! آپ اپنے اہل ایمان ساتھیوں کے ساتھ اقامت ِدین کے لیے جو مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں ‘ اس حوالے سے اگر اہل ایمان میں سے کسی سے اب تک کسی قسم کی کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو اللہ تعالیٰ اس فتح مبین کی برکت سے ایسی تمام کوتاہیوں کی تلافی فرما دے گا۔ اس کے بعد اللہ کی حکومت قائم کرنے کے لیے آپ لوگوں کی یہ جدوجہد تیر کی طرح سیدھی اپنے ہدف کی طرف تیزی سے بڑھے گی اور ” اظہارِ دین حق “ کا عملی مظاہرہ اب بہت جلد دنیا کی نظروں کے سامنے آجائے گا۔ گویا اس مقام پر آپ ﷺ کو سیدھا راستہ دکھانے کا مطلب فتح و کامرانی کا راستہ دکھانا ہے۔ جہاں تک آیت زیر مطالعہ میں ” اتمامِ نعمت “ کے وعدے کا تعلق ہے تو اس سے مراد دراصل دین کا اتمام ہی ہے جس کے بارے میں یہ خوشخبری ہم سورة المائدۃ کی آیت 3 میں پڑھ آئے ہیں : { اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُم وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَـکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًاط } ” آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کی تکمیل فرما دی ہے ‘ اور تم پر اپنی نعمت کا اتمام فرمادیا ہے ‘ اور تمہارے لیے میں نے اسلام کو بحیثیت دین کے پسند کرلیا ہے “۔ البتہ اس اہم مضمون کے درست ادراک کے لیے ضروری ہے کہ دین کے اتمام کی دونوں صورتیں پیش نظر رہیں۔ اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ قرآن میں تمام احکامِ دین بیان کردیے گئے اور شریعت مکمل ہوگئی۔ لیکن دین اسلام چونکہ ایک ضابطہ حیات ہے اس لیے عملی طور پر اس کی تکمیل تب ہی ممکن تھی جب اس کے تحت باقاعدہ ایک حکومت قائم ہوتی اور معاشرے کے اندر اس کے تمام قوانین کی تنفیذ کا مظاہرہ اور نمونہ عملی طور پر سامنے آتا۔ اسی کیفیت کا نام دراصل ” اظہارِ دین “ ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں تین مقامات التوبۃ : 33 ‘ الفتح : 28 ‘ اور الصف : 9 پر { لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ } کے الفاظ میں رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے ” مقصد “ کے طور پر بیان ہوا ہے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں یہاں خصوصی طور پر اسی ” نعمت “ کے اتمام کی طرف اشارہ ہے کہ اے نبی ﷺ ! آپ کے ساتھیوں کی اگلی پچھلی کوتاہیوں کی تلافی کے لیے ہم نے آپ ﷺ کو یہ ” فتح مبین “ عطا کردی ہے۔ اب آپ ﷺ کی جدوجہد تیزی کے ساتھ اپنے ہدف کی طرف بڑھے گی اور جزیرہ نمائے عرب میں بہت جلد ” اظہارِ دین حق “ کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے آجائے گا۔
ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبك وما تأخر ويتم نعمته عليك ويهديك صراطا مستقيما
سورة: الفتح - آية: ( 2 ) - جزء: ( 26 ) - صفحة: ( 511 )Surah fatah Ayat 2 meaning in urdu
تاکہ اللہ تمہاری اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے درگزر فرمائے اور تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کر دے اور تمہیں سیدھا راستہ دکھائے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور تم اس وقت کی (حالت کو) دیکھا کرتے ہو
- جن لوگوں نے اپنی اولاد کو بیوقوفی سے بے سمجھی سے قتل کیا اور خدا
- بھائیو یہ دنیا کی زندگی (چند روزہ) فائدہ اٹھانے کی چیز ہے۔ اور جو آخرت
- کیا وہ خیال رکھتا ہے کہ اس پر کوئی قابو نہ پائے گا
- کچھ شک نہیں کہ خدا نے اسے جو حکم دیا اس نے اس پر عمل
- ان کی آنکھ نہ تو اور طرف مائل ہوئی اور نہ (حد سے) آگے بڑھی
- ان کے مال میں سے زکوٰة قبول کر لو کہ اس سے تم ان کو
- اور جو شخص خدا کی راہ میں گھر بار چھوڑ جائے وہ زمین میں بہت
- اور یہ جس طرح کی نیکی کریں گے اس کی ناقدری نہیں کی جائے گی
- پھر اگر یہ منہ پھیر لیں تو ہم نے تم کو ان پر نگہبان بنا
Quran surahs in English :
Download surah fatah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah fatah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter fatah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers