Surah Saad Ayat 20 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ ص کی آیت نمبر 20 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah Saad ayat 20 best quran tafseer in urdu.
  
   
Verse 20 from surah Saad

﴿وَشَدَدْنَا مُلْكَهُ وَآتَيْنَاهُ الْحِكْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ﴾
[ ص: 20]

Ayat With Urdu Translation

اور ہم نے ان کی بادشاہی کو مستحکم کیا اور ان کو حکمت عطا کی اور (خصومت کی) بات کا فیصلہ (سکھایا)

Surah Saad Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) ہر طرح کی مادی اور روحانی اسباب کے ذریعے سے۔
( 2 ) یعنی نبوت، اصابت رائے، قول سداد اور فعل صواب۔
( 3 ) یعنی مقدمات کے فیصلے کرنے کی صلاحیت، بصیرت وتفقہ اور استدلال وبیان کی قوت۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


ان سب کے واقعات کئی مرتبہ بیان ہوچکے ہیں کہ کس طرح ان پر ان کے گناہوں کی وجہ سے اللہ کے عذاب ٹوٹ پڑے۔ یہی وہ جماعتیں ہیں جو مال اولاد میں قوۃ و طاقت میں زور زور میں تمہارے زمانہ کے ان کٹر کافروں سے بہت بڑھی ہوئی تھیں لیکن امر الٰہی کے آچکنے کے بعد انہیں کوئی چیز کام نہ آئی۔ پھر ان کی تباہی کی وجہ بھی بیان ہوئی کہ یہ رسولوں کے دشمن تھے انہیں جھوٹا کہتے تھے۔ انہیں صرف صور کا انتظار ہے اور اس میں بھی کوئی دیر نہیں بس وہ ایک آواز ہوگی کہ جس کے کان میں پڑی بیہوش و بےجان ہوگیا۔ سوائے ان کے جنہیں رب نے مستثنیٰ کردیا ہے۔ قط کے معنی کتاب اور حصے کے ہیں۔ مشرکین کی بیوقوفی اور ان کا عذابوں کو محال سمجھ کر نڈر ہو کر عذابوں کے طلب کرنے کا ذکر ہو رہا ہے۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ انہوں نے کہا اللہ اگر یہ صحیح ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا اور کوئی درد ناک عذاب آسمانی ہمیں پہنچا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے اپنا جنت کا حصہ یہاں طلب کیا اور یہ جو کچھ کہا یہ بہ وجہ اسے جھوٹا سمجھنے اور محال جاننے کے تھا۔ ابن جریر کا فرمان ہے کہ جس خیر و شر کے وہ دنیا میں مستحق تھے اسے انہوں نے جلد طلب کیا۔ یہی بات ٹھیک ہے ضحاک اور اسماعیل کی تفسیر کا ماحصل بھی یہی ہے۔ واللہ اعلم۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کی اس تکذیب اور ہنسی کے مقابلے میں اپنے نبی ﷺ کو صبر کی تعلیم دی اور برداشت کی تلقین کی۔ حضرت داؤد ؑ کی فراست۔ ذالاید سے مراد علمی اور عملی قوت والا ہے اور صرف قوۃ والے کے معنی بھی ہوتے ہیں جیسے فرمان ہے ( وَالسَّمَاۗءَ بَنَيْنٰهَا بِاَيْىدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ 47؀ ) 51۔ الذاريات:47) ، مجاہد فرماتے ہیں مراد اطاعت کی طاقت ہے۔ حضرت داؤد ؑ کو عبادت کی قدرت اور اسلام کی فقہ عطا فرمائی گی تھی۔ یہ مذکور ہے کہ آپ ہر رات تہائی رات تک تہجد میں کھڑے رہتے تھے اور ایک دن بعد ایک دن ہمیشہ روزے سے رہتے تھے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ اللہ کو سب سے زیادہ پسند حضرت داؤد کی رات کی نماز اور انہی کے روزے تھے۔ آپ آدھی رات سوتے اور تہائی رات قیام کرتے اور چھٹا حصہ رات کا پھر سو جاتے، اور ایک دن روزہ رکھتے ایک دن نہ رکھتے اور دشمنان دین سے جہاد کرنے میں پیٹھ نہ دکھاتے اور اپنے ہر حال میں اللہ کی طرف رغبت و رجوع رکھتے۔ پہاڑوں کو ان کے ساتھ مسخر کردیا تھا۔ وہ آپ کے ساتھ سورج کے ڈھلنے کے وقت اور دن کے آخری وقت تسبیح بیان کرتے۔ جیسے فرمان ہے ( يٰجِبَالُ اَوِّبِيْ مَعَهٗ وَالطَّيْرَ ۚ وَاَلَنَّا لَهُ الْحَدِيْدَ 10 ۙ ) 34۔ سبأ :10) یعنی اللہ نے پہاڑوں کو ان کے ساتھ رجوع کرنے کا حکم دیا تھا۔ اسی طرح پرندے بھی آپ کی آواز سن کر آپ کے ساتھ اللہ کی پاکی بیان کرنے لگ جاتے اڑتے ہوئے پرند پاس سے گذرتے اور آپ توراۃ پڑھتے ہوتے تو آپ کے ساتھ وہ بھی تلاوت میں مشغول ہوجاتے اور اڑنا بھول جاتے بلکہ ٹھہر جاتے۔ حضور ﷺ نے فتح مکہ والے دن ضحیٰ کے وقت حضرت ام ہانی کے گھر میں آٹھ رکعت نماز ادا کی۔ ابن عباس فرماتے ہیں میرا خیال ہے کہ یہ بھی وقت نماز ہے جیسے فرمان ہے ( اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ يُسَبِّحْنَ بالْعَشِيِّ وَالْاِشْرَاقِ 18؀ۙ ) 38۔ ص :18)۔ عبداللہ بن حارث بنی نوفل کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ضحیٰ کی نماز نہیں پڑھتے تھے ایک دن میں انہیں حضرت ام ہانی ؓ کے ہاں لے گیا اور کہا کہ آپ ان سے وہ حدیث بیان کیجئے جو آپ نے مجھ سے بیان فرمائی تھی۔ تو مائی صاحبہ نے فرمایا فتح مکہ والے دن میرے گھر میں میرے پاس اللہ کے رسول ﷺ آئے۔ پھر ایک برتن میں پانی بھروایا اور ایک کپڑا تان کر نہانے بیٹھ گئے پھر گھر کے ایک کونے میں پانی چھڑک کر آٹھ رکعت صلوۃ ضحیٰ کی ادا کیں، ان کا قیام رکوع سجدہ اور جلوس سب قریب قریب برابر تھے حضرت ابن عباس جب یہ سن کر وہاں سے نکلے تو فرمانے لگے پورے قرآن کو میں نے پڑھ لیا میں نہیں جانتا کہ ضحیٰ کی نماز کیا ہے آج مجھے معلوم ہوا کہ ( يُسَبِّحْنَ بالْعَشِيِّ وَالْاِشْرَاقِ 18؀ۙ ) 38۔ ص :18) والی آیت میں بھی اشراق سے مراد یہی ضحیٰ ہے۔ چناچہ اس کے بعد انہوں نے اپنے اگلے قول سے رجوع کرلیا۔ جب حضرت داؤد اللہ کی پاکیزگی اور بزرگی بیان فرماتے تو پرندے بھی ہواؤں میں رک جاتے تھے اور حضرت داؤد کی ماتحتی میں ان کی تسبیح کا ساتھ دیتے تھے۔ اور اس کی سلطنت ہم نے مضبوط کردی اور بادشاہوں کو جن جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے ہم نے اسے سب دے دیں۔ چار ہزار تو ان کی محافظ سپاہ تھی۔ اس قدر فوج تھی کہ ہر رات تینتیس ہزار فوجی پہرے پر چڑھتے تھے لیکن جو آج کی رات آتے پھر سال بھر تک ان کی باری نہ آتی۔ چالیس ہزار آدمی ہر وقت ان کی خدمت میں مسلح تیار رہتے۔ ایک روایت میں ہے کہ ان کے زمانے میں بنی اسرائیل کے دو آدمیوں میں ایک مقدمہ ہوا۔ ایک نے دوسرے پر دعویٰ کیا کہ اس نے میری گائے غصب کرلی ہے۔ دوسرے نے اس جرم سے انکار کیا حضرت داؤد ؑ نے مدعی سے دلیل طلب کی وہ کوئی گواہ پیش نہ کرسکا آپ نے فرمایا اچھا تمہیں کل فیصلہ سنایا جائے گا۔ رات کو حضرت داؤد کو خواب میں حکم ہوا کہ دعویدار کو قتل کردو۔ صبح آپ نے دونوں بلوایا اور حکم دیا کہ اس مدعی کو قتل کردیا جائے اس نے کہا اے اللہ کے نبی آپ میرے ہی قتل کا حکم دے رہے ہیں حالانکہ اس نے میری گائے چرالی ہے۔ آپ نے فرمایا یہ میرا حکم نہیں یہ اللہ کا فیصلہ ہے اور ناممکن ہے کہ یہ ٹل جائے تو تیار ہوجا۔ تب اس نے کہا اے اللہ کے رسول میں اپنے دعوے میں تو سچا ہوں اس نے میری گائے غصب کرلی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو میرے قتل کا حکم میرے اس مقدمے کی وجہ سے نہیں کیا۔ اس کی وجہ اور ہی ہے اور اسے صرف میں ہی جانتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ آج میں نے اسے فریب سے قتل کردیا ہے جس کا کسی کو علم نہیں۔ پس اس کے بدلے میں اللہ نے آپ کو قصاص کا حکم دیا ہے۔ چناچہ وہ قتل کردیا گیا۔ اب تو حضرت داؤد کی ہیبت ہر شخص کے دل میں بیٹھ گئی ہم نے اسے حکمت دی تھی یعنی فہم و عقل، زیرکی اور دانائی، عدل و فراست کتاب اللہ اور اس کی اتباع نبوت و رسالت وغیرہ اور جھگڑوں کا فیصلہ کرنے کا صحیح طریقہ۔ یعنی گواہ لینا قسم کھلوانا، مدعی کے ذمہ بار ثبوت ڈالنا مدعی علیہ سے قسم لینا۔ یہی طریقہ فیصلوں کا انبیاء کا اور نیک لوگوں کا رہا اور یہی طریقہ اس امت میں رائج ہے۔ غرض حضرت داؤد معاملے کی تہ کو پہنچ جاتے تھے اور حق و باطل سچ جھوٹ میں صحیح اور کھرے کا امتیاز کرلیتے تھے۔ کلام بھی آپ کا صاف ہوتا تھا اور حکم بھی عدل پر مبنی ہوتا تھا۔ آپ ہی نے اما بعد کا کہنا ایجاد کیا ہے اور فصل الخطاب سے اس کی طرف بھی اشارہ ہے۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 20 { وَشَدَدْنَا مُلْکَہٗ وَاٰتَیْنٰہُ الْحِکْمَۃَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ } ” اور ہم نے اس کی حکومت کو خوب مضبوط کیا تھا ‘ اور ہم نے اسے حکمت عطا کی تھی اور فیصلہ کن بات کہنے کی صلاحیت بھی۔ “ یعنی ایسی واضح ‘ فیصلہ کن اور دو ٹوک بات جو تمام مخاطبین و متعلقین کے لیے موجب ِاطمینان ہو۔ اب آگے اس سورت میں چند ایسے واقعات کا ذکر ہونے جا رہا ہے جو مشکلات القرآن میں سے ہیں۔ دراصل ان واقعات کا بیان یہاں اشاروں کنایوں میں ہوا ہے۔ تفصیلات کی تحقیق کے لیے اگر ہم تورات کی طرف رجوع کرتے ہیں تو وہاں ان واقعات کے حوالے سے جو معلومات ملتی ہیں وہ انبیائِ کرام علیہ السلام کے شایانِ شان نہیں۔ یوں ہمارے لیے شش و پنج کی سی صورت ِحال بن جاتی ہے۔ بہر حال ان واقعات کے مطالعے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہاں خطا یا لغزش کا کوئی معاملہ ہوا ہے۔ اس ضمن میں یہ نکتہ اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ تک تمام انبیاء و رسل علیہ السلام معصوم تھے ‘ لیکن انسان تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ ان میں کبھی غلطی کا رجحان ہی پیدا نہ ہوا ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر وہ فرشتے ہوتے ‘ انسان نہ رہتے۔ البتہ اللہ تعالیٰ کے خصوصی بندے ہونے کے سبب تمام انبیاء و رسل علیہ السلام ہر وقت اللہ کی حفاظت میں رہتے تھے۔ خود حضور ﷺ کی زندگی میں ہمیں اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ مثلاً کتب سیرت میں حضور ﷺ کے بارے میں آتا ہے کہ جوانی میں ظہورِنبوت سے پہلے دو مرتبہ ایسا ہوا کہ آپ ﷺ نے کسی میلے میں جانے کا ارادہ کیا۔ عرب میں ہر سال بہت سے ایسے میلے لگتے تھے جن میں فحش گوئی اور لہو و لعب کا سامان بھی ہوتا تھا اور بےہودہ مشاعرے بھی سجائے جاتے تھے۔ ان میلوں میں عکاظ کا بازار بہت مشہور تھا جوہر سال خصوصی اہتمام سے سجتا تھا اور اس میں شرکت کے لیے پورے عرب سے لوگ کھنچے چلے آتے تھے۔ روایات کے مطابق آپ ﷺ نے دو مرتبہ ایسے کسی بازار یا میلے میں جانے کا ارادہ فرمایا ‘ مگر دونوں مرتبہ ایسا ہوا کہ راستے میں جہاں آپ ﷺ آرام کے لیے رکے ‘ وہاں آنکھ لگ گئی اور پھر ساری رات سوتے میں ہی گزر گئی۔ یوں اللہ تعالیٰ نے اس لہو و لعب میں شریک ہونے سے آپ ﷺ کو کلیۃً محفوظ رکھا۔ اگرچہ یہ دونوں واقعات حضور ﷺ کے منصب ِنبوت پر فائز ہونے سے پہلے کے ہیں ‘ لیکن ایک نبی تو پیدائشی طور پر ہی نبی ہوتا ہے۔ اس ضمن میں حضور ﷺ کا فرمان ہے : کُنْتُ نَبِیًّا وَآدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ 1 ” میں اس وقت بھی نبی تھا جبکہ آدم علیہ السلام کی روح ابھی ان کے جسد میں نہیں پھونکی گئی تھی “۔ یعنی عالم ارواح میں بھی حضور ﷺ کی روح مبارک کی ایک خصوصی امتیازی شان تھی۔ بہر حال آپ ﷺ کی نبوت کا ظہور چالیس سال کی عمر میں ہوا لیکن آپ ﷺ بچپن سے ہی براہ راست اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہے اور اس حفاظت کا مطلب یہی ہے کہ بشری سطح پر اگر کبھی کوئی غلط ارادہ پیدا ہو بھی گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر عمل کی نوبت نہ آنے دی۔ آئندہ آیات میں جس واقعہ کا ذکر ہے اس کی جو تفصیل محرف شدہ تورات میں ملتی ہے اس میں حضرت دائود علیہ السلام پر بہت شرمناک الزامات عائد کیے گئے ہیں ‘ جو عصمت ِ انبیاء کے یکسر منافی ہیں۔ قرآن حکیم کے اشارات سے اصل بات یوں معلوم ہوتی ہے کہ حضرت دائود علیہ السلام کی بہت سی بیویاں تھیں واضح رہے کہ چار بیویوں کی پابندی شریعت ِمحمدی ﷺ میں ہے ‘ اس سے قبل ایسی کوئی پابندی نہیں تھی۔ اس کے باوجود آپ علیہ السلام کے دل میں ایک ایسی عورت سے نکاح کی رغبت پیدا ہوئی جو کسی دوسرے شخص کے نکاح میں تھی۔ بس اس خیال کا آنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو اس پر متنبہ فرمایا اور اس سے روکنے کی ایک صورت پیدا فرما دی۔

وشددنا ملكه وآتيناه الحكمة وفصل الخطاب

سورة: ص - آية: ( 20 )  - جزء: ( 23 )  -  صفحة: ( 454 )

Surah Saad Ayat 20 meaning in urdu

ہم نے اس کی سلطنت مضبوط کر دی تھے، اس کو حکمت عطا کی تھے اور فیصلہ کن بات کہنے کی صلاحیت بخشی تھی


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. (یعنی) آسمان اور زمین کا اور جو ان دونوں کے درمیان ہے سب کا پروردگار
  2. جو شخص دنیا (کی آسودگی) کا خواہشمند ہو تو ہم اس میں سے جسے چاہتے
  3. (یعنی قیامت کے روز) جس دن ان کی زبانیں ہاتھ اور پاؤں سب ان کے
  4. بےشک خدا ہی آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتوں کا جاننے والا ہے۔ وہ تو
  5. اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب خدا اور
  6. کیا اُنہوں نے اپنے دل میں غور نہیں کیا۔ کہ خدا نے آسمانوں اور زمین
  7. جو لوگ کافر ہوئے (اس دن) نہ تو ان کا مال ہی خدا (کے عذاب)
  8. ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے۔ کیا
  9. اور جب تم کو کوئی دعا دے تو (جواب میں) تم اس سے بہتر (کلمے)
  10. اور ہم نے تم سے پہلے لوگوں میں بھی پیغمبر بھیجے تھے

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah Saad with the voice of the most famous Quran reciters :

surah Saad mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Saad Complete with high quality
surah Saad Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah Saad Bandar Balila
Bandar Balila
surah Saad Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah Saad Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah Saad Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah Saad Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah Saad Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah Saad Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah Saad Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah Saad Fares Abbad
Fares Abbad
surah Saad Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah Saad Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah Saad Al Hosary
Al Hosary
surah Saad Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah Saad Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Sunday, December 22, 2024

Please remember us in your sincere prayers