Surah Fussilat Ayat 20 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿حَتَّىٰ إِذَا مَا جَاءُوهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾
[ فصلت: 20]
یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو ان کے کان اور آنکھیں اور چمڑے (یعنی دوسرے اعضا) ان کے خلاف ان کے اعمال کی شہادت دیں گے
Surah Fussilat Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی جب وہ اس بات سے انکار کریں گے کہ انہوں نے شرک کا ارتکاب کیا، تو اللہ تعالیٰ ان کےمونہوں پر مہر لگا دے گا اور ان کے اعضاء بول کر گواہی دیں گے کہ یہ فلاں فلاں کام کرتے رہے إِذَا مَا جَاءُواهَا میں مَا زائد ہے تاکید کے لیے .
انسان کے اندر پانچ حواس ہیں۔ یہاں دو کا ذکر ہے۔ تیسری جلد ( کھال ) کا ذکر ہے جو مس یا لمس کا آلہ ہے۔ یوں حواس کی تین قسمیں ہو گئیں۔ باقی دو حواس کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ ذوق ( چکھنا ) بوجوہ لمس میں داخل ہے، کیونکہ یہ چکھنا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اس شے کو زبان کی جلد پر نہ رکھا جائے۔ اسی طرح سونگھنا ( شم ) اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ شئے ناک کی جلد پر نہ گزرے۔ اس اعتبار سے جلود کے لفظ میں تین حواس آجاتے ہیں۔ ( فتح القدیر )
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
انسان اپنا دشمن آپ ہے۔یعنی ان مشرکوں سے کہو کہ قیامت کے دن ان کا حشر جہنم کی طرف ہوگا اور داروغہ جہنم ان سب کو جمع کریں گے جیسے فرمان ہے ( وَّنَسُوْقُ الْمُجْرِمِيْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ وِرْدًا 86ۘ ) 19۔ مریم :86) یعنی گنہگاروں کو سخت پیاس کی حالت میں جہنم کی طرف ہانک لے جائیں گے۔ انہیں جہنم کے کنارے کھڑا کردیا جائے گا۔ اور ان کے اعضاء بدن اور کان اور آنکھیں اور پوست ان کے اعمال کی گواہیاں دیں گی۔ تمام اگلے پچھلے عیوب کھل جائیں گے ہر عضو بدن پکار اٹھے گا کہ مجھ سے اس نے یہ یہ گناہ کیا، اس وقت یہ اپنے اعضا کی طرف متوجہ ہو کر انہیں ملامت کریں گے۔ کہ تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی ؟ وہ کہیں گے اللہ تعالیٰ کی حکم بجا آوری کے ماتحت اس نے ہمیں بولنے کی طاقت دی اور ہم نے سچ سچ کہہ سنایا۔ وہی تو تمہارا ابتداء پیدا کرنے والا ہے اسی نے ہر چیز کو زبان عطا فرمائی ہے۔ خالق کی مخالفت اور اس کے حکم کی خلاف ورزی کون کرسکتا ہے ؟ بزار میں ہے کہ حضور ﷺ ایک مرتبہ مسکرائے یا ہنس دیئے پھر فرمایا تم میری ہنسی کی وجہ دریافت نہیں کرتے ؟ صحابہ نے کہا فرمایئے کیا وجہ ہے ؟ آپ نے فرمایا قیامت کے دن بندہ اپنے رب سے جھگڑے گا۔ کہے گا کہ اے اللہ کیا تیرا وعدہ نہیں کہ تو ظلم نہ کرے گا ؟ اللہ تعالیٰ اقرار کرے گا تو بندہ کہے گا کہ میں تو اپنی بد اعمالیوں پر کسی کی شہادت قبول نہیں کرتا۔ اللہ فرمائے گا کیا میری اور میرے بزرگ فرشتوں کی شہادت ناکافی ہے ؟ لیکن پھر بھی وہ بار بار اپنی ہی کہتا چلا جائے گا۔ پس اتمام حجت کیلئے اس کی زبان بند کردی جائے گی اور اس کے اعضاء بدن سے کہا جائے گا کہ اس نے جو جو کیا تھا اس کی گواہی تم دو۔ جب وہ صاف صاف اور سچی گواہی دے دیں گے تو یہ انہیں ملامت کرے گا اور کہے گا کہ میں تو تمہارے ہی بچاؤ کیلئے لڑ جھگڑ رہا تھا۔ ( مسلم نسائی وغیرہ ) حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کافر و منافق کو حساب کیلئے بلایا جائے گا اس کے اعمال اس کے سامنے پیش ہوں گے تو قسمیں کھا کھا کر انکار کرے گا اور کہے گا اے اللہ تیرے فرشتوں نے وہ لکھ لیا ہے جو میں نے ہرگز نہیں کیا فرشتے کہیں گے فلاں دن فلاں جگہ تو نے فلاں عمل نہیں کیا ؟ یہ کہے گا اے اللہ تیری عزت کی قسم میں نے ہرگز نہیں کیا۔ اب منہ پر مہر مار دی جائے گی اور اعضا بدن گواہی دیں گے سب سے پہلے اس کی داہنی ران بولے گی، ( ابن ابی حاتم ) ابو یعلی میں حضور ﷺ فرماتے ہیں قیامت کے دن کافر کے سامنے اس کی بداعمالیاں لائی جائیں گی تو وہ انکار کرے گا اور جھگڑنے لگے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ ہیں تیرے پڑوسی جو شاہد ہیں۔ یہ کہے گا سب جھوٹے ہیں۔ فرمائے گا یہ ہیں تیرے کنبے قبیلے والے جو گواہ ہیں کہے گا یہ بھی سب جھوٹے ہیں۔ اللہ ان سے قسم دلوائے گا، وہ قسم کھائیں گے لیکن یہ انکار ہی کرے گا۔ سب کو اللہ چپ کرا دے گا اور خود ان کی زبانیں ان کے خلاف گواہی دیں گی پھر انہیں جہنم واصل کردیا جائے گا۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں قیامت کے دن ایک وقت تو وہ ہوگا کہ نہ کسی کو بولنے کی اجازت ہوگی نہ عذر معذرت کرنے کی۔ پھر جب اجازت دی جائے گی تو بولنے لگیں گے اور جھگڑے کریں گے اور انکار کریں گے اور جھوٹی قسمیں کھائیں گے۔ پھر گواہوں کو لایا جائے گا آخر زبانیں بند ہوجائیں گی اور خود اعضاء بدن ہاتھ پاؤں وغیرہ گواہی دیں گے۔ پھر زبانیں کھول دی جائیں گی تو اپنے اعضاء بدن کو ملامت کریں گے وہ جواب دیں گے کہ ہمیں اللہ نے قوت گویائی دی اور ہم نے صحیح صحیح کہا پس زبانی اقرار بھی ہوجائے گا۔ ابن ابی حاتم میں رافع ابو الحسن سے مروی ہے کہ اپنے کرتوت کے انکار پر زبان اتنی موٹی ہوجائے گی کہ بولا نہ جائے گا۔ پھر جسم کے اعضاء کو حکم ہوگا تم بولو تو ہر ایک اپنا اپنا عمل بتادے گا کان، آنکھ، کھال، شرم گاہ، ہاتھ، پاؤں وغیرہ۔ اور بھی اسی طرح کی بہت سی روایتیں سورة یٰسین کی آیت ( اَلْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓي اَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَآ اَيْدِيْهِمْ وَتَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ 65 ) 36۔ يس :65) ، کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔ جنہیں دوبارہ وارد کرنے کی ضرورت نہیں۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں جب ہم سمندر کی ہجرت سے واپس آئے تو اللہ کے رسول ﷺ نے ایک دن ہم سے پوچھا تم نے حبشہ کی سرزمین پر کوئی تعجب خیز بات دیکھی ہو تو سناؤ۔ اس پر ایک نوجوان نے کہا ایک مرتبہ ہم وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے علماء کی ایک بڑھیا عورت ایک پانی کا گھڑا سر پر لئے ہوئے آرہی تھی انہی میں سے ایک جوان نے اسے دھکا دیا جس سے وہ گر پڑی اور گھڑا ٹوٹ گیا۔ وہ اٹھی اور اس شخص کی طرف دیکھ کر کہنے لگی مکار تجھے اس کا حال اس وقت معلوم ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ اپنی کرسی سجائے گا اور سب اگلے پچھلوں کو جمع کرے گا اور ہاتھ پاؤں گواہیاں دیں گے۔ اور ایک ایک عمل کھل جائے گا اس وقت تیرا اور میرا فیصلہ بھی ہوجائے گا۔ یہ سن کر حضور ﷺ فرمانے لگے اس نے سچ کہا اس نے سچ کہا اس قوم کو اللہ تعالیٰ کس طرح پاک کرے جس میں زور آور سے کمزور کا بدلہ نہ لیا جائے ؟ یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔ ابن ابی الدنیا میں یہی روایت دوسری سند سے بھی مروی ہے، جب یہ اپنے اعضا کو ملامت کریں گے تو اعضاء جواب دیتے ہوئے یہ بھی کہیں گے کہ تمہارے اعمال دراصل کچھ پوشیدہ نہ تھے اللہ کے دیکھتے ہوئے اس کے سامنے تم کفر و معاصی میں مستغرق رہتے تھے اور کچھ پرواہ نہیں کرتے تھے۔ کیونکہ تم سمجھے ہوئے تھے کہ ہمارے بہت سے اعمال اس سے مخفی ہیں، اسی فاسد خیال نے تمہیں تلف اور برباد کردیا اور آج کے دن تم برباد ہوگئے۔ مسلم ترمذی وغیرہ میں حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ میں کعبتہ اللہ کے پردے میں چھپا ہوا تھا جو تین شخص آئے بڑے پیٹ اور کم عقل والے ایک نے کہا کیوں جی ہم جو بولتے چالتے ہیں اسے اللہ سنتا ہے ؟ دوسرے نے جواب دیا اگر اونچی آواز سے بولیں تو تو سنتا ہے اور آہستہ آواز سے باتیں کریں تو نہیں سنتا۔ دوسرے نے کہا اگر کچھ سنتا ہے تو سب سنتا ہوگا میں نے آکر حضور ﷺ سے یہ واقعہ بیان کیا اس پر آیت ( وَمَا كُنْتُمْ تَسْـتَتِرُوْنَ اَنْ يَّشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَآ اَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُوْدُكُمْ وَلٰكِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللّٰهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيْرًا مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ 22 ) 41۔ فصلت :22) ، نازل ہوئی۔ عبد الرزق میں ہے منہ بند ہونے کے بعد سب سے پہلے پاؤں اور ہاتھ بولیں گے۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں جناب باری عزاسمہ کا ارشاد ہے کہ میرے ساتھ میرا بندہ جو گمان کرتا ہے میں اس کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں اور جب وہ مجھے پکارتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ حضرت حسن اتنا فرما کر کچھ تامل کرکے فرمانے لگے جس کا جیسا گمان اللہ کے ساتھ ہوتا نیک ظن ہوتا ہے وہ اعمال بھی اچھے کرتا ہے اور کافر و منافق چونکہ اللہ کے ساتھ بدظن ہوتے ہیں وہ اعمال بھی بد کرتے ہیں۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ مسند احمد کی مرفوع حدیث میں ہے تم میں سے کوئی شخص نہ مرے مگر اس حالت میں کہ وہ اللہ کے ساتھ نیک ظن ہو۔ جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ برے خیالات رکھے اللہ نے انہیں تہ وبالا کردیا۔ پھر یہی آیت آپ نے پڑھی، آگ جہنم میں صبر سے پڑے رہنا اور بےصبری کرنا ان کیلئے یکساں ہے۔ نہ ان کی عذر معذرت مقبول نہ ان کے گناہ معاف۔ یہ دنیا کی طرف اگر لوٹنا چاہیں تو وہ راہ بھی بند جیسے اور جگہ ہے جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم پر ہماری بدبختی چھا گئی۔ یقینا ہم بےراہ تھے۔ اے اللہ اب تو یہاں سے نجات دے۔ اگر ایسا کریں تو پھر ہمیں ہمارے ظلم کی سزا دینا۔ لیکن جناب باری کی طرف سے جواب آئے گا کہ اب یہ منصوبے بےسود ہیں۔ دھتکارے ہوئے یہیں پڑے رہو خبردار جو مجھ سے بات کی۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 20{ حَتّٰٓی اِذَا مَا جَآئُ وْہَا شَہِدَ عَلَیْہِمْ سَمْعُہُمْ وَاَبْصَارُہُمْ وَجُلُوْدُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ } ” یہاں تک کہ جب یہ وہاں پہنچیں گے تو ان کے خلاف گواہی دیں گے ان کے کان ‘ ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں اس بارے میں جو کچھ کہ وہ کرتے رہے تھے۔ “ ” شہادت “ کے بارے میں یہ بات بتکرار و اعادہ بیان کی جا چکی ہے کہ شہادت کسی کے خلاف ہوتی ہے اور کسی کے حق میں۔ چناچہ شَھِدَ کے بعد اگر عَلٰی کا صلہ ہو تو اس کے معنی کسی کے خلاف گواہی دینے کے ہوں گے جیسا کہ آیت زیر مطالعہ میں آیا ہے جبکہ شَھِدَ کے ساتھ ” ل “ کا صلہ آنے کی صورت میں کسی کے حق میں گواہی کا مفہوم نکلے گا۔ مثلاً : { کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآئَ بِالْقِسْطِز } المائدہ : 8 اور { کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآئَ لِلّٰہِ } النساء : 135۔ ان دونوں آیات میں لفظ اللہ کے ساتھ ” ل “ اللہ کے لیے گواہی کا مفہوم دے رہا ہے ‘ کہ تم لوگ اللہ کے لیے کھڑے ہو کر گواہی دینے والے بن جائو ! بقول اقبالؔ: ع ” دے تو بھی محمد ﷺ کی صداقت کی گواہی ! “
حتى إذا ما جاءوها شهد عليهم سمعهم وأبصارهم وجلودهم بما كانوا يعملون
سورة: فصلت - آية: ( 20 ) - جزء: ( 24 ) - صفحة: ( 478 )Surah Fussilat Ayat 20 meaning in urdu
پھر جب سب وہاں پہنچ جائیں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے جسم کی کھالیں ان پر گواہی دیں گی کہ وہ دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- کیا ان کو معلوم نہیں کہ خدا ہی جس کے لئے چاہتا ہے رزق کو
- پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہو گئے۔ گویا وہ پتھر ہیں یا ان
- اور بہت سے پیغمبر ہیں جن کے حالات ہم تم سے پیشتر بیان کرچکے ہیں
- اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آگئی تو ان کو ایمان لانے سے اس کے
- اور خدائے (برحق) ان کی خواہشوں پر چلے تو آسمان اور زمین اور جو ان
- اور وہی تو ہے جس نے تم کو زمین میں پیدا کیا اور اسی کی
- کہو تو بھلا دیکھو تو اگر خدا تم پر ہمیشہ قیامت تک دن کئے رہے
- اور اسی سے پیٹ بھرو گے
- اور وہ جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ قیامت کے دن میرے گناہ بخشے
- اور جب تم کو دریا میں تکلیف پہنچتی ہے (یعنی ڈوبنے کا خوف ہوتا ہے)
Quran surahs in English :
Download surah Fussilat with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Fussilat mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Fussilat Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers