Surah baqarah Ayat 222 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ﴾
[ البقرة: 222]
اور تم سے حیض کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ وہ تو نجاست ہے۔ سو ایام حیض میں عورتوں سے کنارہ کش رہو۔ اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو۔ ہاں جب پاک ہوجائیں تو جس طریق سے خدا نے ارشاد فرمایا ہے ان کے پاس جاؤ۔ کچھ شک نہیں کہ خدا توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے
Surah baqarah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) بلوغت کے بعد ہر عورت کو ایام ماہواری میں جو خون آتا ہے، اسے حیض کہا جاتا ہے اور بعض دفعہ عادت کے خلاف بیماری کی وجہ سے خون آتا ہے، اسے استحاضہ کہتے ہیں، جس کا حکم حیض سے مختلف ہے۔ حیض کے ایام میں عورت سے نماز معاف ہے اور روزے رکھنا ممنوع ہیں، تاہم روزوں کی قضا بعد میں ضروری ہے۔ مرد کے لئے صرف ہم بستری منع ہے، البتہ بوس وکنار جائز ہے۔ اسی طرح عورت ان دنوں میں کھانا پکانا اور دیگر گھر کا ہر کام کرسکتی ہے، لیکن یہودیوں میں ان دنوں میں عورت کو بالکل نجس سمجھا جاتا تھا، وہ اس کے ساتھ اختلاط اور کھانا پینا بھی جائز نہیں سمجھتے تھے۔ صحابہ کرام ( رضي الله عنهم ) نے اس کی بابت حضور ( صلى الله عليه وسلم ) سے پوچھا تو یہ آیت اتری، جس میں صرف جماع کرنے سے روکا گیا۔ علیحدہ رہنے اور قریب نہ جانے کا مطلب صرف جماع سے ممانعت ہے۔ ( ابن کثیر وغیرہ )
( 2 ) جب وہ پاک ہوجائیں۔ اس کے دو معنی بیان کئے گئے ہیں ” ایک خون بند ہوجائے “ یعنی پھر غسل کیے بغیر بھی پاک ہیں، مرد کے لئے ان سے مباشرت کرنا جائز ہے۔ ابن حزم اور بعض ائمہ اس کے قائل ہیں۔ علامہ البانی نے بھی اس کی تائید کی ہے ( آداب الزفاف ص 47 ) دوسرے معنی ہیں، خون بند ہونے کے بعد غسل کرکے پاک ہوجائیں۔ اس دوسرے معنی کے اعتبار سے عورت جب تک غسل نہ کرلے، اس سے مباشرت حرام رہے گی۔ امام شوکانی نے اس کو راجح قرار دیا ہے ( فتح القدیر ) ہمارے نزدیک دونوں مسلک قابل عمل ہیں، لیکن دوسرا قابل ترجیح۔
( 3 ) ” جہاں سے اجازت دی ہے “ یعنی شرمگاہ سے۔ کیوں کہ حالت حیض میں بھی اسی کے استعمال سے روکا گیا تھا اور اب پاک ہونے کے بعد جو اجازت دی جارہی ہے تو اس کا مطلب اسی ( فرج، شرمگاہ ) کی اجازت ہے، نہ کہ کسی اور حصے کی۔ اس سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ عورت کی دبر کا استعمال حرام ہے، جیسا کہ احادیث میں اس کی مزید صراحت کردی گئی ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
ایام حیض اور جماع سے متعلقہ مسائل : حضرت انس فرماتے ہیں کہ یہودی لوگ حائضہ عورتوں کو نہ اپنے ساتھ کھلاتے تھے اور نہ اپنے ساتھ رکھتے تھے، صحابہ نے اس بارے میں حضور ﷺ سے سوال کیا جس کے جواب میں یہ آیت اتری، اور حضور ﷺ نے فرمایا سوائے جماع کے اور سب کچھ حلال ہے یہودی یہ سن کر کہنے لگے کہ انہیں تو ہماری مخالفت ہی سے غرض ہے، حضرت اسید بن حضیر اور حضرت عباد بن بشر نے یہودیوں کا یہ کلام نقل کر کے کہا کہ حضور ﷺ پھر ہمیں جماع کی بھی رخصت دی جائے، آپ ﷺ کا چہرہ یہ سن کر متغیر ہوگیا یہاں تک کہ اور صحابہ نے خیال کیا کہ آپ ﷺ ان پر ناراض ہوگئے۔ جب یہ بزرگ جانے لگے تو آنحضرت ﷺ کے پاس کوئی بزرگ تحفتاً دودھ لے کر آئے، آپ ﷺ نے ان کے پیچھے آدمی بھیج کر انہیں بلایا اور وہ دودھ انہیں پلایا، اب معلوم ہوا کہ وہ غصہ جاتا رہا۔ ( مسلم ) پس اس فرمان کا کہ حیض کی حالت میں عورتوں سے الگ رہو یہ مطلب ہوا کہ جماع نہ کرو اس لئے کہ اور سب حلال ہے۔ اکثر علماء کا مذہب ہے کہ سوائے جماع کے مباشرت جائز ہے، احادیث میں ہے کہ حضور ﷺ بھی ایسی حالت میں ازواج مطہرات سے ملتے جلتے لیکن وہ تہمند باندھے ہوئے ہوتی تھیں ( ابو داؤد ) حضرت عمارہ کی پھوپھی صاحبہ حضرت عائشہ صدیقہ سے سوال کرتی ہیں کہ اگر عورت حیض کی حالت میں ہو اور گھر میں میاں بیوی کا ایک ہی بستر ہو تو وہ کیا کرے ؟ یعنی اس حالت میں اس کے ساتھ اس کا خاوند سو سکتا ہے یا نہیں ؟ آپ نے فرمایا، سنو ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ گھر میں تشریف لائے، آتے ہی نماز کی جگہ تشریف لے گئے اور نماز میں مشغول ہوگئے، دیر زیادہ لگ گئی اور اس عرصہ میں مجھے نیند آگئی، آپ کو جاڑا لگنے لگا تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا ادھر آؤ، میں نے کہا حضور ﷺ میں تو حیض سے ہوں، آپ ﷺ نے میرے گھٹنوں کے اوپر سے کپڑا ہٹانے کا حکم دیا اور پھر میری ران پر رخسار اور سینہ رکھ کر لیٹ گئے، میں بھی آپ ﷺ پر جھک گئی تو سردی کچھ کم ہوئی اور اس گرمی سے آپ ﷺ کو نیند آگئی۔ حضرت مسروق ایک مرتبہ حضرت عائشہ کے پاس آئے اور کہا السلام علی النبی و علی اھلہ حضرت عائشہ نے جواب دے کر مرحبا مرحبا کہا اور اندر آنے کی اجازت دی، آپ نے کہا ام المومنین ایک مسئلہ پوچھتا ہوں لیکن شرم معلوم ہوتی ہے۔ آپ نے فرمایا، سُن میں تیری ماں اور تو قائم مقام میرے بیٹے کے ہے، جو پوچھنا ہو پوچھ، کہا فرمائیے آدمی کیلئے اپنے حائضہ بیوی حلال ہے ؟ فرمایا سوائے شرمگاہ کے اور سب جائز ہے۔ ( ابن جریر ) اور سندوں سے بھی مختلف الفاظ کے ساتھ حضرت ام المومنین کا یہ قول مروی ہے، حضرت ابن عباس مجاہد حسن اور عکرمہ کا فتویٰ بھی یہی ہے، مقصد یہ ہے کہ حائضہ عورت کے ساتھ لیٹنا بیٹھنا اس کے ساتھ کھانا پینا وغیرہ امور بالاتفاق جائز ہیں۔ حضرت عائشہ سے منقول ہے میں حیض سے ہوتی تھی، میں ہڈی چوستی تھی اور آپ ﷺ بھی اسی ہڈی کو وہیں منہ لگا کر چوستے تھے، میں پانی پیتی تھی پھر گلاس آپ ﷺ کو دیتی، آپ ﷺ بھی وہیں منہ لگا کر اسی گلاس سے پانی پیتے اور میں اس وقت حائضہ ہوتی تھی، ابو داؤد میں روایت ہے کہ میرے حیض کے شروع دنوں میں آنحضرت ﷺ میرے ساتھ ہی لحاف میں سوتے تھے۔ اگر آپ ﷺ کا کپڑا کہیں سے خراب ہوجاتا تو آپ ﷺ اتنی ہی جگہ کو دھو ڈالتے۔ اگر جسم مبارک پر کچھ لگ جاتا تو اسے بھی دھو ڈالتے اور پھر ان ہی کپڑوں میں نماز پڑھتے۔ ہاں ابو داؤد کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت صدیقہ فرماتی ہیں میں جب حیض سے ہوتی تو بسترے سے اتر جاتی اور بورئیے پر آجاتی۔ نبی ﷺ میرے قریب بھی نہ آتے جب تک میں پاک نہ ہوجاؤں۔ تو یہ روایت محمول ہے کہ آپ پرہیز اور احتیاط کرتے تھے نہ یہ کہ محمول ہو حرمت اور ممانعت پر بعض حضرات یہ بھی فرماتے ہیں کہ تہبند ہوتے ہوئے فائدہ اٹھائے، حضرت میمونہ بنت حارث ہلالیہ فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ جب اپنی کسی اہلیہ سے ان کی حیض کی حالت میں ملنا چاہتے تھے تو انہیں حکم دیتے تھے کہ تہبند باندھ لیں ( بخاری ) اس طرح بخاری مسلم میں بھی یہ حدیث حضرت عائشہ سے مروی ہے۔ حضور ﷺ سے ایک شخص سوال کرتا ہے کہ میری بیوی سے مجھے اس کے حیض کے حالت میں کیا کچھ حلال ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تہبند سے اوپر کا کل ( ابوداؤد وغیرہ ) ایک اور روایت میں ہے کہ اس سے بھی بچنا بہتر ہے۔ حضرت عائشہ حضرت ابن عباس، حضرت سعید بن مسیب اور حضرت شریح کا مذہب بھی یہی ہے۔ امام شافعی کے اس بارے میں دو قول ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ اکثر عراقیوں وغیرہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ یہ حضرات فرماتے ہیں کہ یہ تو متفقہ فیصلہ ہے کہ جماع حرام ہے اس لئے اس کے آس پاس سے بھی بچنا چاہئے تاکہ حرمت میں واقع ہونے کا خطرہ نہ رہے۔ حالت حیض میں جماع کی حرمت اور اس کام کے کرنے والے کا گنہگار ہونا تو یقین امر ہے جسے توبہ استغفار کرنا لازمی ہے لیکن اسے کفارہ بھی دینا پڑے گا یا نہیں اس میں علماء کرام کے دو قول ہیں۔ ایک تو یہ کہ کفارہ بھی ہے چناچہ مسند احمد اور سنن میں حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنی حائضہ بیوی سے جماع کرے وہ ایک دینار یا آدھا دینار صدقہ دے۔ ترمذی میں ہے کہ خون اگر سرخ ہو تو ایک دینار اور اگر زرد رنگ کا ہو تو آدھا دینار۔ مسند احمد میں ہے کہ اگر خون پیچھے ہٹ گیا اور ابھی اس عورت نے غسل نہ کیا ہو اور اس حالت میں اس کا خاوند اس سے ملے تو آدھا دینار ورنہ پورا دینار، دوسرا قول یہ ہے کہ کفارہ کچھ بھی نہیں صرف اللہ عزوجل سے استغفار کرے۔ امام شافعی کا بھی آخری اور زیادہ صحیح یہی مذہب ہے اور جمہور علماء بھی اسی کے قائل ہیں۔ جو حدیثیں اوپر بیان ہوئیں ان کی نسبت یہ حضرات فرماتے ہیں کہ ان کا مرفوع ہونا صحیح نہیں بلکہ صحیح بات یہی ہے کہ یہ موقوف ہے۔ یہ فرمان کہ جب تک عورتیں پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جاؤ۔ یہ تفسیر ہے اس فرمان کی کہ عورتوں سے ان کی حیض کی حالت میں جدا رہو، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت حیض ختم ہوجائے پھر نزدیکی حلال ہے۔ حضرت امام ابو عبد اللہ احمد بن حنبل فرماتے ہیں طہر یعنی پاکی دلالت کرتی ہے کہ اب اس سے نزدیکی جائز ہے۔ حضرت میمونہ اور حضرت عائشہ کا یہ فرمانا کہ ہم میں سے جب کوئی حیض سے ہوتی تو تہبند باندھ لیتی اور نبی ﷺ کے ساتھ آپ ﷺ کی چادر میں سوتی، اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ جس زندگی سے منع کیا گیا ہے وہ جماع ہے، ویسے سونا بیٹھنا وغیرہ سب جائز ہے۔ اس کے بعد یہ فرمان ان کے پاک ہوجانے کے بعد ان کے پاس آؤ۔ اس میں ارشاد ہے کہ اس کے غسل کرلینے کے بعد ان سے جماع کرو۔ امام ابن حزم فرماتے ہیں کہ ہر حیض کی پاکیزگی کے بعد جماع کرنا واجب ہے، اس کی دلیل آیت ( فائتوھن ) ہے جس میں حکم ہے لیکن یہ دلیل کوئی پختہ نہیں۔ یہ امر تو صرف حرمت کو ہٹا دینے کا اعلان ہے اور اس کے سوا اس کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں، علماء اصول میں سے بعض تو کہتے ہیں کہ امر یعنی حکم مطلقاً وجوب کیلئے ہوتا ہے ان لوگوں کو امام ابن حزم کا جواب بہت گراں ہے، بعض کہتے ہیں یہ امر صرف اباحت کیلئے ہے اور چونکہ اس سے پہلے ممانعت وارد ہوچکی ہے یہ قرینہ ہے جو امر کو وجوب سے ہٹا دیتا ہے لیکن یہ غور طلب بات ہے، دلیل سے جو بات ثابت ہے وہ یہ ہے کہ ایسے موقع پر یعنی پہلے منع ہو پھر " حکم " ہو تو حکم اپنی اصل پر رہتا ہے یعنی جو بات منع سے پہلے جیتی تھی ویسی ہی اب ہوجائے گی یعنی اگر منع سے پہلے وہ کام واجب تھا تو اب بھی واجب ہی رہے گا، جیسے قرآن کریم میں ہے آیت ( فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ) 9۔ التوبة:5) یعنی جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں سے جہاد کرو۔ اور اگر یہ کام ممانعت سے پہلے مباح تھا تو اب بھی وہ مباح رہے گا جیسے آیت ( ۭوَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا ) 5۔ المائدة:2) جب تم احرام کھول دو تو شکار کھیلو، اور جگہ ہے آیت ( فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ) 62۔ الجمعة:10) یعنی جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ۔ ان علماء کرام کا یہ فیصلہ ان مختلف اقوال کو جمع بھی کردیتا ہے جو امر کے وجوب وغیرہ کے بارے میں ہیں۔ غزالی وغیرہ نے بھی اسے بیان کیا ہے اور بعض ائمہ متاخرین نے بھی اسے پسند فرمایا ہے اور یہی صحیح بھی ہے۔ یہ مسئلہ بھی یاد رہے کہ تمام علماء امت کا اتفاق ہے کہ جب خون حیض کا آنا رک جائے، مدت حیض گزر جائے پھر بھی اس کے خاوند کو اپنی بیوی سے مجامعت کرنی حلال نہیں جب تک وہ غسل نہ کرلے، ہاں اگر وہ معذور ہو اور غسل کے عوض تیمم کرنا اسے جائز ہو تو تیمم کرلے۔ اس کے بعد اس کے پاس اس کا خاوند آسکتا ہے۔ ہاں امام ابوحنیفہ ان تمام علماء کے مخالف ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ جب حیض زیادہ سے زیادہ دنوں تک آخری معیاد یعنی دس دن تک رہ کر بند ہوگیا تو اس کے خاوند اس سے صحبت کرنا حلال ہے، گو اس نے غسل نہ کیا ہو، واللہ اعلم، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ تو لفظ ( یطھرون ) کا اس سے مراد خون حیض کا بند ہونا ہے اور ( تطھرون ) سے مراد غسل کرنا ہے۔ حضرت مجاہد، حضرت عکرمہ، حضرت حسن، حضرت مقاتل بن حیات، حضرت لیث بن سعد وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں، پھر ارشاد ہوتا ہے اس جگہ سے آؤ جہاں سے آنے کا حکم اللہ نے تمہیں دیا ہے، مراد اس سے آگے کی جگہ ہے۔ حضرت ابن عباس، حضرت مجاہد وغیرہ بہت سے مفسرین نے اس کے یہی معنی بیان کئے ہیں کہ مراد اس سے بچوں کے تولد ہونے کی جگہ ہے، اس کے سوا اور جگہ یعنی پاخانہ کی جگہ جانا حرام ہے، ایسا کرنے سے حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ صحابہ اور تابعین سے بھی یہی مروی ہے کہ مطلب یہ ہے کہ جس جگہ سے حالت حیض میں تم روکے گئے تھے اب وہ جگہ تمہارے لئے حلال ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ پاخانہ کی جگہ وطی کرنا حرام ہے۔ اس کا مفصل بیان بھی آتا ہے انشاء اللہ۔ یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ پاکیزگی کی حالت میں آؤ جبکہ حیض سے نکل آئیں اس لئے اس کے بعد کے جملہ میں ہے کہ گناہوں سے توبہ کرنے والوں، اس حالت میں جماع سے باز رہنے والوں، گندگیوں اور ناپاکیوں سے بچنے والوں، حیض کی حالت میں اپنی بیوی سے نہ ملنے والوں کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے۔ اسی طرح دوسری جگہ سے محفوظ رہنے والوں کو بھی پروردگار اپنا محبوب بنا لیتا ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 222 وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ ط قُلْ ہُوَ اَذًیلا فَاعْتَزِلُوا النِّسَآءَ فِی الْْمَحِیْضِلا وَلاَ تَقْرَبُوْہُنَّ حَتّٰی یَطْہُرْنَ ج فَاِذَا تَطَہَّرْنَ فَاْتُوْہُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَکُمُ اللّٰہُ ط معلوم ہوا کہ بدیہیات فطرت اللہ تعالیٰ کے اوامر میں شامل ہیں۔ عورتوں کے ساتھ مجامعت کا طریقہ انسان کو فطری طور پر معلوم ہے ‘ یہ ایک امر طبعی ہے۔ ہر حیوان کو بھی جبلی طور پر معلوم ہے کہ اسے اپنی مادّہ کے ساتھ کیسا تعلق قائم کرنا ہے۔ لیکن اگر انسان فطری طریقہ چھوڑ کر غیر فطری طریقہ اختیار کرے اور عورتوں کے ساتھ بھی قوم لوط والا عمل کرنے لگے تو یہ حرام ہے۔ صحیح راستہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمہاری فطرت میں ڈالا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ ۔ ان سے اگر کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اس سے توبہ کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں سے دور رہتے ہیں۔
ويسألونك عن المحيض قل هو أذى فاعتزلوا النساء في المحيض ولا تقربوهن حتى يطهرن فإذا تطهرن فأتوهن من حيث أمركم الله إن الله يحب التوابين ويحب المتطهرين
سورة: البقرة - آية: ( 222 ) - جزء: ( 2 ) - صفحة: ( 35 )Surah baqarah Ayat 222 meaning in urdu
پوچھتے ہیں: حیض کا کیا حکم ہے؟ کہو: وہ ایک گندگی کی حالت ہے اس میں عورتوں سے الگ رہو اور ان کے قریب نہ جاؤ، جب تک کہ وہ پاک صاف نہ ہو جائیں پھر جب وہ پاک ہو جائیں، تو اُن کے پاس جاؤ اُس طرح جیسا کہ اللہ نے تم کو حکم دیا ہے اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے، جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور (میں پھر کہتا ہوں کہ) جن کی تم پرستش کرتے ہوں ان کی میں
- اور یاد تو کرو جب اس نے تم کو قوم عاد کے بعد سردار بنایا
- اور شہر میں نو شخص تھے جو ملک میں فساد کیا کرتے تھے اور اصلاح
- اور اپنے پروردگار کو دل ہی دل میں عاجزی اور خوف سے اور پست آواز
- ان سے پہلے لوگوں نے بھی (ایسی ہی) مکاریاں کی تھیں تو خدا (کا حکم)
- اگر ایسا نہ کرو گے تو خبردار ہوجاؤ (کہ تم) خدا اور رسول سے جنگ
- اور ہم نے موسیٰ کو نو کھلی نشانیاں دیں تو بنی اسرائیل سے دریافت کرلو
- تو وہ اس کی بات سن کر ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ اے پروردگار!
- دیہاتی لوگ سخت کافر اور سخت منافق ہیں اور اس قابل ہیں کہ جو احکام
- تو تم اس کے بعد (عہد سے) پھر گئے اور اگر تم پر خدا کا
Quran surahs in English :
Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers