Surah sajdah Ayat 25 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿إِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ﴾
[ السجدة: 25]
بلاشبہ تمہارا پروردگار ان میں جن باتوں میں وہ اختلاف کرتے تھے۔ قیامت کے روز فیصلہ کر دے گا
Surah sajdah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اس سے وہ اختلاف مراد ہے جو اہل کتاب میں باہم برپا تھا، ضمناً وہ اختلافات بھی آجاتے ہیں۔ جو اہل ایمان اور اہل کفر، اہل حق اور اہل باطل اور اہل توحید اور اہل شرک کے درمیان دنیا میں رہے اور ہیں چونکہ دنیا میں تو ہر گروہ اپنے دلائل پر مطمئن اور اپنی دگر پر قائم رہتا ہے۔ اس لئے ان اختلافات کا فیصلہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ ہی فرمائے گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اہل حق کو جنت میں اور اہل کفر وباطل کو جہنم میں داخل فرمائے گا۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
شب معراج اور نبی اکرم ﷺ فرماتا ہے ہم نے موسیٰ کو کتاب تورات دی تو اس کی ملاقات کے بارے میں شک وشبہ میں نہ رہ۔ قتادۃ فرماتے ہیں یعنی معراج والی رات میں۔ حدیث میں ہے میں نے معراج والی رات حضرت موسیٰ بن عمران ؑ کو دیکھا کہ وہ گندم گوں رنگ کے لانبے قد کے گھونگریالے بالوں والے تھے ایسے جیسے قبیلہ شنواہ کے آدمی ہوتے ہیں۔ اسی رات میں نے حضرت عیسیٰ ؑ کو بھی دیکھا وہ درمیانہ قد کے سرخ وسفید تھے سیدھے بال تھے۔ میں نے اسی رات حضرت مالک کو دیکھا جو جہنم کے داروغہ ہیں اور دجال کو دیکھا یہ سب ان نشانیوں میں سے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دکھائیں پس اس کی ملاقات میں شک وشبہ نہ کر۔ آپ نے یقینا حضرت موسیٰ کو دیکھا اور ان سے ملے جس رات آپ کو معراج کرائی گئی۔ حضرت موسیٰ کو ہم نے بنی اسرائیل کا ہادی بنادیا۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کتاب کے ذریعہ ہم نے اسرائیلیوں کو ہدایت دی۔ جیسے سورة بنی اسرائیل میں ہے آیت ( وَاٰتَيْنَا مُوْسَي الْكِتٰبَ وَجَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِيْ وَكِيْلًا ۭ ) 17۔ الإسراء :2) یعنی ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور بنی اسرائیل کے لیے ہادی بنادیا کہ تم میرے سوا کسی کو کار ساز نہ سمجھو۔ پھر فرماتا ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری اس کی نافرمانیوں کے ترک اس کی باتوں کی تصدیق اور اس کے رسولوں کی اتباع وصبر میں جمے رہے ہم نے ان میں سے بعض کو ہدایت کے پیشوا بنادیا جو اللہ کے احکام لوگوں کو پہنچاتے ہیں بھلائی کی طرف بلاتے ہیں برائیوں سے روکتے ہیں۔ لیکن جب ان کی حالت بدل گئی انہوں نے کلام اللہ میں تبدیلی تحریف تاویل شروع کردی تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے یہ منصب چھین لیا ان کے دل سخت کردئیے عمل صالح اور اعتقاد صحیح ان سے دور ہوگیا۔ پہلے تو یہ دنیا سے بچے ہوئے تھے حضرت سفیان فرماتے ہیں یہ لوگ پہلے ایسے ہی تھے لہذا انسان کے لئے ضروری ہے کہ اس کا کوئی پیشوا ہو جس کی یہ اقتدا کرکے دنیا سے بچا ہوا رہے آپ فرماتے ہیں دین کے لئے علم ضروری ہے جیسے جسم کے لئے غذا ضروری ہے۔ حضرت سفیان سے حضرت علی ؓ کے اس قول کے بارے میں سوال ہوا کہ صبر کی وجہ سے ان کو ایسا پیشوا بنادیا کہ وہ ہمارے حکم کی ہدایت کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا مطلب یہ ہے کہ چونکہ انہوں نے تمام کاموں کو اپنے ذمہ لے لیا اللہ نے بھی انہیں پیشوا بنادیا۔ چناچہ فرمان ہے ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب حکمت اور نبوت دی اور پاکیزہ روزیاں عنایت فرمائیں اور جہاں والوں پر فضلیت دی۔ یہاں بھی آیت کے آخر میں فرمایا کہ جن عقائد واعمال میں ان کا اختلاف ہے ان کا فیصلہ قیامت کے دن خود اللہ کرے گا۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 24 وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ اَءِمَّۃً یَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا ط۔یعنی بنی اسرائیل کے ائمہ اور پیشواؤں کو تورات کی تعلیمات لوگوں تک پہنچانے کے لیے صبر کی روش پر کاربند رہنا پڑتا تھا۔ اس نکتے کو یوں سمجھئے کہ کتاب اللہ کی تعلیمات کو سیکھنے اور پھر لوگوں تک پہنچانے کے لیے وقت درکار ہے جو انسانی سطح پر بذات خود ایک بہت بڑی قربانی ہے۔ دولت اور عیش و عشرت کے حصول کی حرص ہر انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ اگر کوئی شخص اپنا بیشتر وقت دنیا اور اس کی آسائشوں کے حصول کے لیے صرف کر دے گا تو اس کے شب وروز میں دعوت و تبلیغ اور اللہ کی راہ میں جدوجہد کے لیے وقت کہاں سے آئے گا ؟ چناچہ اگر کسی کو اللہ کے راستے میں نکلنے کے لیے کمربستہ ہونا ہے تو صبر و استقامت کا دامن تھام کر اسے لازمی طور پر دنیا کی بہت سی آسائشوں کو خیرباد کہنا ہوگا۔ اس کے علاوہ اس راستے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے حوالے سے بھی صبر درکار ہے۔ کتاب اللہ کی تعلیم و تبلیغ کے حوالے سے یہ دونوں فرائض گویا بنیاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ لیکن جب بھی کوئی شخص امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا علمبردار بن کر نکلے گا تو لوگ اس کی مخالفت کریں گے ‘ اس راہ میں اسے گالیاں بھی سننا پڑیں گی ‘ جسمانی و ذہنی اذیتوں کا سامنا بھی کرنا ہوگا اور مال و جان کے نقصانات بھی برداشت کرنا پڑیں گے۔ بہر حال اس راستے پر جس پہلو سے بھی کوئی جدوجہد کرے گا ‘ اسے قدم قدم پر ایسے سنگ ہائے میل سے سابقہ پڑے گا جو صبر و استقامت اور ایثار و قناعت کے رنگا رنگ مطالبات سے عبارت ہوں گے۔آج قرآن کی تبلیغ و ترویج کے میدان میں یہ آیت ہمارے لیے نشان منزل بن سکتی ہے۔ جس انداز میں یہاں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ائمہ کی تعریف فرمائی ہے اس کے لطیف احساس سے ہمارے دلوں میں ترغیب و تشویق کے جذبات کی نئی نئی کو نپلیں پھوٹنی چاہئیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بنی اسرائیل کے ان ائمہ کے کردار اور خوش نصیبی سے متعلق اپنے دلوں میں رشک پیدا کریں اور پھر اللہ سے توفیق مانگیں کہ وہ ہمیں بھی اس کام کے لیے ُ چن لے۔ لیکن ہمیں اس حقیقت کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ یہ رتبہ بلند محض دعاؤں اور تمناؤں کے سہارے نہیں ملا کرتا۔ اس کے لیے ہمیں صبر و استقامت اور ایثار و قناعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ترجیحی بنیادوں پر عملی کوشش کرنا ہوگی۔ اپنی بہت سی خواہشات کو قربان کرنا ہوگا ‘ اپنے معیار زندگی living standard کو کم سے کم سطح پر رکھنا ہوگا اور یوں اپنے تبلیغی بھائیوں کے بقول تفریغ الاوقات دینی جدوجہد کے لیے وقت نکالنا کو ممکن بنانا ہوگا۔ اس سلسلے میں ہم میں سے ہر ایک کو سنجیدہ غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے ایک دفعہ اپنا بیشتر وقت پیسہ کمانے اور معیار زندگی بلند کرنے کی کوششوں میں صرف کرنے کی روش کو اپنا لیا تو یوں سمجھیں کہ ہم نے خود کو ایک کبھی نہ ختم ہونے والے چکر میں ڈال لیا۔ یعنی خود کو ایک نام نہاد معیار زندگی کے سراب کو پالینے اور پھر اس کو برقرار رکھنے کی خواہشات کا اسیر بنا لیا۔ اگر خدانخواستہ ہم نے اپنی زندگی اسی دنیاداری میں گزار دی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے ایک خاص معیار زندگی کو اپنے معبود کا درجہ دے کر گویا ساری عمر اسی کی پوجا میں گزار دی ہے۔ اس کے برعکس اگر ہم اللہ کی توفیق سے قرآن کا دامن مضبوطی سے تھام لیں ‘ اپنی زندگی کے لیے راہنمائی صرف اور صرف قرآن سے حاصل کرنے کا تہیہ کرلیں تو اللہ کے راستے پر چلنے کے لیے ہمارے سامنے ان شاء اللہ اسباب کے نت نئے دروازے کھلتے چلے جائیں گے۔ یاد رکھیں اللہ تعالیٰ نے انسان کو مسجودِملائک بنایا ہے۔ انسان اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا نقطۂعروج climax ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے حیرت انگیز صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ جب یہ عزم صمیم کا زاد سفر لے کر کسی راہ پر چل پڑتا ہے تو مشکلات اس سے کنی کترا نے لگتی ہیں اور منزلیں خود آگے بڑھ کر اس کے قدم چومتی ہیں۔وَکَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَ ۔بنی اسرائیل کے ائمہ جو کتاب کی تعلیم و تبلیغ میں مصروف تھے وہ صبر کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی آیات پر پختہ یقین بھی رکھتے تھے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی آیات پر یقین رکھنا ‘ اس کے وعدوں کو من و عن سچ ماننا اور اس پر توکل کرنا راہ حق کی جدوجہد کی لازمی شرائط ہیں۔
إن ربك هو يفصل بينهم يوم القيامة فيما كانوا فيه يختلفون
سورة: السجدة - آية: ( 25 ) - جزء: ( 21 ) - صفحة: ( 417 )Surah sajdah Ayat 25 meaning in urdu
یقیناً تیرا رب ہی قیامت کے روز اُن باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں (بنی اسرائیل) باہم اختلاف کرتے رہے ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- ان سے پہلے نوحؑ کی قوم نے بھی تکذیب کی تھی تو انہوں نے ہمارے
- تو (اے گروہ جن وانس) تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ
- جب دونوں جماعتیں آمنے سامنے ہوئیں تو موسیٰ کے ساتھی کہنے لگے کہ ہم تو
- اور (ان میں سے ایسے بھی ہیں) جنہوں نے اس غرض سے مسجد بنوائی کہ
- اور انہوں نے اس کو ایک بار بھی دیکھا ہے
- میں تو تمہارا امانت دار ہوں
- وہ کہنے لگے کہ اگر ہماری موجودگی میں کہ ہم ایک طاقتور جماعت ہیں، اسے
- کہنے لگے ہائے شامت بےشک ہم ظالم تھے
- وہ خدا ہی تو ہے جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا اور
- تو ان کی قوم کے سردار جو کافر تھے کہنے لگے کہ ہم تم کو
Quran surahs in English :
Download surah sajdah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah sajdah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter sajdah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers