Surah baqarah Ayat 261 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ﴾
[ البقرة: 261]
جو لوگ اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان (کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اگیں اور ہر ایک بال میں سو سو دانے ہوں اور خدا جس (کے مال) کو چاہتا ہے زیادہ کرتا ہے۔ وہ بڑی کشائش والا اور سب کچھ جاننے والا ہے
Surah baqarah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یہ انفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت ہے۔ اس سے مراد اگر جہاد ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جہاد میں خرچ کی گئی رقم کا یہ ثواب ہوگا اور اگر اس سے مراد تمام مصارف خیر ہیں تو یہ فضیلت نفقات وصدقات نافلہ کی ہوگی اور دیگر نیکیاں «الحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا»، ” ایک نیکی کا اجر دس گنا “، کی ذیل میں آئیں گی۔ ( فتح القدیر ) گویا نفقات وصدقات کا عام اجر وثواب، دیگر امور خیر سے زیادہ ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ کی اس اہمیت وفضیلت کی وجہ بھی واضح ہے کہ جب تک سامان واسلحہ جنگ کا انتظام نہیں ہوگا، فوج کی کارکردگی بھی صفر ہوگی اور سامان اور اسلحہ رقم کے بغیر مہیا نہیں کئے جاسکتے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
سو گنا زیادہ ثواب اس آیت میں بیان ہو رہا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں اپنے مال کو خرچ کرے، اسے بڑی برکتیں اور بہت بڑے ثواب ملتے ہیں اور نیکیاں سات سو گنا کرکے دی جاتی ہیں، تو فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں یعنی اللہ کی فرمانبرداری میں جہاد کے گھوڑوں کو پالنے میں، ہتھیار خریدنے میں، حج کرنے کرانے میں خرچ کرتے ہیں۔ اللہ کے نام دئیے ہوئے کی مثال کس پاکیزگی سے بیان ہو رہی ہے جو آنکھوں میں کھپ جائے اور دل میں گھر کر جائے، ایک دم یوں فرما دیتا ہے کہ ایک کے بدلے سات سو ملیں گے اس سے بہت زیادہ لطافت اس کلام اور اس کی مثال میں ہے اور پھر اس میں اشارہ ہے کہ اعمال صالحہ اللہ کے پاس بڑھتے رہتے ہیں جس طرح تمہارے بوئے ہوئے بیج کھیت میں بڑھتے رہتے ہیں مسند احمد میں حدیث ہے کہ رسول اللہ احمد مجتبیٰ محمد ﷺ فرماتے ہیں جو شخص اپنی بچی ہوئی چیز فی سبیل اللہ دیتا ہے اسے سات سو کا ثواب ملتا ہے اور جو شخص جان پر اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے اسے دس گنا ملتا ہے اور بیمار کی عیادت کا ثواب بھی دس گنا ملتا ہے۔ روزہ ڈھال ہے، جب تک کہ اسے خراب نہ کرے، جس شخص پر کوئی جسمانی بلا مصیبت دکھ درد بیماری آئے وہ اس کے گناہوں کو جھاڑ دیتی ہے۔ یہ حدیث حضرت ابو عبیدہ نے اس وقت بیان فرمائی تھی جب کہ آپ سخت بیمار تھے اور لوگ عیادت کیلئے گئے تھے، آپ کی بیوی صاحبہ سرہانے بیٹھی تھیں، ان سے پوچھا کہ رات کیسی گزری ؟ انہوں نے کہا نہایت سختی سے، آپ کا منہ اس وقت دیوار کی جانب تھا، یہ سنتے ہی لوگوں کی طرف منہ کیا اور فرمایا میری یہ رات سختی کی نہیں گزری، اس لئے کہ میں نے حضور ﷺ سے یہ سنا ہے، مسند احمد کی اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے نکیل والی اونٹنی خیرات کی، آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ قیامت کے دن سات سو نکیل والی اونٹنیاں پائے گا، مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابن آدم کی ایک نیکی کو دس نیکیوں کے برابر کردیا ہے اور وہ بڑھتی رہتی ہیں، سات سو تک، مگر روزہ، کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ خاص میرے لئے ہے اور میں آپ کو اس کا اجر وثواب دوں گا، روزے دار کو دو خوشیاں ہیں ایک افطار کے وقت، دوسری قیامت کے دن روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے، دوسری حدیث میں اتنی زیادتی اور ہے کہ روزے دار اپنے کھانے پینے کو صرف میری وجہ سے چھوڑتا ہے، آخر میں ہے روزہ ڈھال ہے روزہ ڈھال ہے، مسند کی اور حدیث میں ہے نماز روزہ اللہ کا ذکر اللہ کی راہ کے خرچ پر سات سو گنا بڑھ جاتے ہیں، ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ جو شخص جہاد میں کچھ مالی مدد دے، گو خود نہ جائے تاہم اسے ایک کے بدلے سات سو کے خرچ کرنے کا ثواب ملتا ہے اور خود بھی شریک ہوا تو ایک درہم کے بدلے سات لاکھ درہم کے خرچ کا ثواب ملتا ہے، پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ( ۭوَاللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ ) 2۔ البقرۃ :261) یہ حدیث غریب ہے اور حضرت ابوہریرہ والی حدیث ( مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗٓ اَضْعَافًا كَثِيْرَةً ) 2۔ البقرۃ :245) کی تفسیر میں پہلے گزر چکی ہے جس میں ہے کہ ایک کے بدلے میں دو کروڑ کا ثواب ملتا ہے، ابن مردویہ میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی علیہ صلواۃ اللہ نے دعا کی کہ اے اللہ میری امت کو کچھ اور زیادتی عطا فرما تو ( مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗٓ اَضْعَافًا كَثِيْرَةً ) 2۔ البقرۃ :245) والی آیت اتری اور آپ نے پھر بھی یہی دعا کی تو آیت ( اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ) 39۔ الزمر:10) اتری، پس ثابت ہوا کہ جب قدر اخلاص عمل میں ہو اسی قدر ثواب میں زیادتی ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ بڑے وسیع فضل و کرم والا ہے، وہ جانتا بھی ہے کہ کون کس قدر مستحق ہے اور کسے استحقاق نہیں فسبحان اللہ والحمداللہ۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
اب جو دو رکوع آ رہے ہیں ‘ ان کا موضوع انفاق فی سبیل اللہ ہے ‘ اور اس موضوع پر یہ قرآن مجید کا ذروۃ السنام climax ہے۔ ان کے مطالعہ سے پہلے یہ بات نوٹ کر لیجیے کہ اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے اپنا مال خرچ کرنے کے لیے دین میں کئی اصطلاحات ہیں۔ سب سے پہلی اطعام الطّعام کھانا کھلانا ہے : وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا الدھر دوسری اصطلاح ایتائے مال ہے : وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ۔۔ الخ البقرۃ : 177 پھر اس سے آگے صدقہ ‘ زکوٰۃ ‘ انفاق اور قرض حسنہ جیسی اصطلاحات آتی ہیں۔ یہ پانچ چھ اصطلاحات terms ہیں ‘ لیکن ان کے اندر ایک تقسیم ذہن میں رکھیے۔ اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے مال خرچ کرنے کی دو بڑی بڑی مدیں ہیں۔ ایک مد ابنائے نوع پر خرچ کرنے کی ہے۔ یعنی قرابت دار ‘ غرباء ‘ یتامیٰ ‘ مساکین محتاج اور بیواؤں پر خرچ کرنا۔ یہ آپ کے معاشرے کے اجزاء ہیں ‘ آپ کے بھائی بند ہیں ‘ آپ کے عزیز و اقرباء ہیں۔ ان کے لیے خرچ کرنا بھی اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے اور اس کا اجر ملے گا۔ یہ بھی گویا آپ نے اللہ تعالیٰ ہی کے لیے خرچ کیا۔ جبکہ دوسری مد ہے عین اللہ کے دین کے لیے خرچ کرنا۔ قرآن حکیم میں انفاق اور قرض حسنہ کی اصطلاحیں اس دوسری مد کے لیے آتی ہیں اور پہلی مد کے لیے اطعام الطعام ‘ ایتائے مال ‘ صدقہ و خیرات اور زکوٰۃ کی اصطلاحات ہیں۔ چناچہ انفاق مال یا انفاق فی سبیل اللہ سے مراد ہے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ‘ اللہ کے دین کی دعوت کو عام کرنے اور اللہ کی کتاب کے پیغام کو عام کرنے کے لیے خرچ کرنا۔ اللہ کے دین کی دعوت کو اس طرح ابھارنا کہ باطل کے ساتھ زور آزمائی کرنے والی ایک طاقت پیدا ہوجائے ‘ ایک جماعت وجود میں آئے۔ اس جماعت کے لیے ساز و سامان فراہم کرنا تاکہ غلبۂ دین کے ہر مرحلے کے جو تقاضے اور ضرورتیں ہیں وہ پوری ہو سکیں ‘ اس کام میں جو مال صرف ہوگا وہ ہے انفاق فی سبیل اللہ یا اللہ کے ذمہّ قرض حسنہ۔ تو یہاں اصل میں اس انفاق کی بات ہو رہی ہے۔ عام طور پر فی سبیل اللہ کا مفہوم بہت عام سمجھ لیا جاتا ہے اور پانی کی کوئی سبیل بنا کر اسے بھی فی سبیل اللہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ ٹھیک ہے ‘ وہ بھی سبیل تو ہے ‘ نیکی کا وہ بھی راستہ ہے ‘ سبیل اللہ ہے ‘ لیکن انفاق فی سبیل اللہ کا مفہوم بالکل اور ہے۔ فقراء و مساکین اور اہل حاجت کے لیے صدقات و خیرات ہیں۔ زکوٰۃ بھی اصلاً غریبوں کا حق ہے ‘ لیکن اس میں بھی ایک مد فی سبیل اللہ کی رکھی گئی ہے۔ اگر آپ کے عزیز و اقارب اور قرب و جوار میں اہل حاجت ہیں ‘ غرباء ہیں تو صدقہ و زکوٰۃ میں ان کا حق فائق ہے ‘ پہلے ان کو دیجیے۔ اس کے بعد اس میں سے جو بھی ہے وہ دین کے کام کے لیے لگایئے۔ جب دین یتیمی کی حالت کو آگیا ہو تو سب سے بڑایتیم دین ہے۔ اور آج واقعتا دین کی یہی حالت ہے۔ اب ہم ان آیات کا مطالعہ کرتے ہیں : آیت 261 مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّاءَۃُ حَبَّۃٍ ط اس طرح ایک دانے سے سات سو دانے وجود میں آگئے۔ یہ اس اضافے کی مثال ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ کیے ہوئے مال کے اجر وثواب میں ہوگا۔ جو کوئی بھی اللہ کے دین کے لیے اپنا مال خرچ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے مال میں اضافہ کرے گا ‘ اس کو جزا دے گا اور اپنے یہاں اس اجر وثواب کو بڑھاتا رہے گا۔وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ ط۔ یہ سات سو گنا اضافہ تو تمہیں تمثیلاً بتایا ہے ‘ اللہ اس سے بھی زیادہ اضافہ کرے گا جس کے لیے چاہے گا۔ صرف سات سو گنا نہیں ‘ اور بھی جتنا چاہے گا بڑھاتا چلا جائے گا۔وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ۔ اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں اور اس کا علم ہر شے کو محیط ہے۔
مثل الذين ينفقون أموالهم في سبيل الله كمثل حبة أنبتت سبع سنابل في كل سنبلة مائة حبة والله يضاعف لمن يشاء والله واسع عليم
سورة: البقرة - آية: ( 261 ) - جزء: ( 3 ) - صفحة: ( 44 )Surah baqarah Ayat 261 meaning in urdu
جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں، اُن کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں اِسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے، افزونی عطا فرماتا ہے وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- جو شخص دل (آگاہ) رکھتا ہے یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے اس
- اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ (خدا کے آگے) جھکو تو جھکتے نہیں
- اور بہشت جب قریب لائی جائے گی
- وہ (وہی تو ہے) جس نے تم لوگوں کے لئے زمین کو فرش بنایا اور
- اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو ہمارا حصہ حساب کے دن سے
- خدا لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرے
- اور اگر ہم چاہیں تو ان کو غرق کردیں۔ پھر نہ تو ان کا کوئی
- (اے محمدﷺ) کہہ دو کہ لوگو میں تم سب کی طرف خدا کا بھیجا ہوا
- کہ فضول خرچی کرنے والے تو شیطان کے بھائی ہیں۔ اور شیطان اپنے پروردگار (کی
- بے شک نیکوکار نعمتوں (کی بہشت) میں ہوں گے۔
Quran surahs in English :
Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers