Surah maryam Ayat 27 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ ۖ قَالُوا يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا﴾
[ مريم: 27]
پھر وہ اس (بچّے) کو اٹھا کر اپنی قوم کے لوگوں کے پاس لے آئیں۔ وہ کہنے لگے کہ مریم یہ تو تُونے برا کام کیا
Surah maryam UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
تقدس مریم اور عوام حضرت مریم ؑ نے اللہ کے اس حکم کو بھی تسلیم کرلیا اور اپنے بچے کو گود میں لئے ہوئے لوگوں کے پاس آئیں۔ دیکھتے ہی ہر ایک انگشت بدنداں رہ گیا اور ہر منہ سے نکل گیا کہ مریم تو نے تو بڑا ہی برا کام کیا۔ نوف بکالی کہتے ہیں کہ لوگ حضرت مریم کی جستجو میں نکلے تھے لیکن اللہ کی شان کہیں انہیں کھوج ہی نہ ملا۔ راستے میں ایک چرواہا ملا اس سے پوچھا کہ ایسی ایسی عورت کو تو نے کہیں اس جنگل میں دیکھا ہے ؟ اس نے کہا نہیں۔ لیکن میں نے رات کو عجیب بات دیکھی ہے کہ میری یہ تمام گائیں اس وادی کی طرف سجدے میں گرگئیں۔ میں نے تو اس سے پہلے کبھی ایسا واقعہ نہیں دیکھا۔ اور میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ اس طرف ایک نور نظر آرہا تھا۔ وہ اس کی نشان دہی پر جا رہے تھے جو سامنے سے حضرت عیسیٰ ؑ کی والدہ بچے کو لئے ہوئے آتی دکھائی دی گئیں انہیں دیکھ کر آپ وہیں اپنے بچے کو گود میں لئے ہوئے بیٹھ گئیں۔ ان سب نے آپ کو گھیر لیا اور باتیں بنانے لگے۔ ان کا یہ کہنا کہ اے ہارون کی بہن اس سے مراد یہ ہے کہ آپ حضرت ہارون کی نسل سے تھیں۔ یا آپ کے گھرانے میں ہارون نامی ایک صالح شخص تھا اور اسی کی سی عبادت و ریاضت حضرت مریم صدیقہ کی تھی۔ اس لئے انہیں ہارون کی بہن کہا گیا۔ کوئی کہتا ہے ہارون نامی ایک بدکار شخص تھا اس لئے لوگوں نے طعن کی راہ سے انہیں اس کی بہن کہا۔ ان سب اقوال سے بڑھ کر غریب قول ایک یہ بھی ہے کہ حضرت ہارون و موسیٰ کی وہی سگی بہن ہیں جنہیں حضرت موسیٰ ؑ کی والدہ نے جب حضرت موسیٰ ؑ کو پیٹی میں ڈال کر دریا میں چھوڑا تھا تو ان سے کہا تھا کہ تم اس طرح اس کے پیچھے پیچھے کنارے کنارے جاؤ کہ کسی کو خیال بھی نہ گزرے۔ یہ قول تو بالکل غلط ہوتا ہے اس لئے کہ قرآن سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ بنی اسرائیل کے آخری نبی تھے آپ کے بعد صرف خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ ہی نبی ہوئے ہیں۔ چناچہ صحیح بخاری شریف میں ہے آپ فرماتے ہیں کہ عیسیٰ بن مریم سے سب سے زیادہ قریب میں ہوں اس لئے کہ مجھ میں اور ان کے درمیان اور کوئی نبی نہیں گزرا۔ پس اگر ماننا پڑے گا کہ آپ حضرت سلیمان ؑ اور جضرت داؤد ؑ سے بھی پہلے تھے کیونکہ قرآن کریم میں موجود ہے کہ حضرت داؤد ؑ حضرت موسیٰ ؑ کے بعد ہوئے ہیں ملاحظہ ہو آیت ( اَلَمْ تَرَ اِلَى الْمَلَاِ مِنْۢ بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِ يْلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى02406 ) 2۔ البقرة :246) ، ان آیتوں میں حضرت داؤد کا واقعہ اور آپ کا جالوت کو قتل کرنا بیان ہوا ہے اور لفظ موجود ہیں کہ یہ موسیٰ کے بعد کا واقعہ ہے۔ انہیں جو غلطی لگی ہے اس کی وجہ تورات کی یہ عبارت ہے جس میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ مع بنی اسرائیل کے دریا سے پار ہوگئے اور فرعون مع اپنی قوم کے ڈوب مرا اس وقت مریم بنت عمران نے جو موسیٰ اور ہارون کی بہت تھیں، دف پر اللہ کے شکر کے ترانے بلند کئے آپ کے ساتھ اور عورتیں بھی تھیں۔ اس عبارت سے قرظی ؒ نے سمجھ لیا کہ یہی حضرت عیسیٰ ؑ کی والدہ ہیں حالانکہ یہ محض غلط ہے۔ ممکن ہے حضرت موسیٰ ؑ کی بہن کا نام بھی مریم ہو لیکن یہ کہ یہی مریم حضرت عیسیٰ ؑ کی ماں تھیں اس کا کوئی ثبوت نہیں بلکہ یہ محض ناممکن ہے ہوسکتا ہے کہ نام دونوں کا ایک ہو ایک نام پر دوسرے نام رکھے جاتے ہیں۔ بنی اسرائیل میں تو عادت تھی کہ وہ اپنے نبیوں ولیوں کے نام پر اپنے نام رکھتے تھے۔ مسند احمد میں مغیرہ بن شعبہ ؓ سے مروی ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے نجران بھیجا وہاں مجھ سے بعض نصرانیوں نے پوچھا کہ تم یا اخت ہارون پڑھتے ہو حالانکہ موسیٰ ؑ تو عیسیٰ ؑ سے بہت پہلے گزرے ہیں مجھ سے کوئی جواب بن نہ پڑا جب میں مدینے واپس آیا اور حضور ﷺ سے یہ ذکر کیا تو آپ نے فرمایا تم نے انہیں اسی وقت کیوں نہ جواب دے دیا کہ وہ لوگ اپنے اگلے نبیوں اور نیک لوگوں کے نام پر اپنے اور اپنی اولادوں کے نام برابر رکھا کرتے تھے۔ صحیح مسلم شریف میں یہ بھی حدیث ہے امام ترمذی رحمۃ اللہ اسے حسن صحیح غریب بتلاتے ہیں۔ ایک مرتبہ حضرت کعب نے کہا تھا کہ یہ ہارون حضرت موسیٰ ؑ کے بھائی ہارون نہیں اس پر ام المومنین حضرت عائشہ ؓ نے انکار کیا تو آپ نے کہا کہ اگر آپ نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ سنا ہو تب تو ہمیں منظور ہے ورنہ تاریخی طور پر تو ان کے درمیان چھ سو سال کا فاصلہ ہے۔ یہ سن کر ام المومنین ؓ خاموش ہوگئیں۔ اس تاریخ میں ہمیں قدرے تامل ہے۔ قتادہ ؒ فرماتے ہیں حضرت مریم ؑ کا گھرانہ اوپر سے ہی نیک صالح اور دیندار تھا اور یہ دینداری برابر گویا وراثتا چلی آرہی تھی۔ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں اور بعض گھرانے اس کے خلاف بھی ہوتے ہیں کہ اوپر سے نیچے تک سب بد ہی بد۔ یہ ہارون بڑے بزرگ آدمی تھے اس وجہ سے بنی اسرائیل میں ہارون نام رکھنے کا عام طور عام شوق ہوگیا تھا یہاں تک مذکور ہے کہ جس دن حضرت ہارون کا جنازہ نکلا ہے تو آپ کے جنازے میں اسی ہارون نام کے چالیس ہزار آدمی تھے۔ الغرض وہ لوگ ملامت کرنے لگے کہ تم سے یہ برائی کیسے سرزد ہوگئی تم تو نیک کو کھ کی بچی ہو ماں باپ دونوں صالح سارا گھرانہ پاک پھر تم نے یہ کیا حرکت کی ؟ قوم کی یہ کڑوی کسیلی باتیں سن کر حسب فرمان آپ نے اپنے بچے کی طرف اشارہ کردیا کہ اس سے پوچھ لو۔ ان لوگوں کو تاؤ پر تاؤ آیا کہ دیکھو کیا ڈھٹائی کا جواب دیتی ہے گویا ہمیں پاگل بنا رہی ہے۔ بھلا گود کے بچے سے ہم کیا پوچھیں گے اور وہ ہمیں کیا بتائے گا ؟ اتنے میں بن بلائے آپ بول اٹھے کہ لوگوں میں اللہ کا ایک غلام ہوں۔ سب سے پہلا کلام حضرت عیسیٰ ؑ کا یہی ہے۔ اللہ کی تنزیہ اور تعظیم بیان کی اور اپنی غلامی اور بندگی کا اعلان کیا اللہ کی ذات کو اولاد سے پاک بتایا بلکہ ثابت کردیا کیونکہ اولاد غلام نہیں ہوتی پھر اپنی نبوت کا اظہار کر کہ مجھے اس نے کتاب دی ہے اور مجھے اپنا نبی بنایا ہے۔ اس میں اپنی والدہ کی برات بیان کی بلکہ دلیل بھی دے دی کہ میں تو اللہ کا پیغمبر ہوں رب نے مجھے اپنی کتاب بھی عنایت فرما دی ہے۔ کہتے ہیں کہ جب لوگ آپ کی والدہ ماجدہ سے باتیں بنا رہے تھے آپ اس وقت دودھ پی رہے تھے جسے چھوڑ کر بائیں کروٹ سے ہو کر ان کی طرف توجہ فرما کر یہ جواب دیا۔ کہتے ہیں اس قول کے وقت آ پکی انگلی اٹھی ہوئی تھی اور ہاتھ مونڈھے تک اونچا تھا۔ عکرمہ تو فرماتے ہیں مجھے اپنے کسی عمل کے اعلان کی اجازت ہے فرمایا بھلی بات کہنے اور بری بات کے روکنے کی اس لئے کہ یہی اصل دین ہے اور یہی انبیاء اللہ کا ورثہ ہے یہی کام ان کے سپرد ہوتا رہا۔ پس جماعتی مسئلہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی اس عام برکت سے مراد بھلائی کا حکم اور برائی سے روکنا ہے۔ جہاں بیٹھتے اٹھتے آتے جاتے یہ شغل برابر جاری رہتا۔ کبھی اللہ کی باتیں پہنچانے سے نہ رکتے۔ فرماتے ہیں مجھے حکم ملا ہے کہ زندگی بھر تک نماز وزکوۃ کا پابند رہوں۔ یہی حکم ہمارے نبی ( علیہ الصلوۃ والسلام ) کو ملا۔ ارشاد ہے ( واعبد ربک حتی یاتیک القین ) مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت میں لگا رہ۔ پس حضرت عیسیٰ ؑ نے بھی فرمایا کہ " اس نے مجھ پر یہ دونوں کام میری زندگی کے آخری لمحے تک لکھ دیے ہیں۔ اس سے تقدیر کا ثبوت اور منکرین تقدیر کی تردید بھی ہوجاتی ہے۔ رب کی اطاعت کے اس حکم کے ساتھ ہی مجھے اپنی والدہ کی خدمت گزاری کا بھی حکم ملا ہے۔ عموما قرآن میں یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ بیان ہوتی ہیں جیسے آیت ( وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا 23 ) 17۔ الإسراء :23) اور آیت ( اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ۭ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ 14 ) 31۔ لقمان:14) میں۔ اس نے مجھے گردن کش نہیں بنایا کہ میں اس کی عبادت سے یہ والدہ کی اطاعت سے سرکشی اور تکبر کروں اور بدبخت بن جاؤں۔ کہتے ہیں جباروشقی وہ ہے جو غصے میں آکر خونریزی کر دے۔ فرماتے ہیں ماں باپ کا نافرمان وہی ہوتا ہے جو بدبخت اور گردن کش ہو۔ بدخلق وہی ہوتا ہے جو اکڑنے والا اور منافق ہو۔ مذکور ہے کہ ایک مرتبہ آپ کے معجزوں کو دیکھ کر ایک عورت تعجب سے کہنے لگی مبارک ہے وہ پیٹ جس میں تو نے پرورش پائی اور مبارک ہے وہ سینہ جس نے تجھے دودھ پلایا۔ آپ نے جواب دیا مبارک ہے وہ جس نے کتاب اللہ کی تلاوت کی پھر تابعداری کی۔ اور سرکش اور بدبخت نہ بنا۔ پھر فرماتے ہیں میری پیدائش کے دن، موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کے دن میں مجھ پر سلامتی ہے اس سے بھی آپ کی عبودیت اور منجملہ مخلوق کے ایک مخلوق الہٰی ہونا ثابت ہورہا ہے کہ آپ مثل انسانوں کے عدم سے وجود میں آئے پھر موت کا مزہ بھی چکھیں گے۔ پھر قیامت کے دن دوبارہ اٹھیں گے بھی۔ لیکن ہاں یہ تینوں موقعے خوب سخت اور کٹھن ہیں آپ پر آسان اور سہل ہوں گے نہ کوئی گھبراہٹ ہوگی نہ پریشانی بلکہ امن چین اور سراسر سلامتی ہی سلامتی۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 27 فَاَتَتْ بِہٖ قَوْمَہَا تَحْمِلُہٗ حضرت مریم بڑے حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے نومولود بچے کو اٹھائے ہوئے اپنی قوم کی طرف آگئیں۔ بچے کی گفتگو والا معجزہ دیکھ لینے کے بعد آپ کو تسلی تھی کہ وہ خود ہی لوگوں کے سوالات کے جواب دے گا۔ آیت 24 کے حوالے سے بچے کے کلام کرنے کا تذکرہ عام طور پر تفاسیر میں نہیں ملتا اور ” مِنْ تَحْتِھَا “ سے یہی سمجھا گیا ہے کہ اس موقع پر فرشتے ہی نے آپ کو پکارا تھا۔ بہرحال میری رائے یہ ہے کہ حضرت مریم کو اس وقت نیچے سے پکارنے والا آپ کا نومولود بیٹا تھا ‘ جس کی گفتگو سے آپ کو حوصلہ ملا اور آپ بچے کے ساتھ لوگوں کا سامنا کرنے پر آمادہ ہوئیں۔ واللہ اعلم !قَالُوْا یٰمَرْیَمُ لَقَدْ جِءْتِ شَیْءًا فَرِیًّاان کو دیکھتے ہی لوگوں نے طرح طرح کی باتیں کرنا شروع کردیں کہ تم نے یہ کیا غضب کیا ! تمہاری گود میں یہ کس کا بچہ ہے ؟ یہ تم نے بہت بری حرکت کی ہے ‘ وغیرہ۔
فأتت به قومها تحمله قالوا يامريم لقد جئت شيئا فريا
سورة: مريم - آية: ( 27 ) - جزء: ( 16 ) - صفحة: ( 307 )Surah maryam Ayat 27 meaning in urdu
پھر وہ اس بچے کو لیے ہوئے اپنی قوم میں آئی لوگ کہنے لگے " اے مریم، یہ تو تُو نے بڑا پاپ کر ڈالا
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور خدا کے ساتھ کسی اور کو معبود (سمجھ کر) نہ پکارنا اس کے سوا
- مومنو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرکے ان کو ہاتھ لگانے (یعنی ان کے
- اور تمہارے پروردگار ہی کی ذات (بابرکات) جو صاحب جلال وعظمت ہے باقی رہے گی
- اے موسیٰ میں ہی خدائے غالب ودانا ہوں
- اور جس روز صور پھونکا جائے گا تو جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں
- اور ہم نے تمہاری طرف روشن آیتیں نازل کی ہیں اور جو لوگ تم سے
- اور جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور جو (کتاب) محمدﷺ پر نازل
- اور اس سے ظالم کون جو خدا پر جھوٹ بہتان باندھے یا جب حق بات
- اور اسی طرح ہم (اپنی) آیتیں کھول کھول کر بیان کرتے ہیں تاکہ یہ رجوع
- کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو خدا کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں۔
Quran surahs in English :
Download surah maryam with the voice of the most famous Quran reciters :
surah maryam mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter maryam Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers