Surah Taubah Ayat 27 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿ثُمَّ يَتُوبُ اللَّهُ مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾
[ التوبة: 27]
پھر خدا اس کے بعد جس پر چاہے مہربانی سے توجہ فرمائے اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
Surah Taubah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) حُنَیْن مکہ اور طائف کے درمیان ایک وادی ہے۔ یہاں هَوَازِن اور ثَقِیْف رہتے تھے، یہ دونوں قبیلے تیر اندازی میں مشہور تھے۔ یہ مسلمانوں کے خلاف لڑنے کی تیاری کر رہے تھے جس کا علم رسول اللہ ( صلى الله عليه وسلم ) کو ہوا تو آپ 12 ہزار کا لشکر لے کر ان قبیلوں سے جنگ کے لئے حنین تشریف لے گئے، یہ فتح مکہ کے 18، 19دن بعد، شوال کا واقعہ ہے۔ مذکورہ قبیلوں نے بھرپور تیاری کر رکھی تھی اور مختلف کمین گاہوں میں تیر اندازوں کو مقرر کر دیا تھا۔ ادھر مسلمانوں میں یہ عجب پیدا ہوگیا کہ آج کم از کم قلت کی وجہ سے ہم مغلوب نہیں ہونگے۔ یعنی اللہ کی مدد کے بجائے اپنی کثرت تعداد پر اعتماد زیادہ ہوگیا۔ اللہ تعالٰی کو یہ عُجب کا کلمہ پسند نہیں آیا۔ نتیجتاً جب ہوازن کے تیر اندازوں نے مختلف کمین گاہوں سے مسلمانوں کے لشکر پر یک بارگی تیر اندازی کی تو اس غیر متوقع اور اچانک تیروں کی بچھاڑ سے مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ میدان میں صرف رسول اللہ ( صلى الله عليه وسلم ) اور سَو کے قریب مسلمان رہ گئے۔ آپ ( صلى الله عليه وسلم ) مسلمانوں کو پکار رہے تھے ” اللہ کے بندو! میرے پاس آؤ میں اللہ کا رسول ہوں “ کبھی یہ رجزیہ کلمہ پڑھتے: «أَنَا النَّبِيُّ لا كَذِبْ - أَنَا ابْنُ عَبْدُ الْمُطَّلِبْ»پھر آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے حضرت عباس ( رضي الله عنه ) کو ( جو نہایت بلند آواز تھے ) حکم دیا کہ مسلمانوں کو جمع کرنے کے لئے آوازیں دیں۔ چنانچہ ان کی ندا سن کر مسلمان سخت پشیمان ہوئے اور دوبارہ میدان میں آگئے اور پھر اس طرح جم کر لڑے کہ اللہ نے فتح عطا فرمائی، اللہ تعالٰی کی مدد بھی حاصل ہوئی، جس سے ان کے دلوں سے دشمن کا خوف دور ہو گیا، دوسرے فرشتوں کا نزول ہوا۔ اس جنگ میں مسلمانوں نے چھ ہزار کافروں کو قیدی بنایا ( جنہیں بعد میں نبی (صلى الله عليه وسلم ) کی درخواست پر چھوڑ دیا گیا) اور بہت سا مال غنیمت حاصل ہوا، جنگ کے بعد ان کے بہت سے سردار بھی مسلمان ہوگئے یہاں 3 آیت میں اللہ تعالٰی نے اس واقعے کا مختصر ذکر فرمایا ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
نصرت الٰہی کا ذکر مجاہد کہتے ہیں براۃ کی یہ پہلی آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بہت بڑا احسان مومنوں پر ذکر فرما رہا ہے کہ اس نے اپنے نبی ﷺ کے ساتھیوں کی آپ امداد فرمائی انہیں دشمنوں پر غالب کردیا اور ایک جگہ نہیں ہر جگہ اس کی مدد شامل حال رہی اسی وجہ سے فتح و ظفر نے کبھی ہم رکابی نہ چھوڑی۔ یہ صرف تائید ربانی تھی نہ کہ مال اسباب اور ہتھیار کی فراوانی اور نہ تعداد کی زیادتی۔ یاد کرلو حنین والے دن تمہیں ذرا اپنی تعداد کی کثرت پر ناز ہوگیا تو کیا حال ہوا ؟ پیٹھ دکھا کر بھاگ نکلے تھے۔ معدودے چند ہی اللہ کے پیغمبر ﷺ کے ساتھ ٹھہرے اسی وقت اللہ کی مدد نازل ہوئی اس نے دلوں میں تسکین ڈال دی یہ اس لیے کہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ مدد اسی اللہ کی طرف سے ہے اس کی مدد سے چھوٹی چھوٹی جماعتوں نے بڑے بڑے گروہوں کے منہ پھیر دیئے ہیں۔ اللہ کی امداد صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ یہ واقعہ ہم عنقریب تفصیل وار بیان کریں، انشاء اللہ تعالیٰ۔ مسند کی حدیث میں ہے بہترین ساتھی چار ہیں اور بہترین چھوٹا لشکر چار سو کا ہے اور بہترین بڑا لشکر چار ہزار کا ہے اور بارہ ہزار کی تعداد تو اپنی کمی کے باعث کبھی مغلوب نہیں ہوسکتی۔ یہ حدیث ابو داؤد اور ترمذی میں بھی ہے امام ترمذی ؒ اسے حسن غریب بتلاتے ہیں۔ یہ روایت سوائے ایک راوی کے باقی سب راویوں نے مرسل بیان کی ہے۔ ابن ماجہ اور بہیقی میں بھی یہ روایت اسی طرح مروی ہے۔ واللہ اعلم۔ سنہ008ہجری میں فتح مکہ کے بعد ماہ شوال میں جنگ حقین ہوئی تھی۔ جب حضور ﷺ فتح مکہ سے فارغ ہوئے اور ابتدائی امور سب انجام دے چکے اور عموما مکی حضرات مسلمان ہوچکے اور انہیں آپ آزاد بھی کرچکے تو آپ کو خبر ملی کہ قبیلہ ہوازن جمع ہوا ہے اور آپ سے جنگ کرنے پر آمادہ ہے۔ ان کا سردار مالک بن عوف نصری ہے۔ ثقیف کا سارا قبیلہ ان کے ساتھ ہے اسی طرح بنو جشم بنو سعد بن بکر بھی ہیں اور بنو ہلال کے کچھ لوگ بھی ہیں اور کچھ لوگ بنو عمرو بن عامر کے اور عون بھی عامر کے بھی ہیں یہ سب لوگ مع اپنی عورتوں اور بچوں اور گھریلو مال کے میدان میں نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کے اپنی بکریوں اور اونٹوں کو بھی انہوں نے ساتھ ہی رکھا ہے تو آپ نے اس لشکر کو لے کر جو اب آپ کے ساتھ مہاجرین اور انصار وغیرہ کا تھا ان کے مقابلے کے لیے چلے تقریباً دو ہزار نو مسلم مکی بھی آپ کے ساتھ ہو لیے۔ مکہ اور طائف کے درمیان کی وادی میں دونوں لشکر مل گئے اس جگہ کا نام حنین تھا صبح سویرے منہ اندھیرے قبیلہ ہوازن جو کمین گاہ میں چپھے ہوئے تھے انہوں نے بیخبر ی میں مسلمانوں پر اچانک حملہ کردیا بےپنا تیر باری کرتے ہوئے آگے بڑھے اور تلواریں چلانی شروع کردیں یہاں مسلمانوں میں دفعتاً ابتری پھیل گی اور یہ منہ پھر کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ ان کی طرف بڑھے آپ اس وقت سفید خچر پر سوار تھے حضرت عباس ؓ آپ کے جانور کی دائیں جانب سے نکیل تھامے ہوئے تھے اور حضرت ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب بائیں طرف سے نکیل پکڑے ہوئے تھے جانور کی تیزی کو یہ لوگ روک رہے تھے آپ با آواز بلند اپنے تئیں پہنچوا رہے تھے مسلمانوں کو واپسی کا حکم فرما رہے تھے اور ندا کرتے جاتے تھے کہ اللہ کے بندو کہاں چلے، میری طرف آؤ۔ میں اللہ کا سچا رسول ہوں میں نبی ہوں، جھوٹا نہیں ہوں۔ میں اولاد عبد المطلب میں سے ہوں۔ آپ کے ساتھ اس وقت صرف اسی یا سو کے قریب صحابہ ؓ رہ گئے تھے۔ حضرت ابو بکرصدیق ؓ حضرت عمر ؓ ، حضرت عباس ؓ ، حضرت علی ؓ ، حضرت فضل بن عباس ؓ ، حضرت ابو سفیان بن حارث ؓ حضرت ایمن بن ام ایمن، حضرت اسامہ بن زید وغیرہ آپ ﷺ کے ساتھ ہی تھے پھر آپ نے اپنے چچا حضرت عباس کو بہت بلند آواز والے تھے حکم دیا کہ درخت کے نیچے بیعت کرنے والے میرے صحابیوں کو آواز دو کہ وہ نہ بھاگیں پس آپ نے یہ کہہ کر اے ببول کے درخت تلے بیعت کرنے والو اے سورة بقرہ کے حاملو پس یہ آواز ان کے کانوں میں پہنچنی تھی کہ انہوں نے ہر طرف سے لبیک لبیک کہنا شروع کیا اور آواز کی جانب لپک پڑے اور اسی وقت لوٹ کر آپ کے آس پاس آکر کھڑے ہوگئے یہاں تک کہ اگر کسی کا اونٹ اڑ گیا تو اس نے اپنی زرہ پہن لی اونٹ پر سے کود گیا اور پیدل سرکار نبوت میں حاضر ہوگیا جب کچھ جماعت آپ کے ارد گرد جمع ہوگئی آپ نے اللہ سے دعا مانگنی شروع کی کہ باری الٰہی جو وعدہ تیرا میرے ساتھ ہے اسے پورا فرما پھر آپ نے زمین سے مٹی کی ایک مٹھی بھرلی اور اسے کافروں کی طرف پھینکا جس سے ان کی آنکھوں اور ان کا منہ بھر گیا وہ لڑائی کے قابل نہ رہے۔ ادھر مسلمانوں نے ان پر دھاوا بول دیا ان کے قدم اکھڑ گئے بھاگ نکلے۔ مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا اور مسلمانوں کی باقی فوج حضور ﷺ کے پاس پہنچی اتنی دیر میں تو انہوں نے کفار کو قید کر کے حضور ﷺ کے سامنے ڈھیر کردیا مسند احمد میں ہے حضرت عبد الرحمن فہری جن کا نام یزید بن اسید ہے یا یزید بن انیس ہے اور کرز بھی کہا گیا ہے فرماتے ہیں کہ میں اس معرکے میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا دن سخت گرمی والا تھا دوپہر کو ہم درختوں کے سائے تلے ٹھہر گئے سورج ڈھلنے کے بعد میں نے اپنے ہتھیار لگا لیے اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر رسول اللہ ﷺ کے خیمے پہنچا سلام کے بعد میں نے کہا حضور ﷺ ہوائیں ٹھنڈی ہوگئی ہیں آپ نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے بلال اس وقت بلال ایک درخ کے سائے میں تھے حضور کی آواز سنتے ہی پرندے کی طرح گویا اڑ کر لبیک و سعد یک و انا فداوک کہتے ہوئے حاضر ہوئے۔ آپ نے فرمایا میری سواری تیار کرو اسی وقت انہوں نے زین نکالی جس کے دونوں پلے کھجور کی رسی کے تھے جس میں کوئی فخر و غرور کی چیز نہ تھی جب کس چکے تو حضور ﷺ سوار ہوئے ہم نے صف بندی کرلی شام اور رات اسی طرح گذری پھر دونوں لشکروں کی مڈ بھیڑ ہوگئی تو مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے جیسے قرآن نے فرمایا ہے حضور ﷺ نے آواز دی کہ اے اللہ کے بندو میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں اے مہاجرین میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں پھر اپنے گھوڑے سے اتر پڑے مٹی کی ایک مٹھی بھرلی اور یہ فرما کر ان کے چہرے بگڑ جائیں کافروں کی طرف پھینک دی اسی سے اللہ نے انہیں شکست دے دی۔ ان مشرکوں کا بیان ہے کہ ہم میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جس کی آنکھوں اور منہ میں یہ مٹی نہ آئی ہو اسی وقت ہمیں ایسا معلوم ہونے لگا کہ گویا زمین و آسمان کے درمیان لوہا کسی لوہے کی کے طشت پر بج رہا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ بھاگے ہوئے مسلمان جب ایک سو آپ کے پاس واپس پہنچ گئے آپ نے اسی وقت حملہ کا حکم دیدیا اول تو منادی انصار کی تھی پھر خزرج ہی پر رہ گئی یہ قبیلہ لڑائی کے وقت بڑا ہی صابر تھا آپ ﷺ نے اپنی سواری پر سے میدان جنگ کا نظارہ دیکھا اور فرمایا اب لڑائی گرما گرمی سے ہو رہی ہے۔ اس میں ہے کہ اللہ نے جس کافر کو چاہا قتل کرا دیا جسے چاہا قید کرا دیا۔ اور ان کے مال اور اولادیں اپنے نبی کو فے میں دلا دیں۔ حضرت براء بن عازب ؓ سے کسی نے کہا اے ابو عمارہ کیا تم لوگ رسول اللہ علیہ ﷺ کے پاس سے حنین والے دن بھاگ نکلے تھے ؟ آپ نے فرمایا لیکن رسول اللہ ﷺ کا قدم پیچھے نہ ہٹا تھا بات یہ ہے کہ قبیلہ ہوازن کے لوگ تیر اندازی کے فن کے استاد تھے اللہ کے فضل سے ہم نے انہیں پہلے ہی حملے میں شکست دے دی لیکن جب لوگ مال غنیمت پر جھک پڑے انہوں نے موقع دیکھ کر پھر جو پوری مہارت کے ساتھ تیروں کی بار برسائی تو یہاں بھگڈر مچ گئی۔ سبحان اللہ رسول اللہ ﷺ کی کامل شجاعت اور پوری بہادری کا یہ موقع تھا۔ لشکر بھاگ نکلا ہے اس وقت آپ کسی تیز سواری پر نہیں جو بھاگنے دوڑنے میں کام آئے بلکہ خچر پر سوار ہیں اور مشرکوں کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اپنے تئیں چھپاتے نہیں بلکہ اپنا نام اپنی زبان سے پکار پکار کر بتا رہے ہیں کہ نہ پہنچاننے والے بھی پہنچا لیں۔ خیال فرمائیے کہ کس قدر ذات واحد پر آپ کا توکل ہے اور کتنا کامل یقین ہے آپ کو اللہ کی مدد پر۔ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ امر رسالت کو پورا کر کے ہی رہے گا اور آپ کے دین کو دنیا کے اور دینوں پر غالب کر کے ہی رہے گا فصلوات اللہ وسلامہ علیہ ابد ابدا۔ اب اللہ تعالیٰ اپنے نبی پر اور مسلمانوں کے اوپر سکینت نازل فرماتا ہے اور اپنے فرشتوں کا لشکر بھیجتا ہے جنہیں کوئی نہ دیکھتا تھا۔ ایک مشرک کا بیان ہے کہ حنین والے دن جب ہم مسلمانوں سے لڑنے لگے ایک بکری کا دودھ نکالا جائے اتنی دیر بھی ہم نے انہیں اپنے سامنے جمنے نہیں دیا فورا بھاگ کھڑے ہوئے اور ہم نے ان کا تعاقب شروع کیا یہاں تک کہ ہمیں ایک صاحب سفید خچر پر سوار نظر پڑے ہم نے دیکھا یہ کہ خوبصورت نورانی چہرے والے کچھ لوگ ان کے ارد گرد ہیں ان کی زبان سے نکلا کہ تمہارے چہرے بگڑ جائیں واپس لوٹ جاؤ بس یہ کہنا تھا کہ ہمیں شکست ہوگئی یہاں تک کہ مسلمان ہمارے کندھوں پر سوار ہوگئے حضرت ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں میں بھی اس لشکر میں تھا آپ کے ساتھ صرف اسی مہاجر و انصار رہ گئے تھے ہم نے پیٹھ نہیں دکھائی تھی ہم پر اللہ نے اطمینان و سکون نازل فرما دیا تھا۔ حضور ﷺ اپنے سفید خچر پر سوار دشمنوں کی طرف بڑھ رہے تھے جانور نے ٹھوکر کھائی آپ زین پر سے نیچے کی طرف جھک گئے میں نے آواز دی کہ حضور ﷺ اونچے ہوجائیے اللہ آپ کو اونچا ہی رکھے آپ نے فرمایا ایک مٹھی مٹی کی تو بھر دو میں نے بھر دی آپ نے کافروں کی طرف پھینکی جس سے ان کی آنکھیں بھر گئیں پھر فرمایا مہاجر و انصار کہاں ہیں میں نے کہا یہیں ہیں فرمایا نہیں آواز دو میرا آواز دینا تھا کہ وہ تلواریں سونتے ہوئے لپک لپک کر آگئے اب تو مشرکین کی کچھ نہ چلی اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ بیہیقی کی ایک روایت میں ہے شیبہ بن عثمان کہتے ہیں کہ حنین کے دن جبکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس حالت میں دیکھا کہ لشکر شکست کھا کر بھاگ کھڑا ہوا ہے اور آپ ﷺ تنہا رہ گئے ہیں تو مجھے بدر والے دن اپنے باپ اور چچا کا مارا جانا یاد آیا کہ وہ حضرت علی ؓ اور حمزہ ؓ کے ہاتھوں مارے گئے ہیں، میں نے اپنے جی میں کہا کہ ان کے انتقام لینے کا اس سے اچھا موقعہ اور کون سا ملے گا ؟ آؤ پیغمبر کو قتل کر دوں اس ارادے سے میں آپ کی دائیں جانب سے بڑھا لیکن وہاں میں نے عباس بن عبدالمطلب کو پایا سفید چاندی جیسی زرہ پہنے مستعد کھڑے ہیں میں نے سوچا کہ یہ چچا ہیں اپنے بھتیجے کی پوری حمایت کریں گے چلو بائیں جانب سے جا کر اپنا کام کروں اور ادھر سے آیا تو دیکھا ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب کھڑے ہیں میں نے کہا ان کے بھی چچا کے لڑکے بھائی ہیں اپنے بھائی کی ضرور حمایت کریں گے پھر میں رکاوٹ کاٹ کر پیھے کی طرف آیا آپ کے قریب پہنچ گیا اب یہی باقی رہ گیا تھا کہ تلوار سونت کر وار کر دوں کہ میں نے دیکھا ایک آگ کا کوڑا بجلی کی طرف چمک کر مجھ پر پڑا چاہتا ہے میں نے آنکھیں بند کرلیں اور پچھلے پاؤں پیچھے کی طرف ہٹا اسی وقت حضور ﷺ نے میری جانب التفات کیا اور فرمایا شیبہ میرے پاس آیا، اللہ اس کے شیطان کو دور کر دے۔ اب میں نے آنکھ کھول کر جو رسول اللہ ﷺ کی طرف دیکھا تو واللہ آپ مجھے میرے کانوں اور آنکھوں سے بھی زیادہ محبوب تھے آپ نے فرمایا شیبہ جا کافروں سے لڑ شیبہ کا بیان ہے کہ اس جنگ میں آنحضرت ﷺ کے ساتھیوں میں میں بھی تھا لیکن میں اسلام کی وجہ سے یا اسلام کی معرفت کی بناء پر نہیں نکلا تھا بلکہ میں نے کہا واہ یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ کہ ہوازن قریش پر غالب آجائیں ؟ میں آپ کے پاس ہی کھڑا ہوا تھا تو میں نے ابلق رنگ کے گھوڑے دیکھ کر کہا یا رسول اللہ میں تو ابلق رنگ کے گھوڑے دیکھ رہا ہوں آپ نے فرمایا شیبہ وہ تو سوا کافروں کے کسی کو نظر نہیں آتے۔ پھر آپ نے میرے سینے پر ہاتھ مار کر دعا کی یا اللہ شیبہ کو ہدایت کر پھر دوبارہ سہ بارہ یہی کیا اور یہی کہا واللہ آپ کا ہاتھ ہٹنے سے پہلے ہی ساری دنیا سے زیادہ آپ کی محبت میں اپنے دل میں پانے لگا۔ حضرت جبیر بن مطعم ؓ فرماتے ہیں میں اس غزوے میں آپ کے ہم رکاب تھا میں نے دیکھا کہ کوئی چیز آسمان سے اتری رہی ہے چیونٹیوں کی طرح اس نے میدان گھیر لیا اور اسی وقت مشرکوں کے قدم اکھڑ گئے واللہ ہمیں کوئی شک نہیں کہ وہ آسمانی مدد تھی۔ یزید بن عامر سوابی اپنے کفر کے زمانے میں جنگ حنین میں کافروں کے ساتھ تھا بعد میں یہ مسلمان ہوگئے تھے ان سے جب دریافت کیا جاتا کہ اس موقعہ پر تمہارے دلوں کا رعب و خوف سے کیا حال تھا ؟ تو وہ طشت میں کنکریاں رکھ کر بجا کر کہتے بس یہی آواز ہمیں ہمارے دل سے آرہی تھی بےطرح کلیجہ اچھل رہا تھا اور دل دہل رہا تھا۔ صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں مجھے رعب سے مدد دی گئی ہے۔ مجھے جامع کلمات دیئے گئے ہیں الغرض کفار کو اللہ نے یہ سزا دی اور یہ ان کے کفر کا بدلہ تھا۔ باقی ہوازن پر اللہ نے مہربانی فرمائی انہیں توبہ نصیب ہوئی مسلمان ہو کر خدمت مخدوم میں حاضر ہوئے اس وقت آپ فتح مندی کے ساتھ لوٹتے ہوئے مکہ شریف جعرانہ کے قریب پہنچ چکے تھے۔ جنگ کو بیس دن کے قریب گذر چکے تھے اس لئے آپ نے فرمایا کہ اب تم دو چیزوں میں سے ایک پسند کرلو یا تو قیدی یا مال ؟ انہوں نے قیدیوں کا واپس لینا پسند کیا ان قیدیوں کی چھوٹوں بڑوں کی مرد عورت کی بالغ نابالغ کی تعداد چھ ہزار تھی۔ آپ نے یہ سب انہیں لوٹا دیئے ان کا مال بطور غنیمت کے مسلمانوں میں تقسیم ہوا اور نو مسلم جو مکہ کے آزاد کردہ تھے انہیں بھی آپ نے اس مال میں سے دیا کہ ان کے دل اسلام کی طرف پورے مائل ہوجائیں ان میں سے ایک ایک کو سو سو اونٹ عطا فرمائے۔ مالک بن عوف نصری کو بھی آپ نے سو اونٹ دیئے اور اسی کو اس کی قوم کا سردار بنادیا جیسے کہ وہ تھا اسی کی تعریف میں اسی نے اپنے مشہور قصیدے میں کہا ہے کہ میں نے تو حضرت محمد ﷺ جیسا نہ کسی اور کو دیکھا نہ سنا۔ دینے میں اور بخشش و عطا کرنے میں اور قصوروں سے درگزر کرنے میں دنیا میں آپ کا ثانی نہیں آپ کل قیامت کے دن ہونے والے تمام امور سے مطلع فرماتے رہتے ہیں یہی نہیں شجاعت اور بہادری میں بھی آپ بےمثل ہیں میدان جنگ میں گرجتے ہوئے شیر کی طرح آپ دشمنوں کی طرف بڑھتے ہیں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 25 لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ فِیْ مَوَاطِنَ کَثِیْرَۃٍلا وَّیَوْمَ حُنَیْنٍلا جیسا کہ قبل ازیں بیان ہوچکا ہے ‘ پہلے ‘ چوتھے اور پانچویں رکوع پر مشتمل یہ خطبہ ذوالقعدہ 9 ہجری میں نازل ہوا تھا ‘ جبکہ اس سے پہلے غزوۂ حنین شوال 8 ہجری میں وقوع پذیر ہوچکا تھا۔اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ معاملہ یوں نہیں تھا کہ لشکر میں شامل تمام مسلمانوں کو اپنی کثرت پر ناز اور فخر محسوس ہو رہا تھا۔ غزوۂ حنین میں مسلمانوں کی تعداد بارہ ہزار تھی ‘ جو اس سے پہلے کبھی کسی غزوہ میں اکٹھی نہیں ہوئی تھی۔ ان میں سے دس ہزار مسلمان تو وہ تھے جو فتح مکہ کے وقت حضور ﷺ کے ہمراہ تھے ‘ اور دو ہزار لوگ مکہ سے شامل ہوئے تھے۔ مکہ سے شامل ہونے والوں میں اکثر یت ان نو مسلموں کی تھی جو مکہ فتح ہوجانے کے بعد ایمان لائے تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں کچھ مشرک بھی ہوں جو اب مسلمانوں کی رعایا ہونے کے باعث معاونین اور خاد مین کی حیثیت سے لشکر میں شامل ہوگئے ہوں۔ مسلمانوں کی یہ لشکر کشی ہوازن اور ثقیف کے قبائل کے خلاف تھی جو طائف اور اس کے ارد گرد کی شاداب وادیوں میں آباد تھے۔ مسلمان اس سے قبل بارہا قلیل تعداد اور معمولی اسلحہ سے کفار کی بڑی بڑی فوجوں کو شکست دے چکے تھے۔ چناچہ بعض مسلمانوں کی زبان سے اپنی کثرت کے زعم میں یہ الفاظ نکل گئے کہ آج مسلمانوں پر کون غالب آسکتا ہے ! دوسری طرف ہوازن اور ثقیف کے قبائل نے پہلے سے اپنے تیرانداز دستے پہاڑیوں اور گھاٹیوں پر تعینات کر رکھے تھے اور موزوں مقامات پر صف آرائی کرلی تھی۔ یہ لوگ بڑے ماہر تیر انداز تھے۔ مسلمانوں کا لشکر جب وادئ حنین میں پہنچا تو پہاڑیوں پر موجود تیر اندازوں نے تیروں کی بوچھاڑ کردی۔ لشکر نشیب میں تھا ‘ تیر بلندی سے آ رہے تھے اور دونوں طرف سے آ رہے تھے۔ اس سے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی اور بارہ ہزار کا لشکر جرار تتر بتر ہوگیا۔ جب ہراول دستے سے لوگ اضطراری کیفیت میں پلٹ کر بھاگے تو ریلے کی صورت میں بہت سے دوسرے لوگوں کو بھی اپنے ساتھ دھکیلتے چلے گئے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صرف 30 یا 40 آدمی رہ گئے تھے۔ علامہ شبلی رح نے سیرت النبی ﷺ میں یہی لکھا ہے کہ 30 ‘ 40 آدمی رہ گئے تھے ‘ لیکن سید سلیمان ندوی رح نے بعد میں اپنے استاد کی رائے پر اختلافی نوٹ لکھا کہ تین سو یا چار سو آدمی آپ ﷺ کے ساتھ رہ گئے تھے۔ لیکن بارہ ہزار کے لشکر میں سے تین یا چار سو آدمیوں کا رہ جانا بھی کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ اس صورت حال میں حضور ﷺ اپنی سواری سے نیچے اترآئے ‘ آپ ﷺ نے علم خود اپنے ہاتھ میں لیا اور بآواز بلند رجز پڑھا : اَنَا النَّبِیُّ لا کَذِب اَنَا ابْنُ عَبْدِ المُطَّلِبکہ میں نبی ہوں اس میں کوئی شک نہیں ! یعنی میں یقیناً نبی ہوں ‘ چاہے یہ بارہ ہزار لوگ میرا ساتھ دیں تب بھی ‘ اور اگر کوئی بھی ساتھ نہ دے تب بھی۔ اور میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ‘ یعنی میں عبدالمطلب کا پوتا میدان جنگ میں بنفس نفیس موجود ہوں۔ پھر آپ ﷺ نے لوگوں کو پکارا : اِلَیَّ یَاعِبَاد اللّٰہِ ! اللہ کے بندو ‘ میری طرف آؤ ! اس کے بعد آپ ﷺ نے قریب ہی موجود اپنے چچا حضرت عباس رض کو ‘ جن کی آواز کافی بلند تھی ‘ حکم دیا کہ انصار و مہاجرین کو پکاریں۔ انہوں نے بلند آواز سے پکارا : اصحاب بدر کہاں ہو ؟ اصحاب شجرہ بیعت رضوان والو کہاں ہو ؟ اس پر لوگ رسول اللہ ﷺ کی طرف پلٹنا شروع ہوئے اور لشکر پھر سے اکٹھا ہوا۔ اس کے بعد ایک بھرپور جنگ لڑنے کے بعد مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔ آیت زیر نظر کا اشارہ اس پورے واقعہ کی طرف ہے۔
ثم يتوب الله من بعد ذلك على من يشاء والله غفور رحيم
سورة: التوبة - آية: ( 27 ) - جزء: ( 10 ) - صفحة: ( 191 )Surah Taubah Ayat 27 meaning in urdu
پھر (تم یہ بھی دیکھ چکے ہو کہ) اس طرح سزا دینے کے بعد اللہ جس کو چاہتا ہے توبہ کی توفیق بھی بخش دیتا ہے، اللہ در گزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اے ہمارے پروردگار! ہم پر ہماری کم بختی غالب ہوگئی اور ہم رستے سے بھٹک
- مگر شیطان کہ اس نے سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہونے سے انکار کر دیا
- انہوں نے کہا کہ ہم گنہگار لوگوں کی طرف بھیجے گئے ہیں
- (اور کہا) کہ یہ لوگ تھوڑی سی جماعت ہے
- تو ان لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ ایمان نہیں لاتے
- الغرض صبح کے وقت شہر میں ڈرتے ڈرتے داخل ہوئے کہ دیکھیں (کیا ہوتا ہے)
- اور اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو مجھ سے الگ ہو جاؤ
- جو شخص وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے تو اس (کے بدلنے) کا گناہ
- جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ میں نے آگ دیکھی ہے، میں وہاں
- اے پروردگار انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔ سو جس شخص نے
Quran surahs in English :
Download surah Taubah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Taubah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Taubah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers