Surah al imran Ayat 28 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ﴾
[ آل عمران: 28]
مؤمنوں کو چاہئے کہ مؤمنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس سے خدا کا کچھ (عہد) نہیں ہاں اگر اس طریق سے تم ان (کے شر) سے بچاؤ کی صورت پیدا کرو (تو مضائقہ نہیں) اور خدا تم کو اپنے (غضب) سے ڈراتا ہے اور خدا ہی کی طرف (تم کو) لوٹ کر جانا ہے
Surah al imran Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اولیا ولی کی جمع ہے۔ ولی ایسے دوست کو کہتے ہیں جس سے ولی محبت اورخصوصی تعلق ہو۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو اہل ایمان کا ولی قرار دیا ہے۔ «للَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا» ( البقرۃ: 257 ) یعنی ” اللہ اہل ایمان کا ولی ہے “۔ مطلب یہ ہوا کہ اہل ایمان کو ایک دوسرے سے محبت اور خصوصی تعلق ہے اور وہ آپس میں ایک دوسرے کے ولی ( دوست ) ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں اہل ایمان کو اس بات سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے کہ وہ کافروں کو اپنا دوست بنائیں۔ کیونکہ کافر اللہ کے بھی دشمن ہیں اور اہل ایمان کے بھی دشمن ہیں۔ تو پھر ان کو دوست بنانے کا جواز کس طرح ہو سکتا ہے؟ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو قرآن کریم میں کئی جگہ بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے تاکہ اہل ایمان کافروں کی موالات ( دوستی ) اور ان سے خصوصی تعلق قائم کرنے سے گریز کریں۔ البتہ حسب ضرورت ومصلحت ان سے صلح ومعاہدہ بھی ہو سکتا ہے اور تجارتی لین دین بھی۔ اسی طرح جو کافر، مسلمانوں کے دشمن نہ ہوں، ان سے حسن سلوک اور مدارات کا معاملہ بھی جائز ہے ( جس کی تفصیل سورۂ ممتحنہ میں ہے ) کیونکہ یہ سارے معاملات، موالات ( دوستی ومحبت ) سے مختلف ہے۔
( 2 ) یہ اجازت ان مسلمانوں کے لئے ہے جو کسی کافر حکومت میں رہتے ہوں کہ ان کے لئے اگر کسی وقت اظہار دوستی کے بغیر ان کے شر سے بچنا ممکن نہ ہو تو وہ زبان سے ظاہری طور پر دوستی کا اظہار کرسکتے ہیں۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
ترک موالات کی وضاحت یہاں اللہ تعالیٰ ترک موالات کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے مسلمانوں کو کفار سے دوستی اور محض محبت کرنا مناسب نہیں بلکہ انہیں آپس میں ایمان داروں سے میل ملاپ اور محبت رکھنی چاہیے، پھر انہیں حکم سناتا ہے کہ جو ایسا کرے گا اس سے اللہ بالکل بیزار ہوجائے گا، جیسے اور جگہ ہے آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَاۗءَ تُلْقُوْنَ اِلَيْهِمْ بالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَاۗءَكُمْ مِّنَ الْحَقِّ ۚ يُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِيَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا باللّٰهِ رَبِّكُمْ ) 60۔ الممتحنة:1) یعنی مسلمانو میرے اور اپنے دشمنوں سے دوستی نہ کیا کرو اور جگہ فرمایا مومنو یہ یہود و نصاریٰ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں تم میں سے جو بھی ان سے دوستی کرے گا وہ انہی سے ہے، دوسری جگہ پروردگار عالم نے مہاجر انصار اور دوسرے مومنوں کے بھائی چارے کا ذکر کر کے فرمایا کہ کافر آپس میں ایک دوسرے کے خیرخواہ اور دوست ہیں تم بھی آپس میں اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ پھیل جائے گا اور زبردست فساد برپا ہوگا۔ البتہ ان لوگوں کو رخصت دے دی گئی جو کسی شہر میں کسی وقت ان کی بدی اور برائی سے ڈر کر دفع الوقتی کے لئے بظاہر کچھ میل ملاپ ظاہر کریں لیکن دل میں ان کی طرف رغبت اور ان سے حقیقی محبت نہ ہو، جیسے صحیح بخاری شریف میں حضرت ابو درداء ؓ سے مروی ہے کہ ہم بعض قوموں سے کشادہ پیشانی سے ملتے ہیں لیکن ہمارے دل ان پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ صرف زبان سے اظہار کرے لیکن عمل میں ان کا ساتھ ایسے وقت میں بھی ہرگز نہ دے، یہی بات اور مفسرین سے بھی مروی ہے اور اسی کی تائید اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی کرتا ہے۔ آیت ( مَنْ كَفَرَ باللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِهٖٓ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَقَلْبُهٗ مُطْمَـﭟ بِالْاِيْمَانِ وَلٰكِنْ مَّنْ شَرَحَ بالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِ ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ ) 16۔ النحل:106) جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے سوائے ان مسلمانوں کے جن پر زبردستی کی جائے مگر ان کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو، بخاری میں ہے حضرت حسن فرماتے ہیں یہ حکم قیامت تک کے لئے ہے۔ پھر فرمایا اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے۔ یعنی اپنے دبدبے اور اپنے عذاب سے اس شخص کو خبردار کئے دیتا ہے جو اس کے فرمان کی مخالفت کر کے اس کے دشمنوں سے دوستی رکھے اور اس کے دوستوں سے دشمنی کرے۔ پھر فرمایا اللہ کی طرف لوٹنا ہے ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کا بدلہ وہیں ملے گا۔ حضرت معاذ ؓ نے کھڑے ہو کر فرمایا اے بنی اود میں اللہ کے رسول ﷺ کا قاصد ہو کر تمہاری طرف آیا ہوں جان لو کہ اللہ کی طرف پھر کر سب کو جانا ہے پھر یا تو جنت ٹھکانا ہوگا یا جہنم۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 28 لاَ یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ج اولیاء ایسے قلبی دوست ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے رازدار بھی بن جائیں اور ایک دوسرے کے پشت پناہ بھی ہوں۔ یہ تعلق کفار کے ساتھ اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ان کے ساتھ اچھا رویہ ‘ ظاہری مدارات اور تہذیب و شائستگی سے بات چیت تو اور بات ہے ‘ لیکن دلی محبت ‘ قلبی رشتہ ‘ جذباتی تعلق ‘ باہمی نصرت و تعاون اور ایک دوسرے کے پشت پناہ ہونے کا رشتہ قائم کرلینے کی اجازت نہیں ہے۔ کفار کے ساتھ اس طرح کے تعلقات اللہ تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں ہیں۔وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْءٍ اگر اللہ کے دشمنوں کے ساتھ تمہاری دوستی ہے تو ظاہر ہے پھر تمہارا اللہ کے ساتھ کوئی رشتہ وتعلق نہیں رہا ہے۔اِلاَّ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْہُمْ تُقٰٹۃً ط۔بعض اوقات ایسے حالات ہوتے ہیں کہ کھلے مقابلے کا ابھی موقع نہیں ہوتا تو آپ دشمن کو طرح دیتے ہیں اور اس طرح گویا وقت حاصل کرتے ہیں you are buying time تو اس دوران اگر ظاہری خاطر مدارات کا معاملہ بھی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ہے ‘ لیکن مستقل طور پر کفار سے قلبی محبت قائم کرلینا ہرگز جائز نہیں ہے۔ قرآن کے انہی الفاظ کو ہمارے ہاں اہل تشیع نے تقیہ کی بنیادبنا لیا ہے۔ لیکن انہوں نے اسے اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ جھوٹ بولنا اور اپنے عقائد کو چھپا لینا بھی روا سمجھتے ہیں اور اس کے لیے دلیل یہاں سے لاتے ہیں۔ لیکن یہ ایک بالکل دوسری شکل ہے اور یہ صرف ظاہری مدارات کی حد تک ہے۔ جیسے کہ ہم سورة البقرة میں پڑھ چکے ہیں کہ اگرچہ تمہارے خلاف یہود کے دلوں میں حسد کی آگ بھری ہوئی ہے لیکن فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا آیت 109 ابھی ذرا درگزر کرتے رہو اور چشم پوشی سے کام لو۔ ابھی فوری طور پر ان کے ساتھ مقابلہ شروع کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس حد تک مصلحت بینی تو صحیح ہے ‘ لیکن یہ نہیں کہ جھوٹ بولا جائے ‘ معاذ اللہ !وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ ط۔اللہ سے ڈرو۔ یعنی کسی اور سے خواہ مخواہ ڈر کر صرف خاطر مدارات کرلینا بھی صحیح نہیں ہے۔ کسی وقت مصلحت کا تقاضا ہو تو ایسا کرلو ‘ لیکن تمہارے دل میں خوف صرف اللہ کا رہنا چاہیے۔
لا يتخذ المؤمنون الكافرين أولياء من دون المؤمنين ومن يفعل ذلك فليس من الله في شيء إلا أن تتقوا منهم تقاة ويحذركم الله نفسه وإلى الله المصير
سورة: آل عمران - آية: ( 28 ) - جزء: ( 3 ) - صفحة: ( 53 )Surah al imran Ayat 28 meaning in urdu
مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور دوست ہرگز نہ بنائیں جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہاں یہ معاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرز عمل اختیار کر جاؤ مگر اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور تمہیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- تو جو ان کی قوم میں سردار تھے وہ کہنے لگے کہ ہم تمہیں صریح
- اور دوزخ دیکھنے والے کے سامنے نکال کر رکھ دی جائے گی
- اور جب ہم نے خانہٴ کعبہ کو لوگوں کے لیے جمع ہونے اور امن پانے
- کہ خدا کی قسم ہم تو صریح گمراہی میں تھے
- الم
- بےشک اس میں نشانی ہے اور ان میں اکثر ایمان لانے والے نہیں
- میں تو تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں
- اور صور پھونکا جائے گا۔ یہی (عذاب کے) وعید کا دن ہے
- کہ انسان اپنے پروردگار کا احسان ناشناس (اور ناشکرا) ہے
- اور اسی کے نشانات (اور تصرفات) میں سے ہے کہ تم کو خوف اور اُمید
Quran surahs in English :
Download surah al imran with the voice of the most famous Quran reciters :
surah al imran mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter al imran Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers