Surah baqarah Ayat 284 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿لِّلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللَّهُ ۖ فَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾
[ البقرة: 284]
جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب خدا ہی کا ہے۔ تم اپنے دلوں کی بات کو ظاہر کرو گے تو یا چھپاؤ گے تو خدا تم سے اس کا حساب لے گا پھر وہ جسے چاہے مغفرت کرے اور جسے چاہے عذاب دے۔ اور خدا ہر چیز پر قادر ہے
Surah baqarah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) احادیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام بڑے پریشان ہوئے۔ انہوں نے دربار رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! نماز، روزہ، زکٰوۃ وجہاد وغیرہ یہ سارے اعمال، جن کا ہمیں حکم دیا گیا ہے، ہم بجا لاتے ہیں۔ کیونکہ یہ ہماری طاقت سے بالا نہیں ہیں۔ لیکن دل میں پیدا ہونے والے خیالات اور وسوسوں پر تو ہمارا اختیار ہی نہیں ہے اور وہ تو انسانی طاقت سے ہی ماورا ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان پر بھی محاسبہ کا اعلان فرما دیا ہے۔ نبی کریم ( صلى الله عليه وسلم ) نے فرمایا۔ فی الحال تم«سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا»ہی کہو۔ چنانچہ صحابہ ( رضي الله عنهم ) کے جذبہ سمع وطاعت کو دیکھتے ہوئےاللہ تعالے نے اسے آیت «لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا» ” اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا “، سے منسوخ فرما دیا ( ابن کثیر وفتح القدیر ) صحیحین وسنن اربعہ کی یہ حدیث بھی اس کی تائید کرتی ہے۔ «إِنَّ اللهَ تَجَاوَزَ لِي عَنْ أُمَّتِي مَا وَسْوَسَتْ بِهِ صُدُورُهَا مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَكَلَّمْ»۔ ( صحيح بخاري، كتاب العتق ، باب الخطأ والنسيان في العتاقة...
ومسلم، كتاب الإيمان، باب تجوز أمته عن حديث النفس .... ) ” اللہ تعالیٰ نے میری امت سے جی میں آنے والی باتوں کو معاف کردیا ہے۔ البتہ ان پر گرفت ہوگی جن پر عمل کیا جائے یا جن کا اظہار زبان سے کردیا جائے “، اس سے معلوم ہوا کہ دل میں گزرنے والے خیالات پر محاسبہ نہیں ہوگا، صرف ان پر محاسبہ ہوگا جو پختہ عزم وارادہ میں ڈھل جائیں یا عمل کا قالب اختیار کرلیں۔ اس کے برعکس امام ابن جریر طبری کا خیال ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے کیونکہ محاسبہ معاقبہ کو لازم نہیں ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کا بھی محاسبہ کرے، اس کو سزا بھی ضرور دے، بلکہ اللہ تعالیٰ محاسبہ تو ہر ایک کا کرے گا ، لیکن بہت سے لوگ ہوں گے کہ محاسبہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے گا بلکہ بعض کے ساتھ تو یہ معاملہ فرمائے گا کہ اس کا ایک ایک گناہ یاد کراکے ان کا اس سے اعتراف کروائے گا اور پھر فرمائے گا کہ میں نے دنیا میں ان پر پردہ ڈالے رکھا، جاآج میں ان کو معاف کرتا ہوں ( یہ حدیث صحیح بخاری، مسلم وغیرہما میں ہے بحوالہ ابن کثیر ) اور بعض علما نے کہا ہے کہ یہاں نسخ اصطلاحی معنی میں نہیں ہے بلکہ بعض دفعہ اسے وضاحت کے معنی میں بھی استعمال کرلیا جاتا ہے۔ چنانچہ صحابہ کرام کے دل میں جو شبہ اس آیت سے پیدا ہوا تھا، اسے آیت«لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا» اور حدیث «إِنَّ اللهَ تَجَاوَزَ لِي عَنْ أُمَّتِي...»، وغیرہ سے دور کردیا گیا۔ اس طرح ناسخ منسوخ ماننے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
انسان کے ضمیر سے خطاب یعنی آسمان و زمین کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ چھوٹی بڑی چھپی یا کھلی ہر بات کو وہ جانتا ہے۔ ہر پوشیدہ اور ظاہر عمل کا وہ حساب لینے والا ہے، جیسے اور جگہ فرمایا آیت قُلْ اِنْ تُخْفُوْا مَا فِيْ صُدُوْرِكُمْ اَوْ تُبْدُوْهُ يَعْلَمْهُ اللّٰهُ) 3۔ آل عمران:29) کہہ دے کہ تمہارے سینوں میں جو کچھ ہے اسے خواہ تم چھپاؤ یا ظاہر کرو اللہ تعالیٰ کو اس کا بخوبی علم ہے، وہ آسمان و زمین کی ہر چیز کا علم رکھتا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے اور فرمایا وہ ہر چھپی ہوئی اور علانیہ بات کو خوب جانتا ہے، مزید اس معنی کی بہت سی آیتیں ہیں، یہاں اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ وہ اس پر حساب لے گا، جب یہ آیت اتری تو صحابہ بہت پریشان ہوئے کہ چھوٹی بڑی تمام چیزوں کا حساب ہوگا، اپنے ایمان کی زیادتی اور یقین کی مضبوطی کی وجہ سے وہ کانپ اٹھے تو حضور ﷺ کے پاس آکر گھٹنوں کے بل گرپڑے اور کہنے لگے حضرت ﷺ نماز، روزہ، جہاد، صدقہ وغیرہ کا ہمیں حکم ہوا، وہ ہماری طاقت میں تھا ہم نے حتی المقدور کیا لیکن اب جو یہ آیت اتری ہے اسے برداشت کرنے کی طاقت ہم میں نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم یہود و نصاریٰ کی طرح یہ کہنا چاہتے ہو کہ ہم نے سنا اور نہیں مانا، تمہیں چاہئے کہ یوں کہو ہم نے سنا اور مانا، اے اللہ ہم تیری بخشش چاہتے ہیں۔ ہمارے رب ہمیں تو تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔ چناچہ صحابہ کرام نے اسے تسلیم کرلیا اور زبانوں پر یہ کلمات جاری ہوگئے تو آیت ( اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ) 2۔ البقرۃ :285) اتری اور اللہ تعالیٰ نے اس تکلیف کو دور کردیا اور آیت لایکلف اللہ نازل ہوئی ( مسند احمد ) صحیح مسلم میں بھی یہ حدیث ہے اس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس تکلیف کو ہٹا کر آیت لایکلف اللہ الخ، اتاری اور جب مسلمانوں نے کہا کہ اے اللہ ہماری بھول چوک اور ہماری خطا پر ہمیں نہ پکڑ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا نعم، یعنی میں یہی کروں گا۔ انہوں نے کہا آیت ربنا ولا تحمل علینا الخ، اللہ ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو ہم سے اگلوں پر ڈالا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ بھی قبول، پھر کہا ربنا ولاتحملنا اے اللہ ہم پر ہماری طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈال، اسے بھی قبول کیا گیا۔ پھر دعا مانگی اے اللہ ہمیں معاف فرمادے، ہمارے گناہ بخش اور کافروں پر ہماری مدد کر، اللہ تعالیٰ نے اسے بھی قبول فرمایا، یہ حدیث اور بھی بہت سے انداز سے مروی ہے۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت مجاہد کہتے ہیں میں نے حضرت ابن عباس کے پاس جا کر واقعہ بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے اس آیت وان تبدوا کی تلاوت فرمائی اور بہت روئے، آپ نے فرمایا اس آیت کے اترتے یہی حال صحابہ کا ہوا تھا، وہ سخت غمگین ہوگئے اور کہا دلوں کے مالک تو ہم نہیں۔ دل کے خیالات پر بھی پکڑے گئے تو یہ تو بڑی مشکل ہے۔ آپ نے فرمایا سمعنا واطعنا کہو، چناچہ صحابہ نے کہا اور بعد والی آیتیں اتریں اور عمل پر تو پکڑ طے ہوئی لیکن دل کے خطرات اور نفس کے وسوسے سے پکڑ منسوخ ہوگئی، دوسرے طریق سے یہ روایت ابن مرجانہ سے بھی اسی طرح مروی ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ قرآن نے فیصلہ کردیا کہ تم اپنے نیک و بد اعمال پر پکڑے جاؤ گے خواہ زبانی ہوں خواہ دوسرے اعضاء کے گناہ ہوں، لیکن دلی وسو اس معاف ہیں اور بھی بہت سے صحابہ اور تابعین سے اس کا منسوخ ہونا مروی ہے۔ صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دلی خیالات سے درگزر فرما لیا، گرفت اسی پر ہوگی جو کہیں یا کریں، بخاری مسلم میں ہے حضور ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب میرا بندہ برائی کا ارادہ کرے تو اسے نہ لکھو جب تک اس سے برائی سرزد ہو، اگر کر گزرے تو ایک برائی لکھو اور جب نیکی کا اراد کرے تو صرف ارادہ سے ہی نیکی لکھ لو اور اگر نیکی کر بھی لے تو ایک کے بدلے دس نیکیاں لکھو ( مسلم ) اور روایت میں ہے کہ ایک نیکی کے بدلے ساتھ سو تک لکھی جاتی ہیں، اور روایت میں ہے کہ جب بندہ برائی کا ارادہ کرتا ہے تو فرشتے جناب باری میں عرض کرتے ہیں کہ اللہ تیرا یہ بندہ بدی کرنا چاہتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رکے رہو جب تک کر نہ لے، اس کے نامہ اعمال میں نہ لکھو اگر لکھو گے تو ایک لکھنا اور اگر چھوڑ دے تو ایک نیکی لکھ لینا کیونکہ مجھ سے ڈر کر چھوڑتا ہے، حضور ﷺ فرماتے ہیں جو پختہ اور پورا مسلمان بن جائے اس کی ایک ایک نیکی کا ثواب دس سے لے کر سات سو تک بڑھتا جاتا ہے اور برائی نہیں بڑھتی، اور روایت میں ہے کہ سات سو سے بھی کبھی کبھی نیکی بڑھا دی جاتی ہے، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ بڑا بردبار ہونے والا وہ ہے جو باوجود اس رحم و کرم کے بھی برباد ہو، ایک مرتبہ اصحاب نے آکر عرض کیا حضرت کبھی کبھی تو ہمارے دل میں ایس وسوسے اٹھتے ہیں کہ زبان سے ان کا بیان کرنا بھی ہم پر گراں گزرتا ہے۔ آپ نے فرمایا ایسا ہونے لگا ؟ انہوں نے عرض کیا ہاں آپ نے فرمایا یہ صریح ایمان ہے ( مسلم وغیرہ ) حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ قیامت والے دن جب تمام مخلوق کو اللہ تعالیٰ جمع کرے گا تو فرمائے گا کہ میں تمہیں تمہارے دلوں کے ایسے بھید بتاتا ہوں جس سے میرے فرشتے بھی آگاہ نہیں، مومنوں کو تو بتانے کے بعد پھر معاف فرما دیا جائے گا لیکن منافق اور شک و شبہ کرنے والے لوگوں کو ان کے کفر کی درپردہ اطلاع دے کر بھی ان کی پکڑ ہوگی۔ ارشاد ہے (آیت ولکن یواخذکم بما کسبت قلوبکم یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے دلوں کی کمائی پر ضرور پکڑے گا یعنی دلی شک اور دلی نفاق کی بنا پر، حسن بصری بھی اسے منسوخ نہیں کہتے، امام ابن جریر بھی اسی روایت سے متفق ہیں اور فرماتے ہیں کہ حساب اور چیز ہے عذاب اور چیز ہے۔ حساب لئے جانے اور عذاب کیا جانا لازم نہیں، ممکن ہے حساب کے بعد معاف کردیا جائے اور ممکن ہے سزا ہو، چناچہ ایک حدیث میں ہے کہ ہم طواف کر رہے تھے ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر سے پوچھا کہ تم نے حضور ﷺ سے اللہ تعالیٰ کی سرگوشی کے متعلق کیا سنا ہے ؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ایمان والے کو اپنے پاس بلائے گا یہاں تک کہ اپنا بازو اس پر رکھ دے گا پھر اس سے کہے گا بتا تو نے فلاں فلاں گناہ کیا ؟ فلاں فلاں گناہ کیا ؟ وہ غریب اقرار کرتا جائے گا، جب بہت سے گناہ ہونے کا اقرار کرلے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا سن دنیا میں بھی میں نے تیرے ان گناہوں کی پردہ پوشی کی، اور اب آج کے دن بھی میں ان تمام گناہوں کو معاف فرما دیتا ہوں، اب اسے اس کی نیکیوں کا صحیفہ اس کے داہنے ہاتھ میں دے دیا جائے گا، ہاں البتہ کفار و منافق کو تمام مجمع کے سامنے رسوا کیا جائے گا اور ان کے گناہ ظاہر کئے جائیں گے اور پکارا جائے گا کہ یہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر تہمت لگائی، ان ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہے۔ حضرت زید نے ایک مرتبہ اس آیت کے بارے میں حضرت عائشہ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا جب سے میں نے آنحضرت ﷺ سے اس بارے میں پوچھا ہے تب سے لے کر آج تک مجھ سے کسی شخص نے نہیں پوچھا، مگر آج تو نے پوچھا تو سن اس سے مراد بندے کو دنیاوی تکلیفیں مثلاً بخار وغیرہ تکلیفیں پہنچانا ہے، یہاں تک کہ مثلاً ایک جیب میں نقدی رکھی اور بھول گیا، تھوڑی پریشانی ہوئی مگر دوسری جیب میں ہاتھ ڈالا وہاں سے نقدی مل گی، اس پر بھی اس کے گناہ معاف ہوتے ہیں، یہاں تک کہ مرنے کے وقت وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جس طرح خالص سرخ سونا ہو۔ ترمذی وغیرہ، یہ حدیث غریب ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم سورة البقرة کے آخری رکوع پر پہنچ گئے ہیں۔ یہ عظیم الشان رکوع تین آیات پر مشتمل ہے۔ قبل ازیں ہم اسی طرح کا ایک عظیم رکوع پڑھ آئے ہیں جس کی چار آیات ہیں اور اس میں آیت الکرسی بھی ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں رکوع اپنی عظمت اور اپنے مقام کے اعتبار سے ایک دوسرے کے ہم پلہّ ہیں۔ آیت الکرسی توحید کے موضوع پر قرآن حکیم کی جامع ترین آیت ہے ‘ اور اس رکوع کی آخری آیت جامع ترین دعا پر مشتمل ہے۔آیت 284 لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط۔ آپ دیکھیں گے کہ اکثر و بیشتر اس طرح کے الفاظ سورتوں کے اختتام پر آتے ہیں۔وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ ط۔ تمہاری نیتیں اس کے علم میں ہیں۔ ایک حدیث میں الفاظ آتے ہیں : اِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ اِلٰی صُوَرِکُمْ وَاَمْوَالِکُمْ وَلٰکِنْ یَنْظُرُ اِلٰی قُلُوْبِکُمْ وَاَعْمَالِکُمْ 36 یقیناً اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں کو اور تمہارے مال و دولت کو نہیں دیکھتا ‘ بلکہ تمہارے دلوں کو اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے۔ تو تمہارے دل میں جو کچھ ہے خواہ اسے کتنا ہی چھپالو اللہ کے محاسبے سے نہیں بچ سکو گے۔فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ ط۔ اختیار مطلق اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہمارے ہاں اہل سنت کا عقیدہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ پر لازم نہیں ہے کہ نیکوکار کو اس کی جزا ضرور دے اور بدکار کو اس کی سزا ضرور دے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اللہ ایسا کرے گا ‘ لیکن اللہ کی شان اس سے بہت اعلیٰ وارفع ہے کہ اس پر کسی شے کو لازم قرار دیا جائے۔ اس کا اختیار مطلق ہے ‘ وہ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ البروج کی شان کا حامل ہے۔ سورة الحج میں الفاظ آئے ہیں : اِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یَشَاءُ یقیناً اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اہل تشیع کا موقف یہ ہے کہ اللہ پر عدل واجب ہے۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ اللہ عدل کرے گا ‘ جزاء و سزا میں عدل ہوگا ‘ لیکن عدل کرنا اس پر واجب نہیں ہے ‘ بلکہ اللہ نے جو شے اپنے اوپر واجب کی ہے وہ رحمت ہے۔ ازروئے الفاظ قرآنی : کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ ط الانعام : 12 اور : کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَلا الانعام : 54 تمہارے رب نے رحمت کو اپنے اوپر واجب کرلیا ہے۔
لله ما في السموات وما في الأرض وإن تبدوا ما في أنفسكم أو تخفوه يحاسبكم به الله فيغفر لمن يشاء ويعذب من يشاء والله على كل شيء قدير
سورة: البقرة - آية: ( 284 ) - جزء: ( 3 ) - صفحة: ( 49 )Surah baqarah Ayat 284 meaning in urdu
آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے، سب اللہ کا ہے تم اپنے دل کی باتیں خواہ ظاہر کرو یا چھپاؤ اللہ بہرحال ان کا حساب تم سے لے لے گا پھر اسے اختیار ہے، جسے چاہے، معاف کر دے اور جسے چاہے، سزا دے وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- نہ تو اندھے پر کچھ گناہ ہے اور نہ لنگڑے پر اور نہ بیمار پر
- یہ خدا کی قسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے (تو کچھ) نہیں کہا حالانکہ انہوں
- اور طور سینین کی
- اور کہتے ہیں کہ ہماری جو دنیا کی زندگی ہے بس یہی (زندگی) ہے اور
- اور وہی تو ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا اور (ان کے) قصور
- اور جو چیزیں یہ بتاتا ہے ان کے ہم وارث ہوں گے اور یہ اکیلا
- کہ ہم نے اس کو مبارک رات میں نازل فرمایا ہم تو رستہ دکھانے والے
- فرمایا سچ (ہے) اور میں بھی سچ کہتا ہوں
- جب وہ ان کے ساتھ دوڑنے (کی عمر) کو پہنچا تو ابراہیم نے کہا کہ
- فرمایا کہ ہم نے تمہاری قوم کو تمہارے بعد آزمائش میں ڈال دیا ہے اور
Quran surahs in English :
Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers