Surah rahman Ayat 29 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿يَسْأَلُهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ﴾
[ الرحمن: 29]
آسمان اور زمین میں جتنے لوگ ہیں سب اسی سے مانگتے ہیں۔ وہ ہر روز کام میں مصروف رہتا ہے
Surah rahman Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی سب اس کے محتاج اور اس کے در کے سوالی ہیں۔
( 2 ) ہر روز کا مطلب، ہر وقت۔ شان کے معنی امر یا معاملہ ، یعنی ہر وقت وہ کسی نہ کسی کام میں مصروف ہے، کسی کو بیمار کر رہا ہے، کسی کو شفایاب، کسی کو تونگر بنا رہا ہے تو کسی تونگرکو فقیر۔ کسی کو گدا سے شاہ اور شاہ سے گدا، کسی کو بلندیوں پر فائز کرر ہا ہے، کسی کو پستی میں گرا رہا ہے، کسی کو ہست سے نیست اور نیست کو ہست کررہا ہے وغیرہ۔ الغرض کائنات میں یہ سارے تصرف اسی کے امر ومشیت سےہو رہے ہیں اور شب وروز کا کوئی لمحہ ایسا نہیں جو اس کی کارگزاری سے خالی ہو۔ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ، لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
اللہ تعالیٰ کے سوا باقی سب فنا فرماتا ہے کہ زمین کی کل مخلوق فنا ہونے والی ہے ایک دن آئے گا کہ اس پر کچھ نہ ہوگا کل جاندار مخلوق کو موت آجائے گی اسی طرح کل آسمان والے بھی موت کا مزہ چکھیں گے مگر جسے اللہ چاہے صرف اللہ کی ذات باقی رہ جائے گی جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ تک ہے جو موت و فوت سے پاک ہے حضرت قتادہ فرماتے ہیں اولا تو پیدائش عالم کا ذکر فرمایا پھر ان کی فنا کا بیان کیا۔ حضور ﷺ سے ایک منقول دعا میں یہ بھی ہے ( یا حی یا قیوم یا بدیع السموات والارض یا ذا الجلال والاکرام لا الہ الا انت برحمتک نستغیث اصلح لنا شاننا کلہ ولا تکلنا الی انفسنا طرفتہ عین ولا الی احد من خلقک ) یعنی اے ہمیشہ جینے اور ابدالآباد تک باقی اور تمام قائم رہنے والے اللہ اے آسمان و زمین کے ابتدا پیدا کرنے والے۔ اے رب جلال اور بزرگی والے پروردگار تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہم تیری رحمت ہی سے استغاثہ کرتے ہیں ہمارے تمام کام تو بنا دے اور آنکھ جھپکنے کے برابر بھی تو ہماری طرف نہ سونپ اور نہ اپنی مخلوق میں سے کسی کی طرف۔ حضرت شعبی فرماتے ہیں جب تو آیت ( کل من علیھا فان ) پڑھے تو ٹھہر نہیں اور ساتھ ہی آیت ( وَّيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ 27ۚ ) 55۔ الرحمن:27) پڑھ لے۔ اس آیت کا مضمون دوسری آیت میں ان الفاظ سے ہے آیت ( كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ ۭ لَهُ الْحُكْمُ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ 88 ) 28۔ القصص:88) سوائے ذات باری کے ہر چیز ناپید ہونے والی ہے پھر اپنے چہرے کی تعریف میں فرماتا ہے وہ ذوالجلال ہے یعنی اس قابل ہے کہ اس کی عزت کی جائے اس کا جاہ و جلال مانا جائے اور اس کے احکام کی اطاعت کی جائے اور اس کے فرمان کی خلاف ورزی سے رکا جائے۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَلَا تَعْدُ عَيْنٰكَ عَنْهُمْ 28 ) 18۔ الكهف :28) ، جو لوگ صبح شام اپنے پروردگار کو پکارتے رہتے ہیں اور اسی کی ذات کے مرید ہیں تو انہی کے ساتھ اپنے نفس کو وابستہ رکھ اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ نیک لوگ صدقہ دیتے وقت سمجھتے ہیں کہ ہم محض اللہ کی رضا کے لئے کھلاتے پلاتے ہیں وہ کبریائی بڑائی عظمت اور جلال والا ہے پس اس بات کو بیان فرما کر کہ تمام اہل زمین فوت ہونے میں اور پھر اللہ کے سامنے قیامت کے دن پیش ہونے میں برابر ہیں اور اس دن وہ بزرگی والا اللہ ان کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ حکم فرمائے گا ساتھ ہی فرمایا اب تم اے جن و انس رب کی کونسی نعمت کا انکار کرتے ہو ؟ پھر فرماتا ہے کہ وہ ساری مخلوق سے بےنیاز ہے اور کل مخلوق اس کی یکسر محتاج ہے سب کے سب سائل ہیں وہ غنی ہے سب فقیر ہیں اور وہ سب کے سوال پورے کرنے والا ہے ہر مخلوق اپنے حال و قال سے اپنی حاجتیں اس کی بارگاہ میں لے جاتی ہے اور ان کے پورا ہونے کا سوال کرتی ہے۔ وہ ہر دن نئی شان میں ہے اس کی شان ہے کہ ہر پکارنے والے کو جواب دے۔ مانگنے والے کو عطا فرمائے تنگ حالوں کو کشادگی دے مصیبت و آفات والوں کو رہائی بخشے بیماروں کو تندرستی عنایت فرمائے غم و ہم دور کرے بےقرار کی بیقراری کے وقت کی دعا کو قبول فرما کر اسے قرار اور آرام عنایت فرمائے۔ گنہگاروں کے واویلا پر متوجہ ہو کر خطاؤں سے درگزر فرمائے گناہوں کو بخشے زندگی وہ دے موت وہ دے تمام زمین والے کل آسمان والے اس کے آگے ہاتھ پھیلائے ہوئے اور دامن پھیلائے ہوئے ہیں چھوٹوں کو بڑا وہ کرتا ہے قیدیوں کو رہائی وہ دیتا ہے نیک لوگوں کی حاجتوں کو پورا کرنے والا ان کی پکار کا مدعا ان کے شکوے شکایت کا مرجع وہی ہے غلاموں کو آزاد کرنے کی رغبت وہی دلانے والا اور ان کو اپنی طرف سے عطیہ وہی عطا فرماتا ہے یہی اس کی شان ہے ابن جریر میں ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی تو صحابہ نے سوال کیا کہ حضور ﷺ وہ شان کیا ہے ؟ فرمایا گناہوں کا بخشنا دکھ کو دور کرنا لوگوں کو ترقی اور تنزلی پر لانا ابن ابی حاتم میں اور ابن عساکر میں بھی اسی کے ہم معنی ایک حدیث ہے۔ صحیح بخاری میں یہ روایت معلقاً حضرت ابو الدرداء کے قول سے مروی ہے بزار میں بھی کچھ کمی کے ساتھ مرفوعًا مروی ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ کو سفید موتی سے پیدا کیا اس کے دونوں تختے سرخ یاقوت کے ہیں اس کا علم نوری ہے اس کی چوڑائی آسمان و زمین کے برابر ہے۔ ہر روز تین سو ساٹھ مرتبہ اسے دیکھتا ہے ہر نگاہ پر کسی کو زندگی دیتا اور مارتا اور عزت و ذلت دیتا ہے اور جو چاہے کرتا ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 29{ یَسْئَلُہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط } ” اسی سے مانگتا ہے جو کوئی بھی آسمانوں اور زمین میں ہے۔ “ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کے لیے اللہ ہی کے در کی سوالی ہے۔ ہر کسی کو وجود بھی اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے۔ ہر زندہ وجود کی زندگی بھی اسی کی دین ہے ‘ کسی مخلوق میں اگر کوئی صلاحیت ہے تو وہ بھی اسی کی بخشی ہوئی ہے اور تمام مخلوقات کے ایک ایک فرد کی ضرورتوں کا خبرگیر ونگہبان بھی وہی ہے۔ اس حوالے سے سورة محمد کی آیت 38 کے یہ الفاظ بہت واضح ہیں : { وَاللّٰہُ الْغَنِیُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَآئُج } کہ اللہ غنی اور بےنیاز ہے اور تم سب اس کے محتاج ہو۔ یعنی تمہارا وجود ‘ تمہاری زندگی ‘ تمہاری صلاحیتیں ‘ غرض تمہارا سب کچھ اسی کا عطا کردہ ہے۔ تم اپنے تمام تر وسائل سے بس وہی کچھ کرسکتے ہو جس کی وہ اجازت دیتا ہے اور صرف اسی قدر جان سکتے ہو جس قدر وہ چاہتا ہے۔ اس کی مخلوق کے تمام افراد پر یہ حقیقت واضح ہونی چاہیے : { وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلاَّ بِمَا شَآئَج } البقرۃ : 255 کہ وہ سب کے سب اس کے احاطہ علم میں مقید و محصور ہیں اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے ‘ مگر اسی قدر جس قدر وہ چاہتا ہے۔ { کُلَّ یَوْمٍ ہُوَ فِیْ شَاْنٍ۔ } ” ہر دن وہ ایک نئی شان میں ہے۔ “ ہر دن اس کی ایک نئی شان کا ظہور ہوتا ہے۔ میرے نزدیک اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی تدبیر امر کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر سورة السجدۃ میں بایں الفاظ آیا ہے : { یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَـیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٓٗ اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ۔ } ” وہ تدبیر کرتا ہے اپنے امر کی آسمان سے زمین کی طرف ‘ پھر وہ امر چڑھتا ہے اس کی طرف ‘ یہ سارا معاملہ طے پاتا ہے ایک دن میں جس کی مقدار تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار برس ہے “۔ یعنی کائنات اور مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فارغ ہو کر نہیں بیٹھ گیا ‘ بلکہ اس کائنات کے نظام اور ارض و سماء میں پھیلی ہوئی مخلوقات سے متعلق تمام امور کو وہ لمحہ بہ لمحہ اپنی تدبیر سے چلا رہا ہے۔ اس تدبیر کی منصوبہ بندی کے لیے اس کا ایک دن ہمارے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ چناچہ اس کے ہاں ایک ایک دن کی منصوبہ بندی ہوتی ہے ‘ اہم فیصلے کیے جاتے ہیں ‘ احکام جاری ہوتے ہیں ‘ ان احکام کی تعمیل و تنفیذ عمل میں لائی جاتی ہے اور پھر جائزہ رپورٹیں اسے پیش کی جاتی ہیں۔ اس طرح ہر دن کے لیے اس کی نئی شان ہے اور نئی مصروفیات !
يسأله من في السموات والأرض كل يوم هو في شأن
سورة: الرحمن - آية: ( 29 ) - جزء: ( 27 ) - صفحة: ( 532 )Surah rahman Ayat 29 meaning in urdu
زمین اور آسمانوں میں جو بھی ہیں سب اپنی حاجتیں اُسی سے مانگ رہے ہیں ہر آن وہ نئی شان میں ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اے اہل کتاب اپنے دین (کی بات) میں حد سے نہ بڑھو اور خدا کے
- وہ جس دن ہمارے سامنے آئیں گے۔ کیسے سننے والے اور کیسے دیکھنے والے ہوں
- جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی
- (اس نے) کہا کہ بھلا آپ نے دیکھا کہ جب ہم نے پتھر کے ساتھ
- کہ اوپر کی مجلس کی طرف کان نہ لگاسکیں اور ہر طرف سے (ان پر
- جن لوگوں کو ہم سے ملنے کی توقع نہیں اور دنیا کی زندگی سے خوش
- ہاں جو شخص خدا کے آگے گردن جھکا دے، (یعنی ایمان لے آئے) اور وہ
- وہ بولے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ جس (راہ) پر ہم
- (یعنی خدائے) رحمٰن جس نےعرش پر قرار پکڑا
- اے ایمان والو اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو
Quran surahs in English :
Download surah rahman with the voice of the most famous Quran reciters :
surah rahman mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter rahman Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers