Surah An Nur Ayat 31 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾
[ النور: 31]
اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش (یعنی زیور کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں مگر جو ان میں سے کھلا رہتا ہو۔ اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں اور اپنے خاوند اور باپ اور خسر اور بیٹیوں اور خاوند کے بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجیوں اور بھانجوں اور اپنی (ہی قسم کی) عورتوں اور لونڈی غلاموں کے سوا نیز ان خدام کے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں یا ایسے لڑکوں کے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں (غرض ان لوگوں کے سوا) کسی پر اپنی زینت (اور سنگار کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیں۔ اور اپنے پاؤں (ایسے طور سے زمین پر) نہ ماریں (کہ جھنکار کانوں میں پہنچے اور) ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہوجائے۔ اور مومنو! سب خدا کے آگے توبہ کرو تاکہ فلاح پاؤ
Surah An Nur Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) عورتیں بھی اگرچہ غض بصر اور حفظ فروج کے پہلے حکم میں داخل تھیں، جو تمام مومنین کو دیا گیا ہے اور مومنین میں مومن عورتیں بھی بالعموم شامل ہی ہوتی ہیں لیکن ان مسائل کی اہمیت کے پیش نظر عورتوں کو بھی بطور خاص دوبارہ وہی حکم دیا جارہا ہے جس سے مقصود تاکید ہے بعض علما نے اس سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح مردوں کے لئے عورتوں کو دیکھنا ممنوع ہے اسی طرح عورتوں کے لئے مردوں کو دیکھنا مطلقاً ممنوع ہے۔ اور بعض نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے جس میں حضرت عائشہ ( رضی الله عنها ) کا حبشیوں کا کھیل دیکھنے کا ذکر ہے ( صحيح بخاري، كتاب الصلاة، باب أصحاب الحراب في المسجد ) بغیر شہوت کے مردوں کی طرف دیکھنے کی عورتوں کو اجازت دی ہے۔
( 2 ) زینت سے مراد وہ لباس ہے اور زیور ہے جو عورتیں اپنے حسن وجمال میں مزید نکھار پیدا کرنے کے لئے پہنتی ہیں، جس کی تاکید انہیں اپنے خاوندوں کے لئے کی گئی ہے۔ جب لباس اور زیور کا ا ظہار غیر مردوں کے سامنے عورت کے لئے ممنوع ہے جسم کو عریاں اور نمایاں کرنے کی اجازت اسلام میں کب ہوسکتی ہے؟ یہ تو بطریق اولیٰ حرام اور ممنوع ہوگا۔
( 3 ) اس سے مراد وہ زینت اور حصہ جسم ہے جس کا چھپانا اور پردہ کرنا ممکن نہ ہو۔ جیسے کسی کو کوئی چیز پکڑاتے یا اس سے لیتے ہوئے ہتھیلیوں کا، یا دیکھتے ہوئے آنکھوں کا ظاہر ہوجانا۔ اس ضمن میں ہاتھ میں جو انگوٹھی پہنی ہوئی یا مہندی لگی ہو، آنکھوں میں سرمہ، کاجل ہو یا لباس اور زینت کو چھپانے کے لئے جو برقعہ یا چادر لی جاتی ہے، وہ بھی ایک زینت ہی ہے۔ تاہم یہ ساری زینتیں ایسی ہیں، جن کا اظہار بوقت ضرورت یا بوجہ ضرورت مباح ہے۔
( 4 ) تاکہ سر، گردن، سینے اور چھاتی کا پردہ ہوجائے، کیونکہ انہیں بھی بےپردہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
( 5 ) یہ وہی زینت ( سنگھار ) یا آرائش ہے جسے ظاہر کرنے کی ممانعت اس سے پہلے کی گئی تھی۔ یعنی لباس اور زیور وغیرہ کی، جو چادر یا برقعہ کے نیچے ہوتی ہے۔ یہاں اس کا ذکر اب استثنا کے ضمن میں آیا ہے۔ یعنی ان ان لوگوں کے سامنے اس زینت کا اظہار جائز ہے۔
( 6 ) ان میں سرفہرست خاوند ہے، اسی لئے خاوند کو سب پر مقدم بھی کیا گیا ہے۔ کیونکہ عورت کی ساری زینت خاوند ہی کے لئے ہوتی ہے، اور خاوند کے لئے تو عورت کا سارا بدن ہی حلال ہے۔ اس کے علاوہ جن محارم اور دیگر بعض افراد کا ہر وقت گھر میں آنا جا نارہتا ہے اور قربت اور رشتہ داری کی وجہ سے یا دیگر وجوہ سے طبعی طور پر ان کی طرف جنسی میلان بھی نہیں ہوتا، جس سے فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو۔ تو شریعت نے ایسے لوگوں کے سامنے، جن سے کوئی خطرہ نہ ہو اور تمام محارم کے سامنے زینت ظاہر کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔ اس مقام پر ماموں اور چچا کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ جمہور علما کے نزدیک یہ بھی ان محارم میں سے ہیں جن کے سامنے اظہار زینت کی اجازت دی گئی ہے اور بعض کے نزدیک یہ محارم میں سے نہیں ہیں ( فتح القدیر )۔
( 7 ) باپ میں دادا، پردادا، نانا، پرنانا اور اس سے اوپر سب شامل ہیں۔ اسی طرح خسر میں خسر کا باپ، دادا، پردادا، اوپر تک۔ بیٹوں میں پوتا، پرپوتا، نواسہ پرنواسہ نیچے تک۔ خاوندوں کے بیٹوں میں پوتے، پرپوتے، نیچے تک، بھائیوں میں تینوں قسم کے بھائی ( عینی، اخیافی اور علاتی ) اور ان کے بیٹے، پوتے، پرپوتے، نواسے، نیچے تک۔ بھتیجوں میں ان کے بیٹے، نیچے تک اور بھانجوں میں تینوں قسم کی بہنوں کی اولاد شامل ہے۔
( 8 ) ان سے مراد مسلمان عورتیں ہیں جن کو اس بات سے منع کردیا گیا ہے کہ وہ کسی عورت کی زینت، اس کا حسن و جمال اور جسمانی خدوخال اپنے خاوند کے سامنے بیان کریں۔ ان کے علاوہ کسی بھی کافر عورت کے سامنے اظہار زینت منع ہے یہی رائے حضرت عمرو عبداللہ بن عباس ( رضي الله عنه ) ما ومجاھد اور امام احمد بن حنبل سے منقول ہے۔ بعض نے اس سے وہ مخصوص عورتیں مراد لی ہیں، جو خدمت وغیرہ کے لئے ہر وقت ساتھ رہتی ہیں، جن میں باندیاں ( لونڈیاں ) بھی شامل ہیں۔
( 9 ) بعض نے اس سے مراد صرف لونڈیاں اور بعض نے صرف غلام لئے ہیں اور بعض نے دونوں ہی۔ حدیث میں بھی صراحت ہے کہ غلام سے پردے کی ضرورت نہیں ہے۔ ( أبو داود- كتاب اللباس باب في العبد ينظر إلى شعر مولاته ) اس طرح بعض نے اسے عام رکھا ہے جس میں مومن اور کافر دونوں غلام شامل ہیں۔
( 10 ) بعض نے ان سے صرف وہ افراد مراد لئے ہیں جن کا گھر میں رہنے سے، کھانے پینے کے سوا کوئی اور مقصد نہیں۔ بعض نے بےوقوف ، بعض نے نامرد ا ور خصی اور بعض نے بالکل بوڑھے مراد لئے ہیں۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ جن کے اندر بھی قرآن کی بیان کردہ صفت پائی جائے گی، وہ سب اس میں شامل اور دوسرے خارج ہوں گے۔
( 11 ) ان سے ایسے بچے خارج ہوں گے جو بالغ ہوں یا بلوغت کے قریب ہوں کیونکہ وہ عورتوں کے پردوں کی باتوں سے واقف ہوتے ہیں۔
( 12 ) تاکہ پازیبوں کی جھنکار سے مرد اس کی طرف متوجہ نہ ہوں۔ اسی میں اونچی ایڑی کے وہ سینڈل بھی آجاتے ہیں جنہیں عورت پہن کر چلتی ہے ٹک ٹک کی آواز، زیور کی جھنکار سے کم نہیں ہوتی۔ اسی طرح احادیث میں آتا ہے کہ عورت کے لئے خوشبو لگا کر گھر سے باہر نکلنا جائز نہیں، جو عورت ایسا کرتی ہے، وہ بدکار ہے ( ترمذي، أبواب الاستئذان، أبو داود، كتاب الترجل )۔
( 13 ) یہاں پردے کے احکام میں توبہ کا حکم دینے میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ان احکام کی جو خلاف ورزی بھی تم کرتے رہے ہو، وہ چونکہ اسلام سے قبل کی باتیں ہیں، اس لئے اگر تم نے سچے دل سے توبہ کرلی اور ان احکام مذکورہ کے مطابق پردے کا صحیح اہتمام کرلیا تو فلاح وکامیابی اور دنیا وآخرت کی سعادت تمہارا مقدر ہے
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
مومنہ عورتوں کو تاکید یہاں اللہ تعالیٰ مومنہ عورتوں کو چند حکم دیتا ہے تاکہ ان کے باغیرت مردوں کو تسکین ہو اور جاہلیت کی بری رسمیں نکل جائیں۔ مروی ہے کہ اسماء بنت مرثد ؓ کا مکان بنوحارثہ کے محلے میں تھا۔ ان کے پاس عورتیں آتی تھیں اور دستور کے مطابق اپنے پیروں کے زیور، سینے اور بال کھولے آیا کرتی تھیں۔ حضرت اسماء نے کہا یہ کیسی بری بات ہے ؟ اس پر یہ آیتیں اتریں۔ پس حکم ہوتا ہے کہ مسلمان عورتوں کو بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھنی چاہئیں۔ سوا اپنے خاوند کے کسی کو بہ نظر شہوت نہ دیکھنا چاہئے۔ اجنبی مردوں کی طرف تو دیکھنا ہی حرام ہے خواہ شہوت سے ہو خواہ بغیر شہوت کے۔ ابو داؤد اور ترمذی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ ؓ بیٹھی تھیں کہ ابن ام مکتوم ؓ تشریف لے آئے۔ یہ واقعہ پردے کی آیتیں اترنے کے بعد کا ہے۔ حضور ﷺ نے ان سے فرمایا کہ پردہ کرلو۔ انہوں نے کہا یارسول اللہ ! وہ تو نابینا ہیں، نہ ہمیں دیکھیں گے، نہ پہچانیں گے۔ آپ نے فرمایا تم تو نابینا نہیں ہو کہ اس کو نہ دیکھو ؟ ہاں بعض علماء نے بےشہوت نظر کرنا حرام نہیں کہا۔ ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ عید والے دن حبشی لوگوں نے مسجد میں ہتھیاروں کے کرتب شروع کئے اور ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کو آنحضرت ﷺ نے اپنے پیچھے کھڑا کرلیا آپ دیکھ ہی رہی تھیں یہاں تک کہ جی بھر گیا اور تھک کر چلی گئیں۔ عورتوں کو بھی اپنی عصمت کا بچاؤ چاہئے، بدکاری سے دور رہیں، اپنا آپ کسی کو نا دکھائیں۔ اجنبی غیر مردوں کے سامنے اپنی زینت کی کسی چیز کو ظاہر نہ کریں ہاں جس کا چھپانا ممکن ہی نہ ہو، اس کی اور بات ہے جیسے چادر اور اوپر کا کپڑا وغیرہ جنکا پوشیدہ رکھنا عورتوں کے لئے ناممکنات سے ہے۔ یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد چہرہ، پہنچوں تک کے ہاتھ اور انگوٹھی ہے۔ لیکن ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ یہی زینت کے وہ محل ہیں، جن کے ظاہر کرنے سے شریعت نے ممانعت کردی ہے۔ جب کہ حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ وہ اپنی زینت ظاہر نہ کریں یعنی بالیاں ہار پاؤں کا زیور وغیرہ۔ فرماتے ہیں زینت دو طرح کی ہے ایک تو وہ جسے خاوند ہی دیکھے جیسے انگوٹھی اور کنگن اور دوسری زینت وہ جسے غیر بھی دیکھیں جیسے اوپر کا کپڑا۔ زہری ؒ فرماتے ہیں کہ اسی آیت میں جن رشتہ داروں کا ذکر ہے ان کے سامنے تو کنگن دوپٹہ بالیاں کھل جائیں تو حرج نہیں لیکن اور لوگوں کے سامنے صرف انگوٹھیاں ظاہر ہوجائیں تو پکڑ نہیں۔ اور روایت میں انگوٹھیوں کے ساتھ ہی پیر کے خلخال کا بھی ذکر ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ما ظہر منہا کی تفیسر ابن عباس ؓ نے منہ اور پہنچوں سے کی ہو۔ جیسے ابو داؤد میں ہے کہ اسماء بنت ابی بکر ؓ آنحضرت ﷺ کے پاس آئیں کپڑے باریک پہنے ہوئے تھیں تو آپ نے منہ پھیرلیا اور فرمایا جب عورت بلوغت کو پہنچ جائے تو سوا اس کے اور اس کے یعنی چہرہ کے اور پہنچوں کے اس کا کوئی عضو دکھانا ٹھیک نہیں۔ لیکن یہ مرسل ہے۔ خالد بن دریک ؒ اسے حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں اور ان کا ام المومنین سے ملاقات کرنا ثابت نہیں۔ واللہ اعلم۔ عورتوں کو چاہئے کہ اپنے دوپٹوں سے یا اور کپڑے سے بکل مار لیں تاکہ سینہ اور گلے کا زیور چھپا رہے۔ جاہلیت میں اس کا بھی رواج نہ تھا۔ عورتیں اپنے سینوں پر کچھ نہیں ڈالتیں تھیں بسا اوقات گردن اور بال چوٹی بالیاں وغیرہ صاف نظر آتی تھیں۔ ایک اور آیت میں ہے اے نبی ﷺ اپنی بیویوں سے، اپنی بیٹیوں سے اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی چادریں اپنے اوپر لٹکا لیا کریں تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں۔ خمر خمار کی جمع ہے خمار کہتے ہیں ہر اس چیز کو جو ڈھانپ لے۔ چونکہ دوپٹہ سر کو ڈھانپ لیتا ہے اس لئے اسے بھی خمار کہتے ہیں۔ پس عورتوں کو چاہے کہ اپنی اوڑھنی سے یا کسی اور کپڑے سے اپنا گلا اور سینہ بھی چھپائے رکھیں۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں اللہ تعالیٰ ان عورتوں پر رحم فرمائے جنہوں نے شروع شروع ہجرت کی تھی کہ جب یہ آیت اتری انہوں نے اپنی چادروں کو پھاڑ کر دوپٹے بنائے۔ بعض نے اپنے تہمد کے کنارے کاٹ کر ان سے سر ڈھک لیا۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ کے پاس عورتوں نے قریش عورتوں کی فضیلت بیان کرنی شروع کی تو آپ نے فرمایا ان کی فضیلت کی قائل میں بھی ہوں لیکن واللہ میں نے انصار کی عورتوں سے افضل عورتیں نہیں دیکھیں، ان کے دلوں میں جو کتاب اللہ کی تصدیق اور اس پر کامل ایمان ہے، وہ بیشک قابل قدر ہے۔ سورة نور کی آیت ( ولیضربن بخمرھن ) جب نازل ہوئی اور ان کے مردوں نے گھر میں جاکر یہ آیت انہیں سنائی، اسی وقت ان عورتوں نے اس پر عمل کرلیا اور صبح کی نماز میں وہ آئیں تو سب کے سروں پر دوپٹے موجود تھے۔ گویا ڈول رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد ان مردوں کا بیان فرمایا جن کے سامنے عورت ہوسکتی ہے اور بغیر بناؤ سنگھار کے ان کے سامنے شرم وحیا کے ساتھ آ جاسکتی ہے گو بعض ظاہری زینت کی چیزوں پر بھی ان کی نظر پڑجائے۔ سوائے خاوند کے کہ اس کے سامنے تو عورت اپنا پورا سنگھار زیب زینت کرے۔ گو چچا اور ماموں بھی ذی محرم ہیں لیکن ان کا نام یہاں اس لئے نہیں لیا گیا کہ ممکن ہے وہ اپنے بیٹوں کے سامنے ان کے محاسن بیان کریں۔ اس لئے ان کے سامنے بغیر دوپٹے کے نہ آنا چاہئے۔ پھر فرمایا تمہاری عورتیں یعنی مسلمان عورتوں کے سامنے بھی اس زینت کے اظہار میں کوئی حرج نہیں۔ اہل ذمہ کی عورتوں کے سامنے اس لئے رخصت نہیں دی گئی کہ بہت ممکن ہے وہ اپنے مردوں میں ان کی خوبصورتی اور زینت کا ذکر کریں۔ گو مومن عورتوں سے بھی یہ خوف ہے مگر شریعت نے چونکہ اسے حرام قرار دیا ہے اس لئے مسلمان عورتیں تو ایسا نہ کریں گی لیکن ذمی کافروں کی عورتوں کو اس سے کون سی چیز روک سکتی ہے ؟ بخاری مسلم میں ہے کہ کسی عورت کو جائز نہیں کہ دوسری عورت سے مل کر اس کے اوصاف اپنے خاوند کے سامنے اس طرح بیان کرے کہ گویا وہ اسے دیکھ رہا ہے۔ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب ؓ نے حضرت ابو عبیدہ ؓ کو لکھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض مسلمان عورتیں حمام میں جاتی ہیں، ان کے ساتھ مشرکہ عورتیں بھی ہوتی ہیں۔ سنو کسی مسلمان عورت کو حلال نہیں کہ وہ اپناجسم کسی غیر مسلمہ عورت کو دکھائے۔ حضرت مجاہد ؒ بھی آیت ( اونساءھن ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں مراد اس سے مسلمان عورتیں ہیں تو ان کے سامنے وہ زینت ظاہر کرسکتی ہے جو اپنے ذی محرم رشتے داروں کے سامنے ظاہر کرسکتی ہے۔ یعنی گلابالیاں اور ہار۔ پس مسلمان عورت کو ننگے سر کسی مشرکہ عورت کے سامنے ہونا جائز نہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ جب صحابہ بیت المقدس پہنچے تو ان کی بیویوں کے لئے دایہ یہودیہ اور نصرانیہ عورتیں ہی تھیں۔ پس اگر یہ ثابت ہوجائے تو محمول ہوگا ضرورت پر یا ان عورتوں کی ذلت پر۔ پھر اس میں غیر ضروری جسم کا کھلنا بھی نہیں۔ واللہ اعلم۔ ہاں مشرکہ عورتوں میں جو لونڈیاں باندیاں ہوں وہ اس حکم سے خارج ہیں۔ بعض کہتے ہیں غلاموں کا بھی یہی حکم ہے۔ ابو داؤد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت فاطمہ ؓ کے پاس انہیں دینے کے لیے ایک غلام لے کر آئے۔ حضرت فاطمہ اسے دیکھ کر اپنے آپ کو اپنے دو پٹے میں چھپانے لگیں۔ لیکن چونکہ کپڑا چھوٹا تھا، سر ڈھانپتی تھیں تو پیر کھل جاتے تھے اور پیر ڈھانپتی تھیں تو سرکھل جاتا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے یہ دیکھ کر فرمایا بیٹی کیوں تکلیف کرتی ہو میں تو تمہارا والد ہوں اور یہ تمہارا غلام ہے۔ ابن عساکر کی روایت میں ہے کہ اس غلام کا نام عبداللہ بن مسعدہ تھا۔ یہ فزاری تھے۔ سخت سیاہ فام۔ حضرت فاطمۃ الزھرا ؓ نے انہیں پرورش کر کے آزاد کردیا تھا۔ صفین کی جنگ میں یہ حضرت معاویہ کے ساتھ تھے اور حضرت علی ؓ کے بہت مخالف تھے۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عورتوں سے فرمایا۔ تم میں سے جس کسی کا مکاتب غلام ہو جس سے یہ شرط ہوگئی ہو کہ اتنا روپیہ دے دے تو تو آزاد، پھر اس کے پاس اتنی رقم بھی جمع ہوگئی ہو تو چاہئے کہ اس سے پردہ کرے پھر بیان فرمایا کہ نوکر چاکر کام کاج کرنے والے ان مردوں کے سامنے جو مردانگی نہیں رکھتے عورتوں کی خواہش جنہیں نہیں۔ اس مطلب کے ہی وہ نہیں، ان کا حکم بھی ذی محرم مردوں کا ہے یعنی ان کے سامنے بھی اپنی زینت کے اظہار میں مضائقہ نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سست ہوگئے ہیں عورتوں کے کام کے ہی نہیں۔ لیکن وہ مخنث اور ہیجڑے جو بد زبان اور برائی کے پھیلانے والے ہوتے ہیں ان کا یہ حکم نہیں۔ جیسے کہ بخاری مسلم وغیرہ میں ہے کہ ایک ایسا ہی شخص حضور ﷺ کے گھر آیا تھا چونکہ اسے اسی آیت کے ماتحت آپ کی ازواج مطہرات نے سمجھا اسے منع نہ کیا تھا۔ اتفاق سے اسی وقت رسول اللہ ﷺ آگئے، اس وقت وہ حضرت ام سلمہ کے بھائی عبداللہ سے کہہ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ جب طائف کو فتح کرائے گا تو میں تجھے غیلان کی لڑائی دکھاؤں گا کہ آتے ہوئے اس کے پیٹ پر چار شکنیں پڑتی ہیں اور واپس جاتے ہوئے آٹھ نظر آتی ہیں۔ اسے سنتے ہی حضور ﷺ نے فرمایا خبردار ایسے لوگوں کو ہرگز نہ آنے دیا کرو۔ اس سے پردہ کرلو۔ چناچہ اسے مدینے سے نکال دیا گیا۔ بیداء میں یہ رہنے لگا وہاں سے جمعہ کے روز آجاتا اور لوگوں سے کھانے پینے کو کچھ لے جاتا۔ چھوٹے بچوں کے سامنے ہونے کی اجازت ہے جو اب تک عورتوں کے مخصوص اوصاف سے واقف نہ ہوں۔ عورتوں پر ان کی للچائی ہوئی نظریں نہ پڑتی ہوں۔ ہاں جب وہ اس عمر کو پہنچ جائیں کہ ان میں تمیز آجائے۔ عورتوں کی خوبیاں ان کی نگاہوں میں جچنے لگیں، خوبصورت بد صورت کا فرق معلوم کرلیں۔ پھر ان سے بھی پردہ ہے گو وہ پورے جوان نہ بھی ہوئے ہوں۔ بخاری ومسلم میں ہے حضور ﷺ نے فرمایا لوگو ! عورتوں کے پاس جانے سے بچو پوچھا گیا کہ یارسول اللہ دیور جیٹھ ؟ آپ نے فرمایا وہ تو موت ہے۔ پھر فرمایا کہ عورتیں اپنے پیروں کو زمین پر زور زور سے مار مار کر نہ چلیں جاہلیت میں اکثر ایسا ہوتا تھا کہ وہ زور سے پاؤں زمین پر رکھ کر چلتی تھیں تاکہ پیر کا زیور بجے۔ اسلام نے اس سے منع فرما دیا۔ پس عورت کو ہر ایک ایسی حرکت منع ہے جس سے اس کا کوئی چھپا ہوا سنگھار کھل سکے۔ پس اسے گھر سے عطر اور خوشبو لگا کر باہر نکلنا بھی ممنوع ہے۔ ترمذی میں ہے کہ ہر آنکھ زانیہ ہے۔ ابو داؤد میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ کو ایک عورت خوشبو سے مہکتی ہوئی ملی۔ آپ نے اس سے پوچھا کیا تو مسجد سے آرہی ہے ؟ اس نے کہا ہاں فرمایا کیا تم نے خوشبو لگائی ہے ؟ اس نے کہا ہاں۔ آپ نے فرمایا۔ میں نے اپنے حبیب ابو القاسم ﷺ سے سنا ہے کہ جو عورت اس مسجد میں آنے کے لئے خوشبو لگائے، اس کی نماز نا مقبول ہے جب کہ وہ لوٹ کر جنابت کی طرح غسل نہ کرلے۔ ترمذی میں ہے کہ اپنی زینت کو غیر جگہ ظاہر کرنے والی عورت کی مثال قیامت کے اس اندھیرے جیسی ہے جس میں نور نہ ہو۔ ابو داؤد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مردوں عورتوں کو راستے میں ملے جلے چلتے ہوئے دیکھ کر فرمایا عورتو ! تم ادھر ادھر ہوجاؤ، تمہیں بیچ راہ میں نہ چلنا چاہئے۔ یہ سن کر عورتیں دیوار سے لگ کر چلنے لگیں یہاں تک کہ ان کے کپڑے دیواروں سے رگڑتے تھے۔ پھر فرماتا ہے کہ اے مومنو ! میری بات پر عمل کرو، ان نیک صفتوں کو لے لو، جاہلیت کی بدخصلتوں سے رک جاؤ۔ پوری فلاح اور نجات اور کامیابی اسی کے لئے ہے جو اللہ کا فرمانبردار ہو، اس کے منع کردہ کاموں سے رک جاتا ہو، اللہ ہی سے ہم مدد چاہتے ہیں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّص ” اپنے معمول کے لباس کے اوپر وہ اپنی اوڑھنیوں کو اس طرح لپیٹے رکھیں کہ ان کے گریبان اور سینے ڈھکے رہیں۔ خُمُر جمع ہے ‘ اس کا واحد خمار ہے اور اس کے معنی اوڑھنی دوپٹہ کے ہیں۔ سورة الأحزاب ‘ آیت 59 میں خواتین کے لباس کے حوالے سے جلابِیب کا لفظ آیا ہے جس کی واحد جلباب ہے۔ ہمارے ہاں ”جلباب “ کا مترادف لفظ چادر ہے۔ چناچہ یوں سمجھئے کہ دوپٹہ اور چادر دونوں ہی عورت کے لباس کا لازمی حصہ ہیں۔ عرب تمدن میں اسلام سے پہلے اگرچہ عورت کے لیے چہرے کا پردہ رائج نہیں تھا مگر چادر اور اوڑھنی اس دور میں بھی عورت کے لباس کا لازمی حصہ تھیں۔ اوڑھنی وہ ہر وقت اوڑھے رہتی تھی گھر کے اندر رہتے ہوئے بھی جبکہ گھر سے باہر نکلنا ہوتا تو چادر اوڑھ کر نکلتی تھی۔ البتہ وہ اوڑھنی اس انداز سے لیتی تھیں کہ گریبان کا ایک حصہ کھلا رہتا تھا جس سے گلا اور سینہ صاف نمایاں ہوتا تھا۔ اس آیت میں حکم دیا گیا کہ اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیوں کے ُ بکلّ مار لیا کریں تاکہ ان کے گریبان اور سینے اچھی طرح ڈھکے رہیں۔ زمانہ قبل از اسلام میں عربوں کے ہاں چادر نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کے لباس کا بھی لازمی حصہ تھی۔ چادر مرد کی عزت کی علامت سمجھی جاتی اور چادر کے معیار سے کسی شخص کے مقام و مرتبے کا تعین بھی ہوتا تھا۔ معمولی چادر والے شخص کو ایک عام آدمی جبکہ قیمتی دوشالہ اوڑھنے والے کو معزز اور اہم آدمی سمجھا جاتا تھا۔ اسی طرح کسی کے کاندھے سے اس کی چادر کا کھینچنا یا گھسیٹنا اس کو بےعزت و بےتوقیر کرنے کی علامت تھی۔ چادر کا یہی تصور اس حدیث قدسی میں بھی ملتا ہے جس میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ فرماتا ہے : اَلْکِبْرِیَاءُ رِدَاءِیْ 1 ” تکبر میری چادر ہے “۔ یعنی جو شخص تکبر کرتا ہے وہ گویا میری چادر گھسیٹ رہا ہے۔وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ ”آگے اس حکم سے استثناء کے طور پر مردوں کی ایک طویل فہرست دی جا رہی ہے جن کے سامنے عورت بغیر حجاب ‘ کھلے چہرے کے ساتھ آسکتی ہے۔ مقام غور ہے کہ اگر عورت کے چہرے کا پردہ لازمی نہیں ہے تو محرم مردوں کی یہ طویل فہرست بیان فرمانا معاذ اللہ ! کیا ایک بےمقصد مشق excercise in futility ہے ؟ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی شریعت میں عورت کے چہرے کا پردہ لازمی ہے اور اس حکم سے جن مردوں کو استثناء حاصل ہے وہ یہ ہیں :اِلَّا لِبُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اٰبَآءِہِنَّ ”باپ کے مفہوم میں چچا ‘ ماموں ‘ دادا اور نانا بھی شامل ہیں۔اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اَبْنَآءِہِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِہِنَّ ”یعنی شوہر کا وہ بیٹا جو اس کی دوسری بیوی سے ہے وہ بھی نا محرم نہیں ہے۔اَوْ نِسَآءِہِنَّ ”یعنی عام عورتیں بھی نا محرم تصور کی جائیں گی۔ البتہ اپنے میل جول اور جان پہچان کی عورتیں اس استثنائی فہرست میں شامل ہیں۔اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُنَّ ”یعنی غلام اور لونڈیاں۔ لیکن اکثر اہل سنت علماء کے نزدیک یہ حکم صرف لونڈیوں کے لیے ہے اور غلام اس میں شامل نہیں ہیں۔اَوِ التَّابِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ ”یعنی ایسے زیردست لوگ جو صرف خدمت گار ہوں اور اپنی عمر یا زیردستی و محکومی کی بنا پر خواتین خانہ کے متعلق کوئی بری نیت دل میں نہ لاسکیں۔ اس شرط پر پورا اترنے والے مرد بھی اس استثنائی فہرست میں شمار ہوں گے۔ مثلاً ایسے خاندانی ملازمین جو کئی پشتوں سے گھریلو خدمت پر مامور ہوں۔ پہلے باپ ملازم تھا ‘ پھر اس کا بیٹا بھی اسی گھر میں پلا بڑھا اور بچپن سے ہی گھر کی خواتین کی خدمت میں رہا۔ ایسے لڑکے یا مرد سے یہ اندیشہ نہیں ہوتا کہ وہ گھر کی خواتین کے بارے میں برا خیال ذہن میں لائے۔اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُوْا عَلٰی عَوْرٰتِ النِّسَآءِص ”یعنی وہ نا بالغ لڑکے جن میں عورتوں کے لیے فطری رغبت ابھی پیدا نہیں ہوئی۔ یہ ان محرم لوگوں کی فہرست ہے جن کے سامنے عورت بغیر حجاب کے آسکتی ہے۔ اس ضمن میں دو باتیں مزید ذہن نشین کر لیجیے : پہلی یہ کہ اس آیت میں اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا سوائے اس کے جو اس میں سے از خود ظاہر ہوجائے کے الفاظ سے بعض لوگ چہرہ مراد لیتے ہیں ‘ جو بالبداہت بالکل غلط ہے۔ سورة الأحزاب میں وارد احکام حجاب اور احادیث نبویہ کی رو سے عورت کے لیے چہرے کا پردہ لازمی ہے۔ عہد نبوی ﷺ میں حکم حجاب آجانے کے بعد عورتیں کھلے منہ نہیں پھرتی تھیں۔ میرے نزدیک ان قرآنی الفاظ سے مراد نسوانی جسم کی ساخت یا اس کی ایسی کوئی کیفیت ہے جسے عورت چھپانا چاہے بھی تو نہیں چھپا سکتی۔ مثلاً کسی خاتون نے برقعہ پہن رکھا ہے ‘ چہرے کے پردے کا اہتمام بھی کیا ہے مگر اس کے لمبے قد کی کشش یا متناسب جسم کی خوبصورتی اس سب کچھ کے باوجود بھی اپنی جگہ موجود ہے ‘ جو بہرحال چھپائے نہیں چھپ سکتی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مذکورہ محرموں کے سامنے عورت کو صرف چہرے کے پردے کے بغیر آنے کی اجازت ہے۔ ستر کے کسی حصے کو ان کے سامنے بھی کھولنے کی اسے اجازت نہیں اس میں صرف اس کے خاوند کو استثناء حاصل ہے۔ واضح رہے کہ عورت کے چہرے ‘ پہنچوں سے نیچے ہاتھوں اور ٹخنوں سے نیچے پیروں کے سوا اس کا تمام جسم اس کے ستر میں شامل ہے۔ چناچہ کسی عورت کو کھلے بالوں کے ساتھ یا مذکورہ تین اعضاء کے علاوہ جسم کے کسی حصے کو کھلا چھوڑ کر اپنے والد ‘ بھائی یا بیٹے کے سامنے بھی آنے کی اجازت نہیں۔وَلَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ ط ”عورت کی چال ایسی نہ ہو جس کی وجہ سے چادر یا برقعے کے باوجود اس کے بناؤ سنگھار ‘ زیورات وغیرہ میں سے کسی قسم کی زینت کے اظہار کا امکان ہو۔
وقل للمؤمنات يغضضن من أبصارهن ويحفظن فروجهن ولا يبدين زينتهن إلا ما ظهر منها وليضربن بخمرهن على جيوبهن ولا يبدين زينتهن إلا لبعولتهن أو آبائهن أو آباء بعولتهن أو أبنائهن أو أبناء بعولتهن أو إخوانهن أو بني إخوانهن أو بني أخواتهن أو نسائهن أو ما ملكت أيمانهن أو التابعين غير أولي الإربة من الرجال أو الطفل الذين لم يظهروا على عورات النساء ولا يضربن بأرجلهن ليعلم ما يخفين من زينتهن وتوبوا إلى الله جميعا أيها المؤمنون لعلكم تفلحون
سورة: النور - آية: ( 31 ) - جزء: ( 18 ) - صفحة: ( 353 )Surah An Nur Ayat 31 meaning in urdu
اور اے نبیؐ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر اِن لوگوں کے سامنے: شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں، ا پنے مملوک، وہ زیردست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں وہ ا پنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے اے مومنو، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- (نجات) نہ تو تمہاری آرزوؤں پر ہے اور نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر۔ جو
- (جو آپس میں) دوست (ہیں) اس روز ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ مگر پرہیزگار
- جانداروں میں سب سے بدتر خدا کے نزدیک وہ لوگ ہیں جو کافر ہیں سو
- (اے محمدﷺ) خدا کی مہربانی سے تمہاری افتاد مزاج ان لوگوں کے لئے نرم واقع
- کیونکہ خدا ان کو پورا پورا بدلہ دے گا اور اپنے فضل سے کچھ زیادہ
- جو بےخبری میں بھولے ہوئے ہیں
- جو آسودگی اور تنگی میں (اپنا مال خدا کی راہ میں) خرچ کرتےہیں اور غصے
- اور کہتے تھے کہ بھلا ہم ایک دیوانے شاعر کے کہنے سے کہیں اپنے معبودوں
- (اے محمدﷺ) ہم نے تم کو کوثر عطا فرمائی ہے
- اور جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے رہے ان کو ہم نے بچا لیا
Quran surahs in English :
Download surah An Nur with the voice of the most famous Quran reciters :
surah An Nur mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter An Nur Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers