Surah Fussilat Ayat 31 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ﴾
[ فصلت: 31]
ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست تھے اور آخرت میں بھی (تمہارے رفیق ہیں) ۔ اور وہاں جس (نعمت) کو تمہارا جی چاہے گا تم کو (ملے گی) اور جو چیز طلب کرو گے تمہارے لئے (موجود ہوگی)
Surah Fussilat Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یہ مزید خوش خبری ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ بعض کے نزدیک یہ فرشتوں کا قول ہے، دونوں صورتوں میں مومن کے لیے یہ عظیم خوش خبری ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
اسقامت اور اس کا انجام۔جن لوگوں نے زبانی اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کا یعنی اس کی توحید کا اقرار کیا۔ پھر اس پر جمے رہے یعنی فرمان الٰہی کے ماتحت اپنی زندگی گزاری۔ چناچہ حضور ﷺ نے اس آیت کی تلاوت فرما کر وضاحت کی کہ بہت لوگوں نے اللہ کے رب ہونے کا اقرار کرکے پھر کفر کرلیا۔ جو مرتے دم تک اس بات پر جما رہا وہ ہے جس نے اس پر استقامت کی۔ ( نسائی وغیرہ ) حضرت ابوبکر صدیق کے سامنے جب اس آیت کی تلاوت ہوئی تو آپ نے فرمایا " اس سے مراد کلمہ پڑھ کر پھر کبھی بھی شرک نہ کرنے والے ہیں۔ " ایک روایت میں ہے کہ خلیفتہ المسلمین نے ایک مرتبہ لوگوں سے اس آیت کی تفسیر پوچھی تو انہوں نے کہا کہ استقامت سے مراد گناہ نہ کرنا ہے آپ نے فرمایا تم نے اسے غلط سمجھایا۔ اس سے مراد اللہ کی الوہیت کا اقرار کرکے پھر دوسرے کی طرف کبھی بھی التفات نہ کرنا ہے۔ حضرت ابن عباس سے سوال ہوتا ہے کہ قرآن میں حکم اور جزا کے لحاظ سے سب سے زیادہ آسان آیت کونسی ہے ؟ آپ نے اس آیت کی تلاوت کی کہ توحید اللہ پر تاعمر قائم رہنا۔ حضرت فاروق اعظم نے منبر پر اس آیت کی تلاوت کرکے فرمایا واللہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی اطاعت پر جم جاتے ہیں اور لومڑی کی چال نہیں چلتے کہ کبھی ادھر کبھی ادھر۔ ابن عباس فرماتے ہیں فرائض اللہ کی ادائیگی کرتے ہیں۔ حضرت قتادہ یہ دعا مانگا کرتے تھے۔۔ اے اللہ تو ہمارا رب ہے ہمیں استقامت اور پختگی عطا فرما۔ استقامت سے مراد دین اور عمل کا خلوص حضرت ابو العالیہ نے کہا ہے ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ مجھے اسلام کا کوئی ایسا امر بتلایئے کہ پھر کسی سے دریافت کرنے کی ضرورت نہ رہے۔ آپ نے فرمایا زبان سے اقرار کر کہ میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اس پر جم جا۔ اس نے پھر پوچھا اچھا یہ تو عمل ہوا اب بچوں کس چیز سے ؟ تو آپ نے زبان کی طرف اشارہ فرمایا۔ ( مسلم وغیرہ ) امام ترمذی اسے حسن صحیح بتلاتے ہیں، ان کے پاس ان کی موت کے وقت فرشتے آتے ہیں اور انہیں بشارتیں سناتے ہیں کہ تم اب آخرت کی منزل کی طرف جا رہے ہو بےخوف رہو تم پر وہاں کوئی کھٹکا نہیں۔ تم اپنے پیچھے جو دنیا چھوڑے جا رہے ہو اس پر بھی کوئی غم و رنج نہ کرو۔ تمہارے اہل و عیال، مال و متاع کی دین و دیانت کی حفاظت ہمارے ذمے ہے۔ ہم تمہارے خلیفہ ہیں۔ تمہیں ہم خوش خبری سناتے ہیں کہ تم جنتی ہو تمہیں سچا اور صحیح وعدہ دیا گیا تھا وہ پورا ہو کر رہے گا۔ پس وہ اپنے انتقال کے وقت خوش خوش جاتے ہیں کہ تمام برائیوں سے بچے اور تمام بھلائیاں حاصل ہوئیں۔ حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں۔ مومن کی روح سے فرشتے کہتے ہیں اے پاک روح جو پاک جسم میں تھی چل اللہ کی بخشش انعام اور اس کی نعمت کی طرف۔ چل اس اللہ کے پاس جو تجھ پر ناراض نہیں۔ یہ بھی مروی ہے کہ جب مسلمان اپنی قبروں سے اٹھیں گے اسی وقت فرشتے ان کے پاس آئیں گے اور انہیں بشارتیں سنائیں گے۔ حضرت ثابت جب اس سورت کو پڑھتے ہوئے اس آیت تک پہنچے تو ٹھہر گئے اور فرمایا ہمیں یہ خبر ملی ہے کہ مومن بندہ جب قبر سے اٹھے گا تو وہ دو فرشتے جو دنیا میں اس کے ساتھ تھے اس کے پاس آتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں ڈر نہیں گھبرا نہیں غمگین نہ ہو تو جنتی ہے خوش ہوجا تجھ سے اللہ کے جو وعدے تھے پورے ہوں گے۔ غرض خوف امن سے بدل جائے گا آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی دل مطمئن ہوجائے گا۔ قیامت کا تمام خوف دہشت اور وحشت دور ہوجائے گی۔ اعمال صالحہ کا بدلہ اپنی آنکھوں دیکھے گا اور خوش ہوگا۔ الحاصل موت کے وقت قبر میں اور قبر سے اٹھتے ہوئے ہر وقت ملائیکہ رحمت اس کے ساتھ رہیں گے اور ہر وقت بشارتیں سناتے رہیں گے، ان سے فرشتے یہ بھی کہیں گے کہ زندگانی دنیا میں بھی ہم تمہارے رفیق و ولی تھے تمہیں نیکی کی راہ سمجھاتے تھے خیر کی رہنمائی کرتے تھے۔ تمہاری حفاظت کرتے رہتے تھے، ٹھیک اسی طرح آخرت میں بھی ہم تمہارے ساتھ رہیں گے تمہاری وحشت و دہشت دور کرتے رہیں گے قبر میں، حشر میں، میدان قیامت میں، پل صراط پر، غرض ہر جگہ ہم تمہارے رفیق اور دوست اور ساتھی ہیں۔ نعمتوں والی جنتوں میں پہنچا دینے تک تم سے الگ نہ ہوں گے وہاں جو تم چاہو گے ملے گا۔ جو خواہش ہوگی پوری ہوگی، یہ مہمانی یہ عطا یہ انعام یہ ضیافت اس اللہ کی طرف سے ہے جو بخشنے والا اور مہربانی کرنے والا ہے۔ اس کا لطف و رحم اس کی بخشش اور کرم بہت وسیع ہے۔ حضرت سعید بن مسیب اور حضرت ابوہریرہ کی ملاقات ہوتی ہے تو حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ ہم دونوں کو جنت کے بازار میں ملائے۔ اس پر حضرت سعید نے پوچھا کیا جنت میں بھی بازار ہوں گے ؟ فرمایا ہاں مجھے رسول اللہ ﷺ نے خبر دی ہے کہ جنتی جب جنت میں جائیں گے اور اپنے اپنے مراتب کے مطابق درجے پائیں گے تو دنیا کے اندازے سے جمعہ والے دن انہیں ایک جگہ جمع ہونے کی اجازت ملے گی۔ جب سب جمع ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان پر تجلی فرمائے گا اس کا عرش ظاہر ہوگا۔ وہ سب جنت کے باغیچے میں نور لولو یاقوت زبرجد اور سونے چاندی کے منبروں پر بیٹھیں گے، جو نیکیوں کے اعتبار سے کم درجے کے ہیں لیکن جنتی ہونے کے اعتبار سے کوئی کسی سے کمتر نہیں وہ مشک اور کافور کے ٹیلوں پر ہوں گے لیکن اپنی جگہ اتنے خوش ہوں گے کہ کرسی والوں کو اپنے سے افضل مجلس میں نہیں جانتے ہوں گے۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں میں نے حضور ﷺ سے سوال کیا کہ کیا ہم اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ہاں دیکھو گے۔ آدھے دن کے سورج اور چودہویں رات کے چاند کو جس طرح صاف دیکھتے ہو اسی طرح اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے۔ اس مجلس میں ایک ایک سے اللہ تبارک و تعالیٰ بات چیت کرے گا یہاں تک کہ کسی سے فرمائے گا۔ یاد ہے فلاں دن تم نے فلاں کا خلاف کیا تھا ؟ وہ کہے گا کیوں جناب باری تو تو وہ خطا معاف فرما چکا تھا پھر اس کا کیا ذکر ؟ کہے گا ہاں ٹھیک ہے اسی میری مغفرت کی وسعت کی وجہ سے ہی تو اس درجے پر پہنچا۔ یہ اسی حالت میں ہوں گے کہ انہیں ایک ابر ڈھانپ لے گا اور اس سے ایسی خوشبو برسے گی کہ کبھی کسی نے نہیں سونگھی تھی۔ پھر رب العالمین عزوجل فرمائے گا کہ اٹھو اور میں نے جو انعام و اکرام تمہارے لئے تیار کر رکھے ہیں انہیں لو۔ پھر یہ سب ایک بازار میں پہنچیں گے جسے چاروں طرف سے فرشتے گھیرے ہوئے ہوں گے وہاں وہ چیزیں دیکھیں گے جو نہ کبھی دیکھی تھیں نہ سنی تھیں نہ کبھی خیال میں گزری تھیں۔ جو شخص جو چیز چاہے گا لے لے گا خرید فروخت وہاں نہ ہوگی۔ بلکہ انعام ہوگا۔ وہاں تمام اہل جنت ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے ایک کم درجے کا جنتی اعلیٰ درجے کے جنتی سے ملاقات کرے گا تو اس کے لباس وغیرہ کو دیکھ کر جی میں خیال کرے گا وہیں اپنے جسم کی طرف دیکھے گا کہ اس سے بھی اچھے کپڑے اس کے ہیں۔ کیونکہ وہاں کسی کو کوئی رنج و غم نہ ہوگا۔ اب ہم سب لوٹ کر اپنی اپنی منزلوں میں جائیں گے وہاں ہماری بیویاں ہمیں مرحبا کہیں گے اور کہیں گی کہ جس وقت آپ یہاں سے گئے تب یہ ترو تازگی اور یہ نورانیت آپ میں نہ تھی لیکن اس وقت تو جمال و خوبی اور خوشبو اور تازگی بہت ہی بڑھی ہوئی ہے۔ یہ جواب دیں گے کہ ہاں ٹھیک ہے ہم آج اللہ تعالیٰ کی مجلس میں تھے اور یقینا ہم بہت ہی بڑھ چڑھ گئے۔ ( ترمذی وغیرہ ) مسند احمد میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں جو اللہ کی ملاقات کو پسند کرے اللہ بھی اس سے ملنے کو چاہتا ہے اور جو اللہ کی ملاقات کو برا جانے اللہ بھی اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے صحابہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ ہم تو موت کو مکروہ جانتے ہیں آپ نے فرمایا اس سے مراد موت کی کراہیت نہیں بلکہ مومن کی سکرات کے وقت اس کے پاس اللہ کی طرف سے خوشخبری آتی ہے جسے سن کر اس کے نزدیک اللہ کی ملاقات سے زیاہ محبوب چیز کوئی نہیں رہتی۔ پس اللہ بھی اس کی ملاقات پسند فرماتا ہے اور فاجر یا کافر کی سکرات کے وقت جب اسے اس برائی کی خبر دی جاتی ہے جو اسے اب پہنچنے والی ہے تو وہ اللہ کی ملاقات کو مکروہ رکھتا ہے۔ پس اللہ بھی اس کی ملاقات کو مکروہ رکھتا ہے یہ حدیث بالکل صحیح ہے اور اس کی بہت سی اسنادیں ہیں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 31 { نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِج } ” ہم ہیں تمہارے رفیق دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی۔ “ ان الفاظ سے یہ مفہوم خود بخود واضح ہو رہا ہے کہ فرشتے حیات دنیوی کے دوران بھی ان خوش قسمت لوگوں کی ہمت بندھاتے ہیں اور انہیں یہ پیغامِ جانفرا پہنچاتے ہیں۔ { وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَشْتَہِیْٓ اَنْفُسُکُمْ } ” اور تمہارے لیے اس جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جو تمہارے جی چاہیں گے “ تمہارے جی وہاں جو کچھ چاہیں گے وہ سب کچھ ہمارے علم میں ہے ‘ کیونکہ تمہارے نفسوں کے تقاضوں اور تمہاری خواہشات کو بھی ہم نے خود ہی پیدا کیا ہے۔ لہٰذا ہم تمہاری خواہشات کی تسکین کا مکمل سامان وہاں فراہم کریں گے۔ { وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَدَّعُوْنَ } ” اور تمہارے لیے اس میں وہ سب کچھ بھی ہوگا جو تم مانگو گے۔ “ تمہارے نفسوں کے تقاضوں کے مطابق تو سب کچھ وہاں پہلے سے ہی مہیا ہوچکا ہوگا۔ البتہ مانگنے اور طلب کرنے کے حوالے سے ہر شخص کا اپنی ذہنی سطح کے مطابق ایک معیار اور مخصوص ذوق ہوتا ہے۔ بچہ اپنی پسند کی کوئی چیز مانگے گا ‘ ایک سادہ لوح دیہاتی اپنے معیار کی کوئی چیز طلب کرے گا ‘ جبکہ ایک حکیم و فلسفی اپنے ذوق کے مطابق سوال کرے گا۔ غرض جو کوئی جو کچھ مانگے گا وہ سب کچھ اس کے سامنے حاضر کردیا جائے گا۔
نحن أولياؤكم في الحياة الدنيا وفي الآخرة ولكم فيها ما تشتهي أنفسكم ولكم فيها ما تدعون
سورة: فصلت - آية: ( 31 ) - جزء: ( 24 ) - صفحة: ( 480 )Surah Fussilat Ayat 31 meaning in urdu
ہم اِس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی، وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- یہاں تک کہ ہمیں موت آگئی
- جو لوگ خدا اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ نہایت ذلیل ہوں
- تمہارا پروردگار وہ ہے جو تمہارے لئے دریا میں کشتیاں چلاتا ہے تاکہ تم اس
- وہ جس دن ہمارے سامنے آئیں گے۔ کیسے سننے والے اور کیسے دیکھنے والے ہوں
- کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ خدا ہی اپنے بندوں سے توبہ قبول فرماتا ہے
- وہی تو ہے جو اپنے بندے پر واضح (المطالب) آیتیں نازل کرتا ہے تاکہ تم
- وہی (رات کے اندھیرے سے) صبح کی روشنی پھاڑ نکالتا ہے اور اسی نے رات
- کہو کہ ہم خدا پر ایمان لائے اور جو کتاب ہم پر نازل ہوئی اور
- اور جو بات پکار کی جائے وہ اسے بھی جانتا ہے اور جو تم پوشیدہ
- اور ایک شخص شہر کی پرلی طرف سے دوڑتا ہوا آیا (اور) بولا کہ موسٰی
Quran surahs in English :
Download surah Fussilat with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Fussilat mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Fussilat Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers