Surah Taubah Ayat 31 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾
[ التوبة: 31]
انہوں نے اپنے علماء اور مشائخ اور مسیح ابن مریم کو الله کے سوا خدا بنا لیا حالانکہ اُن کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ خدائے واحد کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے
Surah Taubah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اس کی تفسیر حضرت عدی بن حاتم ( رضي الله عنه ) کی بیان کردہ حدیث سے بخوبی ہو جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی ( صلى الله عليه وسلم ) سے یہ آیت سن کر عرض کیا کہ یہود و نصاریٰ نے تو اپنے علماء کی کبھی عبادت نہیں کی، پھر یہ کیوں کہا گیا کہ انہوں نے ان کو رب بنا لیا؟ آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے فرمایا: ” یہ ٹھیک ہے کہ انہوں نے ان کی عبادت نہیں کی لیکن یہ بات تو ہے نا، کہ ان کے علماء نے جس کو حلال قرار دے دیا، اس کو انہوں نے حلال اور جس چیز کو حرام کر دیا اس کو حرام ہی سمجھا۔ یہی ان کی عبادت کرنا ہے “۔ ( صحيح ترمذي- للأباني- نمبر2471 ) کیونکہ حرام وحلال کرنے کا اختیار صرف اللہ تعالٰی کو ہے یہی حق اگر کوئی شخص کسی اور کے اندر تسلیم کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اس کو اپنا رب بنا لیا ہے اس آیت میں ان لوگوں کے لیے بڑی تنبیہ ہے جنہوں نے اپنے اپنے پیشواؤں کو تحلیل وتحریم کا منصب دے رکھا ہے اور ان کے اقوال کے مقابلے میں وہ نصوص قرآن وحدیث کو بھی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
بزرگ بڑے نہیں اللہ جل شانہ سب سے بڑا ہے ان تمام آیتوں میں بھی جناب باری عزوجل مومنوں کو مشرکوں، کافروں، یہودیوں اور نصرانیوں سے جہاد کرنے کی رغبت دلاتا ہے۔ فرماتا ہے دیکھو وہ اللہ کی شان میں کیسی گستاخیاں کرتے ہیں یہود و عزیر کو اللہ کا بیٹا بتاتے ہیں اللہ اس سے پاک اور برتر و بلند ہے کہ اس کی اولاد ہو۔ ان لوگوں کو حضرت عزیر کی نسبت جو یہ وہم ہوا اس کا قصہ یہ ہے کہ جب عمالقہ بنی اسرائیل پر غالب آگئے ان کے علماء کو قتل کردیا ان کے رئیسوں کو قید کرلیا۔ عزیر ؑ کا علم اٹھ جانے اور علماء کے قتل ہوجانے سے اور بنی اسرائیل کی تباہی سے سخت رنجیدہ ہوئے اب جو رونا شروع کیا تو آنکھوں سے آنسو نہ تھمتے تھے روتے روتے پلکیں بھی جھڑ گئیں ایک دن اسی طرح روتے ہوئے ایک میدان سے گذر ہوا دیکھا کہ ایک عورت ایک قبر کے پاس بیٹھی رو رہی ہے اور کہہ رہی ہے ہائے اب میرے کھانے کا کیا ہوگا ؟ میرے کپڑوں کا کیا ہوگا ؟ آپ اس کے پاس ٹھہر گئے اور اس سے فرمایا اس شخص سے پہلے تجھے کون کھلاتا تھا اور کون پہناتا تھا ؟ اس نے کہا اللہ تعالیٰ۔ آپ نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ تو اب بھی زندہ باقی ہے اس پر تو کبھی نہیں موت آئے گی۔ یہ سن کر اس عورت نے کہا اے عزیر پھر تو یہ تو بتا کہ بنی اسرائیل سے پہلے علماء کو کون علم سکھاتا تھا ؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس نے کہا آپ یہ رونا دھونا لے کر کیوں بیٹھے ہیں ؟ آپ کو سمجھ میں آگیا کہ یہ جناب باری سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے آپ کو تنبیہہ ہے پھر آپ سے فرمایا گیا کہ فلاں نہر پر جا کر غسل کرو وہیں دو رکعت نماز ادا کرو وہاں تمہیں ایک شخص ملیں گے وہ جو کچھ کھلائیں وہ کھالو چناچہ آپ وہیں تشریف لے گئے نہا کر نماز ادا کی دیکھا کہ ایک شخص ہیں کہہ رہے ہیں منہ کھولو آپ نے منہ کھول دیا انہوں نے تین مرتبہ کوئی چیز آپ کے منہ میں بڑی ساری ڈالی اسی وقت اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کا سینہ کھول دیا اور آپ توراۃ کے سب سے بڑے عالم بن گئے بنی اسرائیل میں گئے ان سے فرمایا کہ میں تمہارے پاس تورات لایا ہوں انہوں نے کہا ہم سب آپ کے نزدیک سچے ہیں آپ نے اپنی انگلی کے ساتھ قلم کو لپیٹ لیا اور اسی انگلی سے یہ یک وقت پوری توراۃ لکھ ڈالی ادھر لوگ لڑائی سے لوٹے ان میں ان کے علماء بھی واپس آئے تو انہیں عزیر ؑ کی اس بات کا علم ہوا یہ گئے اور پہاڑوں اور غاروں میں تورات شریف کے جو نسخے چھپا آئے تھے وہ نکال لائے اور ان نسخوں سے حضرت عزیر ؑ کے لکھے ہوئے نسخے کا مقابلہ کیا تو بالکل صحیح پایا اس پر بعض جاہلوں کے دل میں شیطان نے یہ وسوسہ ڈال دیا کہ آپ اللہ کے بیٹے ہیں۔ حضرت مسیح کو نصرانی اللہ کا بیٹا کہتے تھے ان کا واقعہ تو ظاہر ہے۔ پس ان دونوں گروہوں کی غلط بیانی قرآن بیان فرما رہا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ ان کی صرف زبانی باتیں ہیں جو محض بےدلیل ہیں جس طرح ان سے پہلے کے لوگ کفر و ضلالت میں تھے یہ بھی انہی کے مرید و مقلد ہیں اللہ انہیں لعنت کرے حق سے کیسے بھٹک گئے ؟ مسند احمد ترمذی اور ابن جریر میں ہے کہ جب عدی بن حاتم کو رسول اللہ ﷺ کا دین پہنچا تو شام کی طرف بھاگ نکلا جاہلیت میں ہی یہ نصرانی بن گیا تھا یہاں اس کی بہن اور اس کی جماعت قید ہوگئی پھر حضور ﷺ نے بطور احسان اس کی بہن کو آزاد کردیا اور رقم بھی دی یہ سیدھی اپنے بھائی کے پاس گئیں اور انہیں اسلام کی رغبت دلائی اور سمجھایا کہ تم رسول کریم علیہ افضل الصلوۃ التسلیم کے پاس چلے جاؤ چناچہ یہ مدینہ شریف آگئے تھے اپنی قوم طے کے سردار تھے ان کے باپ کی سخاوت دنیا بھر میں مشہور تھی لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کو خبر پہنچائی آپ خود ان کے پاس آئے اس وقت عدی کی گردن میں چاندی کی صلیب لٹک رہی تھی حضور ﷺ کی زبان مبارک سے اسی ( آیت اتخذوا ) کی تلاوت ہو رہی تھی تو انہوں نے کہا کہ یہود و نصاریٰ نے اپنے علماء اور درویشوں کی عبادت نہیں کی آپ نے فرمایا ہاں سنو ان کے کئے ہوئے حرام کو حرام سمجھنے لگے اور جسے ان کے علماء اور درویش حلال بتادیں اسے حلال سمجھنے لگے یہی ان کی عبادت تھی پھر آپ نے فرمایا عدی کیا تم اس سے بیخبر ہو کہ اللہ سب سے بڑا ہے ؟ کیا تمہارے خیال میں اللہ سے بڑا اور کوئی ہے ؟ کیا تم اس سے انکار کرتے ہو کہ معبود برحق اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ؟ کیا تمہارے نزدیک اس کے سوا اور کوئی بھی عبادت کے لائق ہے ؟ پھر آپ نے انہیں اسلام کی دعوت دی انہوں نے مان لی اور اللہ کی توحید اور حضور ﷺ کی رسالت کی گواہی ادا کی آپ کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا اور فرمایا یہود پر غضب الٰہی اترا ہے اور نصرانی گمراہ ہوگئے ہیں۔ حضرت حذیفہ بن یمان ؓ اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ وغیرہ سے بھی اس آیت کی تفسیر اسی طرح مروی ہے کہ اس سے مراد حلال و حرام کے مسائل میں علماء اور ائمہ کی محض باتوں کی تقلید ہے۔ سدی فرماتے ہیں انہوں نے بزرگوں کی ماننی شروع کردی اور اللہ کی کتاب کو ایک طرف ہٹا دیا۔ اسی لئے اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں حکم تو صرف یہ تھا کہ اللہ کے سوا اور کی عبادت نہ کریں وہی جسے حرام کر دے حرام ہے اور وہ جسے حلال فرما دے حلال ہے۔ اسی کے فرمان شریعت ہیں، اسی کے احکام بجا لانے کے لائق ہیں، اسی کی ذات عبادت کی مستحق ہے۔ وہ مشرک سے اور شرک سے پاک ہے، اس جیسا اس کا شریک، اس کا نظیر اس کا مددگار اس کی ضد کا کوئی نہیں وہ اولاد سے پاک ہے نہ اس کے سوا کوئی معبود نہ پروردگار۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 31 اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ ج عیسائیوں میں دوسری بڑی گمراہی یہ پیدا ہوئی تھی کہ انہوں نے اپنے علماء و مشائخ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی الوہیت میں حصہ دار بنا لیا تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو ان کے ہاں باقاعدہ تین خداؤں میں سے ایک تھے اور اس حیثیت میں وہ آپ علیہ السلام کی پرستش بھی کرتے تھے ‘ مگر احبارو رہبان کو رب ماننے کی کیفیت ذرا مختلف تھی۔ حضرت عدی بن حاتم رض جنہوں نے عیسائیت سے اسلام قبول کیا تھا حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس آیت کے بارے میں وضاحت کی درخواست کی تو آپ ﷺ نے فرمایا : اَمَا اِنَّھُمْ لَمْ یَکُوْنُوْا یَعْبُدُوْنَھُمْ وَلٰکِنَّھُمْ کَانُوْا اِذَا اَحَلُّوْا شَیْءًا اسْتَحَلُّوْہُ وَاِذَا حَرَّمُوْا عَلَیْھُمْ شَیْءًا حَرَّمُوْہُ 1 وہ ان احبارو رہبان کی عبادت تو نہیں کرتے تھے ‘ لیکن جب وہ کسی شے کو حلال قرار دیتے تو یہ اسے حلال مان لیتے اور جب کسی شے کو حرام قرار دیتے تو اسے حرام مان لیتے یعنی حلال و حرام کے بارے میں قانون سازی کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے ‘ اور اگر کوئی دوسرا اس حق کو استعمال کرتا ہے تو گویا وہ اللہ کی الوہیت میں حصہ دار بن رہا ہے ‘ اور جو کوئی اللہ کے علاوہ کسی کا یہ حق تسلیم کرتا ہے وہ گویا اسے اللہ کے سوا اپنا رب تسلیم کر رہا ہے۔آج بھی پوپ کو پورا اختیار حاصل ہے کہ وہ جو چاہے فیصلہ کرے۔ جیسا کہ اس نے ایک فرمان کے ذریعے سے یہودیوں کو دو ہزار سال پرانے اس الزام سے بری کردیا ‘ کہ انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو سولی پر چڑھایا تھا۔ گویا اسے تاریخ تک کو بدل دینے کا اختیار ہے ‘ اسی طرح وہ کسی حرام چیز کو حلال اور حلال کو حرام قرار دے سکتا ہے۔ اس طرح کے تصورات ہمارے ہاں اسماعیلیوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ان کا امام حاضر معصوم ہوتا ہے اور اسے اختیار حاصل ہے کہ وہ جس چیز کو چاہے حلال کر دے اور جس چیز کو چاہے حرام کر دے۔ اس طرح انہوں نے شریعت کو ساقط کردیا ہے۔ تاہم یہ معاملہ بالخصوص گجرات انڈیا کے علاقے میں بسنے والے اسماعیلیوں کا ہے ‘ جبکہ ہنزہ میں جو اسماعیلی آباد ہیں ان کے ہاں شریعت موجود ہے ‘ کیونکہ یہ پرانے اسماعیلی ہیں جو باہر سے آکر یہاں آباد ہوئے تھے۔ گجرات انڈیا کے علاقہ میں اسماعیلیوں نے جب مقامی آبادی میں اپنے نظریات کی تبلیغ شروع کی تو انہوں نے وہی کیا جو سینٹ پال نے کیا تھا۔ انہوں نے شریعت کو ساقط کردیا اور ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق اوتار کا عقیدہ اپنا لیا۔ مقامی ہندو آبادی میں اپنے نظریات کی آسان ترویج کے لیے انہوں نے حضرت علی رض کو دسویں اوتار کے طور پر پیش کیا ہندوؤں کے ہاں نو اوتار کا عقیدہ رائج تھا۔ لہٰذا دشتم اوتار کا عقیدہ مستقل طور پر ان کے ہاں رائج ہوگیا۔ اس کے علاوہ ان کے حاضر امام کو مکمل اختیار ہے کہ وہ شریعت کے جس حکم کو چاہے منسوخ کر دے ‘ کسی حلال چیز کو حرام کر دے یا کسی حرام کو حلال کر دے۔
اتخذوا أحبارهم ورهبانهم أربابا من دون الله والمسيح ابن مريم وما أمروا إلا ليعبدوا إلها واحدا لا إله إلا هو سبحانه عما يشركون
سورة: التوبة - آية: ( 31 ) - جزء: ( 10 ) - صفحة: ( 191 )Surah Taubah Ayat 31 meaning in urdu
انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- پھر تیوری چڑھائی اور منہ بگاڑ لیا
- کہ تمہارے رفیق (محمدﷺ) نہ رستہ بھولے ہیں نہ بھٹکے ہیں
- اور قوم فرعون کے پاس بھی ڈر سنانے والے آئے
- (اور) بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے
- اور کہتے ہیں کہ خدا بیٹا رکھتا ہے
- اور تم کیا جانتے ہوں کہ سجّین کیا چیز ہے؟
- (کہ وہ دن آ کر رہے گا) جس دن زمین کو بھونچال آئے گا
- (انہوں نے) کہا کہ ہم ایک گنہگار قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں (کہ اس
- اور ہم نے لوط کی طرف وحی بھیجی کہ ان لوگوں کی جڑ صبح ہوتے
- اور انسان جس طرح (جلدی سے) بھلائی مانگتا ہے اسی طرح برائی مانگتا ہے۔ اور
Quran surahs in English :
Download surah Taubah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Taubah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Taubah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers