Surah Fatir Ayat 32 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ فاطر کی آیت نمبر 32 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah Fatir ayat 32 best quran tafseer in urdu.
  
   
Verse 32 from surah Fatir

﴿ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ﴾
[ فاطر: 32]

Ayat With Urdu Translation

پھر ہم نے ان لوگوں کو کتاب کا وارث ٹھیرایا جن کو اپنے بندوں میں سے برگزیدہ کیا۔ تو کچھ تو ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ اور کچھ میانہ رو ہیں۔ اور کچھ خدا کے حکم سے نیکیوں میں آگے نکل جانے والے ہیں۔ یہی بڑا فضل ہے

Surah Fatir Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) کتاب سے مراد قرآن اور چنے ہوئے بندوں سے مراد امت محمدیہ ہے۔ یعنی اس قرآن کا وارث ہم نے امت محمدیہ کو بنایا ہے جسے ہم نے دوسری امتوں کے مقابلے میں چن لیا اور اسے شرف وفضل سے نوازا۔ یہ تقریباً وہی مفہوم ہے جو آیت«وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ»( البقرة: 143 ) کا ہے۔
( 2 ) امت محمدیہ کی تین قسمیں بیان فرمائیں۔ یہ پہلی قسم ہے، جس سے مراد ایسے لوگ ہیں جو بعض فرائض میں کوتاہی اور بعض محرمات کا ارتکاب کرلیتے ہیں یا بعض کے نزدیک وہ ہیں جو صغائر کا ارتکاب کرتے ہیں۔ انہیں اپنے نفس پر ظلم کرنے والا اس لئے کہا کہ وہ اپنی کچھ کوتاہیوں کی وجہ سے اپنے کو اس اعلیٰ درجے سے محروم کرلیں گے جو باقی دو قسموں کو حاصل ہوں گے۔
( 3 ) یہ دوسری قسم ہے، یعنی ملے جلے عمل کرتے ہیں یا بعض کے نزدیک وہ ہیں جو فرائض کے پابند، محرمات کے تارک تو ہیں لیکن کبھی مستحبات کا ترک اور بعض محرمات کا ارتکاب بھی ان سے ہوجاتا ہے یا وہ ہیں جو نیک تو ہیں لیکن پیش پیش نہیں ہیں۔
( 4 ) یہ وہ ہیں جو دین کے معاملے میں پچھلے دونوں سے سبقت کرنے والے ہیں۔
( 5 ) یعنی کتاب کا وارث کرنا اور شرف وفضل میں ممتاز ( مصطفیٰ ) کرنا۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


عظمت قرآن کریم اور ملت بیضا۔ جس کتاب کا اوپر ذکر ہوا تھا اس بزرگ کتاب یعنی قرآن کریم کو ہم نے اپنے چیدہ بندوں کے ہاتھوں میں دیا ہے یعنی اس امت کے ہاتھوں۔ پھر حرمت والے کام بھی اس سے سرزد ہوگئے۔ بعض درمیانہ درجے کے رہے جنہوں نے محرمات سے تو اجتناب کیا واجبات بجا لاتے رہے لیکن کبھی کبھی کوئی مستحب کام ان سے چھوٹ بھی گیا اور کبھی کوئی ہلکی پھلکی نافرمانی بھی سرزد ہوگئی۔ بعض درجوں میں بہت ہی آگے نکل گئے۔ واجبات چھوڑ کر مستحباب کو بھی انہوں نے نہ چھوڑا اور محرمات چھوڑ کر مکروہات سے بھی یکسر الگ رہے۔ بلکہ بعض مرتبہ مباح چیزوں کو بھی ڈر کر چھوڑ دیا۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ پسندیدہ بندوں سے مراد امت محمد ﷺ ہے جو اللہ کی ہر کتاب کی وارث بنائی گئی ہے۔ ان میں جو اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں انہیں بخشا جائے گا اور ان میں جو درمیانہ لوگ ہیں ان سے آسانی سے حساب لیا جائے گا اور ان میں جو نیکیوں میں بڑھ جانے والے ہیں انہیں بےحساب جنت میں پہنچایا جائے گا۔ طبرانی میں ہے حضور ﷺ نے فرمایا میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ والوں کے لئے ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں سابق لوگ تو بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے اور میانہ رو رحمت رب سے داخل جنت ہوں گے اور اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے اور اصحاب اعراف محمد ﷺ کی شفاعت سے جنت میں آئیں گے۔ الغرض اس امت کے ہلکے پھلکے گنہگار بھی اللہ کے پسندیدہ بندوں میں داخل ہیں فالحمدللہ۔ گو اکثر سلف کا قول یہی ہے۔ لیکن بعض سلف نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ لوگ نہ تو اس امت میں داخل ہیں نہ چیدہ اور پسندیدہ ہیں نہ وارثین کتاب ہیں۔ بلکہ مراد اس سے کافر منافق اور بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال دیئے جانے والے ہیں پس یہ تین قسمیں وہی ہیں جن کا بیان سورة واقعہ کے اول و آخر میں ہے۔ لیکن صحیح قول یہی ہے کہ یہ اسی امت میں ہیں۔ امام ابن جریر بھی اسی قول کو پسند کرتے ہیں اور آیت کے ظاہری الفاظ بھی یہی ہیں۔ احادیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ چناچہ ایک حدیث میں ہے کہ یہ تینوں گویا ایک ہیں اور تینوں ہی جنتی ہیں۔ ( مسند احمد ) یہ حدیث غریب ہے اور اس کے راویوں میں ایک راوی ہیں جن کا نام مذکور نہیں۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس امت میں ہونے کے اعتبار سے اور اس اعتبار سے کہ وہ جنتی ہیں گویا ایک ہی ہیں۔ ہاں مرتبوں میں فرق ہونا لازمی ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا سابقین تو بےحساب جنت میں جائیں گے اور درمیانہ لوگوں سے آسانی کے ساتھ حساب لیا جائے گا اور اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے طول محشر میں روکے جائیں گے۔ پھر اللہ کی رحمتوں سے تلافی ہوجائے گی اور یہ کہیں گے اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہم سے غم و رنج دور کردیا ہمارا رب بڑا ہی غفور و شکور ہے۔ جس نے ہمیں اپنے فضل و کرم سے رہائش کی ایسی جگہ عطا فرمائی جہاں ہمیں کوئی درد دکھ نہیں۔ ( مسند احمد ) ابن ابی حاتم کی اس روایت میں الفاظ کی کچھ کمی بیشی ہے۔ ابن جریر نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ اس میں ہے کہ حضرت ابو ثابت مسجد میں آتے ہیں اور حضرت ابو درداء ؓ کے پاس بیٹھ جاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ ! میری وحشت کا انیس میرے لئے مہیا کر دے اور میری غربت پر رحم کر اور مجھے کوئی اچھا رفیق عطا فرما۔ یہ سن کر صحابی ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں میں تیرا ساتھی ہوں سن میں آج تجھے وہ حدیث رسول سناتا ہوں جسے میں نے آج تک کسی کو نہیں سنائی پھر اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا سابق بالخیرات تو جنت میں بےحساب جائیں گے اور مقتصد لوگوں سے آسانی کے ساتھ حساب لیا جائے گا اور ظالم لنفسہ کو اس مکان میں غم و رنج پہنچے گا۔ جس سے نجات پا کر وہ کہیں گے اللہ کا شکر ہے جس نے ہم سے غم و رنج دور کردیا۔ تیسری حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے ان تینوں کی نسبت فرمایا کہ یہ سب اسی امت میں سے ہیں۔ چوتھی حدیث : میری امت کے تین حصے ہیں ایک بےحساب و بےعذاب جنت میں جانے والا۔ دوسرا آسانی سے حساب لیا جانے والا اور پھر بہشت نشیں ہونے والا۔ تیسری وہ جماعت ہوگی جن سے تفتیش و تلاش ہوگی لیکن پھر فرشتے حاضر ہو کر کہیں گے کہ ہم نے انہیں لا الہ الا اللہ وحدہ کہتے ہوئے پایا ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا سچ ہے میرے سوا کوئی معبود نہیں اچھا انہیں میں نے ان کے اس قول کی وجہ سے چھوڑا جاؤ انہیں جنت میں لے جاؤ اور ان کی خطائیں دوزخیوں پر لاد دو اسی کا ذکر آیت ( وَلَيَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَهُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ ۡ وَلَيُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ 13ۧ ) 29۔ العنكبوت:13) میں ہے یعنی وہ ان کے بوجھ اپنے بوجھ کے ساتھ اٹھائیں گے اس کی تصدیق اس میں ہے جس میں فرشتوں کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے جنہیں وارثین کتاب بنایا ہے ان کا ذکر کرتے ہوئے ان کی تین قسمیں بتائی ہیں پس ان میں جو اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں وہ باز پرس کئے جائیں گے۔ ( ابن ابی حاتم ) حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ اس امت کی قیات کے دن تین جماعتیں ہوں گی۔ ایک بےحساب جنت میں جانے والی ایک آسانی سے حساب لئے جانے والی ایک گنہگار جن کی نسبت اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا حالانکہ وہ خوب جانتا ہے کہ یہ کون ہیں ؟ فرشتے کہیں گے اللہ ان کے پاس بڑے بڑے گناہ ہیں لیکن انہوں نے کبھی بھی تیرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا۔ رب عزوجل فرمائے گا انہیں میری وسیع رحمت میں داخل کردو پھر حضرت عبداللہ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ ( ابن جریر ) دوسرا اثر۔ حضرت عائشہ ؓ سے اس آیت کے بارے میں سوال ہوتا ہے تو آپ فرماتی ہیں بیٹا یہ سب جنتی لوگ ہیں سابق بالخیرات تو وہ ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تھے جنہیں خود آپ نے جنت کی بشارت دی۔ مقتصد وہ ہیں جنہوں نے آپ کے نقش قدم کی پیروی کی یہاں تک کہ ان سے مل گئے۔ اور ظالم لنفسہ مجھ تجھ جیسے ہیں ( ابوداؤد طیالسی ) خیال فرمایئے کہ صدیقہ ؓ باوجودیکہ سابق بالخیرات میں سے بلکہ ان میں سے بھی بہترین درجے والوں میں سے ہیں لیکن کس طرح اپنے تئیں متواضع بناتی ہیں حالانکہ حدیث میں آچکا ہے کہ تمام عورتوں پر حضرت عائشہ کو وہی فضیلت ہے جو فضیلت ثرید کو ہر قسم کے طعام پر ہے۔ حضرت عثمان بن عفان ؓ تعالیٰعنہ فرماتے ہیں ظالم لنفسہ تو ہمارے بدوی لوگ ہیں اور مقتصد ہمارے شہری لوگ ہیں اور سابق ہمارے مجاہد ہیں۔ ( ابن ابی حاتم ) حضرت کعب احبار ؒ فرماتے ہیں کہ تینوں قسم کے لوگ اسی امت میں سے ہیں اور سب جنتی ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں قسم کے لوگوں کے ذکر کے بعد جنت کا ذکر کر کے پھر فرمایا ( وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ ۚ لَا يُقْضٰى عَلَيْهِمْ فَيَمُوْتُوْا وَلَا يُخَـفَّفُ عَنْهُمْ مِّنْ عَذَابِهَا ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِيْ كُلَّ كَفُوْرٍ 36؀ۚ ) 35۔ فاطر:36) پس یہ لوگ دوزخی ہیں۔ ( ابن جریر ) حضرت ابن عباس نے حضرت کعب سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کعب کے اللہ کی قسم یہ سب ایک ہی زمرے میں ہیں ہاں اعمال کے مطابق ان کے درجات کم و بیش ہیں۔ ابو اسحاق سیعی بھی اس آیت میں فرماتے ہیں کہ یہ تینوں جماعتیں ناجی ہیں۔ محمد بن حنفیہ فرماتے ہیں یہ امت مرحومہ ہے۔ ان کے گنہگاروں کو بخش دیا جائے گا اور ان کے مقصد اللہ کے پاس جنت میں ہوں گے۔ اور ان کے سابق بلند درجوں میں ہوں گے۔ محمد بن علی باقر ؓ فرماتے ہیں کہ یہاں جن لوگوں کو ظالم لنفسہ کہا گیا ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے گناہ بھی کئے تھے اور نیکیاں بھی۔ ان احادیث اور آثار کو سامنے رکھ کر یہ تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اس آیت میں عموم ہے اور اس امت کی ان تینوں قسموں کو یہ شامل ہے۔ پس علماء کرام اس نعمت کے ساتھ سب سے زیادہ رشک کے قابل ہیں اور اس رحمت کے سب سے زیادہ حقدار ہیں۔ جیسے کہ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص مدینے سے دمشق میں حضرت ابو درداء کے پاس جاتا ہے اور آپ سے ملاقات کرتا ہے تو آپ دریافت فرماتے ہیں کہ پیارے بھائی یہاں کیسے آنا ہوا ؟ وہ کہتے ہیں اس حدیث کے سننے کے لئے آیا ہوں جو آپ بیان کرتے ہیں۔ پوچھا کیا کسی تجارت کی غرض سے نہیں آئے ؟ جواب دیا نہیں۔ پوچھا پھر کوئی اور مطلب بھی ہوگا ؟ فرمایا کوئی مقصد نہیں۔ پوچھا پھر کیا صرف حدیث کی طلب کے لئے یہ سفر کیا ہے ؟ جواب دیا کہ ہاں۔ فرمایا سنو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے جو شخص علم کی تلاشی میں کسی راستے کو قطع کرے اللہ اسے جنت کے راستوں میں چلائے گا۔ اللہ کی رحمت کے فرشتے طالب علموں کے لئے پر بچھا دیتے ہیں کیونکہ وہ ان سے بہت خوش ہیں اور ان کی خوشی کے خواہاں ہیں۔ عالم کے لیے آسمان و زمین کی ہر چیز استغفار کرتی ہے یہاں تک کہ پانی کے اندر کی مچھلیاں بھی۔ عابد و عالم کی فضیلت ایسی ہی ہے جیسی چاند کی فضیلت ستاروں پر، علماء نبیوں کے وارث ہیں۔ انبیاء ( علیہم السلام ) نے اپنے ورثے میں درہم و دینار نہیں چھوڑے ان کا ورثہ علم دین ہے۔ جس نے اسے لیا اس نے بڑی دولت حاصل کرلی۔ ( ابو داؤد، ترمذی وغیرہ ) اس حدیث کے تمام طریق اور الفاظ اور شرح میں نے صحیح بخاری کتاب العلم کی شرح میں مفصلاً بیان کردی ہے فالحمد اللہ۔ سورة طہ کے شروع میں وہ حدیث گذر چکی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ علماء سے فرمائے گا۔ میں نے اپنا علم و حکمت تمہیں اس لئے ہی دیا تھا کہ تمہیں بخش دوں گو تم کیسے ہی ہو مجھے اس کی کچھ پرواہ ہی نہیں۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 32{ ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَاج } ” پھر ہم نے کتاب کا وارث بنایا ان لوگوں کو جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے ُ چن لیا۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس امت کو کتاب کی وراثت کے لیے چن لیا ہے۔ یہ مضمون اس سے پہلے سورة الحج کی آخری آیت میں واضح تر انداز میں آچکا ہے : { وَجَاہِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖط ہُوَ اجْتَبٰٹکُمْ } ” اور جہاد کرو اللہ کے لیے جیسے کہ اس کے لیے جہاد کا حق ہے ‘ اس نے تمہیں چن لیا ہے “۔ سورة الحج میں اس مفہوم کے لیے لفظ ” اِجْتَبٰی “ استعمال ہوا ہے جبکہ آیت زیر مطالعہ میں لفظ ” اِصْطَفٰی “ آیا ہے۔ سورة الحج کے مطالعے کے دوران بھی ذکر ہوا تھا کہ اجتباء اور اصطفاء دونوں قریب المفہوم الفاظ ہیں ‘ لیکن لغوی مفہوم کے اعتبار سے ان دونوں میں ایک لطیف سا فرق بھی ہے۔ اس فرق کو سمجھنے کے لیے آپ انگریزی کے دو الفاظ to select اور to choose کو ذہن میں رکھیے۔ choose میں پسند choice کارفرما ہوتی ہے اور اس کا تعلق ” ذوق “ سے ہے کہ کوئی اپنے ذوق کے مطابق کیا پسند choose کرتا ہے ‘ جبکہ انتخاب selection ہمیشہ کسی مقصد کے لیے ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس فرق کو اس طرح واضح کیا جاسکتا ہے : A and B choice out of something selection for something ان دونوں الفاظ کے مذکورہ معانی کو اگر امت مسلمہ پر منطبق کریں تو یہ اہم حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اس امت کے اجتباء selection میں ایک عظیم مقصد کارفرما ہے جبکہ اصطفاء choice کے حوالے سے اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی پسندیدگی کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔ یہ دونوں الفاظ نبی اکرم ﷺ کے لیے بھی آئے ہیں محمد مصطفیٰ اور احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مذکورہ دونوں آیات زیرمطالعہ آیت اور سورة الحج کی آخری آیت کے حوالے سے حضور ﷺ کی امت کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں۔ بہر حال اس امت کو پسندیدہ chosen قرار دے کر اجتباء selection کے اعزاز سے نواز تو دیا گیا لیکن بعد میں کیا ہوا ؟ { فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ ج } ” تو ان میں سے کچھ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں۔ “ یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن کو اللہ کی کتاب اور محمد ﷺ کو اللہ کا رسول تو مانتے ہیں ‘ مگر عملاً کتاب اللہ اور سنت ِرسول ﷺ کی پیروی میں کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ سورة الشورٰی میں اسی مضمون کو یوں بیان فرمایا گیا ہے : { وَاِنَّ الَّذِیْنَ اُوْرِثُوا الْکِتٰبَ مِنْم بَعْدِہِمْ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مُرِیْبٍ } یعنی انبیاء علیہ السلام کے بعد جو لوگ کتاب کے وارث بنائے جاتے ہیں وہ اس کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ { وَمِنْہُمْ مُّقْتَصِدٌج } ” اور ان میں کچھ درمیانی راہ پر چلنے والے ہیں۔ “ یعنی ایسے لوگ جو نیکی بھی کرتے ہیں اور ان سے برائی بھی سرزد ہوجاتی ہے۔ سورة التوبة میں ایسے اہل ِایمان کا ذکر بایں الفاظ ہوا ہے : { خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَیِّئًا } آیت 102 ” انہوں نے اچھے اور برے اعمال کو گڈمڈ کردیا ہے۔ “ { وَمِنْہُمْ سَابِقٌم بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰہِ } ” اور ان میں سے کچھ نیکیوں میں سبقت لے جانے والے ہیں ‘ اللہ کی توفیق سے۔ “ ان میں سے کچھ ایسے خوش قسمت بھی ہوتے ہیں جو اللہ کی عطا کردہ توفیق سے دین کی خدمت کرنے ‘ حق کی دعوت کو پھیلانے ‘ اللہ کی کتاب کا حق ادا کرنے اور ہر اچھے عمل میں دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ { ذٰلِکَ ہُوَ الْفَضْلُ الْکَبِیْرُ } ” یہی بہت بڑی فضیلت ہے۔ “

ثم أورثنا الكتاب الذين اصطفينا من عبادنا فمنهم ظالم لنفسه ومنهم مقتصد ومنهم سابق بالخيرات بإذن الله ذلك هو الفضل الكبير

سورة: فاطر - آية: ( 32 )  - جزء: ( 22 )  -  صفحة: ( 438 )

Surah Fatir Ayat 32 meaning in urdu

پھر ہم نے اس کتاب کا وارث بنا دیا اُن لوگوں کو جنہیں ہم نے (اِس وراثت کے لیے) اپنے بندوں میں سے چن لیا اب کوئی تو ان میں سے اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے، اور کوئی بیچ کی راس ہے، اور کوئی اللہ کے اذن سے نیکیوں میں سبقت کرنے والا ہے، یہی بہت بڑا فضل ہے


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. اور جو لوگ (اپنے تئیں) کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں ہم نے ان سے
  2. اور وہ (شہر) اب تک سیدھے رستے پر (موجود) ہے
  3. اور تمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری (دعا)
  4. پھر صالح ان سے (ناامید ہو کر) پھرے اور کہا کہ میری قوم! میں نے
  5. اور جو مال تمہاری عورتیں چھوڑ مریں۔ اگر ان کے اولاد نہ ہو تو اس
  6. اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے فرشتے نے ان کو آواز دی کہ
  7. اگر تم کو اس (کتاب کے) بارے میں جو ہم نے تم پر نازل کی
  8. اور جو شخص سچی بات لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی
  9. اور ایک اور چیز جس کو تم بہت چاہتے ہو (یعنی تمہیں) خدا کی طرف
  10. جب ہم کسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو ہماری بات یہی ہے کہ اس

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah Fatir with the voice of the most famous Quran reciters :

surah Fatir mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Fatir Complete with high quality
surah Fatir Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah Fatir Bandar Balila
Bandar Balila
surah Fatir Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah Fatir Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah Fatir Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah Fatir Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah Fatir Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah Fatir Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah Fatir Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah Fatir Fares Abbad
Fares Abbad
surah Fatir Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah Fatir Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah Fatir Al Hosary
Al Hosary
surah Fatir Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah Fatir Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Sunday, December 22, 2024

Please remember us in your sincere prayers