Surah Maarij Ayat 36 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿فَمَالِ الَّذِينَ كَفَرُوا قِبَلَكَ مُهْطِعِينَ﴾
[ المعارج: 36]
تو ان کافروں کو کیا ہوا ہے کہ تمہاری طرف دوڑے چلے آتے ہیں
Surah Maarij UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
مرکز نور و ہدایت سے مفرور انسان اللہ تعالیٰ عزوجل ان کافروں پر انکار کر رہا ہے جوحضور ﷺ کے مبارک زمانہ میں تھے خود آپ ﷺ کو وہ دیکھ رہے تھے اور آپ ﷺ جو ہدایت لے کر آئے وہ ان کے سامنے تھی اور آپ ﷺ کے کھلے معجزے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے پھر باوجود ان تمام باتوں کے وہ بھاگ رہے تھے اور ٹولیاں ٹولیاں ہو کر دائیں بائیں کترا جاتے تھے، جیسے اور جگہ آیت ( فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِيْنَ 49ۙ ) 74۔ المدّثر:49) ، یہ نصیحت سے منہ پھیر کر ان گدھوں کی طرح جو شیر سے بھاگ رہے ہوں کیوں بھاگ رہے ہیں ؟ یہاں بھی اسی طرح فرما رہا ہے کہ ان کفار کو کیا ہوگیا ہے یہ نفرت کر کے کیوں تیرے پاس سے بھاگے جا رہے ہیں ؟ کیونکہ دائیں بائیں سرکتے جاتے ہیں ؟ اور کیا وجہ ہے کہ متفرق طور پر اختلاف کے ساتھ ادھر ادھر ہو رہے ہیں، حضرت امام احمد بن حنبل ؒ نے خواہش نفس پر عمل کرنے والوں کے حق میں یہی فرمایا ہے کہ وہ کتاب اللہ کے مخالف ہوتے ہیں اور آپس میں بھی مختلف ہوتے ہیں۔ ہاں کتاب اللہ کی مخالفت میں سب متفقہ ہوتے ہیں، حضرت ابن عباس سے بروایت عوفی مروی ہے کہ وہ ٹولیاں ہو کر بےپرواہی کے ساتھ تیرے دائیں بائیں ہو کر تجھے مذاق سے گھورتے ہیں، حضرت حسن فرماتے ہیں یعنی دائیں بائیں الگ ہوجاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اس شخص نے کیا کہا ؟ حضرت قتادہ فرماتے ہیں دائیں بائیں ٹولیاں ٹولیاں ہو کر حضور ﷺ کے اردگرد پھرتے رہتے ہیں نہ کتاب اللہ کی چاہت ہے نہ رسول اللہ ﷺ کی رغبت ہے، ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں کے پاس آئے اور وہ متفرق طور پر حلقے حلقے تھے تو فرمایا میں تمہیں الگ الگ جماعتوں کی صورتوں میں کیسے دیکھ رہا ہوں ؟ ( احمد ) ابن جریر میں اور سند سے بھی مروی ہے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ کیا ان کی چاہت ہے کہ جنت نعیم میں داخل کئے جائیں ؟ ایسا نہ ہوگا یعنی جب ان کی یہ حالت ہے کہ کتاب اللہ اور رسول اللہ ﷺ اور دائیں بائیں کترا جاتے ہیں پھر ان کی یہ چاہت پوری نہیں ہوسکتی بلکہ یہ جہنمی گروہ ہے، اب جس چیز کو یہ محال جانتے تھے اس کا بہترین ثبوت ان ہی کی معلومات اور اقرار سے بیان ہو رہا ہے کہ جس نے تمہیں ضعیف پائی سے پیدا کیا ہے جیسے کہ خود تمہیں بھی معلوم ہے پھر کیا وہ تمہیں دوبارہ نہیں پیدا کرسکتا ؟ جیسے اور جگہ ہے آیت ( اَلَمْ نَخْلُقْكُّمْ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّهِيْنٍ 20ۙ ) 77۔ المرسلات:20) کیا ہم نے تمہیں ناقدرے پانی سے پیدا نہیں کیا ؟ فرمان ہے آیت ( فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ ۭ ) 86۔ الطارق:5) ، انسان کو دیکھنا چاہئے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے اچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور چھاتی کے درمیان سے نکلتا ہے، یقینا وہ اللہ اس کے لوٹانے پر قادر ہے جس دن پوشیدگیاں کھل جائیں گی اور کوئی طاقت نہ ہوگی نہ مددگار، پس یہاں بھی فرماتا ہے مجھے قسم ہے اس کی جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور مشرق و مغرب متعین کی اور ستاروں کے چھپنے اور ظاہر ہونے کی جگہیں مقرر کردیں، مطلب یہ ہے کہ اے کافرو ! جیسا تمہارا گمان ہے ویسا معاملہ نہیں کہ نہ حساب کتاب ہو نہ حشر نشر ہو بلکہ یہ سب یقینا ہونے والی چیزیں ہیں۔ اسی لئے قسم سے پہلے ان کے باطل خیال کی تکذیب کی اور اسے اس طرح ثابت کیا کہ اپنی قدرت کاملہ کے مختلف نمونے ان کے سامنے پیش کئے، مثلاً آسمان و زمین کی ابتدائی پیدائش اور حیوانات، جمادات اور مختلف قسم کی مخلوق کی موجودگی جیسے اور جگہ ہے آیت ( لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 57 ) 40۔ غافر:57) یعنی آسمان و زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے سے بہت بڑا ہے لیکن اکثر لوگ بےعلم ہیں، مطلب یہ ہے کہ جب بڑی بڑی چیزوں کو پیدا کرنے پر اللہ قادر ہے تو چھوٹی چیزوں کی پیدائش پر کیوں قادر نہ ہوگا ؟ جیسے اور جگہ ہے آیت ( اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى ۭ بَلٰٓي اِنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 33 ) 46۔ الأحقاف :33) یعنی کیا یہ نہیں دیکھتے کہ جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اور ان کی پیدائش میں نہ تھکا کیا وہ مردوں کو زندہ کرنے پر قادر نہیں ؟ بیشک وہ قادر ہے اور ایک اس پر کیا ہر ایک چیز پر اسے قدرت حاصل ہے، اور جگہ ارشاد ہے آیت ( اَوَلَيْسَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ ڲ بَلٰى ۤ وَهُوَ الْخَــلّٰقُ الْعَلِـيْمُ 81 ) 36۔ يس :81) ، یعنی کیا زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا، ان کے مثل پیدا کرنے پر قادر نہیں ؟ ہاں ہے اور وہی پیدا کرنے والا اور جاننے والا ہے، وہ جس چیز کا ارداہ کرے کہہ دیتا ہے کہ ہوجا وہ اسی وقت ہوجاتی ہے، یہاں ارشاد ہو رہا ہے کہ مشرق اور مغرب کے پروردگار کی قسم ہم ان کے ان جسموں کو جیسے یہ آپ ہیں اس سے بھی بہتر صورت میں بدل ڈالنے پر پورے پورے قادر ہیں کوئی چیز کوئی شخص اور کوئی کام ہمیں عاجز اور درماندہ نہیں کرسکتا، جیسے اور جگہ ارشاد ہے آیت ( اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَهٗ ۭ ) 75۔ القیامة :3) ، کیا کسی شخص کا یہ گمان ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہ کرسکیں گے ؟ غلط گمان ہے بلکہ ہم تو اس کی پور پور جمع کر کے ٹھیک ٹھاک بنادیں گے اور فرما آیت ( نَحْنُ قَدَّرْنَا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِيْنَ 60 ۙ ) 56۔ الواقعة :60) ، ہم نے تمہارے درمیان موت مقدر کردی ہے اور ہم اس سے عاجز نہیں کہ تم جیسوں کو بدل ڈالیں اور تمہیں اس نئی پیدائش میں پیدا کریں جسے تم جانتے بھی نہیں، پس ایک مطلب تو آیت مندرجہ بالا کا یہ ہے، دوسرا مطلب امام ابن جریر نے یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ ہم قادر ہیں اس امر پر کہ تمہارے بدلے ایسے لوگ پیدا کردیں جو ہمارے مطیع و فرمانبردار ہوں اور ہماری نافرمانیوں سے رکے رہنے والے ہوں، جیسے اور جگہ فرمان ہے آیت ( وَاِنْ تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُمْ مِّنْ قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا 16 ) 48۔ الفتح:16) یعنی اگر تم نے منہ موڑا تو اللہ تمہارے سوا اور قوم کو لائے گا اور وہ تم جیسی نہ ہوگی، لیکن پہلا مطلب دوسری آیتوں کی صاف دلالت کی وجہ سے زیادہ ظاہر ہے واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔ پھر فرماتا ہے اے نبی ﷺ انہیں ان کے جھٹلانے، کفر کرنے، سرکشی میں بڑھنے ہی میں چھوڑ دو جس کا وبال ان پر اس دن آئے گا جس کا ان سے وعدہ ہوچکا ہے، جس دن اللہ تعالیٰ انہیں بلائے گا اور یہ میدان محشر کی طرف جہاں انہیں حساب کے لئے کھڑا کیا جائے گا اس طرح لپکتے ہوئے جائیں گے جس طرح دنیا میں کسی بت یا علم، تھان اور چلے کو چھونے اور ڈنڈوت کرنے کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھتے ہوئے جاتے ہیں، مارے شرم و ندامت کے نگاہیں زمین میں گڑی ہوئی ہوں گی اور چہروں پر پھٹکار برس رہی ہوگی، یہ ہے دنیا میں اللہ کی اطاعت سے سرکشی کرنے کا نتیجہ ! اور یہ ہے وہ دن جس کے ہونے کو آج محال جانتے ہیں اور ہنسی مذاق میں نبی ﷺ ، شریعت اور کلام الٰہی کی حقارت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قیامت کیوں قائم نہیں ہوتی ؟ ہم پر عذاب کیوں نہیں آتا ؟ الحمد اللہ سورة معارج کی تفسیر ختم ہوئی۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 33{ وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِشَہٰدٰتِہِمْ قَآئِمُوْنَ۔ } ” اور وہ جو اپنی گواہیوں پر قائم رہنے والے ہیں۔ “ دراصل گواہی بھی ایک امانت ہے اور جو شخص غلط گواہی دیتا ہے یا گواہی کو چھپا لیتا ہے وہ امانت میں خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔ سورة البقرة میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَتَمَ شَہَادَۃً عِنْدَہٗ مِنَ اللّٰہِط } آیت 140 ” اور کان کھول کر سن لو اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جس کے پاس اللہ کی طرف سے ایک گواہی تھی جسے اس نے چھپالیا ؟ “ علمائے یہود کے پاس نبی آخر الزماں ﷺ کی بعثت کے بارے میں اللہ کی طرف سے گواہی تھی ‘ انہوں نے اس گواہی کو چھپا کر اللہ کی امانت میں خیانت کی۔ سورة البقرة کی اس آیت میں اسی گواہی کو چھپانے کا ذکر ہے۔
Surah Maarij Ayat 36 meaning in urdu
پس اے نبیؐ، کیا بات ہے کہ یہ منکرین دائیں اور بائیں سے،
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور جنوں کو اس سے بھی پہلے بےدھوئیں کی آگ سے پیدا کیا تھا
- کہو کہ اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ کہ وہ کون ہے جس کے ہاتھ
- مگر اپنی بیویوں سے یا (کنیزوں سے) جو ان کی مِلک ہوتی ہیں کہ (ان
- مجھے یقین تھا کہ مجھ کو میرا حساب (کتاب) ضرور ملے گا
- دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے اور اہل کتاب نے جو (اس دین سے)
- تو (لوگو) خدا کے بارے میں (غلط) مثالیں نہ بناؤ۔ (صحیح مثالوں کا طریقہ) خدا
- کیا انسان خیال کرتا ہے کہ یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا؟
- وہ اس میں سلام کے سوا کوئی بیہودہ کلام نہ سنیں گے، اور ان کے
- اے دونوں جماعتو! ہم عنقریب تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں
- (اور) دعا کی کہ اے پروردگار مجھے مغفرت کر اور مجھ کو ایسی بادشاہی عطا
Quran surahs in English :
Download surah Maarij with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Maarij mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Maarij Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers