Surah Shura Ayat 37 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ﴾
[ الشورى: 37]
اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی کی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں۔ اور جب غصہ آتا ہے تو معاف کردیتے ہیں
Surah Shura Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی لوگوں سے عفو ودرگزر کرنا ان کے مزاج وطبیعت کا حصہ ہے نہ کہ انتقام اور بدلہ لینا۔ جس طرح نبی ( صلى الله عليه وسلم ) کے بارے میں آتا ہے۔ ” مَا انْتَقَمَ لِنَفْسِهِ قَطُّ إِلا أَنْ تُنْتَهَكَ حُرُمَات اللهِ “ ( البخاري ، كتاب الأدب ، باب يسروا ولا تعسروا - مسلم كتاب الفضائل، باب مباعدته صلى الله عليه وسلم للآثام ) نبی ( صلى الله عليه وسلم ) نے اپنی ذات کے لیے کبھی بدلہ نہیں لیا، ہاں اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کا توڑا جانا آپ کے لیے ناقابل برداشت تھا۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
درگذر کرنا بدلہ لینے سے بہتر ہے اللہ تعالیٰ نے دنیا کی بےقدری اور اسکی حقارت بیان فرمائی کہ اسے جمع کر کے کسی کو اس پر اترانا نہیں چاہیے کیونکہ یہ فانی چیز ہے۔ بلکہ آخرت کی طرف رغبت کرنی چاہیے نیک اعمال کر کے ثواب جمع کرنا چاہیے جو سرمدی اور باقی چیز ہے۔ پس فانی کو باقی پر کمی کو زیادتی پر ترجیح دینا عقلمندی نہیں اب اس ثواب کے حاصل کرنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں کہ ایمان مضبوط ہو تاکہ دنیاوی لذتوں کے ترک پر صبر ہو سکے اللہ پر کامل بھروسہ ہو تاکہ صبر پر اس کی امداد ملے اور احکام الٰہی کی بجا آوری اور نافرمانیوں سے اجتناب آسان ہوجائے کبیرہ گناہوں اور فحش کاموں سے پرہیز چاہیے۔ اس جملہ کی تفسیر سورة اعراف میں گذر چکی ہے۔ غصے پر قابو چاہیے کہ عین غصے اور غضب کی حالت میں بھی خوش خلقی اور درگذر کی عادت نہ چھوٹے چناچہ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی بھی اپنے نفس کا بدلہ کسی سے نہیں لیا ہاں اگر اللہ کے احکام کی بےعزتی اور بےتوقیری ہوتی ہو تو اور بات ہے اور حدیث میں ہے کہ بہت ہی زیادہ غصے کی حالت میں بھی آپ کی زبان سے اس کے سوا اور کچھ الفاظ نہ نکلتے کہ فرماتے اسے کیا ہوگیا ہے اس کے ہاتھ خاک آلود ہوں۔ حضرت ابراہیم فرماتے ہیں مسلمان پست و ذلیل ہوتا تو پسند نہیں کرتے تھے لیکن غالب آکر انتقام بھی نہیں لیتے تھے بلکہ درگذر کر جاتے اور معاف فرما دیتے۔ ان کی اور صفت یہ ہے کہ یہ اللہ کا کہا کرتے ہیں رسول ﷺ کی اتباع کرتے ہیں جس کا وہ حکم کرے بجا لاتے ہیں جس سے وہ روکے رک جاتے ہیں نماز کے پابند ہوتے ہیں جو سب سے اعلیٰ عبادت ہے۔ بڑے بڑے امور میں بغیر آپس کی مشاورت کے ہاتھ نہیں ڈالتے۔ خود رسول اللہ ﷺ کو حکم اللہ ہوتا ہے آیت ( وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْر01509 ) 3۔ آل عمران:159) یعنی ان سے مشورہ کرلیا کرو اسی لئے حضور ﷺ کی عادت تھی کہ جہاد وغیرہ کے موقعہ پر لوگوں سے مشورہ کرلیا کرتے تاکہ ان کے جی خوش ہوجائیں۔ اور اسی بنا پر امیر المومنین حضرت عمر نے جب کہ آپ کو زخمی کردیا گیا اور وفات کا وقت آگیا چھ آدمی مقرر کر دئیے کہ یہ اپنے مشورے سے میرے بعد کسی کو میرا جانشین مقرر کریں ان چھ بزرگوں کے نام یہ ہیں۔ عثمان، علی، طلحہ، زبیر، سعد اور عبدالرحمن بن عوف رضٰی اللہ تعالیٰ عنہم۔ پس سب نے باتفاق رائے حضرت عثمان کو اپنا امیر مقرر کیا پھر ان کا جن کے لئے آخرت کی تیاری اور وہاں کے ثواب ہیں ایک اور وصف بیان فرمایا کہ جہاں یہ حق اللہ ادا کرتے ہیں وہاں لوگوں کے حقوق کی ادائیگی میں بھی کمی نہیں کرتے اپنے مال میں محتاجوں کا حصہ بھی رکھتے ہیں اور درجہ بدرجہ اپنی طاقت کے مطابق ہر ایک کے ساتھ سلوک و احسان کرتے رہتے ہیں اور یہ ایسے ذلیل پست اور بےزور نہیں ہوتے کہ ظالم کے ظلم کی روک تھام نہ کرسکیں بلکہ اتنی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں کہ ظالموں سے انتقام لیں اور مظلوم کو اس کے پنجے سے نجات دلوائیں لیکن ہاں ! اپنی شرافت کی وجہ سے غالب آکر پھر چھوڑ دیتے ہیں۔ جیسے کہ نبی اللہ حضرت یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں پر قابو پا کر فرما دیا کہ جاؤ تمہیں میں کوئی ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرتا بلکہ میری خواہش ہے اور دعا ہے کہ اللہ بھی تمہیں معاف فرما دے۔ اور جیسے کہ سردار انبیاء رسول اللہ احمد مجتبیٰ حضرت محمد ﷺ نے حدیبیہ میں کیا جبکہ اسی وقت کفار غفلت کا موقع ڈھونڈ کر چپ چاپ لشکر اسلام میں گھس آئے جب یہ پکڑ لئے گئے اور گرفتار ہو کر حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کر دئیے گئے تو آپ نے ان سب کو معافی دے دی اور چھوڑ دیا۔ اور اسی طرح آپ نے غورث بن حارث کو معاف فرما دیا یہ وہ شخص ہے کہ حضور ﷺ کے سوتے ہوئے اس نے آپ کی تلوار پر قبضہ کرلیا جب آپ جاگے اور اسے ڈانٹا تو تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور آپ نے تلوار لے لی اور وہ مجرم گردن جھکائے آپ کے سامنے کھڑا ہوگیا آپ نے صحابہ کو بلا کر یہ منظر دکھایا اور یہ قصہ بھی سنایا پھر اسے معاف فرما دیا اور جانے دیا۔ اسی طرح لبید بن اعصم نے جب آپ پر جادو کیا تو علم وقدرت کے باوجود آپ نے اس سے درگذر فرما لے اور اسی طرح جس یہودیہ عورت نے آپ کو زہر دیا تھا آپ نے اس سے بھی بدلہ نہ لیا اور قابو پانے اور معلوم ہوجانے کے باوجود بھی آپ نے اتنے بڑے واقعہ کو جانا آنا کردیا اس عورت کا نام زینب تھا یہ مرحب یہودی کی بہن تھی۔ جو جنگ خیبر میں حضرت محمود بن سلمہ کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ اس نے بکری کے شانے کے گوشت میں زہر ملا کر خود حضور ﷺ کے سامنے پیش کیا تھا خود شانے نے ہی آنحضرت ﷺ کو اپنے زہر آلود ہونے کی خبر دی تھی جب آپ نے اسے بلا کر دریافت فرمایا تو اس نے اقرار کیا تھا اور وجہ یہ بیان کی تھی کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو یہ آپ کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گا۔ اور اگر آپ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں تو ہمیں آپ سے راحت حاصل ہوجائے گی یہ معلوم ہوجانے پر اور اس کے اقبال کرلینے پر بھی اللہ کے رسول ﷺ نے اسے چھوڑ دیا۔ معاف فرما دیا گو بعد میں وہ قتل کردی گئی اس لئے اسی زہر سے اور زہریلے کھانے سے حضرت بشر بن برا فوت ہوگئے تب قصاصاً یہ یہودیہ عورت بھی قتل کرائی گئی اور بھی حضور ﷺ کے عفو درگزر کے ایسے بہت سے واقعات ہیں ﷺ۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 37 { وَالَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبٰٓئِرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ } ” اور وہ لوگ کہ جو اجتناب کرتے ہیں بڑے بڑے گناہوں سے اور بےحیائی کے کاموں سے “ ظاہر ہے اس مقدس فریضہ کو نبھانے کا حلف اٹھانے والے رضاکار اگر اپنے دامن ِکردار کو ایسی نجاستوں سے بچا کر نہیں رکھیں گے تو وہ اس میدان میں آگے کیسے بڑھ سکیں گے۔ یہی مضمون سورة النساء کے اندر ہم ان الفاظ میں پڑھ چکے ہیں : { اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَائِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُـکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمْ مُّدْخَلاً کَرِیْمًا۔ } ” اگر تم اجتناب کرتے رہو گے ان بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تمہیں روکا جا رہا ہے تو ہم تمہاری چھوٹی برائیوں کو تم سے دور کردیں گے اور تمہیں داخل کریں گے بہت با عزت جگہ پر “۔ صغائر اور کبائر کے حوالے سے یہ نکتہ اچھی طرح سے ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک بندئہ مومن کو کبائر کے معاملے میں غیر معمولی طور پر حساس ہونا چاہیے۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں عمومی روش یہ ہے کہ ہم صغائر کے بارے میں تو بہت زیادہ باریک بین بننے کی کوشش کرتے ہیں ‘ چھوٹے چھوٹے مسائل کے بارے میں وضاحتیں اور فتوے بھی طلب کرتے رہتے ہیں ‘ مگر کبائر سے متعلق لاپرواہی برتتے ہیں۔ حالانکہ صغائر تو { اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّاٰتِط } ھود : 114 کے اصول کے تحت ساتھ ہی ساتھ معاف ہوتے رہتے ہیں اور سورة النساء کی متذکرہ بالا آیت میں بھی یہی بشارت دی جا رہی ہے کہ اگر تم لوگ کبائر سے بچتے رہو گے تو تمہارے صغائر ہم خود معاف کردیں گے۔ لیکن اس کے باوجود کبائر سے متعلق لاپرواہی اور صغائر کے بارے میں ” حساسیت “ کا عمومی رویہ ہمارے معاشرے میں ایک متعدی بیماری کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اس حوالے سے ہماری مشابہت بنی اسرائیل کی اس کیفیت کے ساتھ ہوچکی ہے جس کے بارے میں حضرت مسیح علیہ السلام نے انہیں فرمایا تھا کہ ” تم لوگ مچھر چھانتے ہو اور سموچے اونٹ نگل جاتے ہو “۔ بہر حال اللہ کے راستے میں نکلنے والے مجاہدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ تقویٰ کی روش پر کاربند رہیں اور کبائرو فواحش سے اپنا دامن بچا کر رکھیں۔ { وَاِذَامَا غَضِبُوْا ہُمْ یَغْفِرُوْنَ } ” اور جب انہیں غصہ آتا ہے تو معاف کردیتے ہیں۔ “ غَفَرَ کے معنی ڈھانپ دینے کے ہیں۔ اس معنی میں اس آہنی خود کو مِغْفَر کہا جاتا ہے جس سے دورانِ جنگ تلوار وغیرہ کے وار سے بچنے کے لیے سر کو ڈھانپا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے مغفرت سے مراد اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مہربانی ہے جو بندے کے گناہوں کو ڈھانپ لیتی ہے۔ لہٰذا مومنین ِصادقین کا یہاں جو وصف بتایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ غصے کا اظہار کرنے کے بجائے اسے پی جاتے ہیں۔ اشتعال کی حالت میں وہ کوئی اقدام نہیں کرتے بلکہ اپنے فیصلے ہمیشہ سوچ سمجھ کر کرتے ہیں اور انتقام لینے کے بجائے معاف کرنے کی حکمت عملی کو ترجیح دیتے ہیں۔ سورة آل عمران کی آیت 134 میں بھی متقین کی تعریف میں یہی صفت بیان کی گئی ہے : { وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِط } کہ وہ اپنے غصے کو پی جانے والے اور دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنے والے لوگ ہیں۔ چونکہ غصہ اور غصے کی کیفیت میں انسان کا اشتعال شیطانی اثرات کی بنا پر ہوتا ہے اس لیے سورة حٰم السجدۃ کی آیت 36 میں دی گئی یہ ہدایت غصے اور اس کے منفی اثرات سے بچنے کا بہترین نسخہ ہے : { وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِط } آیت 36 ” اور اگر کبھی تمہیں شیطان سے کوئی ُ چوک لگنے لگے تو اللہ کی پناہ طلب کرلیا کرو “۔ -۔ -۔ -۔ - اب آگے چلیے اگلے وصف کی طرف :
والذين يجتنبون كبائر الإثم والفواحش وإذا ما غضبوا هم يغفرون
سورة: الشورى - آية: ( 37 ) - جزء: ( 25 ) - صفحة: ( 487 )Surah Shura Ayat 37 meaning in urdu
جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور اگر غصہ آ جائے تو درگزر کر جا تے ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور اسی کے نشانات (اور تصرفات) میں سے ہے آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا
- اور لوگوں میں بعض ایسا بھی ہے جو کنارے پر (کھڑا ہو کر) خدا کی
- یوسف نے دعا کی کہ پروردگار جس کام کی طرف یہ مجھے بلاتی ہیں اس
- اور (وادی) حجر کے رہنے والوں نے بھی پیغمبروں کی تکذیب کی
- (یہ) جھوٹی باتیں بنانے کے جاسوسی کرنے والے اور (رشوت کا) حرام مال کھانے والے
- خدا نے تم لوگوں کے لئے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کردیا ہے۔ اور خدا
- نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آجائیں گے
- یہ مریم کے بیٹے عیسیٰ ہیں (اور یہ) سچی بات ہے جس میں لوگ شک
- کیا اس نے اتنے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا دیا۔ یہ تو بڑی
- (اور) اسے رستہ بھی دکھا دیا۔ (اب) وہ خواہ شکرگزار ہو خواہ ناشکرا
Quran surahs in English :
Download surah Shura with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Shura mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Shura Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers