Surah Maidah Ayat 38 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾
[ المائدة: 38]
اور جو چوری کرے مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ ڈالو یہ ان کے فعلوں کی سزا اور خدا کی طرف سے عبرت ہے اور خدا زبردست (اور) صاحب حکمت ہے
Surah Maidah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) بعض فقہاء ظاہری کے نزدیک سرقہ کا یہ حکم عام ہے چوری تھوڑی سی چیز کی ہو یا زیادہ کی۔ اسی طرح وہ حرز ( محفوظ جگہ ) میں رکھی ہو یا غیر حرز میں۔ ہر صورت میں چوری کی سزا دی جائے گی۔ جب کہ دوسرے فقہاء اس کے لئے حرز اور نصاب کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ پھر نصاب کی تعیین میں ان کے مابین اختلاف ہے۔ محدثین کے نزدیک نصاب ربع دینار یا تین درہم ( یا ان کے مساوی قیمت کی چیز ) ہے، اس سے کم چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ اسی طرح ہاتھ رسغ ( پہنچوں ) سے کاٹے جائیں گے۔ کہنی یا کندھے سے نہیں۔ جیسا کہ بعض کا خیال ہے۔ ( تفصیلات کے لئے کتب حدیث و فقہ اور تفاسیر کا مطالعہ کیا جائے )۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
احکام جرم و سزا حضرت ابن مسعود کی قرأت میں ( فاقطعوا ایمانھما ) ہے لیکن یہ قرأت شاذ ہے گو عمل اسی پر ہے لیکن وہ عمل اس قرأت کی وجہ سے نہیں بلکہ دوسرے دلائل کی بناء پر ہے۔ چور کے ہاتھ کاٹنے کا طریقہ اسلام سے پہلے بھی تھا اسلام نے اسے تفصیل وار اور منظم کردیا اسی طرح قسامت دیت فرائض کے مسائل بھی پہلے تھے لیکن غیر منظم اور ادھورے۔ اسلام نے انہیں ٹھیک ٹھاک کردیا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ سب سے پہلے دو یک نامی ایک خزاعی شخص کے ہاتھ چوری کے الزام میں قریش نے کاٹے تھے اس نے کعبے کا غلام چرایا تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ چوروں نے اس کے پاس رکھ دیا تھا۔ بعض فقہاء کا خیال ہے کہ چوری کی چیز کی کوئی حد نہیں تھوڑی ہو یا بہت محفوظ جگہ سے لی ہو یا غیر محفوظ جگہ سے بہر صورت ہاتھ کاٹا جائے گا۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ یہ آیت عام ہے تو ممکن ہے اس قول کا یہی مطلب ہو اور دوسرے مطالب بھی ممکن ہیں۔ ایک دلیل ان حضرات کی یہ حدیث بھی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ چور پر لعنت کرے کہ انڈا چراتا ہے اور ہاتھ کٹواتا ہے رسی چرائی ہے اور ہاتھ کاٹا جاتا ہے، جمہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ چوری کے مال کی حد مقرر ہے۔ گو اس کے تقرر میں اختلاف ہے۔ امام مالک کہتے ہیں تین درہم سکے والے خالص یا ان کی قیمت یا زیادہ کی کوئی چیز چناچہ صحیح بخاری مسلم میں حضور ﷺ کا ایک ڈھال کی چوری پر ہاتھ کاٹنا مروی ہے اور اس کی قیمت اتنی ہی تھی۔ حضرت عثمان نے اترنج کے چور کے ہاتھ کاٹے تھے جبکہ وہ تین درہم کی قیمت کا تھا۔ حضرت عثمان کا فعل گویا صحابہ کا جماع سکوتی ہے اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پھل کے چور کے ہاتھ بھی کاٹے جائیں گے۔ حنفیہ اسے نہیں مانتے اور ان کے نزدیک چوری کے مال کا دس درہم کی قیمت کا ہونا ضروری ہے۔ اس میں شافعیہ کا اختلاف ہے پاؤ یا دینار کے تقرر میں۔ امام شافعی کا فرمان ہے کہ پاؤ دینار کی قیمت کی چیز ہو یا اس سے زیادہ۔ ان کی دلیل بخاری و مسلم کی حدیث ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا چور کا ہاتھ پاؤ دینار میں پھر جو اس سے اوپر ہو اس میں کاٹنا چاہئے مسلم کی ایک حدیث میں ہے چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے مگر پاؤ دینار پھر اس سے اوپر میں۔ پس یہ حدیث اس مسئلے کا صاف فیصلہ کردیتی ہے اور جس حدیث میں تین درہم میں حضور ﷺ سے ہاتھ کاٹنے کو فرمانا مروی ہے وہ اس کے خلاف نہیں اس لئے کہ اس وقت دینار بارہ درہم کا تھا۔ پس اصل چوتھائی دینار ہے نہ کہ تین درہم۔ حضرت عمر بن خطاب حضرت عثمان بن عفان حضرت علی بن ابی طالب بھی یہی فرماتے ہیں۔ حضرت عمر بن عبد العزیز لیث بن سعد اوزاعی شافعی اسحاق بن راہویہ ابو ثور داؤد بن علی ظاہری کا بھی یہی قول ہے۔ ایک روایت میں امام اسحاق بن راہویہ اور امام احمد بن حنبل سے مروی ہے کہ خواہ ربع دینار ہو خواہ تین درہم دونوں ہی ہاتھ کاٹنے کا نصاب ہے۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے چوتھائی دینار کی چوری پر ہاتھ کاٹ دو اس سے کم میں نہیں۔ اس وقت دینار بارہ درہم کا تھا تو چوتھائی دینار تین درہم کا ہوا۔ نسائی میں ہے چور کا ہاتھ ڈھال کی قیمت سے کم میں نہ کاٹا جائے۔ حضرت عائشہ سے پوچھا گیا ڈھال کی قیمت کیا ہے ؟ فرمایا پاؤ دینار۔ پس ان تمام احادیث سے صاف صاف ثابت ہو رہا ہے کہ دس درہم شرط لگانی کھلی غلطی ہے واللہ اعلم۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے ساتھیوں نے کہا ہے کہ جس ڈھال کے بارے میں حضور ﷺ کے زمانے میں چور کا ہاتھ کاٹا گیا اس کی قیمت نو درہم تھی چناچہ ابوبکر بن شیبہ میں یہ موجود ہے اور عبداللہ بن عمر سے۔ عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمرو مخالفت کرتے رہے ہیں اور حدود کے بارے میں اختیار پر عمل کرنا چاہئے اور احتیاط زیادتی میں ہے اس لئے دس درہم نصاب ہم نے مقرر کیا ہے۔ بعض سلف کہتے ہیں کہ دس درہم یا ایک دینار حد ہے علی ابن مسعود ابراہیم نخعی ابو جعفر باقر سے یہی مروی ہے۔ سعید بن جیر فرماتے ہیں پانچوں نہ کاٹی جائیں مگر پانچ دینار پچاس درہم کی قیمت کے برابر کے مال کی چوری میں۔ ظاہریہ کا مذہب ہے کہ ہر تھوڑی بہت چیز کی چوری پر ہاتھ کٹے گا انہیں جمہور نے یہ جواب دیا ہے کہ اولاً تو یہ اطلاق منسوخ ہے لیکن یہ جواب ٹھیک نہیں اس لئے تاریخ نسخ کا کوئی یقینی عمل نہیں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ انڈے سے مراد لوہے کا انڈا ہے اور رسی سے مراد کشتیوں کے قیمتی رسے ہیں۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ یہ فرمان باعتبار نتیجے کے ہے یعنی ان چھوٹی چھوٹی معمولی سی چیزوں سے چوری شروع کرتا ہے آخر قیمتی چیزیں چرانے لگتا ہے اور ہاتھ کاٹا جاتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضور ﷺ بطور افسوس کے اوپر چور کو نادم کرنے کے فرما رہے ہیں کہ کیسا رذیل اور بےخوف انسان ہے کہ معمولی چیز کیلئے ہاتھ جیسی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے۔ مذکور ہے کہ ابو العلام معری جب بغداد میں آیا تو اس نے اس بارے میں بڑے اعتراض شروع کئے اور اس کے جی میں یہ خیال بیٹھ گیا کہ میرے اس اعتراض کا جواب کسی سے نہیں ہوسکتا تو اس نے ایک شعر کہا کہ اگر ہاتھ کاٹ ڈالا جائے تو دیت میں پانچ سو دلوائیں اور پھر اسی ہاتھ کو پاؤ دینار کی چوری پر کٹوا دیں یہ ایسا تناقض ہے کہ ہماری سمجھ میں تو آتا ہی نہیں خاموش ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا مولا ہمیں جہنم سے بچائے۔ لیکن جب اس کی یہ بکواس مشہور ہوئی تو علماء کرام نے اسے جواب دینا چاہا تو یہ بھاگ گیا پھر جواب بھی مشہور کردیئے گئے۔ قاضی عبد الوہاب نے جواب دیا تھا کہ جب تک ہاتھ امین تھا تب تک ثمین یعنی قیمتی تھا اور جب یہ خائن ہوگیا اس نے چوری کرلی تو اس کی قیمت گھٹ گئی۔ بعض بزرگوں نے اسے قدرے تفصیل سے جواب دیا تھا کہ اس سے شریعت کی کامل حکمت ظاہر ہوتی ہے اور دنیا کا امن وامان قائم ہوتا ہے، جو کسی کا ہاتھ بےوجہ کاٹ دینے کا حکم دیا تاکہ چوری کا دروازہ اس خوف سے بند ہوجائے۔ پس یہ تو عین حکمت ہے اگر چوری میں بھی اتنی رقم کی قید لگائی جاتی تو چوریوں کا انسداد نہ ہوتا۔ یہ بدلہ ہے ان کے کرتوت کا۔ مناسب مقام یہی ہے کہ جس عضو سے اس نے دوسرے کو نقصان پہنچایا ہے، اسی عضو پر سزا ہو۔ تاکہ انہیں کافی عبرت حاصل ہو اور دوسروں کو بھی تنبیہہ ہوجائے۔ اللہ اپنے انتقام میں غالب ہے اور اپنے احکام میں حکیم ہے۔ جو شخص اپنے گناہ کے بعد توبہ کرلے اور اللہ کی طرف جھک جائے، اللہ اسے اپنا گناہ معاف فرما دیا کرتا ہے۔ ہاں جو مال چوری میں کسی کا لے لیا ہے چونکہ وہ اس شخص کا حق ہے، لہذا صرف توبہ کرنے سے وہ معاف نہیں ہوتا تاوقتیکہ وہ مال جس کا ہے اسے نہ پہنچائے یا اس کے بدلے پوری پوری قیمت ادا کرے۔ جمہور ائمہ کا یہی قول ہے، صرف امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ " جب چوری پر ہاتھ کٹ گیا اور مال تلف ہوچکا ہے تو اس کا بدلہ دینا اس پر ضروری نہیں "۔ دار قطنی وغیرہ کی ایک مرسل حدیث میں ہے کہ " ایک چور حضور ﷺ کے سامنے لایا گیا، جس نے چادر چرائی تھی، آپ نے اس سے فرمایا، میرا خیال ہے کہ تم نے چوری نہیں کی ہوگی، انہوں نے کہا کہ یارسول اللہ ﷺ میں نے چوری کی ہے تو آپ نے فرمایا اسے لے جاؤ اور اس کا ہاتھ کاٹ دو جب ہاتھ کٹ چکا اور آپ کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا توبہ کرو، انہوں نے توبہ کی، آپ نے فرمایا اللہ نے تمہاری توبہ قبول فرما لی " ؓ ابن ماجہ میں ہے کہ " حضرت عمر بن سمرہ حضور ﷺ کے پاس آکر کہتے ہیں کہ مجھ سے چوری ہوگئی ہے تو آپ مجھے پاک کیجئے، فلاں قبیلے والوں کا اونٹ میں نے چرا لیا ہے۔ آپ نے اس قبیلے والوں کے پاس آدمی بھیج کر دریافت فرمایا تو انہوں نے کہا کہ ہمارا اونٹ تو ضرور گم ہوگیا ہے۔ آپ نے حکم دیا اور ان کا ہاتھ کاٹ ڈالا گیا وہ ہاتھ کٹنے پر کہنے لگے، اللہ کا شکر ہے جس نے تجھے میرے جسم سے الگ کردیا، تو نے میرے سارے جسم کو جہنم میں لے جانا چاہا تھا " ؓ ابن جریر میں ہے کہ " ایک عورت نے کچھ زیور چرا لئے، ان لوگوں نے حضور ﷺ کے پاس اسے پیش کیا، آپ نے اس کا داہنا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا، جب کٹ چکا تو اس عورت نے کہا یا رسول اللہ ﷺ کیا میری توبہ بھی ہے ؟ آپ نے فرمایا تم تو ایسی پاک صاف ہوگئیں کہ گویا آج ہی پیدا ہوئی "۔ اس پر آیت ( فمن تاب ) نازل ہوئی۔ مسند میں اتنا اور بھی ہے کہ اس وقت اس عورت والوں نے کہا ہم اس کا فدیہ دینے کو تیار ہے لیکن آپ نے اسے قبول نہ فرمایا اور ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا۔ یہ عورت مخزوم قبیلے کی تھی اور اس کا یہ واقعہ بخاری و مسلم میں بھی موجود ہے کہ چونکہ یہ بڑی گھرانے کی عورت تھی، لوگوں میں بڑی تشویش پھیلی اور ارادہ کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے اس کے بارے میں کچھ کہیں سنیں، یہ واقعہ غزوہ فتح میں ہوا تھا، بالاخر یہ طے ہوا کہ حضرت اسامہ بن زید جو رسول اللہ ﷺ کے بہت پیارے ہیں، وہ ان کے بارے میں حضور ﷺ سے سفارش کریں، حضرت اسامہ نے جب اس کی سفارش کی تو حضور ﷺ کو سخت ناگوار گزرا اور غصے سے فرمایا ! اسامہ تو اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کر رہا ہے ؟ اب تو حضرت اسامہ بہت گھبرائے اور کہنے لگے مجھ سے بڑی خطا ہوئی، میرے لئے آپ استفغار کیجئے۔ شام کے وقت اللہ کے رسول ﷺ نے ایک خطبہ سنایا جس میں اللہ تعالیٰ کی پوری حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ تم سے پہلے کے لوگ اسی خصلت پر تباہ و برباد ہوگئے کہ ان میں سے جب کوئی شریف شخص بڑا آدمی چوری کرتا تھا تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی معمولی آدمی ہوتا تو اس پر حد جاری کرتے۔ اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی چوری کریں تو میں ان کے بھی ہاتھ کاٹ دوں۔ پھر حکم دیا اور اس عورت کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ حضرت صدیقہ فرماتی ہیں پھر اس بیوی صاحبہ نے توبہ کی اور پوری اور پختہ توبہ کی اور نکاح کرلیا، پھر وہ میرے پاس اپنے کسی کام کاج کیلئے آتی تھیں اور میں اس کی حاجت آنحضرت ﷺ سے بیان کردیا کرتی تھی۔ ؓ " مسلم میں ہے ایک عورت لوگوں سے اسباب ادھار لیتی تھی، پھر انکار کر جایا کرتی تھی، حضور ﷺ نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا " اور روایت میں ہے یہ زیور ادھار لیتی تھی اور اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم حضرت بلال کو ہوا تھا۔ کتاب الاحکام میں ایسی بہت سی حدیثیں وارد ہیں جو چوری سے تعلق رکھتی ہیں۔ فالحمد للہ۔ جمیع مملوک کا مالک ساری کائنات کا حقیقی بادشاہ، سچا حاکم، اللہ ہی ہے۔ جس کے کسی حکم کو کوئی روک نہیں سکتا۔ جس کے کسی ارادے کو کوئی بدل نہیں سکتا، جسے چاہے بخشے جسے چاہے عذاب کرے۔ ہر ہر چیز پر وہ قادر ہے اس کی قدرت کامل اور اس کا قبضہ سچا ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 38 وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَہُمَا یعنی چور کا ایک ہاتھ کاٹ دو۔جَزَآءًً م بِمَا کَسَبَا نَکَالاً مِّنَ اللّٰہِ ط دیکھئے قرآن خود اپنی حفاظت کس طرح کرتا ہے اور کیوں چیلنج کرتا ہے کہ اس کلام پر باطل حملہ آور نہیں ہوسکتا کسی بھی جانب سے حٰآ السجدہ : 42۔ ذرا ملاحظہ کیجیے اس آیت کے ضمن میں غلام احمد پرویز صاحب کہتے ہیں کہ یہاں چور کا ہاتھ کاٹنے کا مطلب ہے کہ ایسا نظام وضع کیا جائے جس میں کسی کو چوری کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ یہ تو ہم بھی چاہتے ہیں کہ ایسا نظام ہو ‘ ریاست کی طرف سے کفالت عامہ کی سہولت موجود ہو تاکہ کوئی شخص مجبوراً چوری نہ کرے ‘ لیکن فاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَہُمَا کے الفاظ سے جو مطلب پرویز صاحب نے نکالا ہے وہ بالکل غلط ہے۔ اور اگر فرض کرلیں کہ ایسا ہی ہے تو پھر جَزَآءًًم بِمَا کَسَبَا یہ بدلہ ہے ان کی اپنی کمائی کا کی کیا تاویل ہوگی ؟ یعنی جو کمائی انہوں نے کی ہے اس کا بدلہ یہ ہے کہ ایک اچھا نظام قائم کردیا جائے ؟ اس کے بعد پھر نَکَالاً مِّنَ اللّٰہِ کے الفاظ مزید آئے ہیں۔ نکال کہتے ہیں عبرتناک سزا کو۔ تو کیا ایسے نظام کا قائم کرنا اللہ کی طرف سے عبرتناک سزا ہوگی ؟ آپ نے دیکھا قرآن کے معانی و مفہوم کی حفاظت کے لیے بھی الفاظ کے کیسے کیسے پہرے بٹھائے گئے ہیں !دراصل حدودو تعزیرات کے فلسفے کو سمجھنا بہت ضروری ہے اور اس کے لیے لفظ نکال بہت اہم ہے۔ قرآن میں تعزیرات اور حدود کے سلسلے میں یہ لفظ اکثر استعمال ہوا ہے۔ یعنی اگر سزا ہوگی تو عبرت ناک ہوگی۔ اسلام میں شہادت کا قانون بہت سخت رکھا گیا ہے۔ ذرا سا شبہ ہو تو اس کا فائدہ ملزم کو دیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے سزا کا نفاذ آسان نہیں۔ لیکن اگر تمام مراحل طے کر کے جرم پوری طرح ثابت ہوجائے تو پھر سزا ایسی دی جائے کہ ایک کو سزا ملے اور لاکھوں کی آنکھیں کھل جائیں تاکہ آئندہ کسی کو جرم کرنے کی ہمت نہ ہو۔ یہ فلسفہ ہے اسلامی سزاؤں کا۔ یہ درحقیقت ایک تسدید deterrence ہے جس کے سبب معاشرے سے برائی کا استیصال کرنا ممکن ہے۔ آج امریکہ جیسے نام نہاد مہذبّ معاشرے میں بھی آئے دن انتہائی گھناؤنے جرائم ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ احتساب اور سزا کا نظام درست نہیں۔ لوگ جرم کرتے ہیں ‘ سزا ہوتی ہے ‘ جیل جاتے ہیں ‘ کچھ دن وہاں گزارنے کے بعد واپس آتے ہیں ‘ پھر جرم کرتے ہیں ‘ پھر جیل چلے جاتے ہیں۔ جیل کیا ہے ؟ سرکاری مہمان داری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے معاشروں میں جرائم روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔
والسارق والسارقة فاقطعوا أيديهما جزاء بما كسبا نكالا من الله والله عزيز حكيم
سورة: المائدة - آية: ( 38 ) - جزء: ( 6 ) - صفحة: ( 114 )Surah Maidah Ayat 38 meaning in urdu
اور چور، خواہ عورت ہو یا مرد، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، یہ اُن کی کمائی کا بدلہ ہے اور اللہ کی طرف سے عبرتناک سزا اللہ کی قدرت سب پر غالب ہے اور وہ دانا و بینا ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- جو لوگ کافر ہوئے اور خدا کے رستے سے روکتے رہے پھر کافر ہی مرگئے
- اور ان کے پاس ان کے پروردگار کی کوئی نشانی نہیں آتی مگر اس سے
- اور جن لوگوں کے منہ سفید ہوں گے وہ خدا کی رحمت (کے باغوں) میں
- جس دن ظالموں کو ان کی معذرت کچھ فائدہ نہ دے گی اور ان کے
- اور یہی تمہارے پروردگار کا سیدھا رستہ ہے جو لوگ غور کرنے والے ہیں ان
- اور میں اس کام کا تم سے کچھ بدلہ نہیں مانگتا میرا بدلہ تو خدائے
- یعنی آبخورے اور آفتابے اور صاف شراب کے گلاس لے لے کر
- اور وہ دوزخی بہشتیوں سے (گڑگڑا کر) کہیں گے کہ کسی قدر ہم پر پانی
- کہہ دو کہ فیصلے کے دن کافروں کو ان کا ایمان لانا کچھ بھی فائدہ
- اور جو لوگ خدا (کے بارے) میں بعد اس کے کہ اسے (مومنوں نے) مان
Quran surahs in English :
Download surah Maidah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Maidah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Maidah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers