Surah kafirun Ayat 4 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ﴾
[ الكافرون: 4]
اور (میں پھر کہتا ہوں کہ) جن کی تم پرستش کرتے ہوں ان کی میں پرستش کرنے والا نہیں ہوں
Surah kafirun UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
مشرکین الگ اور موحدین الگ :اس سورة مبارکہ میں مشرکین کے عمل سے بیزاری کا اعلان ہے اور اللہ کی عبادت کے اخلاص کا حکم ہے گو یہاں خطاب مکہ کے کفار قریش سے ہے لیکن دراصل روئے زمین کے تمام کافر مراد ہیں اس کی شان نزول یہ ہے کہ ان کافروں نے حضور ﷺ سے سے کہا تھا کہ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کریں تو اگلے سال ہم بھی اللہ کی عبادت کریں گے اس پر یہ سورت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی برحق ﷺ کو حکم دیا کہ ان کے دین سے اپنی پوری بیزاری کا اعلان فرما دیں کہ میں تمہارے ان بتوں کو اور جن جن کو تم اللہ کا شریک مان رہے ہو ہرگز نہ پوجوں گا گو تم بھی میرے معبود برحق اللہ وحدہ لا شریک لہ کو نہ پوجو پس ما یہاں پر معنی میں من کے ہے پھر دوبارہ یہی فرمایا کہ میں تم جیسی عبادت نہ کروں گا تمہارے مذہب پر میں کاربند نہیں ہوسکتا نہ میں تمہارے پیچھے لگ سکتا ہوں بلکہ میں تو صرف اپنے رب کی عبادت کروں گا اور وہ بھی اس طریقے پر جو اسے پسند ہو اور جیسے وہ چاہے اسی لیے فرمایا کہ نہ تم میرے رب کے احکام کے آگے سر جھکاؤ گے نہ اس کی عبادت اس کے فرمان کے مطابق بجا لاؤ گے بلکہ تم نے تو اپنی طرف سے طریقے مقرر کرلیے ہیں جیسے اور جگہ ہے ان یتبعون الا الظن الخ یہ لوگ صرف وہم و گمان اور خواہش نفسانی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت پہنچ چکی ہے پس جناب نبی اللہ احم دمجتبیٰ ﷺ نے ہر طرح اپنا دامن ان سے چھڑا لیا اور صاف طور پر ان کے معبودوں سے اور ان کی عبادت کے طریقوں سے علیحدگی اور ناپسندیدگی کا اعلان فرما دیا ظاہر ہے کہ ہر عابد کا معبود ہوگا اور طریقہ عبادت ہوگا پس رسول اللہ ﷺ اور آپ کی امت صر فاللہ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور طریقہ عبادت ان کا وہ ہے جو سرور رسل ﷺ نے تعلیم فرمایا ہے اسی لیے کلمہ اخلاص لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا راستہ وہی ہے جس کے بتانے والے محمد ﷺ ہویں جو اللہ کے پیغمبر ہیں ﷺ اور مشرکین کے معبود بھی اللہ کے سوا غیر ہیں اور طریقہ عبادت بھی اللہ کا بتلایا ہوا نہیں اسی لیے فرمایا کہ متہارا دین تمہارے لیے میرا میرے لیے جیسے اور جگہ ہے وان کذبوک فقل لی عملی ولکم عملکم انتم بریون مما اعمل وانا بری مما تعملون یعنی اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو تو کہہ دے کہ میرے لیے میرا عمل اور تمہارے لیے متہارا عمل ہے تم میرے اعمال سے الگ ہو اور میں تمہارے کاموں سے بیزار ہوں اور جگرہ فرمایا لنا اعمالنا ولکم اعمالکم ہمارے عمل ہمارے ساتھ اور تمہارے تمہارے ساتھ صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے تمہارے لیے متہارا دین ہے یعنی کفر اور میرے لیے میرا دن ہے یعنی اسلام یہ لفظ اصل میں دینی تھا لیکن چونکہ اور آیتوں کا وقف نون پر ہے اس لیے اس میں بھی " یا " کو حذف کردیا جیسے فھوا یھدین میں اور یسقین میں بعض مفسرین نے کہا ہے مطلب یہ ہے کہ میں اب تو تمہارے معبودوں کی پرستش کرتا نہیں اور آگے کے لیے بھی تمہیں ناامید کردیتا ہوں کہ عمر بھر میں کبھی بھی یہ کفر مجھ سے نہ ہو سکے گا اسی طرح نہ تم اب میرے اللہ کو پوجتے ہو نہ آئندہ اس کی عبادت کرو گے اس سے مراد وہ کفار ہیں جن کا ایمان نہ لانا اللہ کو معلوم تھا جیسے قرآن میں اور جگہ ہے ولیزیدن کثیرا منھم ما انزل الیک من ربک طغیانا وکفرا یعنی تیری طرف جو اترتا ہے اس سے ان میں سے اکثر تو سرکشی اور کفر میں بڑھ جاتے ہیں ابن جرری نے بعض عربی دان حضرات سے نقل کیا ہے کہ وہ مرتبہ اس جملے کا لانا صرف تاکید کے لیے ہے جیسے فان مع العسر یسرا ان معالعسر یسرا میں اور جیسے لترون الجحیم ثم لترونھا عین الیقین پس ان دونوں جملوں کو دو مرتبہ لانے کی حکمت میں یہ تین قول ہوئے ایک تو یہ کہ پہلے جملے سے مراد معبود دوسرے سے مراد طریق عبادت دوسرے یہ کہ پہلے جملے سے مراد حال دوسرے سے مراد استقبال یعنی آئندہ تیسرے یہ کہ پہلے جملے کی تاکید دوسرے جملے سے ہے لیکن یہ یاد رہے کہ یہاں ایک چوتھی توجیہ بھی ہے جسے حضرت امام ابن تیمیہ اپنی بعض تصنیفات میں قوت دیتے ہیں وہ یہ کہ پہلے تو جملہ فعلیہ ہے اور دوبارہ جملہ اسمیہ ہے تو مراد یہ ہوئی کہ نہ تو میں غیر اللہ کی عبادت کرتا ہو نہ مجھ سے کبھی بھی کوئی امید رکھ سکتا ہے یعنی واقعہ کی بھی نفی ہے اور شرعی طور پر ممکن ہونے کا بھی انکار ہے یہ قول بھی ہت اچھا ہے واللہ اعلم حضرت امام ابو عبداللہ شافعی کر ؒ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ کفر ایک ہی ملت ہے اس لیے یہود نصرانی کا اور نصرانی یہود کا وارث ہوسکتا ہے جبکہ ان دونوں میں سنب یا سبب ورثے کا پایا جائے اس لیے کہ اسلام کے سوا کفر کی جتنی راہیں ہیں وہ سب باطل ہونے میں ایک ہی ہیں حضرت امام احمد ؒ اور ان کے موافقین کا مذہب اس کے برخلاف ہے کہ نہ یہودی نصرانی کا وارث ہوسکتا ہے نہ نصرانی یہود کا کیونکہ حدیث ہے دو مختلف مذہب والے آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے سورة کافرون کی تفسیر ختم ہوئی فالحمد اللہ احسانہ۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 4{ وَلَآ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ۔ } ” اور نہ ہی میں آئندہ کبھی پوجنے والا ہوں ان کو جن کی تم پرستش کر رہے ہو۔ “ ان آیات میں بظاہر تکرار نظر آتی ہے ‘ لیکن درحقیقت اس اسلوب میں ماضی ‘ حال اور مستقبل کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یعنی نہ میں نے زمانہ ماضی میں کبھی تمہارے معبودانِ باطل کی پرستش کی اور نہ آئندہ کبھی تم مجھ سے اس کی توقع کرسکتے ہو۔
Surah kafirun Ayat 4 meaning in urdu
اور نہ میں اُن کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی عبادت تم نے کی ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- جو لوگ خدا پر اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہیں تم ان کو خدا
- خدا کا حکم (یعنی عذاب گویا) آ ہی پہنچا تو (کافرو) اس کے لیے جلدی
- سو یہ تو جھٹلا چکے اب ان کو اس چیز کی حقیقت معلوم ہوگی جس
- اور جب عیسیٰ نشانیاں لے کر آئے تو کہنے لگے کہ میں تمہارے پاس دانائی
- جو لوگ خدا پر اور روز آخرت پر ایمان لائیں گے اور عمل نیک کریں
- اور اگر یہ تم سے جھگڑا کریں تو کہہ دو کہ جو عمل تم کرتے
- (اے پیغمبر) اس کام میں تمہارا کچھ اختیار نہیں (اب دو صورتیں ہیں) یا خدا
- اور (ان میں سے ایسے بھی ہیں) جنہوں نے اس غرض سے مسجد بنوائی کہ
- اور (قوم) ثمود (کے حال) میں (نشانی ہے) جب ان سے کہا گیا کہ ایک
- جو تم کرتے ہو وہ اسے جانتے ہیں
Quran surahs in English :
Download surah kafirun with the voice of the most famous Quran reciters :
surah kafirun mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter kafirun Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers