Surah Nisa Ayat 4 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ النساء کی آیت نمبر 4 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah Nisa ayat 4 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا﴾
[ النساء: 4]

Ayat With Urdu Translation

اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دے دیا کرو۔ ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ تم کو چھوڑ دیں تو اسے ذوق شوق سے کھالو

Surah Nisa Urdu

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


یتیموں کی نگہداشت اور چار شادیوں کی اجازت اللہ تعالیٰ یتیموں کے والیوں کو حکم دیتا ہے کہ جب یتیم بلوغت اور سمجھداری کو پہنچ جائیں تو ان کے جو مال تمہارے پاس ہو انہیں سونپ دو ، پورے پورے بغیر کمی اور خیانت کے ان کے حوالے کرو، اپنے مالوں کے ساتھ ملا کر گڈمڈ کر کے کھا جانے کی نیت نہ رکھو، حلال رزق جب اللہ رحیم تمہیں دے رہا ہے پھر حرام کی طرف کیوں منہ اٹھاؤ ؟ تقدیر کی روزی مل کر ہی رہے گی اپنے حلال مال چھوڑ کر لوگوں کے مالوں کو جو تم پر حرام ہیں نہ لو، دبلا پتلا جانور دے کر موٹا تازہ نہ لو، بوٹی دے کر بکرے کی فکر نہ کرو، ردی دے کر اچھے کی اور کھوٹا دے کر کھرے کی نیت نہ رکھو، پہلے لوگ ایسا کرلیا کرتے تھے کہ یتیموں کی بکریوں کے ریوڑ میں سے عمدہ بکری لے لی اور اپنی دبلی پتلی بکری دے کر گنتی پوری کردی، کھوٹا درہم اس کے مال میں ڈال کر کھرا نکال لیا اور پھر سمجھ لیا کہ ہم نے تو بکری کے بدلے بکری اور درہم کے بدلے درہم لیا ہے۔ ان کے مالوں میں اپنا مال خلط ملط کر کے پھر یہ حیلہ کر کے اب امتیاز کیا ہے ؟ ان کے مال تلف نہ کرو، یہ بڑا گناہ ہے، ایک ضعیف حدیث میں بھی یہی معنی آخری جملے کے مروی ہیں، ابو داؤد کی حدیث میں ایک دعا میں بھی ( حوب ) کا لفظ گناہ کے معنی میں آیا ہے، حضرت ابو ایوب نے جب اپنی بیوی صاحبہ کو طلاق دینے کا ارادہ کیا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا تھا کہ اس طلاق میں گناہ ہے، چناچہ وہ اپنے ارادے سے باز رہے، ایک روایت میں یہ واقعہ حضرت ابو طلحہ اور ام سلیم کا مروی ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ تمہاری پرورش میں کوئی یتیم لڑکی ہو اور تم اس سے نکاح کرنا چاہتے ہو لیکن چونکہ اس کا کوئی اور نہیں اس لئے تم تو ایسا نہ کرو کہ مہر اور حقوق میں کمی کر کے اسے اپنے گھر ڈال لو اس سے باز رہو اور عورتیں بہت ہیں جس سے چاہو نکاح کرلو، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں ایک یتیم لڑکی تھی جس کے پاس مال بھی تھا اور باغ بھی جس کی پرورش میں وہ تھی اس نے صرف اس مال کے لالچ میں بغیر اس کا پورا مہر وغیرہ مقرر کرنے کے اس سے نکاح کرلیا جس پر یہ آیت اتری میرا خیال ہے کہ اس باغ اور مال میں یہ لڑکی حصہ دار تھی، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت ابن شہاب نے حضرت عائشہ سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو آپ نے فرمایا بھانجے، یہ ذکر اس یتیم لڑکی کا ہے جو اپنے ولی کے قبضہ میں ہے اس کے مال میں شریک ہے اور اسے اس کا مال و جمال اچھا لگتا ہے چاہتا ہے کہ اس سے نکاح کرلے لیکن جو مہر وغیرہ اور جگہ سے اسے ملتا ہے اتنا یہ نہیں دیتا تو اسے منع کیا جا رہا ہے کہ وہ اس اپنی نیت چھوڑ دے اور کسی دوسری عورت سے جس سے چاہے اپنا نکاح کرلے، پھر اس کے بعد لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے اسی کی بابت دریافت کیا اور آیت ( وَيَسْتَفْتُوْنَكَ فِي النِّسَاۗءِ ۭ قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيْكُمْ فِيْهِنَّ )النساء:127) نازل ہوئی وہاں فرمایا گیا ہے کہ جب یتیم لڑکی کم مال والی اور کم جمال والی ہوتی ہے اس وقت تو اس کے والی اس سے بےرغبتی کرتے ہیں پھر کوئی وجہ نہیں کہ مال و جمال پر مائل ہو کر اس کے پورے حقوق ادا نہ کر کے اس سے اپنا نکاح کرلیں، ہاں عدل و انصاف سے پورا مہر وغیرہ مقرر کریں تو کوئی حرج نہیں، ورنہ پھر عورتوں کی کمی نہیں اور کسی سے جس سے چاہیں اظہار نکاح کرلیں دو دو عورتیں اپنے نکاح میں رکھیں اگر چاہیں تین تین رکھیں اگر چاہیں چار چار، جیسے اور جگہ یہ الفاظ ان ہی معنوں میں ہیں، فرماتا ہے آیت ( اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰۗىِٕكَةِ رُسُلًا اُولِيْٓ اَجْنِحَةٍ مَّثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ) 35۔ فاطر:1) یعنی جن فرشتوں کو اللہ تعالیٰ اپنا قاصد بنا کر بھیجتا ہے ان میں سے بعض دو دو پروں والے ہیں بعض تین تین پروں والے بعض چار پروں والے فرشتوں میں اس سے زیادہ پر والے فرشتے بھی ہیں کیونکہ دلیل سے یہ ثابت شدہ ہے، لیکن مرد کو ایک وقت میں چار سے زیادہ بیویوں کا جمع کرنا منع ہے جیسے کہ اس آیت میں موجود ہے اور جیسے کہ حضرت ابن عباس اور جمہور کا قول ہے، یہاں اللہ تعالیٰ اپنے احسان اور انعام بیان فرما رہا ہے پس اگر چار سے زیادہ کی اجازت دینی منظور ہوتی تو ضرور فرما دیا جاتا، حضرت امام شافعی ؒ فرماتے ہیں حدیث جو قرآن کی وضاحت کرنے والی ہے اس نے بتلا دیا ہے کہ سوائے رسول اللہ ﷺ کے کسی کے لئے چار سے زیادہ بیویوں کا بیک وقت جمع کرنا جائز نہیں اسی پر علماء کرام کا اجماع ہے، البتہ بعض شیعہ کا قول ہے کہ نو تک جمع کرنی جائز ہیں، بلکہ بعض شیعہ نے تو کہا ہے کہ نو سے بھی زیادہ جمع کرلینے میں بھی کوئی حرج نہیں کوئی تعداد مقرر ہے ہی نہیں، ان کا استدلال ایک تو رسول کریم ﷺ کے فعل سے ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں آچکا ہے کہ آپ کی نو بیویاں تھیں اور بخاری شریف کی معلق حدیث کے بعض راویوں نے گیارہ کہا ہے، حضرت انس سے مروی ہے کہ آپ نے پندرہ بیویوں سے عقد کیا تیرہ کی رخصتی ہوئی ایک وقت میں گیارہ بیویاں آپ کے پاس تھیں۔ انتقال کے وقت آپ کی نو بیویاں تھیں ؓ اجمعین، ہمارے علماء کرام اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ یہ آپ کی خصوصیت تھی امتی کو ایک وقت میں چار سے زیادہ پاس رکھنے کی اجازت نہیں، جیسے کہ یہ حدیثیں اس امر پر دلالت کرتی ہیں، حضرت غیلان بن سلمہ ثقفی ؓ جب مسلمان ہوتے ہیں تو ان کے پاس ان کی دس بیویاں تھیں۔ حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ ان میں سے جنہیں چاہو چار رکھ لو باقی کو چھوڑ دو چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا پھر حضرت عمر کی خلافت کے زمانے میں اپنی ان بیویوں کو بھی طلاق دے دی اور اپنے لڑکوں کو اپنا مال بانٹ دیا، حضرت عمر ؓ کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا شاید تیرے شیطان نے بات اچک لی اور تیرے دل میں خیال جما دیا کہ تو عنقریب مرنے والا ہے اس لئے اپنی بیویوں کو تو نے الگ کردیا کہ وہ تیرا مال نہ پائیں اور اپنا مال اپنی اولاد میں تقسیم کردیا میں تجھے حکم دیتا ہوں کہ اپنی بیویوں سے رجوع کرلے اور اپنے اولاد سے مال واپس لے اگر تو نے ایسا نہ کیا تو تیرے بعد تیری ان مطلقہ بیویوں کو بھی تیرا وارث بناؤں گا کیونکہ تو نے انہیں اسی ڈر سے طلاق دی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ تیری زندگی بھی اب ختم ہونے والی ہے اور اگر تو نے میری بات نہ مانی تو یاد رکھ میں حکم دوں گا کہ لوگ تیری قبر پر پتھر پھینکیں جیسے کہ ابو رغال کی قبر پر پتھر پھینکے جاتے ہیں ( مسند احمد شافعی ترمذی ابن ماجہ دار قطنی بیہقی وغیرہ ) مرفوع حدیث تک تو ان سب کتابوں میں ہے ہاں حضرت عمر ؓ والا واقعہ صرف مسند احمد میں ہی ہے لیکن یہ زیادتی حسن ہے، اگرچہ امام بخاری نے اسے ضعیف کہا ہے اور اس کی اسناد کا دوسرا طریقہ بتا کر اس طریقہ کو غیر محفوظ کہا ہے مگر اس تعلیل میں بھی اختلاف ہے واللہ اعلم اور بزرگ محدثین نے بھی اس پر کلام کیا ہے لیکن مسند احمد والی حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں اور شرط شیخین پر ہیں ایک اور روایت میں ہے کہ یہ دس عورتیں بھی اپنے خاوند کے ساتھ مسلمان ہوئی تھیں ملاحظہ ہو ( سنن نسائی ) ، اس حدیث سے صاف ظاہر ہوگیا کہ اگر چار سے زیادہ کا ایک وقت میں نکاح میں رکھنا جائز ہوتا تو حضور ﷺ ان سے یہ نہ فرماتے کہ اپنی ان دس بیویوں میں سے چار کو جنہیں تم چاہو روک لو باقی کو چھوڑ دو کیونکہ یہ سب بھی اسلام لا چکی تھیں، یہاں یہ بات بھی خیال میں رکھنی چاہئے کہ ثقفی کے ہاں تو یہ دس عورتیں بھی موجود تھی اس پر بھی آپ نے چھ علیحدہ کرا دیں پھر بھلا کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص نئے سرے سے چار سے زیادہ جمع کرے ؟ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم با الصواب چار سے زائد نہیں، وہ بھی بشرط انصاف ورنہ ایک ہی بیوی !" دوسری حدیث " ابو داؤد ابن ماجہ وغیرہ میں ہے حضرت امیرہ اسدی ؓ فرماتے ہیں میں نے جس وقت اسلام قبول کیا میرے نکاح میں آٹھ عورتیں تھیں میں نے رسول کریم ﷺ سے ذکر کیا آپ نے فرمایا ان میں سے جن چار کو چاہو رکھ لو، اس کی سند حسن ہے اور اس کے شواہد بھی ہیں راویوں کے ناموں کا ہیر پھیر وغیرہ ایسی روایات میں نقصان دہ نہیں ہوتا " تیسری حدیث " مسند شافعی میں ہے حضرت نوفل بن معاویہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے جب اسلام قبول کیا اس وقت میری پانچ بیویاں تھیں مجھ سے حضور ﷺ نے فرمایا ان میں سے پسند کر کے چار کو رکھ لو اور ایک کو الگ کردو میں نے جو سب سے زیادہ عمر کی بڑھیا اور بےاولاد بیوی ساٹھ سال کی تھیں انہیں طلاق دے دی، پس یہ حدیثیں حضرت غیلان والی پہلی حدیث کی شواہد ہیں جیسے کہ حضرت امام بیہقی نے فرمایا۔ پھر فرماتا ہے ہاں اگر ایک سے زیادہ بیویوں میں عدل و انصاف نہ ہوسکنے کا خوف ہو تو صرف ایک ہی پر اکتفا کرو اور اپنی کنیزوں سے استمتاع کرو جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَنْ تَسْتَطِيْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا بَيْنَ النِّسَاۗءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِيْلُوْا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوْھَا كَالْمُعَلَّقَةِ )النساء:129) یعنی گو تم چاہو لیکن تم سے نہ ہو سکے گا کہ عورتوں کے درمیان پوری طرح عدل و انصاف کو قائم رکھ سکو پس بالکل ایک ہی طرف جھک کر دوسری کو مصیبت میں نہ ڈال دو ، ہاں یاد رہے کہ لونڈیاں میں باری وغیرہ کی تقسیم واجب نہیں البتہ مستحب ہے جو کرے اس نے اچھا کیا اور جو نہ کرے اس پر حرج نہیں۔ اس کے بعد کے جملے کے مطلب میں بعض نے تو کہا ہے کہ یہ قریب ہے ان معنی کے کہ تمہارے عیال یعنی فقیری زیادہ نہ ہو جیسے اور جگہ ہے آیت ( وان خفتم ) یعنی اگر تمہیں فقر کا ڈر ہو، عربی شاعر کہتا ہے۔فما یدری الفقیر متی غناہ وما یدری الغنی متی یعیل یعنی فقیر نہیں جانتا کہ کب امیر ہوجائے گا، اور امیر کو معلوم نہیں کہ کب فقیر بن جائے گا، جب کوئی مسکین محتاج ہوجائے تو عرب کہتے ہیں ( عال الرج ) یعنی یہ شخص فقیر ہوگیا غرض اس معنی میں یہ لفظ مستعمل تو ہے لیکن یہاں یہ تفسیر کچھ زیادہ اچھی نہیں معلوم ہوتی، کیونکہ اگر آزاد عورتوں کی کثرت فقیری کا باعث بن سکتی ہے تو لونڈیوں کی کثرت بھی فقیری کا سبب ہوسکتی ہے، پس صحیح قول جمہور کا ہے کہ مرادیہ ہے کہ یہ قریب ہے اس سے کہ تم ظلم سے بچ جاؤ، عرب میں کہا جاتا ہے ( عال فی الحکم ) جبکہ ظلم و جور کیا ہو، ابو طالب کے مشہور قصیدے میں ہے۔ بمیزان قسط لا یخبس شعیرۃ لہ شاہدمن نفسہ غیر عائل ضمیر بہترین ترازو ہے یعنی ایسی ترازو سے تولتا ہے جو ایک جو برابر کی بھی کمی نہیں کرتا اس کے پاس اس کا گواہ خود اس کا نفس ہے جو ظالم نہیں ہے ابن جریر میں ہے کہ جب کو فیوں نے حضرت عثمان ؓ پر ایک خط کچھ الزام لکھ کر بھیجے تو ان کے جواب میں خلیفہ رسول ﷺ نے لکھا کہ ( انی لست بمیزان اعول ) میں ظلم کا ترازو نہیں ہوں، صحیح ابن حبان وغیرہ میں ایک مرفوع حدیث اس جملہ کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس کا معنی ہے تم ظلم نہ کرو، ابو حاتم ؒ فرماتے ہیں اس کا مرفوع ہونا تو خطا ہے ہاں یہ حضرت عائشہ کا قول ہے اسی طرح لا تعولوا کے یہی معنی میں یعنی تم ظلم نہ کرو حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عائشہ، حضرت مجاہد، حضرت عکرمہ، حضرت حسن، حضرت ابو مالک، حضرت ابو زرین، حضرت نخعی، حضرت شعبی، حضرت ضحاک، حضرت عطاء خراسانی، حضرت قتادہ، حضرت سدی اور حضرت مقاتل بن حیان وغیرہ سے بھی مروی ہیں۔ حضرت عکرمہ ؒ نے بھی ابو طالب کا وہی شعر پیش کیا ہے، امام ابن جریر نے اسے روایت کیا ہے اور خود امام صاحب بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں۔ پھر فرماتا ہے اپنی بیویوں کو ان کے مہر خوش دلی سے ادا کردیا کرو جو بھی مقرر ہوئے ہوں اور جن کو تم نے منظور کیا ہو، ہاں اگر عورت خود اپنا سارا یا تھوڑا بہت مہر اپنی خوشی سے مرد کو معاف کر دے تو اسے اختیار ہے اور اس صورت میں بیشکل مرد کو اس کا اپنے استعمال میں لانا حلال طیب ہے، نبی ﷺ کے بعد کسی کو جائز نہیں کہ بغیر مہر واجب کے نکاح کرے نہ یہ کہ جھوٹ موٹ مہر کا نام ہی نام ہو، ابن ابی حاتم میں حضرت علی ؓ کا قول مروی ہے کہ تم میں سے جب کوئی بیمار پڑے تو اسے چاہئے کہ اپنی بیوی سے اس کے مال کے تین درہم یا کم و بیش لے ان کا شہد خرید لے اور بارش کا آسمانی پانی اس میں ملالے تو تین تین بھلائیاں مل جائیں گی آیت ( ہنیأ امریأ ) تو مال عورت اور شفاء شہد اور مبارک بارش کا پانی۔ حضرت ابو صالح فرماتے ہیں کہ لوگ اپنی بیٹیوں کا مہر آپ لیتے تھے جس پر یہ آیت اتری اور انہیں اس سے روک دیا گیا ( ابن ابی حاتم اور ابن جریر ) اس حکم کو سن کر لوگوں نے رسول مقبول ﷺ سے پوچھا کہ ان کا مہر کیا ہونا چاہئے ؟ آپ نے فرمایا جس چیز پر بھی ان کے ولی رضامند ہوجائیں ( ابن ابی حاتم ) حضور ﷺ نے اپنے خطبے میں تین مرتبہ فرمایا کہ بیوہ عورتوں کا نکاح کردیا کرو، ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ ایسی صورت میں ان کا مہر کیا ہوگا ؟ آپ نے فرمایا جس پر ان کے گھر والے راضی ہوجائیں، اس کے ایک راوی ابن سلمانی ضعیف ہیں، پھر اس میں انقطاع بھی ہے۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 4 وَاٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحْلَۃً ط۔عورتوں کے مہر تاوان سمجھ کر نہ دیا کرو ‘ بلکہ فرض جانتے ہوئے ادا کیا کرو۔ صَدُقَاتٌ صِدَاقٌکی جمع ہے ‘ جبکہ صَدَقَۃٌ کی جمع صَدَقَاتٌ آتی ہے۔فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْءٍ مِّنْہُ نَفْسًا تم نے جو مہر مقرر کیا تھا وہ انہیں ادا کردیا ‘ اب وہ تمہیں اس میں سے کوئی چیز ہدیہ کر رہی ہیں ‘ تحفہ دے رہی ہیں تو کوئی حرج نہیں۔فَکُلُوْہُ ھَنِیْءًا مَّرِیْءًا تم اسے بےکھٹکے استعمال میں لاسکتے ہو ‘ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن یہ ہو ان کی مرضی سے ‘ زبردستی اور جبر کر کے نہ لے لیا جائے۔

وآتوا النساء صدقاتهن نحلة فإن طبن لكم عن شيء منه نفسا فكلوه هنيئا مريئا

سورة: النساء - آية: ( 4 )  - جزء: ( 4 )  -  صفحة: ( 77 )

Surah Nisa Ayat 4 meaning in urdu

اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو، البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ تمہیں معاف کر دیں تو اُسے تم مزے سے کھا سکتے ہو


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. اور وہ جو لڑکا تھا اس کے ماں باپ دنوں مومن تھے ہمیں اندیشہ ہوا
  2. کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے پیغمبر سے اسی طرح کے سوال کرو، جس
  3. اور ان کو اپنی رحمت سے (بہت سی چیزیں) عنایت کیں۔ اور ان کا ذکر
  4. پھر ان کے پروردگار نے ان کو نوازا تو ان پر مہربانی سے توجہ فرمائی
  5. اور نیند کو تمہارے لیے (موجب) آرام بنایا
  6. پروردگار عالم کی طرف سے اُتارا گیا ہے
  7. اور کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو (جس عذاب کا) یہ وعید (ہے
  8. اور بن کے رہنے والوں نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا
  9. اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے، تاکہ تم ہدایت حاصل
  10. وہی کہ آسمان اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور جس نے (کسی کو)

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah Nisa with the voice of the most famous Quran reciters :

surah Nisa mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Nisa Complete with high quality
surah Nisa Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah Nisa Bandar Balila
Bandar Balila
surah Nisa Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah Nisa Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah Nisa Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah Nisa Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah Nisa Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah Nisa Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah Nisa Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah Nisa Fares Abbad
Fares Abbad
surah Nisa Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah Nisa Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah Nisa Al Hosary
Al Hosary
surah Nisa Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah Nisa Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Monday, May 13, 2024

لا تنسنا من دعوة صالحة بظهر الغيب