Surah Maidah Ayat 40 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ المائدہ کی آیت نمبر 40 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah Maidah ayat 40 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ وَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾
[ المائدة: 40]

Ayat With Urdu Translation

کیا تم کو معلوم نہیں کہ آسمانوں اور زمین میں خدا ہی کی سلطنت ہے؟ جس کو چاہے عذاب کرے اور جسے چاہے بخش دے اور خدا ہر چیز پر قادر ہے

Surah Maidah Urdu

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


احکام جرم و سزا حضرت ابن مسعود کی قرأت میں ( فاقطعوا ایمانھما ) ہے لیکن یہ قرأت شاذ ہے گو عمل اسی پر ہے لیکن وہ عمل اس قرأت کی وجہ سے نہیں بلکہ دوسرے دلائل کی بناء پر ہے۔ چور کے ہاتھ کاٹنے کا طریقہ اسلام سے پہلے بھی تھا اسلام نے اسے تفصیل وار اور منظم کردیا اسی طرح قسامت دیت فرائض کے مسائل بھی پہلے تھے لیکن غیر منظم اور ادھورے۔ اسلام نے انہیں ٹھیک ٹھاک کردیا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ سب سے پہلے دو یک نامی ایک خزاعی شخص کے ہاتھ چوری کے الزام میں قریش نے کاٹے تھے اس نے کعبے کا غلام چرایا تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ چوروں نے اس کے پاس رکھ دیا تھا۔ بعض فقہاء کا خیال ہے کہ چوری کی چیز کی کوئی حد نہیں تھوڑی ہو یا بہت محفوظ جگہ سے لی ہو یا غیر محفوظ جگہ سے بہر صورت ہاتھ کاٹا جائے گا۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ یہ آیت عام ہے تو ممکن ہے اس قول کا یہی مطلب ہو اور دوسرے مطالب بھی ممکن ہیں۔ ایک دلیل ان حضرات کی یہ حدیث بھی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ چور پر لعنت کرے کہ انڈا چراتا ہے اور ہاتھ کٹواتا ہے رسی چرائی ہے اور ہاتھ کاٹا جاتا ہے، جمہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ چوری کے مال کی حد مقرر ہے۔ گو اس کے تقرر میں اختلاف ہے۔ امام مالک کہتے ہیں تین درہم سکے والے خالص یا ان کی قیمت یا زیادہ کی کوئی چیز چناچہ صحیح بخاری مسلم میں حضور ﷺ کا ایک ڈھال کی چوری پر ہاتھ کاٹنا مروی ہے اور اس کی قیمت اتنی ہی تھی۔ حضرت عثمان نے اترنج کے چور کے ہاتھ کاٹے تھے جبکہ وہ تین درہم کی قیمت کا تھا۔ حضرت عثمان کا فعل گویا صحابہ کا جماع سکوتی ہے اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پھل کے چور کے ہاتھ بھی کاٹے جائیں گے۔ حنفیہ اسے نہیں مانتے اور ان کے نزدیک چوری کے مال کا دس درہم کی قیمت کا ہونا ضروری ہے۔ اس میں شافعیہ کا اختلاف ہے پاؤ یا دینار کے تقرر میں۔ امام شافعی کا فرمان ہے کہ پاؤ دینار کی قیمت کی چیز ہو یا اس سے زیادہ۔ ان کی دلیل بخاری و مسلم کی حدیث ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا چور کا ہاتھ پاؤ دینار میں پھر جو اس سے اوپر ہو اس میں کاٹنا چاہئے مسلم کی ایک حدیث میں ہے چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے مگر پاؤ دینار پھر اس سے اوپر میں۔ پس یہ حدیث اس مسئلے کا صاف فیصلہ کردیتی ہے اور جس حدیث میں تین درہم میں حضور ﷺ سے ہاتھ کاٹنے کو فرمانا مروی ہے وہ اس کے خلاف نہیں اس لئے کہ اس وقت دینار بارہ درہم کا تھا۔ پس اصل چوتھائی دینار ہے نہ کہ تین درہم۔ حضرت عمر بن خطاب حضرت عثمان بن عفان حضرت علی بن ابی طالب بھی یہی فرماتے ہیں۔ حضرت عمر بن عبد العزیز لیث بن سعد اوزاعی شافعی اسحاق بن راہویہ ابو ثور داؤد بن علی ظاہری کا بھی یہی قول ہے۔ ایک روایت میں امام اسحاق بن راہویہ اور امام احمد بن حنبل سے مروی ہے کہ خواہ ربع دینار ہو خواہ تین درہم دونوں ہی ہاتھ کاٹنے کا نصاب ہے۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے چوتھائی دینار کی چوری پر ہاتھ کاٹ دو اس سے کم میں نہیں۔ اس وقت دینار بارہ درہم کا تھا تو چوتھائی دینار تین درہم کا ہوا۔ نسائی میں ہے چور کا ہاتھ ڈھال کی قیمت سے کم میں نہ کاٹا جائے۔ حضرت عائشہ سے پوچھا گیا ڈھال کی قیمت کیا ہے ؟ فرمایا پاؤ دینار۔ پس ان تمام احادیث سے صاف صاف ثابت ہو رہا ہے کہ دس درہم شرط لگانی کھلی غلطی ہے واللہ اعلم۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے ساتھیوں نے کہا ہے کہ جس ڈھال کے بارے میں حضور ﷺ کے زمانے میں چور کا ہاتھ کاٹا گیا اس کی قیمت نو درہم تھی چناچہ ابوبکر بن شیبہ میں یہ موجود ہے اور عبداللہ بن عمر سے۔ عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمرو مخالفت کرتے رہے ہیں اور حدود کے بارے میں اختیار پر عمل کرنا چاہئے اور احتیاط زیادتی میں ہے اس لئے دس درہم نصاب ہم نے مقرر کیا ہے۔ بعض سلف کہتے ہیں کہ دس درہم یا ایک دینار حد ہے علی ابن مسعود ابراہیم نخعی ابو جعفر باقر سے یہی مروی ہے۔ سعید بن جیر فرماتے ہیں پانچوں نہ کاٹی جائیں مگر پانچ دینار پچاس درہم کی قیمت کے برابر کے مال کی چوری میں۔ ظاہریہ کا مذہب ہے کہ ہر تھوڑی بہت چیز کی چوری پر ہاتھ کٹے گا انہیں جمہور نے یہ جواب دیا ہے کہ اولاً تو یہ اطلاق منسوخ ہے لیکن یہ جواب ٹھیک نہیں اس لئے تاریخ نسخ کا کوئی یقینی عمل نہیں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ انڈے سے مراد لوہے کا انڈا ہے اور رسی سے مراد کشتیوں کے قیمتی رسے ہیں۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ یہ فرمان باعتبار نتیجے کے ہے یعنی ان چھوٹی چھوٹی معمولی سی چیزوں سے چوری شروع کرتا ہے آخر قیمتی چیزیں چرانے لگتا ہے اور ہاتھ کاٹا جاتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضور ﷺ بطور افسوس کے اوپر چور کو نادم کرنے کے فرما رہے ہیں کہ کیسا رذیل اور بےخوف انسان ہے کہ معمولی چیز کیلئے ہاتھ جیسی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے۔ مذکور ہے کہ ابو العلام معری جب بغداد میں آیا تو اس نے اس بارے میں بڑے اعتراض شروع کئے اور اس کے جی میں یہ خیال بیٹھ گیا کہ میرے اس اعتراض کا جواب کسی سے نہیں ہوسکتا تو اس نے ایک شعر کہا کہ اگر ہاتھ کاٹ ڈالا جائے تو دیت میں پانچ سو دلوائیں اور پھر اسی ہاتھ کو پاؤ دینار کی چوری پر کٹوا دیں یہ ایسا تناقض ہے کہ ہماری سمجھ میں تو آتا ہی نہیں خاموش ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا مولا ہمیں جہنم سے بچائے۔ لیکن جب اس کی یہ بکواس مشہور ہوئی تو علماء کرام نے اسے جواب دینا چاہا تو یہ بھاگ گیا پھر جواب بھی مشہور کردیئے گئے۔ قاضی عبد الوہاب نے جواب دیا تھا کہ جب تک ہاتھ امین تھا تب تک ثمین یعنی قیمتی تھا اور جب یہ خائن ہوگیا اس نے چوری کرلی تو اس کی قیمت گھٹ گئی۔ بعض بزرگوں نے اسے قدرے تفصیل سے جواب دیا تھا کہ اس سے شریعت کی کامل حکمت ظاہر ہوتی ہے اور دنیا کا امن وامان قائم ہوتا ہے، جو کسی کا ہاتھ بےوجہ کاٹ دینے کا حکم دیا تاکہ چوری کا دروازہ اس خوف سے بند ہوجائے۔ پس یہ تو عین حکمت ہے اگر چوری میں بھی اتنی رقم کی قید لگائی جاتی تو چوریوں کا انسداد نہ ہوتا۔ یہ بدلہ ہے ان کے کرتوت کا۔ مناسب مقام یہی ہے کہ جس عضو سے اس نے دوسرے کو نقصان پہنچایا ہے، اسی عضو پر سزا ہو۔ تاکہ انہیں کافی عبرت حاصل ہو اور دوسروں کو بھی تنبیہہ ہوجائے۔ اللہ اپنے انتقام میں غالب ہے اور اپنے احکام میں حکیم ہے۔ جو شخص اپنے گناہ کے بعد توبہ کرلے اور اللہ کی طرف جھک جائے، اللہ اسے اپنا گناہ معاف فرما دیا کرتا ہے۔ ہاں جو مال چوری میں کسی کا لے لیا ہے چونکہ وہ اس شخص کا حق ہے، لہذا صرف توبہ کرنے سے وہ معاف نہیں ہوتا تاوقتیکہ وہ مال جس کا ہے اسے نہ پہنچائے یا اس کے بدلے پوری پوری قیمت ادا کرے۔ جمہور ائمہ کا یہی قول ہے، صرف امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ " جب چوری پر ہاتھ کٹ گیا اور مال تلف ہوچکا ہے تو اس کا بدلہ دینا اس پر ضروری نہیں "۔ دار قطنی وغیرہ کی ایک مرسل حدیث میں ہے کہ " ایک چور حضور ﷺ کے سامنے لایا گیا، جس نے چادر چرائی تھی، آپ نے اس سے فرمایا، میرا خیال ہے کہ تم نے چوری نہیں کی ہوگی، انہوں نے کہا کہ یارسول اللہ ﷺ میں نے چوری کی ہے تو آپ نے فرمایا اسے لے جاؤ اور اس کا ہاتھ کاٹ دو جب ہاتھ کٹ چکا اور آپ کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا توبہ کرو، انہوں نے توبہ کی، آپ نے فرمایا اللہ نے تمہاری توبہ قبول فرما لی " ؓ ابن ماجہ میں ہے کہ " حضرت عمر بن سمرہ حضور ﷺ کے پاس آکر کہتے ہیں کہ مجھ سے چوری ہوگئی ہے تو آپ مجھے پاک کیجئے، فلاں قبیلے والوں کا اونٹ میں نے چرا لیا ہے۔ آپ نے اس قبیلے والوں کے پاس آدمی بھیج کر دریافت فرمایا تو انہوں نے کہا کہ ہمارا اونٹ تو ضرور گم ہوگیا ہے۔ آپ نے حکم دیا اور ان کا ہاتھ کاٹ ڈالا گیا وہ ہاتھ کٹنے پر کہنے لگے، اللہ کا شکر ہے جس نے تجھے میرے جسم سے الگ کردیا، تو نے میرے سارے جسم کو جہنم میں لے جانا چاہا تھا " ؓ ابن جریر میں ہے کہ " ایک عورت نے کچھ زیور چرا لئے، ان لوگوں نے حضور ﷺ کے پاس اسے پیش کیا، آپ نے اس کا داہنا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا، جب کٹ چکا تو اس عورت نے کہا یا رسول اللہ ﷺ کیا میری توبہ بھی ہے ؟ آپ نے فرمایا تم تو ایسی پاک صاف ہوگئیں کہ گویا آج ہی پیدا ہوئی "۔ اس پر آیت ( فمن تاب ) نازل ہوئی۔ مسند میں اتنا اور بھی ہے کہ اس وقت اس عورت والوں نے کہا ہم اس کا فدیہ دینے کو تیار ہے لیکن آپ نے اسے قبول نہ فرمایا اور ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا۔ یہ عورت مخزوم قبیلے کی تھی اور اس کا یہ واقعہ بخاری و مسلم میں بھی موجود ہے کہ چونکہ یہ بڑی گھرانے کی عورت تھی، لوگوں میں بڑی تشویش پھیلی اور ارادہ کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے اس کے بارے میں کچھ کہیں سنیں، یہ واقعہ غزوہ فتح میں ہوا تھا، بالاخر یہ طے ہوا کہ حضرت اسامہ بن زید جو رسول اللہ ﷺ کے بہت پیارے ہیں، وہ ان کے بارے میں حضور ﷺ سے سفارش کریں، حضرت اسامہ نے جب اس کی سفارش کی تو حضور ﷺ کو سخت ناگوار گزرا اور غصے سے فرمایا ! اسامہ تو اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کر رہا ہے ؟ اب تو حضرت اسامہ بہت گھبرائے اور کہنے لگے مجھ سے بڑی خطا ہوئی، میرے لئے آپ استفغار کیجئے۔ شام کے وقت اللہ کے رسول ﷺ نے ایک خطبہ سنایا جس میں اللہ تعالیٰ کی پوری حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ تم سے پہلے کے لوگ اسی خصلت پر تباہ و برباد ہوگئے کہ ان میں سے جب کوئی شریف شخص بڑا آدمی چوری کرتا تھا تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی معمولی آدمی ہوتا تو اس پر حد جاری کرتے۔ اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی چوری کریں تو میں ان کے بھی ہاتھ کاٹ دوں۔ پھر حکم دیا اور اس عورت کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ حضرت صدیقہ فرماتی ہیں پھر اس بیوی صاحبہ نے توبہ کی اور پوری اور پختہ توبہ کی اور نکاح کرلیا، پھر وہ میرے پاس اپنے کسی کام کاج کیلئے آتی تھیں اور میں اس کی حاجت آنحضرت ﷺ سے بیان کردیا کرتی تھی۔ ؓ " مسلم میں ہے ایک عورت لوگوں سے اسباب ادھار لیتی تھی، پھر انکار کر جایا کرتی تھی، حضور ﷺ نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا " اور روایت میں ہے یہ زیور ادھار لیتی تھی اور اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم حضرت بلال کو ہوا تھا۔ کتاب الاحکام میں ایسی بہت سی حدیثیں وارد ہیں جو چوری سے تعلق رکھتی ہیں۔ فالحمد للہ۔ جمیع مملوک کا مالک ساری کائنات کا حقیقی بادشاہ، سچا حاکم، اللہ ہی ہے۔ جس کے کسی حکم کو کوئی روک نہیں سکتا۔ جس کے کسی ارادے کو کوئی بدل نہیں سکتا، جسے چاہے بخشے جسے چاہے عذاب کرے۔ ہر ہر چیز پر وہ قادر ہے اس کی قدرت کامل اور اس کا قبضہ سچا ہے۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 40 اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ وَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ ط وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ اب یہاں پھر ذکر آ رہا ہے ان لوگوں کا جو دوغلی پالیسی پر کاربند تھے ‘ لیکن سورة البقرة کی طرح یہاں بھی روئے سخن قطعیت کے ساتھ واضح نہیں کیا گیا۔ لہٰذا اس کا انطباق منافقین پر بھی ہوگا اور اہل کتاب پر بھی۔ منافق اہل کتاب میں سے بھی تھے ‘ جن کا میلان اسلام کی طرف بھی تھا اور چاہتے بھی تھے کہ مسلمانوں میں شامل رہیں لیکن وہ اپنے ساتھیوں کو بھی چھوڑنے پر تیار نہیں تھے۔ تو یہ لوگ جو مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِک کی مثال تھے ‘ یہ دونوں طرف کے لوگ تھے۔

ألم تعلم أن الله له ملك السموات والأرض يعذب من يشاء ويغفر لمن يشاء والله على كل شيء قدير

سورة: المائدة - آية: ( 40 )  - جزء: ( 6 )  -  صفحة: ( 114 )

Surah Maidah Ayat 40 meaning in urdu

کیا تم جانتے نہیں ہو کہ اللہ زمین اور آسمانوں کی سلطنت کا مالک ہے؟ جسے چاہے سزا دے اور جسے چاہے معاف کر دے، وہ ہر چیز کا اختیار رکھتا ہے


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. مالک درجات عالی اور صاحب عرش ہے۔ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے
  2. کہہ دو کہ میرے پروردگار نے تو بےحیائی کی باتوں کو ظاہر ہوں یا پوشیدہ
  3. تاکہ ہم تیری بہت سی تسبیح کریں
  4. تو ان کو (وعدہٴ برحق کے مطابق) زور کی آواز نے آپکڑا، تو ہم نے
  5. اور یہ کہ ہم میں بعض فرمانبردار ہیں اور بعض (نافرمان) گنہگار ہیں۔ تو جو
  6. ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی نشانیاں دے کر بھیجا۔ اور اُن پر کتابیں نازل
  7. اور اس (بات) سے کہ تم مجھے سنگسار کرو اپنے اور تمہارے پروردگار کی پناہ
  8. اور ان کے دلوں میں الفت پیدا کردی۔ اور اگر تم دنیا بھر کی دولت
  9. کہ ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ہے
  10. اور ہم نے تم سے پہلے جتنے پیغمبر بھیجے ہیں سب کھانا کھاتے تھے اور

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah Maidah with the voice of the most famous Quran reciters :

surah Maidah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Maidah Complete with high quality
surah Maidah Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah Maidah Bandar Balila
Bandar Balila
surah Maidah Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah Maidah Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah Maidah Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah Maidah Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah Maidah Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah Maidah Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah Maidah Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah Maidah Fares Abbad
Fares Abbad
surah Maidah Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah Maidah Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah Maidah Al Hosary
Al Hosary
surah Maidah Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah Maidah Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Friday, May 10, 2024

لا تنسنا من دعوة صالحة بظهر الغيب